جمعرات، 19 اکتوبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(32)

 یادوں کی تتلیاں "(32)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جس طرح میرے ذہن کے نہاں خانوں میں لا تعداد واقعات بسیرا کیۓ ہوۓ تھے اسی طرح کچھ " نمبرز " کے نقوش بھی دھندلے نہیں ہو پاتے ! ان میں پنڈی والے گھر کا نمبر    ایچ 228،اباجی کی پہلی ذاتی گاڑی جو ووکس ویگن تھی کا نمبر آر ڈبلیو 2827 ، اور پنڈی کے گھر کا فون نمبر،3676 تھا ، ،، اور اب واہ کے گھر کا ایڈریس نمبر 1 کچنار روڈ تھا ۔جو 9 سال تک ہمارے لیۓ، ملنے اور خطوط کےرابطہ کاباعث بنا رہا ۔اس گھر میں گزاری عیدیں بہت ہی خوشیوں اور محبتوں کے جلُو میں گزریں۔ دراصل جب آپ کے سر پر محبت اور شفقت کرنے والے والدین کا سایہ ہو تو زندگی جنت کا باغ لگتی ہے، لیکن زندگی کے کسی موڑ پر والدین بےبس نظر آئیں تو بندہ اندھیروں میں گھِر جاتا ہے ،،،،،،،۔
جب میں 7ویں جماعت میں تھی تو میں نے اپنی ایک ڈرائنگ بُک بنائی اور اپنی فہم کے مطابق ان تصاویر بنائیں اور ان کے عنوان ضرور لکھتی ، جیسے ایک عورت کا چہرہ اور اس کے بکھرے بال سمندر کی لہروں کی مانند دور دور تک بکھرے ہوۓ، کا عنوان رکھا " سمندر کا ایک راز " ،،، وغیرہ ، یہ سب بتانے کا خیال اس لیۓ آگیا کہ وہ ڈرائنگ بک ، اماں جی ہر اس بندے کو  دکھاتیں جس کے بارے میں انھیں احساس ہوتا کہ یہ خوش ہوگی ، یہ بالکل عام سی ڈرائنگ تھی لیکن ان کے نزدیک یہ منفرد کام تھا ،،، مائیں بھی کتنی خوش فہمی میں رہتی ہیں کہ اُن کے بچوں کچھ خاص ہیں ، اماں جی نے ہماری واہ کینٹ کی سہیلیوں کو بھی ویلکم کرنا ، اور طبیعت ٹھیک ہوتی تو ان کے ہاتھ بھی دیکھتیں ( جس کا میں ذکر کر چکی ہوں ) اور جیسا ہر لڑکی کا دل چاہتا کہ کچھ " آنے والا " کے بارے  میں بتا دیں ! لیکن وہ صرف یہاں تک رہتیں کہ تم اور پڑھو گی یا جاب کرو گی وغیرہ ، میں کبھی اچھی سٹوڈنٹ نہیں رہی ، لیکن میرے خواب یہ تھے کہ بس فائن آرٹس لازماً پڑھنا ہے ، اور دنیا کی سیر خوب کرنی ہے۔یہ کتنے سطحی خواب تھے جو مِڈل کلاس لڑکی صرف اس لیۓ دیکھ رہی تھی کہ ماں باپ نے کبھی کسی مشکل میں نہ ڈالا نہ کبھی کسی بات میں رکاوٹ ڈالی ،،،سواۓ چند جائز پابندیوں کے!میں نے جب ایک دن ایک اور ڈرائنگ بُک( سیکنڈایئرمیں)میں شام کے دھندلکے میں نے لان کے ایک ٹُنڈ منڈ درخت کا سکیچ بنایا تو نیچے اماں جی نے دستخط کیے اور ڈیٹ لکھی اور یہ میرے پاس ان کی بہترین یاد تھی۔اور ان کے سراہے جانے کا انداز تھا ۔ اباجی ہمارے لیۓ پینٹنگ بکس ، کلرز، برش لانے میں کمی نہ کرتے تھے ۔ ،،،ہماری سہیلیاں آتیں تو انھیں آس پاس کی قابلِ دید جگہوں کو دکھانے کو اہتمام کرتے ، اس اعتماد اور اعتبار کا اُس دور میں عام دورہ تھا، اب آج کل نہ ہم بچیوں کو کہیں بھیج سکتے ہیں نہ کسی کے گھر جانے اور رہنے کی اجازت دے سکتے ہیں،،آہ ، شیطان کےاثرات کتنے پھیلے ہوۓ ہیں کہ نئی نسل بےفکری اور محافظت سے دور ہو گئی ہے ۔ اور مصنوعی خوشیوں اور مصروفیت میں اس نئی ٹیکنالوجی میں  مکڑی کے جیسے جالوں میں پھنس چکے ہیں۔ 
ہر عیدالفطر کے موقع پر ہم سب بہن بھائی اپنے والدین اور ایک تصویر اپنے بہترین پڑوسیوں کی ہمراہی میں باہر لان میں بہ اہتمام کھینچواتے ۔یہ فوٹو باقاعدہ پروفیشنل فوٹو گرافر آکر کھینچتا ،،،،، وہ تصاویرآج ہمارے لیۓ " سنہری یادیں " بن چکی ہیں۔ 
اس زمانے میں ہمارے تین البم تھے اور تینوں میں کونے سنہری ہی ہوتے تھے ، اور ہم دونوں بہنوں نے انھیں تین الگ کیٹیگری میں بانٹا ہوا تھا ، ایک بہت پرانی اور دور کے رشتے داروں کی ، دوسرے میں زمانۂ حال سے متعلق افراد کی اور
تیسرے  میں ہم نے اپنی سہیلیوں کی لگائی ہوئی تھیں ، اور یہ کام گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں انجام پاتے تھے۔یہاں ایک تصویر فوری موجود تھی تو سوچا یہ بھی یا دوں کی تتلیاں کا حصہ بن جاۓ تو کوئی حرج نہیں ! ۔
درمیان میں ہمارے والدین اور ان کے آس پاس ہماری آپا اور بڑے بھائی جان ، آپا کی گود میں اُن کا چھوٹا بیٹا خاور ، پیچھے دائیں  سے جوجی,ساتھ پڑوسی اور پکی سہیلی شاہدہ ، درمیان میں کھڑے ہمارے بھائی جان!ساتھ ماموں زاد طارق اور ساتھ میں ہوں،سامنے بیٹھے آپا کے بچے یاور اور لبنی اور ساتھ ہمارا دوسرا ماموں زاد ارسلان!۔

1 تبصرہ:

  1. محترمہ اسنیٰ بدر صاحبہ اپنا محبت بھرا اظہار کچھ اس طرح شئیر کرتی ہیں۔۔
    Asna Badar
    کتنا عجیب اتفاق ہے کہ میں نے بھی ایک ایسی ہی بک بہت کم عمری میں بنائی۔ اسکیچ اردو رسالہ شمع میں مل جاتے تھے۔ وہ بنانا اور ایک عنوان دینا کچھ عرصہ معمول رہا۔
    پھر ایک اور چیز سوجھی۔ کہیں کوئی فلسفیانہ اقتباس مل جاتا تو لکھتی اور اس کے مطابق تصویر بنانے کی کوشش کرتی۔ مجھے یاد ہے کہ دس گیارہ سال کی عمر میں میری ماں کی کتابوں میں خلیل جبران کی ایک نایاب کتاب مل گئی جس میں چھوٹے چھوٹے فلسفہ تھے ۔میں نے ان پر اسکیچ بنائے۔یہ بک پہلی والی سے زیادہ معتبر تھی جو نہ جانے کہاں گم ہوگئی اور مجھے اب بھی یاد آتی ہے۔

    آپ کی تتلیوں کی یہی تو خصوصیت ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے باغوں کی سیر کرانے لے جاتی ہیں۔
    تصویر بہت پیاری ہے اور موٹے ورق والے سیاہ البم کی یاد دلاتی ہے جس میں تصویر کے سنہرے کونے الگ سے لگائے جاتے تھے۔

    جواب دیںحذف کریں