ہفتہ، 21 اکتوبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(33)۔

یادوں کی تتلیاں"(33)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نویں جماعت سے ایف ۔اے تک کی چار سالہ دوستی میں ہم سہلیوں کواللہ نے ایسا ملایا کہ آج اس دوستی کو اب سالوں سے نہیں " خلُوص اور کیئرنگ " سے ہی ناپا جا سکتا ہے ، سالوں کے لحاظ سے تو 46 سال ہو گۓ ہیں۔میں فروری کی پیدائش ہوں ، کہتے ہیں اسکا سٹار دوست پرست ہوتا ہے ! (کم ازکم مجھے سٹار کی دنیا پر قطعی یقین نہیں ،البتہ یہ عادت قابلِ یقین ہے)۔ جیسا پہلے بھی ذکر کیا کہ یہ پانچ کا ٹولہ تھا ، نسرین جمال ، رخسانہ تسنیم ،رفعت صمصام ۔ شہناز مہدی ،اور زبیدہ ،،،، اور ایک ممبر اور تھی ثریا قدوسی !! ثریا بوائز کالج کے پرنسپل کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی ! خوب صورت اور بہت چنچل ! پڑھائی سے ذیادہ شرارتوں اور ہنسی مذاق میں دل لگتا، اکثر پیریڈ گول کر جانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ،،، ہم دونوں کے گھر ایک ہی روڈ پر تھے اس لیۓ ہم دونوں کالج سے واپسی پر اکھٹی جاتیں ! البتہ صبح کا جانا ہمیشہ الگ ہی رہا ، واپسی پر اس کا ساتھ مجھے الرٹ رکھتا ، کیونکہ راستے میں لوگوں کے گھروں کے لان میں بےدھڑک داخل ہو جانا اور جو موسمی پھل نظر آتا ، اتنے ضرور توڑ لاتی کہ گھر پہنچنےتک کھاتی جاۓ ! اندر داخل ہوتے وقت اپنی کتابیں مجھے پکڑا دیتی اور میں ڈر کے مارے آہستہ آہستہ اُس گھر سے آگے چل پڑتی کہ یہ جرؑات یا شرارت میں کبھی نہ کر سکی۔ ایک آدھ چکر ہر دوسرے دن ، شام کوہمارے گھر کا بھی لگ جاتا ، وہ آتی شاید پندرہ منٹ کا کہہ کر اور بیٹھتی آدھ ، پون گھنٹہ !! یہ سب کرتے سال گزر گیا ، ایک دن وہ کچھ ذیادہ ہی دیر تک بیٹھی رہ گئی اور شام کا ہلکا اندھیرا پھیل گیا ، کہ اتنے میں اس کی امی ہمارے گھر آئیں وہ ایک گوری چٹی اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے ایسی خاتون تھیں جو خالص ، روایتی گھرانوں سے تعلق رکھنے والی ہو، ایسی خاتون جو خاندان کی اقدار کی سختی سے پابندی کرنے اور کروانے والی ہوں ، ،،، اماں جی نے انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا ، لیکن انھوں نے لگی لپٹی کے بغیر کہا ، "مجھے آپ کے گھر پر مکمل تسلی ہے، اور یہ مجھے بتا کر آتی رہتی ہے لیکن آج اس نے اتنی دیر لگائی ہے کہ اس کے ابا بھی پریشان ہو گۓ، تو مجھے آنا پڑا،،، اسے آپ خود کہہ دیا کریں کہ اب جاؤ!"اس دوران ہم ڈرائینگ روم میں آچکی تھیں ، ثریا اپنی امی کو دیکھ کر موڈ آف کرچکی تھی ، جیسا اس بےوقوفی کی عمر میں اکثر لڑکیاں کرتی ہیں ،اور اسی وقت اس نہایت اچھی خاتون کایہ جملہ میرے کانوں میں پڑا اور یاد رہ گیا " بہن،لڑکی کی ذات آبگینے ہو وے ہے،اور یہ وہ موتی ہوتا ہے جو نالی میں گرا نہیں کہ آبرو گئی ہی گئی!"( میں ہمیشہ مسجع ومکفع اردو سن کر شدید متاثر ہو جاتی ہوں اور اب بھی ایسا ہی ہے)،،، بس اسکے بعد میں نے ثریا کو ہمیشہ اپنی امی کی بات ماننے کا کہنا ، اور وہ مجھ سے کترانے لگی ۔ اُس کی محبت اپنی جگہ قائم رہی لیکن اس کی مجھ سے دوستی نہ ہو سکی ،، دسویں کے فوراً بعد اس کی شادی اپنی ہی فیملی میں ہو گئی ، اور ایک خوب صورت، حسین لڑکی تقدیر کے لکھے کو جھیلنے کے لیۓ حوالہء زمانہ ہو گئی،،،زبیدہ ہم سہیلیوں میں پڑھائی میں سب سے اچھی تھی۔ اس کی طبیعت میں ایک عجیب سی بےچینی تھی ، اسکے جلدباز اندازکی وجہ سے ہم اسے " جنگلی " کہتی تھیں ۔اس لقب کو اس نے بہ خوشی قبول کر لیا تھا ، ، وہ اپنے گھر کی اکلوتی بیٹی تھی ، اس کے تین یا چار بھائی تھے ابا فیکٹری ملازم ، کچھ بہت خوشحالی نہ تھی ، لیکن وہ خوش رہنے والی لڑکی تھی۔ بعد میں اس نے دو مضامین میں ماسٹرکیا ، ایک سرکاری سکول میں پہلے بطورِ ٹیچر اور بعد میں بطورِ پرنسپل تعینات ہوئی ،، اس دوران اس کی شوگر بڑھتی رہی،، جوں ہی وہ ٹیچر بنی ، اس کے کچھ عرصہ بعدہی اس کی امی فوت ہو گئیں اور جب وہ سینئر ٹیچر تھی تو اس کے ابا کا انتقال ہوگیا،،اور اس کی شادی کا باب بھی بند ہو گیا ۔ان کے ابا اپنی پینشن وغیرہ سے ایک مکان بنا چکے تھے ، لیکن زبیدہ نے اپنی کمائی سے اپنا گھر تو بنا لیا لیکن اس کے دو بھائی اور ان کی فیملیز اسی کے ساتھ رہتیں ! وہ کھلے دل سے اپنی کمائی اُن پر لگاتی ، ہم ایک ہی جگہ رہنے کی وجہ سے اکثر آپس میں رابطے میں رہتیں ۔ آخری مرتبہ اس کی ٹرانسفر میرے گھر کے سامنے والے ایک سرکاری سکول میں ہوگئی، اور مجھے کسی بچے کے داخلے کے لیۓ اسکے سکول جانا پڑا ، مجھے اسکی مصروفیات کا علم تھا اسی لیۓ میں 20 منٹ بیٹھ کر اٹھنے لگی تو اس نے چاۓ پر اصرار کیا ، لیکن میں نے اپنی مصروفیت کا بتا کر معذرت چاہی ، وہ مجھے خدا حافظ کرنے باہر برآمدے تک آئی اور اس نے یہ کہا " دیکھا پاؤں اتنے سُن ہو جاتے ہیں کہ مجھے جوتی اترنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ، " میں نے اس بات کو نارمل لیا اور " اپنا خیال رکھا کرو " کہہ کر آ گئی ! صرف دو دن بعد اس کی شوگر بہت ہائی یا بہت لو ہوئی اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور صرف ایک رات ہسپتال گزار کر وہ اللہ کی جنت میں جا بسی ۔ کچھ لوگ زندگی میں اپنے لیۓ جو لیبل لگوا کر آتے ہیں اس کا " ٹیگ " ہوتا ہے " خدمت گار " ،،،،، اور ان میں زبیدہ بھی تھی ، جو بہترین بیٹٰی، بہترین بہن اور بہترین نند تھی اور دوستی کا خانہ بھی رنگ بھرا رہا ،،، ! اللہ اس کو جنت الفردوس میں بھی ٹیچر کی جاب ضرور دے کہ وہ " سر تا پا " ٹیچر تھی ، اور مرنے کے بعد بھی بھائیوں نے اس کی آخری تنخواہ ، پینشن اور گھر کی ملکیت حاصل کی ،،،،معلوم نہیں کبھی اس کے نام پر کوئی خیرات کی یا نہیں ،،،، کچھ لوگ دینے والے اور کچھ صرف " لینے " والے ہوتے ہیں !!!۔
میرے مولا کے رنگ نرالے !!۔
ایف جی کالج کے دنوں میں پکنک کے لیۓ فسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کو پشاور لے جایا گیا جہاں پشاور وویمن ہوسٹل دکھایا یا ان طالبات سے ملوایا گیا ، پھر پشاور میوزیم اور آخر میں واپسی پر ایک پکنک سپاٹ " کُنڈ " میں رُک کر کھانا پینا اور کشتی کی سیر بھی ہوئی !،،، یہ ایک تفریحی اور معلوماتی ٹرپ تھا ، تاکہ لڑکیاں اگر آگے چل کر کسی یونیورسٹی کا انتخاب کرنا چاہیں تو پشاور یونیورسٹی بہت سی فیکلٹیز متعارف کرا چکی تھی ، تفریحی ٹرپ کنڈ کا تھا ،،،، مجھے یاد ہے ہمارے ساتھ جانے والی ٹیچرز بہت ریلیکس تھیں اور خود بھی کافی انجواۓ کرتی رہیں ،،، کشتی کی سیر کے بعد واپسی ہوئی ! عافیت سے گھر پہنچ گئیں ، صرف دو دن بعد " کنڈ " میں کشتی کی سیر کرتےکالج کے سٹوڈنٹ کو حادثہ پیش آگیا اور چند لڑکوں کوہی بچایا جا سکا ! تحقیق پر معلوم ہوا وہاں موجودتمام کشتیاں اپنی مدت پوری کر چکی تھیں ۔ لیکن کبھی کوئی چیکنگ نہ ہوئی اور چند پیسوں کی کمائی پر بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں ،،، اوردودن پہلے ہم طالبات دو کشتیوں میں سیر کر چکی تھیں اس خبر کے بعد ایسا ہوا کہ ٹیچرز ہی نہیں پرنسپل کی طرف سے کسی بھی پکنک کے موقع پر آرڈر آتا " کشتی کی سیر کسی صورت نہیں ہوگی " لیکن آج بھی ویسی ہی لا پرواہی کشتیوں ، یا پکنک پر جانے والی ویکلز ، کے لیۓ کی جارہی ہے ۔ اور ہم وہ ملک بن چکے ہیں جہاں بچوں کی حفاظت ، اور سکون سے تفریح کا تصور محال ہو گیا ہے ،،، حالانکہ ہمارے وقت میں ٹریفک کم تھی ، اور تفریحی مقامات پر کشتیوں یا جھولوں کی چیکنگ آسان تھی اگر اسی وقت سخت قانون لاگو ہوتے تو آج والدین اپنے بچوں کو ان تفریحی یا علمی ٹرپس پر مطمئن ہو کربھیجتے۔ 
۔1969 یا 1970ء کے 23 مارچ کے یومِ پاکستان میں اباجی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے "تمغۂ قائدِ اعظم " کی اطلاع دی گئی۔یہ تمغے یا تو صدر ہاؤس پنڈی میں یا ہر شہر میں موجود گیریزن میں کوئی جنرل صاحب کے زیرِصدارت لگاۓ جاتے ، ہم دونوں بہنیں اور اماں جی ، اباجی کے ساتھ 23 مارچ کو صبح سویرے پشاور روانہ ہوئے کہ اباجی کو تمغہ وہیں دیا جانا تھا ، ایک چھوٹے سے ہال میں کچھ اور لوگوں کو بھی اباجی کے ساتھ تمغے لگاۓ گئے ، اور ہم اباجی کے ایک دوست کے گھر چاۓ پینے چلے گئے کہ انھوں نے پہلے ہی کہلا دیا تھا ابھی صبح کے ، 10 یا گیارہ بجے تھے ، واپسی پر ہم نے اباجی سے درخواست کی کہ ہم " رشکئی " کی جھگیوں میں " سمگلڈ " کپڑا لینا چاہتی ہیں ۔ اباجی نے کہا '' میں لوگوں کو ایسے غیرقانونی کاموں پر پکڑتا ہوں، میری ہی فیملی یہ کام کرے !! لیکن ہمارے ضد کرنے پر اور خاص طور پر ڈرائیور " صوفی جی " کی سفارش پر ہمیں صرف دس پندرہ منٹ کے لیے جانے کی اجازت ملی ، ظاہر ہے اتنے کم وقت کے لیۓ ہم نے کیا تیر چلانے تھے جبکہ اماں جی کار میں ہی بیٹھی رہیں ۔ ہم بےدلی سے چیونگم ، اور ایک پرفیوم ، اور شاید کچھ ڈرائی فروٹ لے کر بُڑ ، بُڑ کرتی واپس آ گئیں ، لیکن اباجی نے ہماری بالکل " حوصلہ افزائی " نہیں کی ،واپسی پر دو جگہیں ایسی ہوتی تھیں جہاں سخت چیکنگ ہوتی تھی ، اباجی نے بلا کسی تعارف کے اپنی کار کی چیکنگ کروائی ! اور ہم گھر آگئے ۔ بعد میں اماں جی نے احساس دلایا ۔ " جو چیز عزت سے ملے صرف اسی پر قناعت کرو ، کیا تمہیں اچھا لگتا کہ لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اوروں کو اسی بات پر پکڑنے والے سے دو جوڑےغیرملکی کپڑے کے بر آمد ہوۓ " ! یہ بات ایسے انداز سے کہی گئی اور سمجھائی گئی کہ پھر کبھی ہوس ہی نہیں ہوئی کہ ایسا اور ویسا لباس پہنیں ! یا تو ہم اچھے بچے تھے یا ہمارے ماں باپ کے سمجھانے کا انداز اچھا تھا کہ ہم جلد اثر لے لیتیں ، ،، میں سمجھتی ہوں ، آج ہمیں اچھی مائیں بننے کے سنٹر کھولنے چاہییں ،، وہاں ہر وہ لڑکی جس کی شادی ہونے والی ہو اچھی بیوی یا اچھی ماں کی ،،،،، اور لڑکے کو اچھا شوہر اور اچھا باپ بننے کے تربیتی کورس کراۓ جائیں ۔کیوں کہ آج کل کے والدین نے تربیت کا ذمہ ٹی وی ، آئی فون ، دوست ، اور سکول کو دے دیا ہے ،،،، آج بہت کم اور قسمت والے والدین ہیں جو بچوں کو " ویلیوز" کا سبق دینے کی تگ ودو ذیادہ کرتے ہیں ، صرف اس بات پر ہی فخر نہ کریں ہم تو بےحد مصروف رہتے ہیں ، بچوں کے لیۓ اتنا تھکتے ہیں سکول سے آتا ہے تو قاری صاحب آجاتے ہیں ، پھر میں انھیں اکیڈمی چھوڑتی اور پھر دو گھنٹے بعد لینے جاتی ہوں پھر شام کو ان کو ٹینس کھلانے یا فٹبال کلاسز کروانے جاتی یا جاتا ہوں وغیرہ وغیرہ ! اِن سب کے درمیان بچوں کو سکون سے اماں ابا کے پاس کب بیٹھنا ملا ؟؟؟؟؟؟؟ ذرا سوچنے کی بات ہے۔
( منیرہ قریشی 21 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں