پیر، 2 اکتوبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں"(23)

یادوں کی تتلیاں "(23)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم میں سے جس نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دن شعوری دور میں گزارے ہیں ۔ ان کی آنکھوں اور دلوں کوعجیب تجربہ ہوا ، جو حقیقتاً  زندہ قوموں کا ہوتا ہو گا۔ 6 ستمبر کو صدر جنرل محمد ایوب کی تقریر نے بہرحال ، ساری پاکستانی قوم  کو اس طرح بیدار کر دیا ، جیسے اس سے پہلے وہ ، کسی نشے میں تھے کہ لمحہ بھر میں ان کی غیرت جاگ اُٹھی ، اور وہ نہ صرف ایک مُٹھی بن گئے بلکہ اپنے آپ کو تن ،من ،دھن سے پیش کر دیا کہ جس کی جو حیثیت ، جو مقدور تھا اس نے کر دکھایا ، شاید کچھ قوموں کوجگانے کےلیے اس طرح کے نشتر کی ضرورت پڑ جاتی ہے ، اور ٹھنڈے خون کو گرمانے کے لیے قدرت ، معجزہ دکھاتی ہے کہ خود کو سمجھو ، دشمن کو جانو ،،،،، اور بار بار دھوکے نہ کھاؤ !۔
صدر کی تقریر کے بعد پوری قوم نے ایک ایک حکم پر عمل شروع کر دیا ،اس وقت تک ریڈیو اور اخبارات ہی اصل ذریعۂ معلومات تھا، اسی سال ہمارے گھر ٹی، وی آچکا تھا اور وہ دو گھنٹے ٹی وی کے آگے گزرتے توصرف پل پل کی خبروں کے انتظار میں ! ہمارے گھر سے میرے بہنوئی ، چھمب جوڑیاں کے محاذ پر تھے ، میرے ماموں جان ایک اور محاذ پر اور ہمارے اکلوتے بھائی جان ، اس وقت کاکول اکیڈمی میں دوسال پورے کر چکے تھے اور ابھی پاس آؤٹ ہونے میں 6 ماہ رہتے تھے لیکن ایمرجنسی   میں ان کو پاس آؤٹ کر دیا گیا اور ان نوجوان افسران کو ڈائرکٹ محاذوں پر بھیج دیا گیا،بھائی جان کو "پسرور" کی طرف بھیجا گیا ، اور اس دوران پہلےبارہ دن ان کی کوئی خبر نہ تھی ، یہاں اماں جی آدھی جان کے ساتھ اللہ کے آگے ہر وقت دعاگو رہتیں اور اباجی تو جیسے گھر سے غائب ہو گئے، وہ صرف ایک آدھ وقت کا کھانا کھانے ،یا کپڑے بدلنے کسی وقت آتے ہوں گے،ورنہ وہ تھے ان کی جیپ ، ڈرائیورصوفی جی،ایک کیپٹن صاحب ،،، ساری رات واہ کینٹ کی فیکٹری کی دیواروں کے ساتھ اس کے چپے چپے کو اپنی نگرانی میں لۓ ہوۓ تھے ، ( یہ بات ان کے عملے کے حوالدار اور صوبیدار صاحبان نے بتائیں ، اور کہا نہ یہ خود آرام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں ) ، کیوں کہ ان دنوں بھارتی جاسوس وغیرہ کا بھی خطرہ تھا۔
پوری واہ فیکٹری کے ورکرز ، کام کی مشینیں بن چکے تھے ، ہمارے سکول کالج بند ہو چکے تھے۔اور طلباء میں اعلان کر دیا گیا کہ ویلفیئر مراکز میں آکر فوجیوں کے لیے چھوٹے چھوٹے پیکٹ بنانے میں مدد دیں ، ہم دونوں بہنیں اپنی سہلیوں شاہدہ وغیرہ کے ساتھ اور چند کلاس فیلوز کے ساتھ جاتیں اور وہاں ایک ایک پیکٹ میں ایک سویٹر ، ایک کنگھی ، ایک پیکٹ بھنے چنے اور کشمش کاایک جوڑا جراب ، اور انھیں خوب اچھی طرح پیک کیا جاتا۔یہ ڈھیروں پیکٹ روزانہ مختلف محاذوں کی طرف   روانہ کیےجاتے،فیکٹری کی طرف سے لوگ آۓ اور ہر گھر میں محفوظ مقام پر " خندقیں" کھودیں گئیں، جیسے ہی پہلے دن دشمن کے جہازوں کی آمد پر سائرن بجا،اس وقت آدھی رات تھی،ہم بہنیں (آپا بھی بچوں کے ساتھ آچکی تھیں) بچوں سمیت جا کر ان خندقوں میں چلی گئیں ، ہمارے ملازم بھی ساتھ تھے لیکن اماں جی غائب !!! جلدی سے آپا گئیں اور انھیں باہر لائیں لیکن وہ بہت چُپ تھیں ، باہر آکر بھی وہ خندق میں نہ آئیں ، جب خطرہ ٹلنے کا سائرن ہوا تو بھی اماں جی چُپ چاپ سی تھیں ، ان کے چہرے سے جیسے رہی سہی شادابی ختم ہو گئی اور آنکھوں میں وہ اداسی تھی کہ ان کی طرف دیکھا نہیں جا تا تھا ، یہ کیفیت صرف دو دن میں ہو گئی تھی ، اس دوران ہمارے پڑوسی بھی سائرن پر اپنے گھر کی خندقوں میں آجاتے ، کلیئر کا سائرن بجتا تو کچھ دیر اپنی اپنی معلومات کا تبادلہ ہوتا ، ،، ایسی عمر سے گزر ہورہا تھا کہ خوف نام کی چیز تو تھی ہی نہیں ، بلکہ کسی قسم کا برا گُمان بھی دور دور تک نہ تھا ،کہ کسی بھی محاذ سے کوئی بھی خبر آسکتی ہے ، آپا اپنے آنسو اگر بہاتی بھی ہوں گی تو چُھپ کر ، اور اماں جی نے صرف عبادت کو ہی وقت دیا ہوا تھا ،،، تین دن تو ہم سب سائرن کی آوازوں کے مطابق عمل پیرا رہے لیکن چوتھی رات کو سائرن مسلسل بجا ، بستروں سے باہر آۓ ہی تھے کہ فائرنگ کی آوازیں،اور ہلکی توپوں کی بھی آوازیں سنائی دیں آسمان کی طرف دیکھا تو دور کچھ جہاز تیزی سے جاتےنظر آۓ ، شاید دشمن کے جہازوں کو دیکھ لیا گیا تھا اور پاک فضائیہ ، اور نیچے سے آرٹلری ایکشن میں آگئے ،،،، اور ہم سب کے دل جوش سے پھٹ رہے تھے ، اپنے بھانجے بھانجیوں کو آسمان کی طرف انگلیاں کر کر کے بتا رہی تھیں ، دیکھو وہ ہمارے جہاز آ گئے، ، اباجی ایسے مواقع پر کبھی گھر ہوتے کبھی نہ ہوتے ، لیکن وہ کسی وقت بھی مایوسی کی کوئی بات نہ کرتے، ورنہ بعد میں یہ سوچیں آئیں کہ ایک ہی گھر سے کیسے قیمتی افراد ، کہاں تھے ، یہ سوچ ایک ماں ، ایک بیوی ہی محسوس کر سکتی تھی ، لیکن کیا مجال کسی قسم کی ڈیپریشن کا ماحول بنا ہو ، ،،، اس دن کی فائرنگ کے بعد ہم میں سے کوئی خندقوں میں نہ گیا ، بس اتنا ہوتا کہ سائرن پر لان میں نکل آتے، اور اماں جی کو باہر نہ لاتے ، ان دنوں راتیں ٹھنڈی ہونا شروع ہو چکی تھیں اور انھیں سردی لگنے کا بھی ڈر تھا،، فائرنگ کا ایک اور دن بھی ایکشن لیا گیا ، لیکن الحمدُ للہ کہ دشمن کوئی بم گراۓ بغیر نکل بھاگا، اس دوران خبروں سے پاک فضائیہ کے جہازوں کی کارکردگی سن سن کرساری کاروائیاں ' افسانوی" لگتیں، دشمن کےجہاز یوں کٹ رہے تھے ، جیسے اچھےپتنگ باز، "بوکاٹا " کرتے چلے جا رہے ہوں ، اور پھر جنگ ختم ہوئی تو اس سترہ  روزہ جنگ نے اسلام کی تاریخ کو  نئے باب رقم کروا دیۓ ۔ انفرادی اور اجتماعی کارناموں کا ایسا شاندارتاریخی مظاہرہ ہوا، جسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا ،،،، بےشمار ملکی اور غیر ملکی تجزیہ نگار کیا لکھتے کیا کہتے ہیں ، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ، مجھے اتنا پتہ ہے کہ ہمارے گھر کے سب مرد محاذ پر تھے ، لیکن اس پر ہمیں " فخر " تھا ، اور بہت فخر ہے ! ۔
میں نے ایک قسط میں کچنار روڈ کے گھر کا نقشہ لکھا ہے کہ اس کے کچن کے باہر بھی ایک سٹور تھا ، جسے کچن کے ایندھن کے لیے بنایا گیا ہو گا،اماں جی نے اسے کچھ عرصہ بعد ہی بہت صفائی ستھرائی کروا کر ایک چھوٹا سا شیلف بنا دیا،جس پر سپارے اور ایک آدھ قرآن رکھا رہتا اور ایک دری کے اوپر جاۓنماز بچھی رہتی کہ ، جو اکیلے میں نماز پڑھنا چاہے یہاں آ کر پڑھ لے ، اور یہ خاموش کونا ، اماں جی کی دیرینہ خواہش کا ایک عکس تھا ، جس کا وہ ذکر کرتی رہتیں تھیں !! اب وہ اکثر دن کی نمازیں یہیں پڑھتیں،،،شاید یہاں اللہ تعالیٰ سے دل کی باتیں کُھل کر ہوتی ہوں گی۔جب جنگ کے بعد سب سے پہلے بھائی جان گھر آۓ اس وقت تک ستمبر کی 29 ، یا 30 تاریخ تھی ، لیکن اماں جی نے سواۓ صدقے خیرات دینے کوئی ایسی خوشی نہیں دکھائی جو اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر ظاہر کی جا سکتی ہے ، دراصل وہ بیٹے کے معاملے میں ایسی تھیں کہ اسے نظر بھر کر بھی نہ دیکھتیں کہ کہیں نظر نہ لگ جاۓ ۔البتہ بڑے بھائی جان کے آنے پر اماں جی کے چہرے پر شکرگزاری کا تاثر گہرا تھا ، ، اور پھران کی دبی بیماری عُود کر آئی اور کچھ دن کے لۓ ہسپتال داخل رہیں ! جیسے وہ سب کی توجہ اپنے سے ہٹاۓ ہوۓ تھیں لیکن اب برداشت ختم ہو گئی تھی !۔
جنگِ ستمبر گزر گئی قریباً مہینہ گزر گیا ، تو " نواۓ وقت " اخبار میں کسی ماہر سائیکالوجسٹ کی طرف سے ایک پیغام چھپا کہ جنگ سے متعلق جس کسی کو جو خواب آۓ ہوں یا کسی قسم کی چھٹی حِس نے کچھ احساس دلایا ہو تو ہمیں لکھیں ، اور میں نے تو اس خواب کا ذکر بھی کسی سے نہیں کیا تھا ، کجا وہاں لکھ بھیجتی ، جب کہ عمر کا وہ دور ، 14 ،15 سال کا ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہر بات میں جھجک محسوس ہوتی رہتی ہے ! جب اس اشتہار کو پڑھا تب اماں جی کو بتایا ، تو انھوں نے اِن کریج بھی کیا کہ لکھ کر بھیج دو ، لیکن ،،،، نہ بھیج سکی۔
جنگِ ستمبر میں لاہور ، دشمن کا اصل ٹارگٹ تھا اور اس کے جنرلز نے یہاں کے " جم خانہ کلب " میں جامِ کامیابی پینے تھے ! اسی لۓ وہاں کے شہریوں نے جنگ کے دوران چلنے والے توپوں کی خوب گھن گرج سہی تھی ، بہت سے لاہوری خاندان اپنے اپنے طور پر دوسرے شہروں میں چلے گۓ تھے ، انکل اور آنٹی رشید کے گھر ان کی بہن اپنے چھ بچوں سمیت ، اور انکل کے رشتہ دار آگئے یہ قریبا" 17 ، 18 دن رہے ، آنٹی نے جس طرح ان سب کو سرآنکھوں پر بٹھاۓ رکھا ، وہ بےمثال ، مثال تھی ، آنٹی نے ایک چکر سکول کا بھی لگانا اور پھر ان ڈھیر مہمانوں کے لۓ سالن وغیرہ خود آکر بنانا ،،، ان کی مہمان نوازی نے ہم سب کو بہت متاثر کیا ، کاش آج کے ہم لوگ اتنے ہی ظرف والے بن جائیں ، کیوں کہ یاد رکھیں "مہمان" کہتے ہی اسے ہیں جو ایک نا ایک دن چلے جانے والا ہوتا ہے ۔ لیکن اسے اس گھر سے ملنے والا برتاؤ کبھی نہیں بھولنے والا ہوتا،کہ اچھا تھا یا برا ، تحفظ ملا یا بےزاری ملی ۔ یہ رویہ ہماری ذات کی تربیت ، ہماری فطرت کی عکاسی کرتا ہے ، کرتا رہے گا ،،، آپ کتنا بھی یہ کہتے رہیں ، مجھے کسی  کی پرواہ نہیں ، مجھے کسی شخص سے میڈل نہیں لینا ،،، نہ لیں میڈل !! لیکن آپ کا ضمیر آپ کو کچوکے لگاتا رہتا ہے ۔ ایک عجیب سی سختی ہمارے خدوخال میں ٹھہر جاتی ہے ، اور سب سے بڑھ کر کیا اللہ نے ہم سے کبھی کوئی سوال جواب نہیں کرنے !!!!۔
( منیرہ قریشی 2 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں