اتوار، 29 اکتوبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(37)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 37)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب بھی آج ،کسی کی زبان سے، کسی پرنٹ میڈیا میں ، کسی کتاب ، کسی فلم میں ، کبھی کسی قسم کا تعصب دیکھتی ہوں ، سنتی ہوں ۔ وہ تعصب چاہے لسانی ہو، یا مقام کے لحاظ سے ہو، تو دلی دکھ ہوتا ہے ! اللہ کا شکر کہ اس قسم کا منفی تعصب کا رواج ہمارے گھر نہ تھا،بلکہ ہم نے اماں جی کے منہ سے ہمیشہ یہ جملے سنے،"ہمیں ہندوستان سے آنے والوں کا مشکور ہونا چاہیے، جن کی قربانیوں سے یہ آزاد ملک ملا ، اپنے وطن ، مال ، رشتے چھوڑنا آسان نہیں ہوتا "،،، ہمارے محلے میں جو بھی "مہاجر" سیٹل ہوۓ اماں جی نےہمیشہ ان کے دکھ سُکھ میں شریک ہونا ،،،اور ان کے لیۓ دل و زبان سے احترام کا انداز رکھنا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم بہن بھائی میں بھی کسی علاقے ، یا زبان کے لحاظ سے متعصبانہ سوچ نہ آئی ! اور آج بھی یہ سوچ ہے کہ اچھے برے ہر ، ذات میں ،ہر علاقے میں ، ہر طبقے میں ہوتے ہیں ،اس اچھائی کا ،،یا ،، برائی کا تعلق کسی مخصوص جگہ ، زبان یا ذات سےکسی صورت نہیں ہوتا ،،،!۔
اسی پنڈی کے محلے میں جس بھوپال کی فیملی کا ذکربھی کر چکی ہوں ،، اماں جی کی اُن سے محبت اور شفقت کی ایک وجہ اُن کا " مہاجر"ہونا بھی تھا ! میں یہ لفظ لکھتے ہوۓ بھی کچھ اتنا پسند نہیں کر رہی کہ کچھ منفی سوچ کے لوگوں نے اسی لفظ "مہاجر" کو اپنے مذموم مقاصد کے لیۓ سیاسی طور پر استعمال کیا اور " انصار اور مہاجر" کے درمیان بےجا نفرتوں کا بیج بویا !!!! ایسا کرنے والوں نے دراصل "ہمارے جیسوں کی خالص محبت" اور "ہمارے خلوص بھرے جذبات " کا مذاق اُڑایا ہے۔ !
ہوا یہ کہ چند دن پہلے میرے پوتے کوسکول میں ایک پراجیکٹ کے لیۓ جو موضوع ملا وہ تھا " ہجرت " !!اور میری یادوں کی تتلیاں مجھے کشاں کشاں اپنی اماں جی کی بتائی باتوں کی طرف لے گئیں اور میں ذہنی طور پر ان کے سامنے بیٹھ کر وہی باتیں سنتی رہی! اور اپنے پوتے سے یہ معلومات شیئر کرتی رہی ،،،ایک مرتبہ ہم پنڈی صدر میں موجود اباجی کے دلی دوست "الطاف شاہ " چاچا جی ( جو حضرت پیر مہر علی کے بھتیجے تھے) کی دکان سے " رشین کراکری" کی ایک دو چیزیں خرید کر لاۓ ، ہم نے نیلے رنگ کی چینک اور اس کے ساتھ کی چار عدد نیلی قہوہ پینے والی پیالیاں لیں ، اماں جی نے دیکھ کر بہت پسند کیں ۔ اماں جی کی چند عادات میں سے میں اب تک ایک آدھ عادت چلانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ایک یہ کہ جب نئی کراکری خریدی جاتی اسے دھو کر ایک دفعہ سب گھروالوں کےلیۓ استعمال کی جاتی ،،،، اُن کا خیال تھا کہ اب یہ برتن مہمانوں کی آمد کا باعث رہے گا ، دوسرے جب کوئی زیور بن کر گھر آتا ، اگرچہ وہ ایک دو تولےکا ہے یا چند گرام کا ،، بس اتنے کلو چینی ، کا صدقہ فورا" نکالا جاتا ۔ ،،، اب یہ رشین نیلی کراکری آئی جو استعمال شدہ تھی ، اور کسی رشین سے خریدی گئی ہو گی ، لیکن اسی وقت دھو دھلا کر شام کو قہوے کی صورت استعمال کی گئی ، اس دن اماں جی نے بتایا کہ جب وہ بارہ ، تیرہ سال کی تھیں تو انکے گاؤں سے ایک مرتبہ ایک مختصر سا قافلہ گزرا جنھوں نے چند ہفتے اس گاؤں میں گزارے ،وہ یقیناً مسلمان تھے کیوں کہ لینن کی تحریک کی کامیابی نے اس وسطی ایشیائی ریاستوں کے باشندوں کے قدم اپنے اپنے علاقوں سے
اُکھاڑ ڈالے تھے ، لاتعداد لوگ اپنے مذہب ، معاشرت اور عزت کو سنبھالے دنیا میں بکھر گئے ، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ اپنی تہذیب ، زبان ، عقائد اور جدا ہوۓ وطن کی یادوں کو دلوں میں لیۓ تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئے۔ اماں جی نے بتایا ، انہی دنوں ان کے والد اور گاؤں کے کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگوں کو گاؤں کے نمبردار نے کہلا بھیجا کہ گھروں کی خواتین اپنے جو کپڑے اور بستر ، پلنگ کی چادریں دینا چاہیں، نکال کو نمبردار کے گھر پہنچا دیں ، پھر وہ اس قافلے کے بڑے کو دے دی گئیں ، اگر کبھی انھیں کسی  چیز  کی ضرورت ہوتی تو وہ اپنے خوبصورت برتن یا کڑھائی کی ہوئی ٹی کوزیاں ،میزپوش وغیرہ بیچتے اور بدلے میں وہ چیز خریدتے ، باوجود اس کے کہ گاؤں والے انھیں خوراک مفت دیتے لیکن وہ غیرت والے تھے کہ چاہتے تھے ،کوئی معاوضہ یہ بھی دیں ، ،،اسی لیۓ میرے نانا کے گھر بھی دو پلیٹیں رشیا کی مخصوص تصویری انداز کی موجود تھیں ، جو کسی گھرانے نے ان کے ہاتھ بیچی تھیں ، اماں جی کی یادوں میں اُن کی گوری چٹی ،سر تا پیر گھیر دار فراک اور مکمل با پردہ بڑی چادروں میں ملفوف خواتین موجود تھیں۔ وہ اُس وقت بھی اُن مہاجرین کے لیۓ افسردہ تھیں کہ ہم نے اُن کی وہ خدمت نہیں کی جو اُن کا حق تھا اور ہمارا فرض !!! ہم نے کیوں یہ رشین کراکری ان سے خریدیں ، ،، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ ایسے عزت دار گھرانے ہوں جو دوسروں کی امداد "ایسےہی" لینا پسند نہ کرتے ہوں اور چاہتے ہوں کہ ان کی مدد ، کاروباری طور سے کی جاۓ ،،،انھوں نے جو مزید بتایا ،، کہ ان میں سے ذیادہ تر لوگ ڈائریا ، سے بچ نہ پاۓ اور فوت بھی ہوۓ ،جن کو وہیں دفنایا گیا ،،،،،،،،،،،،،!۔
اپنے پوتے سلمان کو یہ نالج دیتے ہوۓ ،، تب اماں جی کی حساس طبیعت کے تحت محلے کے اسی صوبیدار کی دوسری بیوی کی یاد آئی جس کی ، اماں جی نے رات کے اندھیرے میں مدد کرتی رہی تھیں ۔ وہ بھی انڈیا کے ہی کسی علاقے سے تعلق رکھتی فیملی تھی ،،،( اور اس کا ذکر پچھلی ایک قسط میں کر چکی ہوں )۔
حضرتِ علامہ اقبالؒ سے محبت اور عقیدت ہمیں " اباجی " کی وجہ سے ملی ، مجھے یاد پڑتا ہے اباجی نے بہت نوجوانی کی عمر میں لاہور جا کر علامہ صاحبؒ کی زیارت کی تھی ،، یہ دورانیہ15 ،16 منٹ کا تھا، شاید انھیں اتنا ہی بیٹھنے کی اجازت ملی تھی یا انہی کے پاس وقت نہ ہوگا،،،لیکن اباجی کی زندگی کے آخری دو سال ایسے گزرے ہیں جب اُن کی یاداشت متاثر ہو چکی تھی، ورنہ ہمارے گھر ہمارےبچپن سے علامہ صاحبؒ کی برسی منائی جاتی رہی ہے،ہر 21 اپریل کے دن کوئی میٹھا بنایا جاتا،(اور اگر گرمیاں ہیں تو شربت بھی ساتھ رکھا جاتا ) اباجی کے سامنے یہ سب رکھا جاتا وہ دعا کرتے اور یہ سب گھر ، باہر کے بچوں میں بانٹ دیا جاتا ۔ اور اُس دن ہر صورت کچھ دیر تک ہم سب بیٹھ جاتے، اباجی انؒ کے کلام کو ترنم سے پڑھتے ، اور اس دوران ایک دفعہ ضرور ان کی آواز بھرا جاتی ، وہ ضرور جذباتی ہوجاتے !! چوں کہ اباجی ان کے اشعار کے سیاق وسباق سےآگاہ تھے ، وہ ان کے فارسی کلام کو بھی سمجھتے تھے ، ، جبکہ علامہؒ کے" اُردو کلام "کوسمجھنا ہی کمال بات تھی کجا فارسی کلام کو سمجھنا ،،،،،، سچی بات ہے کہ پنڈی قیام کے دوران تو ہمیں ،،،،شاعری سے اور خاص طور پر علامہؒ کی شاعری سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی،نظمیں تو بہت سی یاد تھیں لیکن علامہؒ صاحب کی شاعری سے دلچسپی نویں دسویں جماعت میں آ کرہوئی،،، اور انؒ کی نظم یا غزل کی تشریح اباجی سے سمجھی۔ بہت بعد میں جب خود تدریسی شعبے سے وابستہ ہوئی ، تو رات گیارہ بجے سب  کاموں سے فارغ ہو کر اباجی کےپاس نویں دسویں کی اردو کی درسی کتب لے کر بیٹھتی ،کیوں کہ میں اپنے طور پر اگر اردو میں اچھی تھی یا میں نے بےشمار اردو کتابیں پڑھی تھیں تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں "پڑھانے" میں بھی بہت اچھی ہوں گی ،،،یہ ہی غلط فہمی ہم میں سے اکثر کو محدود کر دیتی ہے کہ "" مجھے سب آتا ہے یا میں بہت کچھ جانتی ہوں""" اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں نے ٹیچنگ کے دوران اس زعم کو نہیں پالا ، ، ، 12 ، ساڑھے بارہ بج جاتے ، اور بہ مشکل ایک نظم مکمل ہو پاتی ، کیوں کہ اس وقت مجھے علم ہوا کہ علامہؒ کے ایک ایک شعر کے پیچھے " ہسڑی ، جغرافیہ "ہے اوراس سےبھی آگاہی ضروری ہے ۔ ورنہ اُن کے شعر کی روح کو سمجھنا ،،،یا آپؒ کے کلام کے پیغام کو سمجھنا ناممکن ہے ، میں نے اپنے دورانِ تدریس کوشش کی کہ اباجی کے علامہؒ سے عقیدت کے " جذبے " کو بھی شامل کر کے بچوں کو پڑھاؤں ۔ کس حد تک کامیاب رہی یا نہیں ،،،، اتنا محسوس کرتی ہوں کہ دلی طور پر مطمئن ہوں کہ اپنی ذمہ داریاں اپنی توفیق اور صلاحیتوں  کے مطابق ٹھیک نبھائیں ۔ آگے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
آج کا موضوع غیرارادی تھا یعنی ہجرت کی " ہسٹری " ،، !اور باقی بھی علامہؒ کی ہمارے گھر میں اہمیت ،،، کا موضوع بھی چِھڑ گیا ،، اسی عقیدت ، محبت کے تحت ہمارے ڈرائنگ روم میں صرف ایک شخصیت کی تصویر تھی اور وہ " حضرتِ علامہ اقبالؒ" کی ،!!! اماں جی سے ہمیں " اپنے عظیم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ " کی محبت ملی،،، جی ہاں ہمارا دوسرا کمرہ جو اباجی کا کمرہ کہلاتا تھا اور گھر کے اندر آنے والے مہمانوں کو وہیں بٹھایا جاتا تھا اسی میں قالین بچھا ہوا ، اور صوفے پڑے ہوۓ تھے اور کارنس پر آپا ، بڑے بھائی جان کی شادی کی تصاویر تھیں اور اسی کی اوپری دیوار پرقائدِ اعظم کی تصویر لگائی گئی تھی ، اماں جی ہمیشہ ان کا ذکر "باباجی قائدِ اؑظم" کے نام سے کرتیں ! وہ اُن کے بارے میں ہمیں ذیادہ معلوماتی لیکچر نہیں دیتی تھیں ،،، بس ہمیشہ یہ ہی کہنا " اگر یہ شخص نہ ہوتا تو ہم آج بھی ہندوؤں کے غلام ہوتے ،،،! محب اور عقیدت کے لیۓ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ، یا محبِ وطن ہونے کے لیۓ اپنی مالی حالت کا ارفعٰ ہونا ، شرط نہیں ہے ! یہ اپنے اندر کی اچھائیاں اور مثبت سوچیں ہوتی ہیں جو انسان کو زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ سُجھاتی ہیں ،،،،،،! اللہ ہمیں ، ہماری آگے کی نسلوں کی سوچ کو محبِ وطن بناۓ ، اللہ سے دعا ہے کہ شکرگزاری کا جذبہ ہر لمحہ ہمارے ذہنوں پر حاوی رکھے آمین !۔
جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں ،،، ان کی اپنی ہسٹری میں " ہیروز " کے خانے خالی ہوتے ہیں ، آئندہ لکھی جانے والی ہسٹری ( تاریخ ) کی کتابوں میں ان ہیروز کا ذکر ضرور ہوگا ، لیکن ہم نے انھیں بُھلا دیا تو ہم احسان فراموش قوم کے طور پر یاد رکھی جائیں گی ! کاش آج کے والدین کچھ تھوڑی دیر کے لیۓ اس ملک کی ، اس آزادی کی ، اور اپنی شناخت کی قدر کریں ،،، اور اپنے بچوں کو کچھ نہ کچھ اس ملک کے بارے میں ، اس کی آزادی کی مشکلات کے بارے میں بتایا کریں ، اپنے ہیروز کے دن منانے کا اہتمام کیاکریں ،، ورنہ ہم بھی اسی گناہ میں شامل ہوں گے جو ، بچوں کو " بےشناخت " کرنے والے ہوتے ہیں !۔
(منیرہ قریشی ،29 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں