منگل، 17 اکتوبر، 2017

یادوں کی تتلیاں ( 31)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 31)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کے دوستوں میں ایک نمایاں نام " چودھری غلام اکبر" ہے ۔ 1951ءمیں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے روز جس پولیس عملےکی اس جلسہ گاہ میں ڈیوٹی تھی ، ان تمام کو  تحقیقاتی ٹیم کے سامنےمہینوں گزرنا پڑا ، اس ٹیم کےممبرز میں اباجی بھی شامل تھے ، اس دوران یہ ساری  پولیس ٹیم معطل تھی ،چودھری غلام اکبر کے بیانات میں ایسی کلیئرنس تھی کہ ، وہ سال بھر کے بعد چند اور پولیس افسران کے ساتھ بحال ہو گئے ، لیکن یہاں دوستی کا بھی ایک دروازہ اور کھل گیا ۔ اور جب جب یہ دوستی آگے بڑھی ، دوستی کی وہی بےمثال ، روایت ڈلی جس کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ ان کی فیملی میں اس وقت 3 بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ، انکی رہائش ہمارے گھر سے دو تین گلیاں چھوڑ کر تھی ،ہمارے گھر  خالہ جی کا ایک چکر دن بھر میں  لازماً لگتا ، اور کوئی نا کوئی مشورہ یا دل کی بات کہتیں اور چلی جاتیں ۔چودھری صاحب اب ہمارے لیے چاچا جی تھے ، ان کے گھر آنا جانا ہوا تو معلوم ہوا وہ پیچھے سے اچھے خوشحال زمیندار تھے لیکن ابھی سب کچھ مشترکہ حساب چل رہا تھا ، اس لیے فصل کے علاوہ پیسے کی کوئی " آمدن " نہ تھی اور ان کے گھر سے بہت واضح تھا کہ یہاں واقعی " رزقِ حلال " آرہا ہے اور گھر کے اخراجات بہ مشکل چل رہے ہیں ۔ ان کے ایک بیٹی شمیم سب سے بڑی اس کے بعد بیٹا غلام ربانی اور ان کے بعد ہم دونوں بہنوں کی طرح اوپر تلے کی دو بیٹیاں ، نسیم اورکلثوم تھیں یہ ہی دونوں ہماری بھی ایسی سہیلیاں بنیں ،کہ اب ہم مر کے ہی بےتعلق ہو سکتے ہیں!۔
۔" چودھری چاچا جی " گوجر خان سے آگے ایک گاؤں کے تھے،ان کا قد 6 فٹ سے اونچا،صاف رنگ اور بارعب ، پُرکشش نقوش کے حامل تھے، وہ صحیح معنوں میں، فوج یا پولیس کے لیے ہی فِٹ تھے کہ وردی میں ان کی شخصیت کا رعب بڑھ جاتا اور بندہ متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکتا ۔،، جبکہ خالہ جی ان کے مقابلے میں اتنی لمبی اور گوری بھی نہ تھیں ،،، لیکن گھر کو جس طرح وہ چلا رہی تھیں یا بچوں کی تربیت بہ احسن کر رہی تھیں ان خوبیوں نے چاچاجی کو گھر سے مکمل بےفکر کر رکھا تھا۔ چاچاجی کی والدہ،ان کے گھر جب گاؤں سے آتیں تو ہمارے گھر کے چکر ضروری ہوتے ، میں انھیں بہت غور سے دیکھتی اور بہانے بہانے دیر تک ان کے پاس بیٹھی رہتی ، وہ اچھے قد کی، صاف رنگت ، بالکل سفید گھنے بالوں والی اور سفید ہی کپڑے پہننے والی ایسی خاتون تھیں ، جو دیہات کی کہانیوں کا ایک دبنگ کردار ہو ، مجھے ان کی بہت تفصیل کا علم نہیں ، لیکن اتنا معلوم ہے کہ بےشمار زمینوں کی دیکھ بھال ، میں انہی کا دبدبہ چلتا تھا ، وہ اماں جی سے ملنے آتیں ،دیر تک بیٹھتیں ۔ چاچاجی کی اباجی سے محبت کا حال ہی تھا کہ گھر کا کوئی بھی معاملہ ہوتا ، میجر صاحب سے مشورہ لینا ہے یا کوئی بڑی خریداری کرنا ہے وغیرہ،،، وقت گزرتا گیا اور چاچا جی کی اپنی ترقی بھی ہوتی گئی ، جب وہ ایس،پی بنے تو تین سال کی ڈیپوٹیشن پر انھیں فیملی سمیت "تُرکی " رہنے کا چانس ملا، تین سال بعد پاکستان واپس آۓ ،تو مجھے باقی افرادِخانہ کایا دنہیں ،لیکن میرے لیے ایک خوب صورت ، سنہری جلد والا البم اور کمرے میں لٹکائی جانے والی تین رنگین پینٹنگ والی سٹیل کی گول پلیٹس لاۓ ، اور سب سے زیادہ اہم " ٹرکش ڈیلائیٹ " کا ایک بڑا ڈبہ ،،، اور یہ ترکی مٹھائی ہم نے پہلی دفعہ دیکھی اور کھائی ! جس کا ذائقہ مدتوں یاد رہا ،،،، اتنی تفصیل سے ان تحائف کا ذکر اس لیے کر رہی ہوں کہ ایک تو وہ دلی محبتوں کے ساتھ غیر ملک سے لاۓ گئے تھے ، دوسرے اس دور میں جب میں شاید میٹرک میں تھی ،اور بہت سے غیر ملک سے رہنے والے رشتہ داروں کی طرف سے بھی ایسی نوازش دیکھنے کو نہیں ملی تھی ، یہ تحائف تو صرف میرے تھے ، اماں جی اباجی کے لیے الگ پیکٹ دیئے گئے ،آنے کے کچھ عرصہ بعد چاچاجی کی مزید ترقی ہوئی اور وہ ڈی آئی جی بن گئے ، چوں کہ ہم واہ میں اور وہ پنڈی میں رہائش پذیر تھے ، اور دونوں دوستوں کی اپنی پیشہ وارانہ مصروفیتیں بھی سخت تھیں ، اس لیے ملنا ملانا کم ہو گیا ، تُرکی سے آتے ہی میری سہیلی جو نسیم سے چھوٹی تھی ،، کی شادی اپنے دور کے رشتہ دار سے کردی گئی جب کہ وہ ابھی میٹرک سے فارغ  ہوئی تھی ! جس کا ہمیں افسوس سا ہوا ،،، کہ ایسی بھی کیا جلدی تھی ، یہ دونوں بہنیں آپس میں جُڑواں بہنوں کی طرح ہم مزاج تھیں ، دونوں حددرجہ " حسِ مزاح " رکھنے والیاں ، اور زندہ دل تھیں ،،، کلثوم کی شادی چونکہ جلدی میں اور اپنے گاؤں میں کی گئی تھی جس میں ہم شرکت نہ کر سکے ، بعد میں کسی موقع پر اس کے شوہر کو دیکھا تو ہمیں یہ فیصلہ کچھ اچھا نہیں لگا کہ وہ اس نئی نئی میٹرک پاس لڑکی سے 17،، 18 سال بڑا تھا ، وہ انگلینڈ کا رہائشی تھا ، کلثوم کے کاغذات مکمل ہوۓ اور چند ماہ بعد وہ بھی سدھار گئی ،، پھر نسیم کی شادی ایئر فورس آفیسر سے ہو گئی ، ربانی بھائی نے اپنی پسند کی شادی کر لی ،،، باقی ایک بیٹا اور بیٹی جو لیٹ ایج میں ہوۓ تھے ، وہ بھی جوان ہو گئے، خالہ جی کی زندگی میں وہ ان دونوں کے فرائض سے بھی فارغ ہو گئیں اورجیسے ہی انھوں نے یہ فرائض پورے کیے ، وہ معمولی بیماری کے بعد ، اپنے خالقِ حقیقی کے پاس اپنی تھکن اُتارے چلی گئیں ! ! یہ مائیں بھی ایسے موقع پر اپنی سیٹ خالی کر دیتی ہیں ، جب ان کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ سب اس رب کا لکھا ہے ،جس کے سامنے کسی کا زور نہیں !۔
چاچاجی نے پنڈی میں ایک دو منزلہ گھر بنوا لیا تھا ، ریٹائر ہونے کے بعد اسی میں شفٹ ہو گۓ اور آخری دونوں بچوں کی شادیاں اسی گھر میں کیں ۔ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بہت حسین تھا ، اتفاق سے اسے بھی پولیس کی نوکری مل گئ ، باپ کی طرح اُونچا لمبا ،،اکثر ماں باپ کو سب سے چھوٹی اولاد بہت پیاری ہوتی ہے۔ وہ بھی آنکھوں کا تارہ تھا ، بڑا بیٹا اپنی دنیا میں مگن کراچی شہر میں ۔۔ خالہ جی کی وفات کے بعد چاچاجی نے کچھ سال اکیلے گزارے ،لیکن جلد ہی ہمت ہاری اور کسی کے توسط سے ایک 35،40 سال کی خاتون سے شادی کر لی ، اب چوں کہ ریٹائرڈ زندگی تھی ، فراغت بھی تھی ، وہ اپنی گاڑی میں نئی بیوی کے ساتھ اکثر ہمارے گھر آتے اور دو ، تین دن رہ کر چلے جاتے، چاچاجی ایک مرتبہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے ٹانگ تڑوا بیٹھے تھے، اور اب اس ٹانگ میں راڈ ڈلا ہوا تھا اور وہ ہا تھ میں چھڑی پکڑے رکھتے ،لیکن اس بڑھاپے میں بھی وہ بہت بارعب اور خوب صورت لگتے بلکہ ایک مرتبہ میں نے انھیں کہا " چاچاجی ، کچھ لوگوں پر ٹوٹ کر جوانی آتی ہے آپ پر تو ٹوٹ کر بڑھاپا آیا ہے " اس کمنٹ پر بہت ہنستے رہے ، لیکن خوشیوں اور اطمینان کے دن سدا نہیں رہتے،،،،یہ شادی شاید 6،7 سال چلی اور یکدم سننے میں آیا کہ ختم کردی گئی ،،، اب اُن کے اکیلے رہنے کے دن نہیں تھے ، ان کا ایک وفادار ملازم بہت عرصہ ان کا ساتھ دیتا رہا لیکن آخرکار وہ بھی اپنے گاؤں چلا گیا اور چاچاجی بہ حالت مجبوری چھوٹے، لیکن نہایت لاڈلے بیٹے کے پاس آگئے ، واحد گھر جو اپنی کمائی سے بنایا تھا دوسری شادی کے بعد بک چکا تھا ، اور اس بات کا بیٹے کو بہت دکھ تھا، شاید یہ ہی مال کا فتنہ درمیان میں آ گیا اور بدسلوکی اور ناگواری کا تکلیف دہ دور گزرنے لگا ،،،،،، پولیس کا ڈی آئی جی جو اپنی بہترین پینشن پر گزارا کر سکتا تھا ،، محض بچوں کی قُربت کے نکتۂ نظر سے ان کے پاس آگیا تھا ، اور یہاں اچھوت ہو کررہ گیا ،، !!۔
اس اکلاپے کے دور میں بھی وہ آتے تو اباجی انھیں ایک ایک ہفتے کے لیے روک لیتے ۔ یہاں بھی اماں جی کو فوت ہوۓ مدتیں گزر چکی تھیں ،اس لیے بھی وہ بےفکر ہو کر کچھ دن پرانی یادوں کو دہراتے اورمیں ہی ایک ایسی خدمت گار تھی جو خاموشی سے اکثر انھیں باتیں کرتے دیکھتی اور غور بھی کرتی کہ " زندگی آخر کس چیز کا نام ہے "؟ لیکن میں اباجی کے سب بوڑھے دوستوں کی کمپنی سے کبھی بور نہ ہوتی ، ، ، ( میری زندگی دراصل بچپن سے ڈائرکٹ بڑھاپے کو کوچ کر گئی تھی اور میری سوچ میں، میری پسند میں ، میرے ارادوں میں بڑھاپے کے نمایاں اثرات آنے لگے تھےِ۔اماں جی کی وفات نے مجھے گھر کی بڑی بنا دیا تھا اور میں نے یہ عہدہ بہ خوشی قبول بھی کر لیا تھا !) اب چاچاجی آتے تو میں ان سے گپ شپ لگاتی۔جو کچھ سیاسی کچھ مذہبی ، مو ضوعات پر ہوتیں ! اگر اُن کی عینک کے شیشے مجھے گندے محسوس ہوتے تو خاموشی سے اتارتی اور انھیں دھو کر خوب چمکا کر پہناتی ، تو وہ صرف اتنا کہتے ، "دیکھا یہ بیٹیاں ہی ہوتی ہیں جو اتنا باریکی سے ہمارا مسئلہ دیکھ لیتی ہیں " یہ کہتے ہوۓ ان کی آنکھوں کی نمی میں دیکھ لیتی اور جلدی سے موضوع بدلا لیتی !!!!!۔
چاچاجی کی بیٹی نسیم اگرچہ تیسرے نمبر پر تھی لیکن اپنی ذہانت ، کچھ کر گزرنے کی صلاحیت کی بنا پر نمبر ون بن گئی ، نہ بڑی بہن ، نہ بڑے بھائی میں وہ " گٹس"تھے، جو ایک باپ کو سنبھالنے کی سعادت حاصل کرتے ! اور چاچاجی کو نسیم اپنے آرام دہ گھر میں زبردستی لے آئی۔اس معاملے میں سلام اس کے میاں کو جس نے یہ اعلیٰ جملہ کہا " اپنے والد کو اپنے پاس رکھو ،، ماں باپ ،، صرف ماں باپ ہوتے ہیں ،چاہے وہ بیوی کے ہوں یا شوہر کے،،،" کاش یہ سوچ ہر داماد کی ہو تو بےشمار والدین اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بچ جائیں۔
چاچاجی کی اپنی پنشن اتنی تھی کہ نسیم نے دو نوکر رکھے جن میں سے ایک دن کے لیے اور ایک رات کے لیےتھا ، چاچاجی اتنے بیمار شاید نہ تھے جتنا اس احساس نے انھیں ڈیپریشن میں ڈالے رکھا کہ میرے لیے بیٹوں کے پاس محبت کے دو بول بھی گم ہو گئے  ہیں !،،،،،لیکن بیٹی کی محبت ، اورخدمت نے ان کے آخری 10 ، 12 سال آرام دہ اور پُرسکون بناۓ ، رکھے آخر کا ر اس شاندار انسان کی کہانی ختم ہوئی ، ،،، اُس بیٹی کواللہ نے اس خدمت کا صلہ ایسا دیا کہ دولت ، عزت ، محبت ، سبھی نعمتوں سے نوازی گئی ۔ اس کی ساری اولاد کامیاب ہوئی ، اصل چیز دل کا اطمینان اور نرم دلی ہے ! جو ان دونوں میاں بیوی کے حصے میں آگئی ہے۔ 
( منیرہ قریشی 17 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں