پیر، 23 اکتوبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (34)۔۔

یادوں کی تتلیاں "(34)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہر انسان بہت سے رشتوں کی ریشم ڈوریوں کے جال میں جکڑا ہوتا  ہےاور یہ جال زندگی میں تو کیا مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتا ،،، میری تحریر بالکل عام ، روزمرہ واقعات سے مزین ہے، لیکن کچھ کردار جو ان یادوں کا حصہ بھی ہیں وہ خصوصی طور پر لطف لے رہے ہیں ، لیکن دیگر اور قارئین نے بھی جس طرح حوصلہ افزائی کی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لکھتی چلی جارہی ہوں اور واقعات فلم کی سکرین پر خود بخود آتے چلے جاتے ہیں ، ایسا میرے ساتھ نہیں ہو رہا ،جو بھی " عمرِ رفتہ کو آواز" دیتا ہے اسے ایسی ہی صورتِ حال کاسامنا ہوتا ہے ، اور یہ ایک قدرتی عمل ہے !۔
۔1970ء میں ہمارے پڑوسی انکل اور آنٹی رشید کی سب سے بڑی بیٹی تسنیم کا رشتہ طے ہوا ،اور ہم دونوں بہنیں اور تسنیم کی تینوں بہنیں ، جوش و خروش سے تیاریوں میں مصروف ہو گئیں ، یہ ہمارے لیے" بگ ایونٹ " تھا ، شاہدہ ، جوجی اور میں نے ایک دن کے فنگشن کے لیے غرارے سلواۓ، تسنیم رخصت ہو کر پشاور چلی گئی ، شادی کے ہنگاموں سے فرصت ملی، تو لگا ہمیں کوئی کام ہی نہیں رہا ۔ ایک دن شادی کے کپڑوں میں سےغراروں کو دیکھ کر خیال آیا ،،، چلو ان کو پہن کر ایک یادگار تصویر کھچوائی جاۓ ، ان دنوں کیمرے یوں گھر گھر نہیں ہوتے تھے ، بلکہ ایک ٹوٹا پھوٹا کیمرہ بھائی جان کا تھا جو اب ہمارے پاس ہوتا تھا، وہ بھی کوئی اچھی سروس نہیں دے پا رہا تھا تو فیصلہ ہوا ، فلاں مارکیٹ میں ، ایک فوٹو گرافر کا سٹوڈیو ہے وہیں سے کھنچواتی ہیں ، غرارے پہنے گئے ، ہلکی سی لپ سٹک لگائی گئی ، کنگھیاں کیں اور صوفی جی کو بُلا کر اپنی ووکس ویگن میں عین دوپہر کو فوٹو گرافر کی دکان میں پہنچ گئیں ، ( کہ یہ وقت رش والا نہیں ہے اس لیے ابھی چلتے ہیں ) اس کے فضول سے سٹوڈیو میں گُھستے ہی ہم کچھ بوکھلا گئیں کہ ایک تو وہ بہت  "چیپ"سے اندازمیں سجا ہوا تھا ایک ،دو لوگوں کے بیٹھنے کی چھوٹی سی" تھی ، جس کے گرد کاغذی پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں جن پر گرد بھی تھی ، اب ہوا یہ کہ فوٹوگرافر بھائی صاحب اندر داخل ہوۓ تو ، ہم تینوں نے پہلے اسے پھر آپس میں دیکھا ، اور مارے ہنسی کے ہم فوری طور پر سٹوڈیو سے باہر نکل، کا رمیں آبیٹھیں اور اتنی کھل کر ہنسیں کہ صوفی جی پریشان ہو گئے کہ کیا ہوا ہے ؟ ہم نے انھیں تسلی دی ! اور جب ہماری ہنسی کنٹرول ہو گئی تو دوبارہ سٹوڈیو میں داخل ہوئیں اور کوشش سے سنجیدگی طاری کر کے اسے فوٹو کھچوانے کا کہا ، اصل میں اُن دنوں وحید مراد سٹائل بہت مقبول تھا ۔فوٹو گرافر کا قد چھوٹا ، سانولا رنگ ، خوب سُرمہ آنکھوں میں ، اور وحید مراد سٹائل کے بال ، اور زیادہ سے زیادہ وہ ہم سے تین ، چار سال بڑا ہو گا ، اس لیے  ہم اسے سیرئیس نہیں لے رہی تھیں ، اب جوں ہی اس نے ہمیں اس کارنر میں کھڑا کیا جو سجاوٹ ذدہ نہ تھا ، جوں ہی وہ کہتا' " اسمائل پلیز " (سمائل نہیں) ،،،،اور ہم تینوں قہقہے لگا کر کر دہری ہو جاتیں ،، ایسا بلا مبالغہ چھے ، سات مرتبہ ہوا ( آپ اس سچویشن کو ذہن میں لائیں اور تین بےوقوفی کی عمر والیاں ہوں ، جس میں ہنسنے کی بات ہو نا ہو ہنسی ہوتی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی ، اب اس وقت جب میں لکھ رہی ہوں تو بھی میرے لیے کچھ دیر ہنسی نہیں رُکی ) آخر کار بہ مشکل دو تصویریں اُتریں ،،، اور ہم بھاگیں ، اسے بتا دیا یہ ہی صوفی جی ( اباجی کے ڈرائیور ) آئیں گے انھیں فوٹو دے دینا ، اپنا بل بھی بھجوا دینا ! ! !۔
اگر ہمارا بچپن ایسے والدین کے کے زیرِ سایہ گزرے جو گھر کے ماحول کو بہتر رکھنے کے لیے  اپنے اختلافات کے باوجود، محض بچوں کی خاطرآپس میں خوشی سے رہیں ، گلے شکوے اور شکایتوں کے ڈھول نہ پیٹیں ، انھیں سہیلیوں کو بلانے ، ویلکم کرنے کا ماحول دیں گے تو ،،،، بیٹیوں کے ہونٹوں پر بےاختیار ہنسی آتی رہے گی ،،، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مزاح کا رنگ ، انگ نکال ہی لیں گی ، اور اس طرح جب وہ لڑکیاں عملی زندگی کی اُلجھنوں ، اور نشیب وفراز سے تھک جاتیں ہیں اور کبھی اکٹھی ہو جائیں تب ان کے پاس ہنسی کی پٹاری کُھلتی ہے ،، وہ تادیر معمولی معمولی باتوں کو یاد کر کے ہنستی ہیں اور خون میں ملٹی وٹامن لے کر پھر گھروں کے کاموں میں کولہو کا بیل بن جاتی ہیں۔لیکن پرانی سہلیوں کی ملاقات سے  "چارج " ہو جانے سے روزانہ کی روٹین میں جلترنگ بجا دیتا ہے ! ہمیں اپنی بیٹیوں کواتنا خوش گوار ماحول ضرور دینے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان کو ہنسنے کی عادت ہو ، یہ ہی ان کے لیے مینٹل تھیرپی ہوتی ہے ، کیا پتہ آگے چل کر زندگی اُن کو کتنے کڑوے گھونٹ پلاۓ ،، کیا پتہ وہ کتنے ہی ناقابلِ حل مسئلوں کے گھن چکر میں پستی رہے ،،، اور وقت سے پہلے " بڑی " ہو جائیں ۔ یہ ہی ماں باپ کے گھر کا بےفکری کا ماحول ، بےفکری کی ہنسی ، بےفکری کے دن رات بہترین اور پیاری یادیں بن جاتی ہیں اس خزانے کا بکس جب بھی کھولنے کا موقع ملتا ہے تو اپنے والدین کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنھوں نے ہمیں پُرسکون بچپن دیا تھا جو ہو سکا لاڈ اُٹھاۓ ۔( یہ مشہور تصویر جوں ہی ملی شامل کر وں گی )۔
بےاختیار ہنسی آجانا ، یا کسی بھی سچویشن میں جب ہماری نظریں ملتی ہیں تو ہنسی پر قابو نہ رہ سکنے کی عادت آج بھی موجود ہے ، ، اب جب کہ ہم " بوڑھی اور ذرا معزز " ہو گئیں  ہیں ، تو کبھی کبھی کوئی نہایت معمولی بات کچھ ایسی ہی صورتِ حال بنا دیتی ہے ،،، ایک دن ہمارے آفس میں دو پراپرٹی ڈیلر آۓ ۔ ایک پرانا واقف تھا جو دوسرے کو ساتھ لے کر آیا ۔ وقت کم تھا ہم نے اسے کہا آپ اپنا موبائل نمبر لکھادیں ، ہم آپ  کو خود بلا لیں گے اس نے اپنا نام ۔۔۔چیمہ لکھوایا، میں جلدی میں تھی متوجہ ہوۓ بغیر ڈائریکٹری میں اس کا نام " شفقت چیمہ " لکھ دیا( جو پاکستانی فلموں کا مشہور ولن ہے) کچھ ہفتے گزر گئے ، ہمارے نہ بلانے پر وہ  خود دوبارہ آگیا ، اس وقت "جوجی" بھی بیٹھی ہوئی تھی ، اس نے کہا میں نے آپ کو اپنا نام بھی لکھوا دیا تھا آپ نے مجھے یاد نہیں فرمایا میں خود ہی حاضر ہو گیا ہوں ! میں نے اسے دکھانے کے لیے اپنی ڈائریکٹری کھولی اور کہا " یہ دیکھیں آپ کانام لکھا ہوا ہے " شفقت چیمہ " !! اس نے حیران ہو کر کہا نہیں جی میرا نام ،،،،،، چیمہ ہے ،اب میں نے جوجی کی طرف اور اس نےمجھے ایسی مسکراہٹ سے دیکھا کہ ہم نے بمشکل ہنسی روکی اور میں نے اسے مخاطب ہو کر کہا " جی جی شفقت چیمہ صاحب میں نے آپ کا نام لکھ لیا ہے یہ جملے دوبارہ اسی غلطی کے ساتھ میں نے اتنا بےاختیار کہا کہ اب ہم دونوں نے ہنسی روکنے کی کوشش میں ، منہ لال اور آنکھوں سے آنسو نکال لیے۔ ،،، وہ بھی سمجھ گیا ہوگا "آج اِن بوڑھی خواتین کا سنجیدہ رہنے کا موڈ نہیں لگ رہا " وہ رخصت ہو گیا۔
ایسے ہی تو نہیں کہا گیا " ہنسی علاجِ غم ہے یا ۔۔۔
"laughter is a best medicine"
( منیرہ قریشی 23 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں