منگل، 24 اکتوبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (35)۔

 یادوں کی تتلیاں" (35)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم سب اپنے اپنے بچپن کو یاد کریں ،اور اس کی یادوں میں بسے وہ سفر یاد کریں جو اپنے والدین کے ساتھ کیۓ ، تو جو مناظر اس وقت ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہوتے ہیں ، یاد آنے پر اپنی جُزیات کے ساتھ ایسے سامنے آتے چلے جاتے ہیں کہ جیسے ہاتھ بڑھائیں گےتوہم انھیں چھو لیں گے ! کبھی کبھی یہ احساس مدھم اور کبھی بہت تیز ہوتا ہے ،،،،،۔
ہم نے کوئی خاص معرکے دار سفر نہیں کیۓ کہ جو قابلِ ذکر ہوں ، اور دیکھا جاۓ تو پوری یادوں کی تتلیاں ہی محض میرے اپنے لیۓ بچپن کی دہرائیاں ہی ہیں ، ،، کچھ میری عمر کے لوگ پڑھ کرمسکراتے ہوں گے کہ یہ سب تو ہم بھی کرتے تھے ، ،، یا ،،، یہ سب تو ہم بھی سوچتے تھے ، یہ سب ہم بھی کھاتے تھے وغیرہ ، یہ تو بس عام سی باتیں  ہیں، ۔
" یہ تو سب عام سی باتیں ہیں "
چُھپن چھُپائی کس نے نہیں کھیلی 
بےاختیار ہنسی کس نے نہیں بکھیری
کس نے نہ کی ہوگی پھل کی چَوری
کس نے نہ کھائی ہو گی مار اُستانی کی
کتنے فکر مند ہوتے تھے ہم !
ہاۓ ، عید کی چوڑیاں نہیں ہیں میچنگ
اس دفعہ کے ربن اتنے نہیں ہیں چَوڑے
سب ہی کزنز کی نئی ہیں بیلٹیں !
اِک ہم نے پرانی پر کیۓ ہیں گزارے
کبھی کبھی یہ اماں ،ابا کنجوس سے لگتےہیں
کبھی کبھی یہ ناما نوس سےلگتے ہیں !
اب یاد آتی ہیں بچپن کی " فکرمندیاں "۔
آرا م سے پا رہوتی تھیں، ، ،
سبھی چڑھائیاں، اُترائیاں!
ان یادوں پر ، ہونٹ مسکا اُٹھتے ہیں ،
کچھ دیر کوموجودہ منظر مہکا اُٹھتے ہیں !!!!۔
بات سفر کی تھی اوراس " نثری نظم " کی ضد نے مجھے یہ الفاظ لکھنے پر مجبور کر دیئے ، چوں کہ اب لفظ" قلم" نہیں لکھ سکتی کہ " قلم پھسلا اور کہیں سے کہیں نکل گیا " ،،،، جدید اُسلوب نے الفاظ کا چلن اور محاورہ بھی بدلا دیا ہے ۔
چُھٹپن میں اپنی جاۓپیدایش راولپنڈی سے اگر کوئی سفرکیا تو اپنے گاؤں ٹیکسلا تک کا کیا ، ( جو بس سے ایک گھنٹے کا ہوتا )وہ بھی کسی کی شادی یا فوتگی کے موقع پر ۔ اماں جی کو کبھی کسی کے گھر راتیں گزارنا یا بچوں کو گزروانا پسند نہیں تھا۔کبھی تو اسی دن واپسی ، ہو جاتی ورنہ ایک رات کا قیام ہو جاتا ۔ البتہ ٹیکسلا سے چند میل ہی آگے سیمنٹ فیکٹری تھی جہاں ہمارے بہت سے نزدیکی رشتہ دار ملازمت کرتے تھے ان میں ہماری چھوٹی پھوپھی جی رقیہ بیگم بھی تھیں جو اباجی کے سگے چچاذاد سے بیاہی گئی تھیں ۔ اباجی کو اپنے بہن بھائیوں سے بہت پیا رتھا ، اس پیار کے اظہار میں ، خاص بات یہ تھی کہ اگر کوئی بیمار ہے تو وہ اس پر فوراًحرکت میں آجاتے ، اسے پاس بلاتے ، اسے اس وقت تک رکھتے جب تک وہ بہن ، بھائی مکمل صحت یاب نہیں ہو جاتا تھا ۔ یہ مہربانی اگر غیروں کے لیۓ تھی تو سوچیں اپنوں کے لیئے کتنی دو چند ہوتی تھی۔
  ،،پچھلی کسی قسط میں بڑی پھوپھی جی " اقبال بیگم " کا ذکر کر بھی چکی ہوں ، چھوٹی بہن اسی سیمنٹ  فیکٹری میں   اپنے شوہر
 اور بچوں کے ساتھ رہتی تھیں ، اور اباجی اکثر خود ہی یا ، کبھی ہمیں بھی ساتھ لے جا کر چاۓ کی پیالی پینےجتنا وقت گزار کر  آ جاتے ، ہمارے چھوٹے چچا بھی وہیں ملازمت کرتے تھے ، میں ایک بار اُن کے پاس چار پانچ دن رہی تھی کیوں کہ وہ اماں جی سے ناراض ہو گۓ کہ آپ کو ہم اچھے نہیں لگتے اسی لیۓ آپ بچوں کو نہیں آنے دیتیں ۔میری چچی بھی اباجی کی طرف سے رشتہ دار تھیں ،اُن کی سلائی بہت اچھی تھی ، اوراُن کی آواز بھی اچھی تھی وہ اکثر یہ گانا ،،، کام کاج کے دوران گاتی رہتی تھیں ، " ستارو، تم تو سو جاؤ پریشاں رات ساری ہے " ،،،، وہ میرے لیۓ ایک کاٹن کا کپڑا لے کر آئیں  جو ہلکا گلابی تھا اور اس پر گہری گلابی ٹوکریاں بنی ہوئی تھیں ، اور ان ٹوکریوں میں رنگا رنگ چھوٹے چھوٹے پھول تھے ،،، قارئین یہ سوچیں گےکہ مجھے اس 7 یا 8 سال کی عمر کے فراک کی جزیات بھی یاد ہیں ،،شاید اِس وقت جب میں بچپن کی یادوں میں اُتر جاتی ہوں تو مناظر اپنی جُزیات کے ساتھ میرے ذہن کے نہاں خانوں سے نکل نکل کر اپنی جھلکیاں دکھاتے چلے جاتے ہیں اور میری انگلیاں " کی بورڈ " پر ان مناظر کو لفظوں میں ڈھالتی جاتی ہیں ،،،،، وہ فراک چچی نے اسی قسم کے گانے گاتے  سیا اور میرا رخصتی کا تحفہ دیا گیا ، ،،،، بچپن کے ہمارے سفر بس اتنے ہی تھے ، لیکن ایک انہی عمروں کا ہم دونوں کا سفر مردان کا تھا جو ہمارے بہنوئی کی ٹرانسفر کی وجہ سے ہمیں کرنے کا موقع ملا تھا ، میں نے اور جوجی نے اپنے جانے کی تیاری کی، آپا اور بڑے بھائی جان اپنی کا ر میں لینے آۓ تھے ، اس وقت آپا کا ایک ہی بیٹا " یاور " اور بیٹی لبنیٰ گود میں تھی، اور ہمارے لیۓ ایک پیارا کھلونا ۔ ہم نے اپنے " دی بیسٹ " فراک پہنے ،،، جی ہاں یہاں بھی "فراک " میری دلچسپی کی وجہ سے ایسا میرے ذہن میں فکس ہو گیا ہے کہ اس کا ذکر کیۓ بغیر نہیں رہ پا رہی ، یہ وہ دور تھا جب اماں جی سلائی کر لیتی تھیں ، اور ہم دونوں کے ایک جیسے کپڑے سلتے یا خریدے جاتے ، یہ فراک عید کے موقع پر سلے تھے ، " گوبی کریب " نام کا گہرے سبز رنگ اور اوپر چھوٹے چھوٹے پھول اور بکھری باریک ٹہنیاں بنی ہوئی تھیں ،،والا کپڑا تھا ، اس کےگلے گول کالر کے اور آدھے بازو جو خوب چُنٹوں والے، ذرا اُبھرے ہوۓ تھے، ،، مجھے یہ اتنے پسند تھے کہ تا دیر میں نے پہنا اور جب چھوٹا ہو گیا تو میں نے کسی کو دینے سے انکار کر دیا ، بہت بعد میں اس فراک سے کچھ گڑیوں کے فراک بناۓ گئے ( اس فراک نے مجھے اپنی یاد اس دن کرائی جب اپریل2015ء میں میرا بہت سیریس ایکسیڈنٹ ہوا ، یہ الگ ایک قصہ ہے جو اپنے وقت پر لکھوں گی)۔ 
مردان میں ان گرمیوں میں بھی بہت اچھا موسم تھا ، آپا کے پڑوس میں ایک آفیسر اپنی نئی نویلی بیوی ، اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہ رہے تھے ! ان میں چھوٹی دو بہنیں ہماری ہی عمر کی تھیں جن سے فوراً  ہماری دوستی ہو گئی ، میری ہم عمر کا نام فریدہ اور چھوٹی کا پیار کا نام " کُنتی " تھا ، وہاں ہمارا قیام 20، 22 دن کا تھا لیکن کُنتی، فریدہ سے دوستی 4یا 5 سال کی بن گئی کیوں کہ ہم نے خط لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ، مدتوں یہ خط بھی اپنے " قیمتی خزانے "میں سنبھال کر رکھے رہے ۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہر چیز بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے ، ،، اور اس کو ضائع کر دینے میں کوئی دکھ نہیں رہتا ،،،،،،،! ۔
جب ہم واہ میں سیٹ ہو گۓ ، تو اس دوران بڑے بھائی جان کی ٹرانسفر " صوبہ سرحد کے شہر "بنوُں " ہوگئی ۔ ان دنوں یہ علاقہ خاصا غیرآباد اور بہت سی سہولتوں سے عاری تھا ! آپا کے بڑے دونوں بچوں کو اپنی سکولنگ کے لیۓ ہمارے پاس واہ میں رہنا پڑا ۔ان کے داخلے کے فوراً بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں تو آپا اور بھائی جان کے اصرار پر ہم دونوں بھی چل پڑیں ، اس دور میں وہاں تک کی سڑکیں بھی بہت چوڑی نہ تھیں اور رات کا سفر بھی محفوظ نہ سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیۓ صبح سویرے سفر شروع کیا ، سہ پہر کو کوہاٹ کے آرمی کلب سے ہائی ٹی، پی اور قریباً رات کے 8 بجے تک بنوں پہنچ گئے ، اب رات کو کیا نظر آتا ! سفرسے تھکے ہوۓ تھے ، جلد سو گئے،،،، صبح سویرے اُٹھے ، تب گھر دیکھا اور ہم حیران ہو گئیں کہ انگریز کے زمانے کا بنا پرانا اور خوب بڑا گھر تھا جس کی خوب اُونچی چھتیں ،کھلے کمرے ، اونچی فرانسیسی کھڑکیاں ، اور لان اتنا بڑا کہ کہ گھوڑا دوڑایا جا سکتا تھا ۔ اس لان کے کناروں پر لائن سے 7یا 8 سرونٹ کواٹرز بنے ہوۓ تھے جن میں سے صرف دو آباد تھے ، ایک میں اردلی او ایک میں مالی رہتے تھے ۔ آپا کے پاس گھر کے استعمال میں صرف تین کمرے تھے ڈرائنگ روم الگ اور ڈائینگ روم الگ ، اور ایک بیڈ روم ،،،، اب ہمارے آنے سے آپا کے بیڈ روم کے ساتھ جڑا دوسرا بیڈ روم آباد ہوا ،،،، یاور اور لبنیٰ نے ہمارے ہی کمرے میں رہنے کا کہا ، اور اگر وہ نہ بھی کہتے توبھی ہم انھیں اپنے ساتھ سلاتے ، کیوں کہ وہاں شام ہوتے ہی جو ویرانہ چھا جاتا ۔ تو دل بری طرح خفقان کا شکار ہو جاتا ، پہلے تین ، چار دن تو ہمارا رونے کو دل چاہا ،،، حالانکہ میں ابھی میٹرک کر چکی تھی ، جوجی میٹرک میں تھی ، ہم کوئی بچیاں نہ تھیں لیکن اس ویرانے میں ہمیں خود اپنے ، آنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہونے لگا ۔ آپا اور بھائی جان سمجھ گۓ ، یہ تو دودن میں اداس ہو گئی  ہیں ،انھوں نے بتایا،یہاں کلب میں روزانہ ایک فلم دکھائی جاتی ہے ہم روز تمہیں لے کر جائیں گے،( ذرا حوصلہ دینے کے لیۓ ) اور جب  جب "اجازت" ملی بازار بھی لے جاؤں گی ۔۔۔ اجازت سے مراد بھائی جان کی اجازت نہیں ،،، بلکہ بڑے حکام جب بتاتے جی حالات ٹھیک ہیں ، بازار ہو آئیں " تب 12 پنجاب کی طرف سے ایک فوجی ٹرک ملتا جس میں وہ خواتین بیٹھ جاتیں جن کے پاس کارکی سہولت نہ ہوتی۔ان کے ساتھ مسلح دو تین فوجی ہوتے اس ٹرک کے پیچھے وہ لوگ جن کے پاس کاریں تھیں ، ڈرائیورز کے ساتھ چلتیں ،یوں ایک چھوٹا سا قافلہ کچھ اور گارد کی نگرانی میں بازار کا رُخ کیا جاتا ، بازار کیا تھا چند دکانیں ، کپڑوں کی ، چند دوسرے سامانِ ضرورت کی ،اور ذیادہ فروٹ کی !یہ صورتِ حال کچھ ایسی نہ تھی کہ ہم دوبارہ وہاں جانے کی خواہش کرتیں ! چناچہ اگلی دفعہ بازار جانے کا اجازت نامہ ملا تو ہم نے آپا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور بچوں کے ساتھ گھر ہی رہیں ۔ 
وہاں کا موسم خشک تھا ،اس گرمی میں اس لیۓ ہلکی سی ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی کہ وہاں سبزہ بےتحاشا تھا۔اسی لیۓ لان کی گھاس کا یہ عالم تھا کہ بےچارہ مالی لان کا ایک کنال کی گھاس کاٹ لیتا اور دوسرے کنال کی گھاس کاٹنے تک پہلی پھر اُگ چکی ہوتی ، ، تیسرے اور چوتھے کنال کی باری تو تب آتی جب اس کے ساتھ کوئی اور مالی لگتا ، کیوں کہ سانپوں کا بھی ڈر رہتا تھا تو اس کے لیۓ الگ دوائیاں جلائی جاتیں ، گھر کے بیشتر کمروں میں صرف ہم نے ایک جھانکی لگائی اور بس ! باقی تین چار کمرے خالی ہی رہے،،، ان میں دن کو بھی جاتے ہوۓ خوف آتا تھا۔
ہم دونوں اپنے اماں جی ، اباجی کو بقاعدگی سے خط لکھ کر تفصیل سے یہاں کے روزانہ کی مصروفیت بتاتے ، اور ان کے کا خط سلسلہ بھی تواتر سے رہا ، جب ان میں سے کسی کا خط آتا ، ہم دونوں کو ان کی یاد کا دورہ پڑ جاتا اور ہمارا وہ دن کچھ نا کچھ آنسو بہا کر گزرتا۔
ایک دن میری آنکھ صبح نماز کے وقت کھل گئی، مجھے ایسی آوازیں آئیں جیسے کچھ گھُڑ سوار تیزی سے چلے آرہے ہیں پھر تیز سانسوں کی آوازیں آئیں ،، پھر ٹھک ٹھک اور پھر خاموشی !! ڈر کے مارے برا حال ہو گیایہ صورتِ حال "بنوں" پہنچنے کے آٹھویں دن کی تھی ۔ آپا کو صبح بتایا تو انھوں نے ہنس کر بتایا بھئ صبح سویرے دودھ والا اپنی " خچر گاڑی " میں دودھ دے کر جاتا ہے ، یہ ساری اسی کی آوازیں ہیں ،،، اور پیارے قارئین ،،، یہ سنتے ہی میں اس " دودھ والے پر اس کی گاڑی سمیت " عاشق " ہوگئ ،، اب پلیز اس لفظ عاشق کےکوئی اورمعنی نہ لیۓ جائیں ۔ کیوں کہ ابھی میں نے نہ خچر گاڑی دیکھی تھی  نہ دودھ والا دیکھا تھا ، بس مجھے بےشمار پڑھی ہوئی کہانیوں کا ایک جیتا جاگتا کردار ملنے کی توقع ہو گئی۔ 
وہی کہانیاں کا ماحول جو آلیور ٹوسٹ نے لکھی تھیں ،، اور اس کے بعد ہر روز میں نے خصوصا" صبح سویرے اُٹھ بیٹھنا اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے گیٹ پر نظریں گاڑ دینی اور بنوں کی " دھند میں ڈوبی " سویر میں سے گیٹ پر کبھی ایک اور کبھی کبھی دو خچروں والی گاڑی نمودار ہوتی جس کا دودھ والا بڑی سی چادر لپیٹے اور سر پر ادھورا سا پگڑ لپیٹے اُترتا ، خچر گاڑی اندر تک کچن کے قریب آ چکتی اس کے خوب تواناخچروں کے منہ سے سانس لینے کی آوازیں آتیں اور مجھے ان کی ناک سی بھاپ نکلتی آج بھی یاد ہے ( شاید وہ بہت فاصلہ طے کر کے آرہے ہوتے تھے )تو اردلی برتن لیۓ کھڑا ہوتا ، دودھ لیا جاتااور اسی دھند میں دھندلی شبیہیں ، عجیب پراسرا انداز سے بغیر کچھ بولے واپسی ہو جاتیں ۔ کاش میں اس وقت کچھ میچور ہوتی تو اس سارے ماحول کو سامنے رکھ کر کہانیاں لکھ لیتی ، یا کردار تخلیق کر لیتی یا تصویریں بناتی ۔لیکن اس دھندلے ماحول نے میری یادوں کو نہیں دھندلایا ، میں نے آج بھی دھند کو ہمیشہ پر اسرار جانا ۔ اور 70ء میں جب اپنی ٹوٹی پھوٹی نظمیں لکھیں تو اس بھی اکثر لفظ " دھندلایا " یا لفظ مِسٹی لکھا کہ دھندلایا منظر بندے کے اندر اگلی ، اَن دیکھی دنیا کے بہت سے راز کہنے آتا ہے ( آہ میں ! اور میرے عجیب خیالات ) ،،،، بنوں کے قیام کے دوران ہم نے روز ایک فلم دیکھی اسی کے انتظار میں دن گزر جاتا ، اس دوران دو اہم باتیں ہوئیں ایک جوجی کا میٹرک کا رزلٹ نکلا ، عزت سے ہائی فسٹ ڈویژن آگئی اور دوسرے "محترمہ فاطمہ جناحؒ " کی وفات کی خبر ملی یہ 1967ء کی بات ہے !۔
اس دوران ایک دو وزٹ آپا ،بھائی جان کے ملنے جلنے والوں کے ہوۓ ، کچھ کے گھر ہم گئے ، ایک شام کلب  گئے تو بھائی جان کو ان کے ینگ آفیسرز نے گھیر لیا وہ بھائی جان کو " کامریڈ " کے نام سے بلاتےتھے ۔ انہی میں سےایک کے بارے میں آپا نے بتایا کہ وہ اباجی کے سیکورٹی کے عملے میں شامل میجر سعید خان کے رشتہ دار ہیں ۔ انہی دنوں اس کی شادی ہوئی تھی,وہ بہت سمارٹ ،لمبے قد کا چمکتی آنکھوں والا بولڈ ، کیپٹن تھا. بعد میں 1971ء کی جنگ کے پہلے دن ہی اس کی شہادت ہوگئ ، اور آج بھی شہیدوں کی تصاویر دیکھوں تو بہت سی مسکراتی چمکتی آنکھیں یوں جگمگا رہی ہوتی ہیں جیسے اندھیری راتوں میں جگنو ، ٹمٹما رہے ہوں ، جو نہ صرف اندھیری رات کو سجا رہے ہوں بلکہ اندھیرے کو بھگا بھی رہے ہوں !!!! ۔
۔(منیرہ قریشی 24 اکتوبر2017،واہ کینٹ) (جاری)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں