جمعہ، 6 اکتوبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " (25).

یادوں کی تتلیاں " (25)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
بہت آہستگی سے میں نے ان چھے سہیلیوں کے گروپ میں اپنی جگہ بنائی ،،، ان دنوں بھٹو صاحب کی تحریک صدر جنرل ایوب کے خلاف عُروج پر تھی ، اور ان کی مقبولیت کا گراف بھی اونچا ہی اونچا جا رہا تھا ۔ ہر فری پیریڈ میں اپنے کالج کے کسی درخت کے نیچے ڈیرا جمتا ، اور اگر سیاسی بحث چھڑ جاتی ، تو اس میں میَں اور شہناز ہی زور  وشور سے حصہ لیتیں ، باقی یا تو غیرجانبدار رہتیں ، یا ماحول کو شگفتہ رکھنے کی کوشش کرتیں ، خاص طور پر نسرین اور رخسانہ ! ورنہ میرا ووٹ صدر کی طرف اور شہناز کا بھٹو کی طرف ہوتا ،،، زبیدہ اپنی عینک کے ساتھ اور ایک فطری تیزی کے ساتھ متوجہ کرتی رہتی،"چلو بھئ، پیریڈ شروع ہونے والا ہے" ، رفعت بھی تحمل اور بُردبار طبیعت سے ہماری بحث کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتی رہتی، ، لیکن یہ ڈرامہ اس دن تک جاری رہا جب تک صدر ایوب نے استعفیٰ نہیں دیا اور اگلی حکومت جنرل یحیٰ خان کی نہ آ گئی ، ،، اس سارے دورانیہ میں کبھی ایک دن بھی ہماری بات چیت بند نہیں ہوئی ، شاید وہ دور ہی تحمل مزاجی کا تھا ، یا ہم بہت" اچھے بچے "تھے ،یا کیا تھا ،،،،،،؟ آج ہم سے کسی کا سیاسی یا مذہبی اختلاف ہو جاۓ سہی ، سب سے پہلے آنا جانا ، بات چیت ، موقوف !!!! اور اب نیٹ کا دور ہے تو اس میں اگلے کو بلاک کر دینا ،پہلا ری ایکشن ہوتا ہے ، ہم جلدی روٹھنے والے ، جلدی اپنے مرضی کے نتائج دیکھنے والے ، جلدی اگلے سے سرنڈر کروانے والے بن چکے ہیں ۔ یہ مِن حیث القوم ہماری بہت بری عادات میں سے ایک بن چکی ہے ، ہم میں سکون ، متحمل مزاجی تو جیسے نا پید ہو گئی ہے۔ 
بہت آہستہ آہستہ میری ان نئی سہیلیوں نے میرے گھر آنا شروع کیا ، اس طرح والدین کو تسلی ہونے لگی کہ اس کی صحبت کیسی ہے ،، یہ 66ءکے شروع کا دور تھا ۔ ہم سب سہیلیوں میں زبیدہ سب سے لائق تھی ، باقی سب بھی اگر بہت پوزیشن لینے والی نہیں تھیں تو نالائق ہرگز نہ تھیں ، میں سمجھتی ہوں ، میں پڑھائی میں کبھی بہت اچھی نہ تھی ،وقت تیزی سے گزر رہاتھا، اس سکول/ کالج کی شاندار عمارت تھی اور ہے ، خوب بڑا پلے گراؤنڈ ، بہترین کھلی کلاسز ، خوب بڑی لیبارٹریز ، اور ایک اتنا بڑا ہال جس میں 7یا 8 سو لڑکیاں سما جاتیں ،،۔ یہاں ہر سال ایک مینا بازار لگایا جاتا ، جس کی انچارج دو تین ٹیچرز ہوتیں ، اس میں اسی طرح کھانے پینے کے سٹال لگتے ، جیسے ہر سکول کالج میں ہوتے ہیں اور ہال میں شاندار ڈرامے اور ڈانس بھی تیار کرواۓ جاتے ۔ لیکن یہ ڈرامے اور ڈانس بہت محنت سے تیار کرواۓ جاتے ۔ اس ہال کی انچارج عرصہ تک مسز شاہدہ مرزا ہی رہیں۔وہ بھی انوکھی شخصیت تھیں ، اہلِ زبان تو تھیں اور ایم اے اردو بھی تھیں،سبھی کلاسز کو اردو پڑھاتیں ، ہمیشہ شگفتہ موڈ میں رہتیں اور پان کا بیڑہ منہ میں ہوتا، اس سالانہ میلے میں جب ڈراموں کی سلیکشن یا ایکٹنگ کا وقت آتا تو وہ کھلے دل سے ہر کسی کو شامل ہونے کا چانس دیتیں ،،، سب سے انوکھی بات کہ وہ ضرور کسی نہ کسی ڈرامے میں "خود" حصہ لیتیں ،اور ڈرامے کا یہ رول اکثر مزاحیہ ہوتا ، جیسے بھلکڑ ، شوہر یا نوکر کا رول وغیرہ ، اور ان کی ایکٹنگ بھی اتنی بےساختہ ہوتی کہ ہال میں بیٹھی خواتین اور طالبات کے قہقہے ان کی کامیابی کی دلیل ہوتے ۔ اس دوران ہم سب سہیلیوں کو بھی مواقع ملتے رہے لیکن مجھے اور نسرین کو( جومجھے یاد ہے ) حصہ لینے کاتو اکثر موقع ملتا رہا ، کبھی ٹیبلو ، کبھی کوئی کردار ،، لیکن سب سے ذیادہ سب کو انتظار اس ڈانس شو کا ہوتا جو واہ جیسی خاموش جگہ پر ایک " فن " ہوتا ,اور مہمان خواتین کی اصل اینٹرٹینمنٹ ہوتا ،،،، یہاں یہ ذکر بھی کر دوں کہ اس دور میں واہ کے ورکرز نے اپنی ایک آرٹ سوسائٹی بنائی ہوئی تھی جسے واہ انتظامیہ کی سرپرستی حاصل تھی اور اس میں ٹیلنٹڈ لوگوں کا گروپ تھا ،( وہ سارا گروپ اتنے اچھے کلاکار اور اداکار تھے کہ اگر ان میں سے کچھ کو ٹی وی پر موقع ملتا تو یقینا" بہت مشہور ہوتے ) انھیں میں دو دوست تھے " رفاقت ، اور جمیل خلیلی " یہ دونوں بہت اچھے کلاسیکل ڈانسر تھے ، دونوں اس وقت عمر کے لحاظ سے 40 یا اس سے اوپر کے ہوں گے ، بال بچے دار اور فیکٹری کے ورکر !!! لیکن ہماری پرنسپل مسز زیدی کی درخواست پر ایک مہینہ تک آتے رہتے اور چند لڑکیوں کا ٹیلنٹ چیک کر کے سیلیکٹ کرتے اور پھرروزانہ دو گھنٹے ڈانس کی پریکٹس ہوتی ، اس دوران کوئی فالتو لوگ ہال میں نہیں جاسکتے تھے ، صرف تین ،چار ڈیوٹی ٹیچرز اور ایک آیا جی ،،، دونوں دوست بہت مہذب انداز میں رہتے ، کسی پھکڑ پن ، یا بےتکلفی کا سوال ہی نہ تھا، ، دراصل دو تین سال تک صرف ہماری کلاس کی 4 بہت سمارٹ لڑکیاں ہی اس ڈانس پارٹی میں چُنی جاتی رہیں ، ان میں نصرت آراء ، رضوانہ سرور ، ثمینہ اور شہناز ظفر تھیں ، سب کی پریکٹس اتنی زبردست ہوتی جیسے وہ پروفیشنل ہوں ، خاص طور پر نصرت اور رضوانہ کو زیادہ پرفارم کروایا جاتا کیوں کہ ان کی " کمریں " بہت پتلی تھیں ،،،، ایک مدت گزر گئی اور جب ہم ملیں تو وہ" کمریں " اب" کمرے" بن چکی تھیں ، اتفاق سے نصرت کا بیٹا اور میرا بیٹا بچپن کے دوست بھی ہیں ، جب ہم نے وہ دور یاد کیا تو نصرت کے بیٹے کو یقین نہیں آرہاتھا کہ اسکی امی اتنی دبلی بھی تھیں ، ،، ڈانسز زیادہ پنجابی کے گانوں پر ہوتے یا ایک انڈین گانا جس کی ہر سال فرمائش ہوتی ! اور یہ ڈانس رضوانہ کر سکتی تھی ،!۔
پنڈی کے سکول میں ڈسپلن تھا ، پڑھائی ، لکھائی پر پوری توجہ دی جاتی ! لیکن پورے سال میں دو تقریبات ہوتیں ، ایک پی ٹی شو ، اور وہ بھی گرلزگائیڈ میں ، جس میں بچوں کو بلیو برڈ کے نام سے شامل کیا جاتا ، یہ دو دن کا سلسلہ ہوتا ، ہم گرلز گائیڈ کی سفید وردیوں میں اِتراتی رہتیں اور دوسری تقریب دسمبر کی چھٹیوں سے ایک دن پہلے بہت لمبا ڈرامہ سٹیج پر کیا جاتا ،،، جو دراصل " کاسٹیومز " سے بھر پور حضرت عیسیٰ کے یومِ پیدائش اور ان کی زمین و آسمان پر خوشی مناۓ جانے کے مناظر، جس میں خوب صورت لڑکیاں فرشتوں کے گِٹ اَپ میں ہوتیں اور ان تین مجوسیوں کی آمد کا منظر ہوتا جن کو الہامی طور پر انؑ کی پیدائش کا علم ہوتا ہے اور وہ انھیں تحائف دینے چل پڑتے ہیں ۔ یہ سب اتنا دلچسپ ہوتا کہ "سامعین و ناظرین " ڈرامہ ختم ہونے تک ہلتے بھی نہ تھے ،،،،،۔
لیکن ظاہر ہے وہ صرف سکول تھا اور اب یہ کالج بھی تھا ،اس میں ایک سٹوڈنٹ یونین تھی جس کےلیے ووٹ مانگے جاتے اور بہت خوش اُسلوبی سے ، بغیر نفرتوں کے ایک صدر ، ایک سیکریٹری ، اور ایک وائس پریزیڈنٹ چُنی جاتیں ۔اور باقی سال کی تمام تقریبات میں انھیں ہی اچھا برا نبھانا ہوتا ، جب میں دسویں میں تھی تو ایک انتہائی شاندار سالانہ ، تقریری مقابلہ اور شاعری کا مقابلہ منعقدہوا ، اس سال صدر عابدہ سعید تھیں ، اور سیکریٹری سعیدہ باجی تھیں ۔ باجی ان کے نام کا ایسا لاحقہ لگا کہ اسی نام سے آج بھی یاد آتی ہیں ، وہ بھی بہت باذوق ، اور شاعرانہ مزاج والی ،نہایت دبلی پُتلی اور لمبی لڑکی تھیں ، ،،،،، عابدہ سعید ایک خان فیملی کی ، صاف رنگ اور دلکش خدوخال کی ، اور قد وقامت کی تھیں ، ، جب وہ سٹیج پر کچھ بولنا شروع کرتیں تو ہال میں یوں خاموشی چھا جاتی جیسے کوئی ہے ہی نہیں ، یہ صرف اُن سے محبت ،اور ان کی تابعداری  میں ہوتا ،کیوں کہ وہ ایسے اچھے طریقے سے لڑکیوں  کو تربیتی انداز سے پہلے ہی سمجھا دیتیں کہ سب بولنے والوں کو سننا ہے اور بےجا شور نہیں کرنا ، اُن کی شخصیت میں سحر تھا ، کہ عابدہ باجی ساری لڑکیوں میں انتہائی مقبول تھیں ۔ جس تقریب کا ذکر کر رہی ہوں  اس میں آل پاکستان  تقریری مقابلے اور شاعری کا "طرح" مصرعے پر مبنی مقابلے تھے ، بلوچستان ،سندھ ، صوبہ سرحد اور پنجاب کے اہم شہروں سے طلباء اور طالبات آۓ ، تمام لڑکے بوائز کالج میں اور طالبات ہمارے کالج کے کمروں میں ٹھہرائی گئیں۔سب طُلباء اپنے دو ، دو ٹیچرز کے ساتھ آۓ تھے۔یہ تین روزہ تقریبات تھیں ، اور جس خوش اُسلوبی سے اور با وقار طریقے سے مکمل کی گئیں، میں آنکھیں بند کروں تو جوش و جذبے سے بھر پور ہال کا ماحول محسوس کرتی ہوں ، بہت ذہانت سے ایک طرف کا فریق ، جانے والے فریق کے بولے گئے ، پوائنٹ کو " کٹ " کرتا ، کہ ہال تالیوں سے لرز جاتا ( گونج کا لفظ کم لگ رہا ہے ) پشاور سے آئی ٹیم میں ایک لڑکا خوب اونچا لمبا تھا اور اس کا نام عابد خان ، شاید وہ اپنی ٹیم کا صدر تھا ، جب بھی وہ ہماری صدر کے ساتھ آ کھڑا ہوتا توہم سبھی جو ڈیوٹی پر تھیں دل سے دعا کرتیں ،کاش ان کی شادی ہو جاۓ ! یہ ایک بچپنے کا اور آنکھوں کو اچھا لگنے والا منظر تھا جو ہمارے خیال میں ممکن تھا ،،، اب سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ ہماری سوچیں بس شادیوں تک محدود تھیں ، حالانکہ شادی تو دراصل مسائل کا دروازہ کھلنے کا دوسرا نام ہے !۔
عابدہ باجی نے بی اے کیا ، شاید ایک دو سال ٹیچنگ بھی کی ، پھر ان کی اپنی فیملی میں شادی ہو گئی ، ایک بیٹا ، ایک بیٹی ہوئی،دونوں بچے چھوٹے ہی تھے کہ عابدہ باجی بیوہ بھی ہو گئیں ، زندگی نے انھیں بھنور میں رکھا ، جب بہت سالوں بعد ایک شادی پر سامنا ہوا تو میں بہت دیر ان کا ہاتھ پکڑ کران سے اپنی محبتوں کی تجدید کرتی رہی لیکن یہاں ایک سفید سر والی بہت بُردبار خاتون ، تھکے انداز سے حال پوچھتی رہیں ، وہ گُردوں کے فیلئر کی طرف رواں تھیں اور پھر کچھ سال گزرے وہ جنت کی خوب صورت دنیا میں جاچکی ہیں ،،،،،،۔
منیرہ قریشی 6 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ۔۔( جاری)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں