جمعرات، 26 اکتوبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں "( 36)۔

یادوں کی تتلیاں "( 36)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
خوب صورتی ، جہاں ہو،جس جگہ ہو ،کسی کی ہو سبھی کے لیۓ متاثر کن ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک ضروری حس رکھ دی ہے، کہ وہ جب آنکھ سے کوئی خوب صورتی دیکھتا ہے تو اُس کا دل دھک سے رہ جاتا ہے ۔بلکہ اس کی دھڑکنیں بےترتیب ہو جاتی ہیں ، اور عجیب بات ہے کہ خوب صورتی کا یہ ایکشن اور ری ایکشن، چند ماہ کے بچے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔خوب صورتی چاہے انسان میں ہو،،، کسی چیز میں ہو،یا ،، کسی منظر میں ! بہرحال متاثر کرتی ہے اور دیر تک اس کے اثرات رہتے ہیں ،،،،،!۔
ہم تو عام انسان ہیں ، ہم اثرات جلدی لیتے ہیں، اور نتیجتاً جلدی خوش اور جلدی اداس ہو جاتے ہیں ،، پنڈی کے جس محلے میں ہم رہتے تھے ، اس میں ایک چھوٹا سا میدان تھا ، میدان سے مراد 4 ساڑھے چار کنال کے "سرکل "کو میدان کہا جاسکتا ہے ۔ کافی سارے گھر اسی  دائرے  کے گرد ا گرد تھے،اسی میدان سے ہر ایک دو گھروں کے بعد ایک گلی تھی ، جو اندر جاتی اور پھر ہر گلی میں بھی بہت سے گھر تھے ،،،، اور ہر گھر میں کہانیاں ہی کہانیاں ،،،،،،۔
جب بھی ہم کسی جھیل میں پتھر زور سے پھینکتے ہیں۔ تو دائرے بنتے چلے جاتے ہیں اور مجھے یوں ہی لگتا ہے کہ ایک گھر کے دروازے کو کھولیں تو وہاں ایک کہانی شروع ہوتی ہے اور پھرانسانوں کی کہانیوں کے دائرے بنتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ ازل سے ہوتا چلا آیا ہے اور ابد تک " دائرے بنتے چلے جائیں گے !!!۔
بات خوب صورتی سےچلی ،اور میں حسبِ معمول کہاں سےکہاں پہنچ گئی۔
اس محلے میں سرکل پر بنے گھروں کے لیۓ شام کو اپنے اپنے گھروں کے سامنے کی جگہیں ان گھروں کے "لان" بن جاتے۔ خاص طور پر ہمارے ایک قریبی رشتہ دار کا گھر اسی سرکل کے کنارے تھا جہاں یہ چاچاجی" کیپٹن غلام فرید" بڑے اہتمام سے چھڑکاؤ کرواتے ، کُرسیاں رکھوائی جاتیں ، درمیان میں ایک میز جس پر کڑھائی ہوا میزپوش ہوتا اور اس پر تازہ اخبار پڑا رہتا ، جو آکر بیٹھتا ، اخبار بھی پڑھ لیتا۔ وہ میرے والد کی طرف سے اُن کے چچا لگتے تھے، اور میرے بہنوئی کے بڑے بھائی
تھے، شاندار ، باوقار شخصیت ، ہر بندہ ان کی عزت کرتا ، ان کو سیاست ، میں اتنی دلچسپی تھی جتنی کہ شام کو" لان" میں لازماً   بیٹھنا اور شام کی چاۓ پینا۔خود پڑھےلکھے تھے، اپنے آس پاس بھی کچھ باشعور لوگوں کا حلقہ پسند کرتے تھے۔انہی لوگوں میں ایک " شیخ عمر "تھے جن کا پیشہ ٹھیکیداری تھا لیکن ان میں سیاسی،علمی شعور تھا۔لوگ ان کا پورا نام "عمرٹھیکیدار" کہہ کر پہچان کراتے تھے ۔وہ درمیانی قدوقامت کے گورےچٹے ، نازک نقوش کے مالک موٹے شیشوں  والی نظر کی عینک لگاتے تھے ، ان کی بیوی بھی خوب صورت ، دہرے بدن کی خاتون تھیں۔ یہ دونوں کھلے دل اورذہن کے مالک تھے،اپنی مہمان نواز اور میٹھی  زبان سے مقبول بھی تھے ، ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے، بیٹیوں میں سے چھوٹی بہن آپا کی وہ سہیلی تھی جو کم کم ہی ملتی تھی ، ، بڑی بہن ایک فوجی سے بیاہی ہوئی تھی اور اس کے دو بیٹے تھے ۔ یہ دونوں جب اپنے نانا کی طرف دن گزارنے آتے تو دن کا ذیادہ وقت اسی " قدرتی بنے لان " کے کنارے ، احسان بھائی جان کے ساتھ کھڑے گپ شپ لگاتے گزارتے۔ کیوں کہ وہ سکول کے ساتھی بھی تھے۔ "عمرٹھیکیدار " کے اپنے دو بیٹوں تھے جو شاید بہنوں سے ذرا بڑے تھے ،، اپنی محنت سے دونوں بھائیوں نے الگ الگ کاروبار جمالیۓ تھے ، ۔ ٹھیکیدار صاحب کی ساری فیملی ،،،،حسین و جمیل تھی ، چاہے گھر کے مرد ہوں یا عورت یا بچے ، سبھی ! خاص طور پر ان کی دونوں بیٹیاں مسحورکن حُسن کی مالک تھیں، جب بھی ان میں سے کوئی اپنے والدین کی طرف آتیں ، گلی کی خواتین اپنی اپنی ، نوکرانیوں کو ان کے باہر آنے جانے کی خبررکھنے کی ڈیوٹی دیتیں تاکہ ان کو دیکھ سکیں ۔ حالانکہ وہ سفید چادریں لیتی تھیں ۔اور اِن حسین خواتین کا یہ عالم ہماری بہن یعنی آپا کے لیۓ ہوتا کہ جب نسیم ( شادی کے بعد) آۓ تو ہمیں خبر کرنا ،جب کہ آپا کالا برقعہ لیتی تھیں،، یہ حسین لوگوں    کا عجیب طرح کا آپس میں ایک دوسرے کو تحسین کا طَور تھا ۔ یہ ذرا  ہمارے ناسمجھی کے دور کی باتیں ہیں جب ہم 8 یا نو سال کی ہوئیں ، تو ٹھیکیدار صاحب کے چھوٹے صاحب ذادے کی بیوی 4 بچے چھوڑ کر فوت ہوگئی ، صرف ایک سال کے اندر ہمارے سکول کی ایک میٹرک پاس ، 17، 18 سالہ،حسین لڑکی سے اس کی شادی ہو گئی ، وہ لڑکی شادی کے چند دن بعدہی اپنی گلی سے میدان پار کر کے ہماری گلی سے گزرنے کے لیۓ آتی ،کیوں کہ اسی گلی کے آخر میں سڑک تھی اور پار ہی اس کا گھر ، وہ روزانہ اپنے گھر والوں سے ملنے جاتی !!اور میں ، جوجی اور ہماری دوتین سہیلیاں( جن کا گھر میدان کی طرف تھا ) انہی کے میدان کی طرف کھلتے دروازے کی " چِک " کے ساتھ چپک کر کھڑے ہو جاتٰیں ، تاکہ ذیادہ سےذیادہ دیر تک اسے دیکھا جاسکے، اس کے ساتھ ہمیشہ ایک نوکرانی ہوتی ، وہ کالے برقعے میں ہوتی ، اس کے پرفیوم کی خوشبو 10 ، 11 گز سے آنے لگتی ، ہم اسکے کپڑوں کے صرف پائنچوں سے اسکا رنگ اور گوٹا کنارے دیکھتے ، خوش ہوتے اور پرفیوم کو خاص طور پر سراہتے ،،،،! شاید دو بچے ہی ہوۓ تھے ، کہ کسی ڈاکو سے مُڈبھیڑ کے دوران اس کا شوہر قتل ہو گیا !اس دوران گھر کے بزرگ میاں بیوی انتقال کر چکے تھے ، ہم واہ آگئے،، اُس حسن کا کیا بنا ، اللہ بہتر جانتا ہے۔ 
خاندان میں ایک کشمیری لڑکی بہو بن کر آئی ،وہ بھی حسین اور شوہر بھی حسین اور یوں وہ حسین وجمیل جوڑا تھا، خوب خوشحال گھرانہ ، اور پھر پہننے ، سجنے کا بھی بہترین ڈھنگ آتا تھا ، آتے ہی سب ہی حسن سے مرعوب ہو گئے ، اور وہ جو کہا گیا ہے " خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے " ! اسی مقولے کے تحت وہ بھی کم ہی کسی کو لفٹ کراتیں ، اللہ نے اوپر تلے ، تین بیٹے دیۓ ، چوتھے نمبر پر بیٹی تھی جو والدین کے برعکس تھی ۔ بہت سے ٹوٹکے بھی آزماۓ گئے۔ جوان ہونے پر کسی نا کسی طرح اپنے ہی رشتہ داروں میں رشتہ ہوا ، اس دوران حسین خاتون کا شوہر انتقال کر گیا ، اور حُسن نے بُجھنا شروع کر دیا ، بیٹی کی 10 سالہ شادی ختم ہوگئی۔ بچے نہ تھے، اسی دوران چار چھوٹے بچے چھوڑ کر بیٹا فوت ہو گیا ،،، اور " حُسن " کی تمام تر " لَو " مزید کمتر ہو گئ ، ، ایک وقت آیا کہ غم نے ہوش وخرد سے بیگانہ کر دیا ۔ اور اسی میں انتقال ہو گیا ،،، کیسا حسن ؟ کیسی جوانی اور کون سی پائیداری ،،،،، سب مایا ہے !۔
میں کافی عرصے سے کہانیوں کے درمیان وقت گزار رہی ہوں ،،،، ایک دن اپنے سکول کے آفس میں بیٹھی تھی ، جاب کے لیۓ ایک لڑکی آئی ! وہ آفس میں نہیں آئی " چاند " کا ٹکڑا سامنے آکر بیٹھ گیا ،،، پتہ چلا پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں ، کسی مضمون میں ماسڑ بھی ہوں ، شادی شدہ ، لیکن بچے نہیں ہیں ، ایک ٹیچر جانے والی تھی ، کہا ، کل سے آجائیں ، جب تک فلاں ٹیچر جاۓ آپ اسکے ساتھ وقت گزاریں اور ٹریننگ لیتی رہیۓ ، اس کے بعد ہی باقاعدہ اپائٹمنٹ کا فیصلہ ہو گا ، پندرہ بیس دن لگاتار آئی ، دو دن غائب رہنے کے بعد آئی ، پوچھا ابھی تو آپ کی تعیناتی بھی نہیں ہوئی تو چھٹی کیسے ہوئی ؟ میرے آفس میں بیٹھی تھی ،،، آنکھوں سے آنسو نہیں نکلے ، کسی نے پانی کا نلکہ کھول دیا ہو ،،، مشکل سے قابو پا کر بتایا ، ، میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں ، پہلی غیرملکی ہے اور یہ بھی اسی کے ساتھ اسی ملک میں رہتا ہے ، میں ایف اے میں تھی جب یہ چھٹی پر ہمارے پڑوس میں آیا ،، میری ماں پر کچھ ایسا ڈر ، لالچ ، اور دھمکی کا دباؤ ڈالا کہ ماں کو مجھے بیاہ کر دینا پڑا ، اب مجھے اس نے یہ گھر لے کر دیا ہوا ہے ، اپنے اعتبار کے نوکر ، نوکرانی رکھوائی گئی ہے ، میں نے پرائیویٹ بی اے اورپھر ماسڑ کر کے فارغ ہوئی ،،، تین چار سال سے منتیں کر کے اب مانا تھا کہ ٹھیک ہے یہاں جاب کر لو ،، لیکن کل اس کا فون آیا کہ میں آرہا ہوں جتنے دن پاکستان میں رہوں ، باہر نہیں نکلنا ،،،، چاند کے ٹکڑے نے بتایا ، اُس کے پہلی بیوی سے چار بچے ہیں ، اس لیۓ مجھ سے بچے نہیں " ہونے چایئیں " ، جب میں نے دس سالہ رفاقت کے بعد کوشش کی کہ اس سے آذاد ہو جاؤں ،، اس نے آ کر دھمکا کر کہا " اول تو تیزاب سے تمہیں اس قابل نہیں رکھوں گا کہ باہر نکل سکو! ورنہ کراۓ کے قاتل سے قتل کروا دوں گا ۔ کیوں کہ میں تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اس دن سے ہر خیال ،، خواب کر دیا ہے ، وہ ایک ہفتے کے لیۓ آرہا ہے ، میں اس دوران نکل نہیں سکتی ،اور آنسوؤں کے دوران اس کا یہ جملہ میرے دل کو زخمی کر گیا " آپ دعا کرنا اسی دوران آپ کومیرے مرنے کی خبر ملے" ! " میڈم میں سونے کے پنجرے میں رہتی ہوں "!!! چاند کا ٹکڑا پھر نظر نہ آیا ، مجھے تو اس کا نام بھی یاد نہیں ، لیکن آہ،، اس کا حسن! جو اس کا دشمن بن گیا۔
ہمارے ہاں ایسے ہی حالات کو دیکھ کر بزرگوں کا قول ہے!۔
" رُوپ روۓ ، اور کرم کھاۓ "
( منیرہ قریشی ،26 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں