پیر، 9 اکتوبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(27)

یادوں کی تتلیاں " (27)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
دو سال میں پنڈی کشمیر روڈ کے"سی بی "کالج میں داخل رہی وہاں کے لیے  "پی او ایف" کی جانب سے پنڈی جانے والے طلباء کے لیے بسیں اور ویگن دی گئی تھیں ۔مجھے ویگن میں سیٹ ملی ، اس وین میں طالبات ٹھنسی ہوئی تھیں، ان میں اباجی کے بہت اچھے دوست کرنل عظیم کی بیٹی نبیلہ تھی اور کچنار روڈ کی پچھلی روڈ "پاپری روڈ "پر رہنے والی ایک لڑکی نوید چودھری تھی ۔ان کے علاوہ باقی سب لڑکیاں ، اجنبی تھیں ، یا کم ازکم میں ان سے نا واقف تھی۔
میں اور نوید ہی تھیں جن کے حلیے ملتے جُلتے تھے،یعنی   سر پر دوپٹہ ہے اور یونیفارم بغیر کسی فیشن کے ہوتا ، باقی ، ذرا ، کُھلے ماحول سے تھیں کہ دوپٹہ ہے تو بس اتنا کافی ہے ،اور انہی میں دو کردار خاص تھیں ، ایک تو سیما تھی جو اس دو سال میں میرے اور نوید کے لیے "فیشن میگزین " بنی رہی۔ اسی کے پہناوے سے ہمیں اندازہ ہوتا کہ آج کل نیا فیشن کون سا چل رہا ہے ، ہم دونوں اس سے بہت خائف بھی رہتیں کہ وہ کپڑوں کے ساتھ ساتھ ، مذاق بھی کھلے ڈُلے کر دیتی ۔ باقی لڑکیاں اس کی آزاد طبیعت کی عادی تھیں ، لیکن ہمیں عادی ہونے میں ڈیڑھ سال لگا ،،، یہ لفظ" ڈیڑھ سال " اس لیے لکھا ہے کہ اس عرصہ میں ہمارے درمیان روزانہ ایک یا بہت ہوا تو دو جملوں کا تبادلہ ہوا ،،، آخری 6 ماہ میں باقی لڑکیوں کے اپنے اپنے مضامین اور ٹائم ٹیبل کے مطابق "پریپ" شروع ہو گئے ، اِن میں سے دو چار غیرحاضر ہونے لگیں ۔ ایک دن سیما کی طبیعت خراب تھی لیکن اس کا کالج آنا ضروری تھا ، اس دن میں ، نوید ، سیما اور ثمن تھیں ، واپسی پر سیما کی بخار کی کیفیت دیکھتے ہوۓ ہم دونوں نے اس کا حال پوچھا ،، تو اس نے کہا، مجھے دوائی خریدنا ہے ،ہم نے ( میں اور نویدایک  سی فطرت کی تھیں ) فوراً خدمات پیش کیں ، ڈرائیور ہمیں ڈرگ سٹور لے گیا ،نوید نے اتر کر اس کی بتائی دوائیاں لیں ، اور پانی دیا ، اسے شاید چکر آ رہے تھے کہنے لگی " اگر میں بے ہوش گئی تو مجھے واہ کے ہاسپٹل پہنچا کر ، میرے گھر فون کر دینا ، ہم دونوں یہ سن کر پریشان ہو گئیں، اور فوراً اس کو بڑی سیٹ پر لٹا دیا اور میں نے اس کا سر دبانا شروع کر دیا اور نوید نے ٹانگیں ، وہ پورے راستے سوئی رہی، جب واہ میں داخل ہوۓ ( ایک گھنٹہ سے کچھ زیادہ ) تو اسے جگایا کہ تمہیں ہاسپٹل کی ضرورت ہے ؟ اس نے کہا نہیں مجھے گھر لے چلو ! اگلے دن وہ نہ آئی ،ہم سمجھے طبیعت کی خرابی چل رہی ہوگی تیسرے ، چوتھے دن جیسے ہی وہ وین میں داخل ہوئی ( وین کی ترتیب کے لحاظ سےمیں اور نوید پہلے بیٹھتی تھیں ) ! اس نے ساری وین کو بہ آواز بلند کہا ، آج سے میری دوست منیرہ اور نوید بھی ہیں ،،، مجھے تو اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ میرا کتنا خیال کریں گی اور مجھ سے ہمدردی کریں گی ، میں ان کی بہت تھینک فُل ہوں ۔ اور سارے راستے ( یہ سب انگریزی میں کہا جا رہا تھا )بار بار کہتی بھئ تم نے تو میرا دل جیت لیا ! اور ہم دونوں بالکل نارمل طریقے سے جملے "وصُولتی" رہیں ، کیوں کہ ہماری نارمل سی زندگیوں میں یہ "نارمل"حرکت تھی۔ جبکہ بہت زیادہ ، ماڈ لوگوں میں ایسا ہمدردانہ رویہ شاید کم ہی ہوتا ہو گا ۔ اس کے بہت ہی زیادہ ماڈرن حلیے کے اندر ایک حساس دل بھی تھا ، اس کے ساتھ ہمارے رویے  نے اسے یہ علم بھی دیا کہ ان " پینڈو " کو میں نےاتنا ایزی لیا ہوا تھا ۔ ہو سکتا ہے اس واقعہ کے بعد اس کا نکتہء نظر بدل گیا ہو !،، بی ،اے کے بعد سیما وغیرہ کسی دوسرے شہر چلے  گئے ، اور آج تک ان سے پھر ملنا نہ ہوا،،،،،وین کی فرنٹ سیٹ پر میں اور نوید بیٹھتیں لیکن ، میں یا نوید میں سے ایک ہوتی تو ساتھ کی سیٹ پر ثمن بیٹھتی جو ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھی انھوں نے خوب تندرست دوجرمن شیپئرڈ پالے ہوۓ تھے، جب وین اس کے گھر رکتی تو، ہم شیشے اوپر چڑھا لیتیں کہ کہیں کتے اچھل کود میں ہم تک نہ پہنچ جائیں ، ! وہ خود بھی صحیح " جٹی " ٹائپ تھی ، اس کے والدین کسی وقت میں انگلینڈ رہے تھے۔ اور اب ان کا رہن سہن ، اور بولی بھی ، ولائیتی ہو گئی تھی ، اس کی کوشش ہوتی کہ وہ ڈرائیور اللہ دتا سے بھی انگریزی میں بات کرے ! جب وہ بہت زور سے گیٹ کھولتی تو ، اس انداز کو دیکھ کر نوید نے اس کا نام " ٹارزن کی بیٹی " رکھا ہوا تھا ،،،اس کی ایک ہی بہن تھی ، ثمن نے فرنچ میں ایم فِل کرلیا اور کسی کالج میں پڑھانے لگی ، باپ اچھا سرجن اور ماں سائیکالوجسٹ تھی ، لیکن جس ملک میں رہ رہے تھے ، گھر میں اس کی زبان اور طرزِ معاشرت کا کوئی واسطہ نہ تھا، آپس میں انگریزی ، لباس انگلش ، خوراک انگلش ،، ماں باپ فوت ہو گئے ، دونوں بہنیں اکٹھی بڑے سے گھر میں رہنے لگیں ، وہ شاید اِکا دُکا لوگوں سے ملتی ہوں ، مدتوں بعد ایک فوتگی پر مجھے ایک دبلی پتلی پاکستانی " میم " نظر آئی جب اس نے منہ میری طرف طرف موڑا تو وہ ثمن کی بہن تھی ، جس نے ( 60 سال کی عمر میں )پینٹ ، کوٹ، گہرے گلابی رنگ کا اور کالے رنگ کا" ہیٹ " پہنا ہوا تھا ، اور میرے نزدیک یہ ایک عجیب لباس تھا جو ایسے فوتگی کے گھر پہنا گیا تھا جس کی خواتین عبایا  پہننے والی تھیں ،،،، میں اکثر سوچتی ہوں ، کبھی کبھی خوشحالی اور زیادہ تعلیم ہمیں ٹریک سے کیوں اتار دیتی ہے ، ہم ایسی تربیت اور طرزِمعاشرت کو کیوں اتنی اہمیت دینے لگتے ہیں جس سے ہماری اولادیں اپنے ہی معاشرے میں "مِس فِٹ" ہو جاتیں ہیں ،، ہمیں اپنی زبان اور لباس ، پر کیوں شرم آنے لگتی ہےیا بےقیمت لگنے لگتے ہیں ، ہم دوسری تہذیب سے کیوں اتنا متاثر ہو جاتے ہیں کہ انھیں "اَپنا" کرظاہر کریں کہ جیسےہم اپنے ہی ملک ، کو حقیر سمجھ رہے ہیں ، ، میرے خیال میں یہ خوداعتمادی کی شدید کمی کے باعث ہے ، ،،، اگر تو ہم کسی اور ملک میں مستقل طور پررہ رہے ہیں ، تب تو ٹھیک ہے کہ اُسی ملک کی زبان اور لباس ہماری مجبوری ہو جاتی ہے لیکن ، صورتِ حال اگر یہ ہے کہ اَپنے ملک میں ہیں اور اردو میں بات چیت نہیں کرنی ، لباس اِس ملک کا نہیں پہننا ، کہیں ہم ،،، اِن عام لوگوں جیسےنہ ہو جائیں ! ! تو یہ رویہ اپنے بچوں کے ساتھ دشمنی کا ہو گا ، وہ ' تنہائی ' اور معاشرتی تنقید کا شکار رہتے ہیں ، بچوں کا اس میں کوئی قصور نہیں ہوتا ، وہ تو نئی نئی کونپلوں کی مانند ہوتے ہیں ،، ہم اپنی محرومیوں اور احساسِ کمتری کو ختم کرنے کے چکر میں بچوں پر فضول تجربے کر گزرتے ہیں ، اور وہ ہمیشہ کے لیےایک مذاق بن کر رہ جاتے ہیں ، کاش ہمارے تعلیمی اداروں میں ذاتی شخصیت کے اچھے عناصر کو اُبھارنے کا مضمون ہو ،، کاش ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو سدھارنے کی ورکشاپس ، کثرت سے کروائی جائیں ، ہم اپنے فیصلوں میں کس طرح بہتری لا سکتے ہیں ، کاش ہمارے پاس ایسے ادارے ہوں کہ جنھیں ہم مل کر کےیا فون کرکے ان سے بچوں کے لیے، مشاورت کر سکیں ۔ کاش ہمارے حکمرانوں کو قوم کے شعور ، اس کی اخلاقی رویوں ، اس کو باکردار بنانے کی فکر ہوتی ، کاش ہمیں نسلوں تک احساسِ کمتری سے بچانے والا ذہین فطین لوگوں پر مشتمل گروہ" ہوتا جنھیں آج تھنک ٹینک کہا جاتا ہے تاکہ وہ سر اونچا کر کے ، اپنی سر زمین پر ، اپنی تہذیب، اپنی زبان پر ، اپنی اشیاء کے استعمال پر فخر کرنا سکھا سکتا ۔ ہمیں را ہ نمائی چایئے ، اور یہ سب ادارے ایمرجنسی میں کھولے جائیں ، تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو ، ،،،، یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن ، اس بحث میں اختلافِ راۓ کے بجاۓ ، نکات دیئے جائیں تاکہ بات آگے بڑھے۔ 
۔"سی بی کالج" ،راولپنڈی کا ذرا ماڈرن کالج سمجھا جاتا تھا ، ان دنوں مسز سلمیٰ مسعود اس کی پرنسپل تھیں جو بہت محنتی ، اور ہر وقت نئی اختراع سوچتیں اور آۓدن ، نئے نئے  فنگشنز کرواتی رہتیں ! ان دنوں اس کالج میں مشہور کرکٹر جاوید برکی کی بہنیں بھی پڑھتی تھیں ، جو عمران خان کا کزن تھا ، وہ لڑکیاں پتلی، گوری ، اور بہت سادہ لباس و مزاج کی نظر آتیں ،،، اس وقت میں نے پہلی دفعہ غیرملکی طالبات دیکھیں ، جو مصر ی اور نیگرو تھیں ، ان کے پُراعتماد انداز سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ، نوید تعلیمی لحاظ سے بہت لائق تھی، اور ساتھ ہی اس میں لاہوریوں جیسی حسِ مزاح بھی تھی جس سے ہمارا وقت اچھا گزرتا، لیکن ہمارا ایک دوسرے کے گھر کبھی  آنا جانا نہ ہوا ، مجھے آج بھی اس کے ساتھ گزرا  بہت تھوڑا وقت، اچھی یادوں کے ساتھ یاد آتا ہے ، اِس کالج میں پہلی دفعہ میں نے فائن آرٹ کا شعبہ دیکھا ، اور قربان ہو گئی ،یہ میرا بچپن کا شوق تھا جو بی اے تک واہ کے کسی کالج میں شروع نہیں ہوا تھا،اب ہوا یہ کہ میرا جب کوئی پیریڈ فری ہوتا ،میں اس ہال میں چلی جاتی اور تادیر  بیٹھی رہتی وہاں سینئر طالبات " سکپچرز " پر کام کر رہی ہوتیں تو میں مارے رشک کے گھنٹوں انھیں دیکھتی اور میرے بےشمار پیریڈ سے غیرحاضری ،نے مجھے نوٹس سے محروم کر دیا ، خاص طور پر سائیکالوجی اور انگریزی کے ، اسی دو کشتیوں کی سواری نے مجھے انگریزی میں سپلی دلا دی ، اور یہ سب میری غلطی تھی ، میں نے اس دوران اپنے طور پر کوشش کی کہ مجھے ہسٹری کے بجاۓ ، فائن آرٹ میں داخلہ مل جاۓ لیکن چوں کہ ایف۔اے میں یہ مضمون نہیں تھا اس لیے پہلا اعتراض یہی کر کے میرا داخلہ نہ ہو سکا ۔ اب یہ ہی تھا کہ دوبارہ بی اے میں داخلہ لیا جاۓ ، جو فی الحال ممکن نہ تھا ۔ اور میں نے سپلی کلیئر کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ جس دن پیپر تھا اس سے دو دن پہلے اماں جی اور اباجی کا ایکسیڈنٹ ہوگیاوہ اپنے ایک چچا اور چچی کو حج کی مبارک دینے پنڈی،جا رہے تھے۔ جیپ ڈرائیور چلا رہا تھا ، سڑک ہلکی بارش سے  پھسلواں ہو گئی تھی ۔ وہ آدھے راستے پر تھے کہ جیپ اُلٹ گئی ، اور گزرتے ٹرک اور ایک دو گاڑی والوں کی مدد سے ایک اور گاڑی میں واہ واپس پہنچایا گیا ، شکر کہ ڈرایئور بچ گیا ، اباجی کی ایک بازو اور ہنسلی کی ہڈی پر " بال برابر فریکچر ہوا " لیکن اماں جی کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ، ڈاکٹر ز نے اپنی طرف سے سارا چیک اپ کیا ، اور انھیں ہاسپٹل داخل کر لیا گیا ، اس دوران مہمانوں کا تانتا بندھ گیا ، ہماری آپا اور بڑے بھائی جان ان دنوں ڈھاکہ میں پوسٹڈ تھے ، اس لیے اباجی نے ان سے اس حادثے کی خبر چھپائی ، کہ کیسے یکدم آ پائیں گے ، جوجی کے ان دنوں امتحان شروع تھے ،،، اب گھر مجھے ہی سنبھالنا پڑا ، اباجی نے مجھے راشن منگوانے کے پیسے دیۓ اور بتایا ہر چیز پہلے لسٹ سے تیار کرو پھرجب آجاۓ تو لسٹ کے مطابق چیک کرو، میں نے پہلی مرتبہ یہ پیسے دیکھے تو سوچا لو اس میں سے تو بہت سے بچ جائیں گے ، اور میری بچت کر کے دکھانے سے اماں جی اباجی خوب خوش ہوں گے ، لسٹ بنی ، لسٹ چیک ہوئی ، پتہ چلا ، ابھی اور پیسوں کی ضرورت ہے ، پہلی دفعہ اندازہ ہوا ، مائیں کتنی مہارت سے اخراجات کے سارے کونے پورے کرتی ہیں ،،، اماں جی کا بخار ہی نہیں ٹوٹ رہا تھا کہ انھیں ہسپتال سے چھٹی ملتی 20، 22، دن گزر گۓ آخر ایک نئے میڈیکل سپیشلسٹ نے آکر معائنہ کیا تو معلوم ہوا بائیں طرف کی دو پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں لیکن ڈاکٹرز کو پتہ ہی نہیں چلا ، نئےسرے سے پٹیاں باندھی گئیں ، دوائیں بدلیں اور 27 دن کے بعد اماں جی گھر آئیں ، درد سہہ سہہ کر وہ مزید کمزور ہو گئی تھیں ، انھیں بھی دیکھنا ، مہمانوں کو دیکھنا ، ایسا چکرا دینے والے دن لگے کہ ، کہاں کے پیپرز ، کہاں کے امتحان ، ،، اور میں ایک مزاج دار بیٹی بن گئی،اس دوران اباجی بہت ہمت بندھاتے ، کیوں کہ گھر کے خزانچی کی حیثیت سے مجھے صبح سے شام تک آن ڈیوٹی ہونا پڑتا ، لیکن اماں جی کی صحت یابی پر کافی وقت لگا ،،،، بعد میں  یہ بی اے  بھی مکمل ہو گیا ،اور یہ الگ بات کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کو کچھ اور مہمات کے لیے تیار کر رہی ہوتی ہے جو ، بہت دیر سے سمجھ میں آتی ہیں۔
( منیرہ قریشی ، 9 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) (جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں