جمعرات، 12 اکتوبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " ( 28 )۔

یادوں کی تتلیاں " ( 28 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جیسا میں نے ذکر کیا ، کہ سی بی کالج ایک کامیاب کالج تھا ، اس کے مقابلے میں گورنمنٹ کالج سکستھ روڈ تھا اور ہے ! میری چھوٹی بہن اِسی کالج میں بی ایس سی میں داخل تھی،اس کی پرنسپل مشہور ومعروف ماہرِتعلیم ڈاکٹر کنیز فاطمہ تھیں۔ان کے فوراً بعدہمارے پسندیدہ ادیب ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کی بیوی آئیں ، وہ ڈسپلن کےسختی سے نفاذ کی قائل تھیں ،،، جبکہ سی بی کالج کی پرنسپل مسزسلمیٰ خواجہ ، ذرا نرم اور کالج میں نت نئے مقابلے اور، تفریح کے مواقع فراہم کرنے والی تھیں ، یہاں کی یونین بھی مضبوط اور مشہور تھی ۔ اس کی سیکریٹری یا صدر کا نام " نویدہ " میرے ذہن میں رہ گیا ہے۔وہ خوب صورت اور بہترین  مقررہ تھی۔ شاید ہی کبھی کسی  تقرری مقابلے میں خالی ہاتھ آئی ہوگی ۔مجھے یادوں کے باغ میں جب داخلے کا وقت ملتا ہے ، تو بہت سے کردار میرے قریب سے گزرتے چلے جاتے ہیں،کسی کردار کی آنکھوں میں اداسی اور کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی ہوتی ہے ،کسی کی آنکھوں میں عجیب سی شکایت اور کسی کردارکے رویے میں بےزاری ہوتی ہے ، ،،،،،،، مجھے لگتا ہے جب انسان کا آخری وقت آتا ہوگا تو وہ ایسے ہی کسی باغ میں سے تیزی سی گزارا جاتا ہوگا اور ، سب ایسے لوگ جو اسے کبھی ملے ، تیزی سے جھلک دکھلا کر گزرتے چلے جاتے ہیں ، جیسےفاسٹ فارورڈ فلم چلادی گئی ہو !۔
چونکہ سائیکالوجی میرامضمون تھا ، تو ایک سال اس مضمون کی طالبات کو لاہور جانے کا موقع ملا ، اس ٹرپ میں قریبا" 20 ،22 لڑکیاں گئیں ، اور شاید 5 ،6 ٹیچرز تھیں۔وہاں ہمیں کہاں ٹھہرایا گیا تھاِمیری یاد سے محو ہو گیا ہے ! ،، کیوں کہ میرے بھائی جان ان دنوں لاہور میں  تعینات تھے، وہ مجھے ملنے ، بلکہ لینے آگئے کہ تم اپنی سہیلی ( پڑوسی شاہدہ )کے پاس رہنا چاہو تو رہ لینا ،کیا پتہ یہاں تم بہت آرام دہ نہ ہوسکو ! انچارج ٹیچر سے اجازت لے کر وہ مجھے شاہدہ کے پاس پنجاب یونیورسٹی لے آۓ ، جو وہاں باٹنی میں بی ایس سی آنرز کر رہی تھی اسے جو کمرہ ملا تھا،اس میں اس نے بہت خوش دلی سے استقبال کیا، بھائی جان ہمیں کھلانے پلانے لے گئے ، اگلے دن صبح بھائی جان آۓ اور مجھے کالج کے گروپ کے پاس چھوڑا ، آج کا دن لاہورکے مشہور " مینٹل ہاسپٹل " ( جسے پاگل خانہ کہا جاتا ہے ) کا  دورہ کرنا تھا ،، جب ہم وہاں پہنچیں،تو بہت اونچی دیواروں کے اندر گاڑی داخل ہوئی۔ اور ایک طرف انچارج ڈاکٹرز کے کمرے تھے ، وہ اچھی طرح ملے، اور انھوں نے ہمیں گائیڈ کیا کہ آپ کو ذرا کم ، کچھ زیادہ ، اور کچھ بہت زیادہ " وائلڈ " مریض نظر آئیں گے ، آپ نے خود کو پُرسکون رکھنا ہے ۔ ہمارا عملہ ساتھ ساتھ ہو گا لیکن اپنی طرف سے آپ لوگ کوئی اشتعال دلانے کی کوشش نہ کرنا ،،، وغیرہ ! ہم لوگ بھی الرٹ ہو گئیں ۔ ٹیچرز اور طالبات دو دو ، تین ، کی صورت چلتے گئے، مجھے چند مناظر کبھی نہیں بھول پاۓ ، شروع میں ذہنی کم اور جسمانی زیادہ معذور خواتین کا تعارف ہوا ،،،اور آگے قطار میں کمرے بنے ہوۓ تھے جن کے ایک طرف موٹی سلاخوں والا بڑا دروازہ تھا کوئی کھڑکی نہ تھی ، یہ بالکل ایسے ہی تھے جیسے چڑیا گھر میں جانوروں کے پنجرے ۔ ( یہ 1970،71ء کی بات ہے ، اب اگر کچھ تبدیلی آگئی ہو تو علم نہیں )۔ ان پنجروں یا کمروں میں ، بہت باتیں کرنے والی ، کچھ بالکل گم سُم ، کچھ جوان اور کچھ ادھیڑ عمر خواتین تھیں۔ہر کمرے میں ایک ہی عورت تھی،،،، ان سب میں جو کردار میری یاد میں رہ گئی وہ ، انتہائی خوب صورت کافی جوان 25 ،26 سال کی لڑکی تھی۔ وہ بالکل بےلباس تھی اور وہ مسلسل مسکراۓ جارہی تھی ، اس نے مریضوں کو دیئے گئے سُرخ کمبل کے بے شمار ٹکڑے کیۓ ہوۓ تھے ، ٹیچر نے اس کی لائف ہسٹری پوچھی تو ، جو مجھے یاد ہے وہ مقبوضہ کشمیر سے آئی ایسی لڑکی تھی جو ہندو فوجیوں کے ہتھے چڑھی اور بہت بری حالت میں ، لواحقین کو ملی ، کسی طرح بارڈر کراس کر کے وہ لوگ یہاں آۓ وہ جب ہوش کی دنیا میں آتی ،بہت بےقابو ہو جاتی اور اپنے کپڑے پھاڑ دیتی ، ظاہر ہے ایسے حالات میں آئی فیملی کے اپنے کتنے ہی مسائل ہوں گے ، کہ وہ اس کے علاج یا اسے سنبھالنے سے عاجز آگۓ، اور کسی طرح یہاں چھوڑ گئے،پھر پلٹ کر نہیں آۓ اسے وہاں سال ڈیڑھ ہوا تھا ،،،،اس کی چمکتی آنکھیں، گلابی رنگ، پیارے نقوش ، میرے ذہن میں جیسے چھَپ سے گئے ہیں ،،، میں دنوں نہیں ، "سالوں " اُداس رہی ، مجھے جب بھی یہ وزٹ یاد آتا ، میری یادوں کے کونے میں وہ حسین مجسمہ، لمحے بھر کے لیے چمک جاتا ، اور مجھے بہت اداس کر جاتا ہے۔ مجھے انسانیت کے جذبے کا پرچار کرنا ، اس پر عمل کرنا وغیرہ وغیرہ اچھا لگتا ہے ، معاف کرنا ، نئے سرے سے تعلقات استوار کرنا، یہ سب بہت سطحی باتیں لگتی ہیں۔سبھی جرم قابلِ نفرت ہوتے ہیں لیکن کچھ جرائم تو ناقابلِ معافی بھی ہوتے ہیں جب کسی عورت یا بچےکے معاملے میں اس کی عصمت کی ذلت کرنا سنتی ہوں، میں اسے ناقابلِ معافی جرم سمجھتی ہوں ، مجھے سمجھ نہیں آتی مرد اپنے سے کئی درجہ جسمانی کمزور مخلوق کو اس طرح اذیت دے کر کس بہادری کا ثبوت دیتا ہے ؟ ،،،،، آگے چل کر ہمیں ایک کافی بڑے کمرے میں لے جایا گیا،جہاں پڑھے لکھے  یا ٹیلنٹڈ مریضوں کے ہاتھ سے بنی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔مجھے چونکہ تصاویر کا شعبہ پسند تھا ، وہی دیکھیں ، بتایا گیا یہ سب براۓفروخت ہیں اور انہی مریضوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ سب نے ہی کچھ نا کچھ لیا اور میں نے ہلکے رنگوں میں میں بنی ایک تصویر خریدی ، جس میں شاید لاہور یا اس سے ملتے کسی اور شہر کےکونےکے منظر کو بنایا گیا تھا،اس میں ملگجی شام تھی۔ٹرین کی پٹڑی تھی اوراس کے گرد بہت بدحال جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں ! اس خریداری کے بعد ہم واپس آگئے ، وہاں کافی صفائی کا خیال رکھا گیا تھا ، پورے اس ایریے  میں کوئی دوا ایسی ڈالتے ہوں گے جو جراثیم کش ہو گی ! لیکن اس کی بُو مہینوں دماغ میں بسی رہی ،، وہاں سے آنے کے بعد مجھے نہیں معلوم کسی اورپر کیسا اثر ہوا لیکن میں عرصہ تک ڈیپریشن میں رہی ، شاید یہ نوعمری کا حساس دور ہوتا ہے ، یا میں بہت حساس تھی،میں نے وہ تصویر سال ہا سال اپنی الماری میں رکھی ، دیوار پر نہیں لگائی ، لیکن جب فرصت سے ہوتی تو بہت دیر اس کو لے کربیٹھی رہتی۔ میں نے وہاں کے متعلق اماں جی کو تفصیل سے بتایا ،، انھوں نے بہت خاموشی سے سب تفصیل سن کر صرف اتنا کہا " اللہ کی ہر نعمت کا ہر لمحہ شکر ادا کیا کرو ،، اور ان محروم لوگوں سے نہ کبھی نفرت کرو ، نہ ان کامذاق اُڑاؤ " اماں جی اس طرح نصیحت کرتیں کہ اس بات یا نصیحت میں وزن ہوتا۔ 
ہمارا بچپن جس گھر میں گزرا میں نے اس گھر کا مکمل نقشہ ایک قسط میں لکھا ہے ، اس گھر کا کھانے والا کمرہ اچھے سائز کا تھا وہاں کھانے کا درمیانے سائز کا میز اور چھے کرسیاں تھیں ۔ ایک طرف اتنی جگہ خالی بچ گئی تھی کہ چارپائی بچھی رہتی اور اس پر ہلکا سا بستربھی بچھا رہتا ، مہمانوں کی آمد پر اس چارپائی کو ہٹا دیا جاتا ، عام دنوں میں جو بھی اردلی ان دنوں ہوتا ، دن کے وقت اگر کمر سیدھی کرنا چاہتا تو اپنے کمرے میں جو تیسری منزل پر تھا، جانے کی بجاۓ وہیں ، دوپہر گزار لیتا ۔ ہمارے گاؤں سے ایک ایسا ذہنی پسماندہ کردار کبھی بھولے بھٹکے آ نکلتا ، وہ گاؤں میں کہاں سے آیا ، کون تھا ،کسی کو معلوم نہیں ، اگر اس کا کوئی خاندان تھا بھی تو وہ خود ، حواس کی دنیا سے دور شخص بن چکا تھا ، کسی نےاس سے کرید نہ کی کبھی کسی نے کچھ دے دیا تو کھا لیاکبھی کسی نے کوئی کوٹھڑی دے دی وہ اسی طرح 50 ، 55 کی عمر تک پہنچ گیا تھا ،، یہ معلوم نہیں کہ اسے سال میں ایک آدھ دفعہ ہمارے گھر کا کیسے پتہ چلتا اور وہ آجاتا بےتحاشا  بڑھی  ہوئی داڑھی، منہ سے کوئی واضح بات نہیں ، سخت گرمی میں بھی اوور کوٹ پہنے رہتا ، سردیوں میں سر پر کنٹوپ والی اونی ٹوپی ہوتی ، اور فوجی بوٹ تو اسے اباجی دیتے رہتے ،، اسے " بادی " کے نام سے بلایا جاتا ۔ اماں جی اس سے خوش مزاجی سے بولتیں ، اباجی کا اردلی کو حکم ہوتا سب سے پہلے اس کی داڑھی کم کرا لینا اور خط بنوا دینا ۔، اردلی وہیں نائی کے حمام میں اپنی نگرانی میں اسے نہلا دیتا ،،، یہ سب" بادی" کو بہت ناگوارگزرتالیکن اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ " بادی " اتنی مخبوط الحواسی میں بھی " اباجی کا نہ صرف احترام کرتا بلکہ انہی کا ہر کہنا مانتا ،،،، مجھے اس کے حلیے یا بےربط باتوں کی وجہ سے ڈر لگتا ،، لیکن جوجی اس سے بالکل نہ ڈرتی ( ہم لوگ 6اور 7 سال کی ہوں گی ) وہ بہت دلچسپی سے روز صبح شام جا کر اسے پنجابی میں ضرور پوچھتی "بادی" کے کھاسیں (کیا کھاؤ گے ؟)، تو وہ فورا" کہتا مرچیں ! اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی خوراک کا کوئی خرچ نہ تھا وہ صبح شام چاۓ پیتا تو اس میں بھی پسی سرخ مرچیں دو تین چمچ بھر کر ڈالتا ، دوپہر کو آدھی روٹی تو وہ بھی سبز یا سرخ مرچوں کے ساتھ کھا لیتا ، بادی کا قیام کبھی دس دن اور کبھی پندرہ دن ہوتا لیکن اس دوران وہ اسی اردلی والی چارپائی پر قبضہ کیے رہتا ، لیکن اس سے بدسلوکی کی اجازت کسی کو نہ تھی ،،،، میں جب ایسے کرداروں کے متعلق سوچتی ہوں ، تو اپنے والدین کی طرف سے عملاً کردارسازی کو محسوس کرتی ہوں ، ، وہ بہت حد تک " پریکٹسنگ مسلم " تھے ! افسوس ہم اُن کے نقشِ قدم پر نہ چل سکیں ، نہ ہی اتنی وسعتِ قلبی پیدا کر سکیں۔
!!!دورِ حاضر میں میسر ہر چیز ہے لیکن 
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں وہ بچھڑے ہوۓ لوگ 
( منیرہ قریشی 12 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں