اتوار، 8 اکتوبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (26)۔

یادوں کی تتلیاں " (26)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اس انٹر میڈیٹ کالج میں ہم نے بہت ایکٹو وقت گزارا ، اکثر کوئی نا کوئی پروگرام ارینج ہوتے رہتے ،اور طالبات اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق ، جا کر اٹینڈ کرتیں ، اس دوران کبھی کبھار کوئی ایسی شخصیت آتی جسے سن کر ، دیکھ کر ، نہ صرف خوشی کا احساس ہوتا بلکہ ، کچھ نا کچھ سیکھتے کہ ان کی زندگیوں میں یہ " محترم و مدبر انداز" انھوں نے کیسے اپنی ذات کا حصہ بنایا ہوگا ، یہ سب سیکھنے کا موقع اس دور میں ملتا ہے لیکن افسوس ہم میں سے اکثر اسی خیال سے ان شخصیات کی صحبتِ سعید کو اپنی امیچورٹی کی بنا پر نظرانداز کردیتے ہیں ۔ اور کچھ" سیکھنے" کےبہترین لمحات ضائع کر دیتے ہیں ، کوئی شک نہیں کہ اس کھلنڈڑی عمر میں ایسی ہی سوچ عام بات ہے لیکن آج ہم اپنی اگلی نسل کو اگر یہ کہیں ، کہ تم ایسے اور ایسے نہ کرنا !!! تو وہ ہمیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے " آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ آج کل کیا سنا اور دیکھا جاتا ہے ، " اور یہ کہ ہم آپ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ 😔🤫
ایک دن کالج میں بہت مشہور و معروف ادیب " پروفیسر محمد سعید" صاحب تشریف لاۓ ، دراصل وہ ایک چھوٹے سے تقریری مقابلے میں مہمانِ خصوصی کے طور پر آۓ ، جب تقریری مقابلہ ختم ہوا تو ان کا طالبات سے خطاب شروع ہوا تو ایک ڈسپلن تو ہال میں ہمیشہ رہا ، خاموشی تھی ، لیکن مجھے لگ رہا تھا علم ، کا دریا بہہ رہا ہے ، بہت نرم ، رواں ، اور پختہ لہجہ ،،،، مجھے آج 46 سال بعد ان کی تقریر کے سارے نکات تو یاد نہیں ، لیکن ایک پوائنٹ آج بھی یاد ہے " فرمایا " موسمِ بہار کی پہلی پھوار پڑتی ہے تو سانپ بھی اپنا منہ کھول دیتا ہے اور سمندر کی سیپی کا منہ بھی کھل جاتا ہے پانی کا یہ قطرہ سیپی کے منہ میں جاتا ہے تو موتی بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ، اور سانپ کے منہ میں پانی کا یہ قطرہ زہر بن جاتا ہے ۔ایسا ہی حال علم کا ہے ، آپ پر علم کی بارش ہو رہی ہوتی ہے ، اسے آپ کے اندر پہنچ کر ، موتی بننا ہے یا زہر ،،، آپ لوگوں کی غور وفکر پر منحصر ہے " ! ۔
جن دنوں اباجی نے واہ فیکٹری کو جوائن کیا تھا مشہور شاعر راز مراد آبادی بھی یہیں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے لیکن انہی دنوں وہ ریٹائر ہونے والے تھے۔ایک دن انھیں بھی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے بلایا گیا ، اور ان کی مقبول اور خوب صورت شاعری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ، حالانکہ وہ ریٹائر منٹ کے بعد بھی واہ میں مقیم رہے لیکن ، ہم انھیں کلب کی تقریبات میں ہی  دور  دور سے دیکھتے ، وہ پاکستان کے مشہور شعراء میں شمار ہوتے تھے ، ،،،،، اپنے کالج کی اس روایت کو بعد میں اپنے سکول میں اکثر دہرایا ! جس کا عنوان ہوتا "پرسنیلٹی آف منتھ"اور اس سلسلے میں ہم کچھ عام اور کچھ خاص شخصیات کو بلاتے ہیں ، بچے ان سے مختلف سوالات کرتے ہیں تاکہ اس شخصیت سے متعلق اور اس کے میدانِ عمل سے متعلق معلومات میں اضافہ کرتے ہوۓاپنی سوچ میں تبدیلی لائیں !۔
واہ کےاُس کالج میں ہماری ٹیچرز ، بےمثال تھیں (ایک آدھ کو چھوڑ کر) ، مسز شاہدہ مرزا کا ذکر تو پچھلی قسط میں کیا تھا کہ وہ اہلِ زبان ، ایم۔اے اردو تھیں ، پان اور ساڑھی کا پہناوا ان کی پہچان تھی، لیکن  ان سب سے بڑھ کر وہ ایک  ہمدرد ، محبت کرنے والی ، اور طالبات کو عزت دینے والی ٹیچر تھیں ، اور کالج کی اہم ڈرامہ تقریبات میں انہی کا اہم رول ہوتا ، انھوں نے ان ڈراموں میں کبھی پھکڑ پن کی اجازت نہ دی ، ،، اردو کی ایک اور ہماری ٹیچر تھیں مسز زبیدہ عثمانی ، جن کے نازُک ، خوبصورت خدو خال ، اور ان کا بھی پہناوا ساڑھی تھا ، ان کی آواز میں تو جیسے " جلترنگ" سا تھا ، وہ شاید اردو کے ساتھ ، فارسی میں بھی ایم۔اے تھیں۔نتیجتاً ان کی شیریں بیانی کا بھی جواب نہیں تھا ، (یا میں ہی زیادہ متاثر تھی)، اور یہ ہی وہ ہستیاں تھیں جنھوں نے میرے والدین کے بعد مجھے اردو کی محبت عطا کی۔انگریزی کی مس ذکی ، تہذیب اور معلومات کا خزانہ تھیں ، ان کی اردو بھی بہترین اور انگریزی اس سے بڑھ کر بہترین ! جب وہ انگریزی شاعری پڑھاتیں تو محو سی ہو جاتیں ، پڑھنے والے کو بھی  "انوالو"کر لیتیں۔مسز ثریا وحید جو حُسن کا مجسمہ تھیں ، مکمل برقعے میں سکول آتیں ، ان کے چہرے پر معصومیت اور حیا کا امتزاج ہوتا ۔ وہ میتھ میٹکس کی لیکچرار تھیں ۔ اکنامکس ہمیں مسز فیروز اختر عثمانی نے پڑھائی !! وہ اچھی لمبی ، اور شاندار پرسنیلٹی کی حامل تھیں وہ بھی ہمیشہ ساڑھی میں ملبوس ہوتیں ۔ان کی اور پرنسپل مسز زیدی کی خوب صورت ساڑھیوں کے ہم منتظر ہوتیں ، ان کے ساڑھی باندھنے کا انداز بھی اتنا مہذب ہوتا کہ ان کا جسم مکمل لپٹا ہوتا۔مسز فیروز کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ اکثر کتاب بند کروا کر پیریڈ کے آخری 5یا 10 منٹ ہمیں وہ چند اخلاقی باتیں بتاتیں جو اکثر گھرانوں میں مائیں کوئی اہمیت نہ دیتیں ، لڑکیوں کو کیسے بیٹھنا اُٹھناچاہیئے ،کھاتے ، پیتے ، وقت ، کھانسی اور جمائی لیتے وقت ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے ، اجنبی لوگوں سے آپ کا رویہ کیسا ہونا چایئے وغیرہ ۔ان کا اس طرح ہماری تربیت کرتے رہنے ، کا انداز مجھے آج تک نہیں بھولا اور میرے دل میں ان کے لیے منزلت دو چند ہے !۔
میں نے ایف۔اے میں فلسفہ کا مضمون پسند کیا ،اس دور میں کالج میں مضامین کی چوائس بہت کم تھی ، ہیر پھیر کر چند مضامین کا  "کمبنیشن" کرنا پڑتا تھا ۔ فسٹ ایئر میں یہ مضمون مس بخش پڑھاتی تھیں ، پہلے ایک دو ہفتے کے اندر مضمون بدلنے کی اجازت ہوتی تھی ۔ پہلے دن اس کلاس میں 35 کے قریب لڑکیاں تھیں ، تیسرے ، چوتھے دن تک ، 25 اور دو ہفتوں تک یہ تعداد18 یا 19 رہ گئی ، باقی کو یہ ایک غیر دلچسپ مضمون لگا ، لیکن ہم چند طالبات آخر تک بیٹھیں اور الحمدُ للہ اچھے ہی نمبر لے  لیے ! مس بخش ، بہت سخت مشہور تھیں ، لیکن اپنی اس کلاس کے ساتھ ان کی محبت اور شفقت بتدریج بڑھتی رہی ، یہ ہی وجہ ہے مجھے جب بھی یاد آتی ہیں دل سے ان کے لیےدعائیں نکلتی ہیں ، ،،، ہسٹری "تاریخ" میرا پسندیدہ مضمون تھا ، یہ مسز زاہدہ باجوہ پڑھاتی تھیں ،، وہ نمبرز دینے کے معاملے میں سخت تھیں کیوں کہ اپنے اس ٹسٹ کو جس میں سے میرے خیال میں ایک آدھ نمبر کٹے گا ، اس میں بھی آدھے نمبر ملتے ، کبھی ہمت کر کے پوچھ بھی لیا کہ ، مجھے کیا لکھنا چاہیئے تھا ،تو بہت ہی معمولی ردوبدل بتاتیں ، لیکن اس سے یہ ہوا کہ ہم اور محنت کی طرف آئیں اور ہسٹری میں بھی اچھے نمبر ملے، انگریزی ایف ۔اے میں مس قدسیہ سے پڑھی ، ان کا اندازِ تدریس قدرِ پرانا تھا ، کم از کم مجھے کبھی وہ دلچسپ نہ لگا ۔ لیکن مس قدسیہ ایک ہمدرد ٹیچر تھیں ،،،،یہاں مجھے نویں دسویں میں ،فزکس کے " سر اقبال " یاد آ گئے ہیں جو اس وقت 50یا 55 کے ہوں گے ، سفید سر ، دبلے پتلے اور سادہ خدوخال والے ،،، ان کا فزکس پڑھانے کا طریقہ ، دلچسپ تھا ، ڈرامائی انداز سے اپنے جملے مکمل کرتے تو ہماری توجہ فزکس کی طرف کم اور انکے اندازِ بیاں کی طرف زیادہ چلی جاتی ، اور مسکراہٹ روکنا مشکل ہو جاتی ، اگر زیادہ طالبات کے ٹسٹ خراب آتے تو وہ جن جملوں سے نوازتے ، وہ  ہمارے لیے مزید تفریح کا باعث بن جاتے ،،، کہتے " تم لوگ تو گھر پہنچتے ہی ماں باپ کو کہتی ہوگیں " ہم آگئے ہم آگئے ، اب ہمیں بستر دو ، ہم کھیتوں میں ہل چلا چلا کر آئی  ہیں،،،،یہ ہی وجہ ہے کہ جیسے لفافے میں ڈال کر بھیجا تھا ویسےہی لفافہ آج واپس آ گیا ہے"۔یہ اور اسی طرح کے طنزیہ جملے سننے کو ملتے ، لیکن کیا مجال کوئی ان سے ڈرتا ہو! بنیادی طور پر یہ سب اساتذہ ، تشدد سے گریز کرتے ، اور تھوڑی بہت ایڈوانٹج تو اکثر طلبہ لیتے رہتے ہیں ، ان کی پہلی بیوی فوت ہوئیں تو ان کے چار بچے اب کون سنبھالے ! اسی دوران ان کے ملنے والوں نے انھیں اشارہ دیا اور اپنی ایک سٹوڈنٹ سے ہی رشتہ ہو گیا ، اپنے سے آدھی سے بھی کم عمر بیوی ملی تو انھوں نے اسے پیار اور عزت دی، اور اللہ نے اس بیوی سے بھی دو یاتین بچے عطا کۓ ۔ اُن کا نام میرے ذہن میں نہیں ہے ،وہ بھی کسی سکول میں پڑھاتی تھیں ! جب بھی کلاس روم میں سر اقبال کا موڈ خراب ہوتا ، یا کلاس کا پڑھنے کا موڈ نہ ہوتا تو جو چار ، پانچ ہوشیار اور تیز لڑکیاں تھیں ، منصوبہ بنا لیتیں ، اور جوں ہی پیریڈ شروع ہوتا وہ بہت ٹیکنیک سے ان کی بیوی سے متعلق حال پوچھ بیٹھتیں ، یا وہ سب سے اچھا کیا پکا لیتی ہیں وغیرہ ،،، بس سر اقبال کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ، اور وہ نہایت دلچسپی سے یہ تفصیلات بتانے لگتے ،،، پیریڈ آرام سے ختم ہو جاتا ، ،، یہ چالاکی کبھی کبھی ناکام بھی ہو جاتی ،،،، شاید یہ حرکتیں ہر سکول کالج میں چلتی رہتی ہیں ۔ اور سکول میں طلباء و طالبات کا "گروپ رویہ "بھی اسی طرح بنتا ، بگڑتا رہتا ہے جو انسانی فطرت کے سوچ و سمجھ کے دائروں کو بھی وسیع کرتا چلا جاتا ہے !۔
سکول اور کالج کی  میری ان سہلیوں میں شہناز مہدی جس نے سب سے پہلے مجھ سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ، کو ہم دیکھتی تھیں کہ ،زیادہ چلنے سے اس کی طبیعت کچھ خراب سی ہو جاتی اور پیدل چلنے کے دوران ایک آدھ دفعہ اسے ریسٹ لینا پڑتا ، ، لیکن وہ اپنی پوری کوشش کرتی کہ کسی مرحلے پر وہ پیچھے نہ رہے ،،،، اسے زندگی سے پیار تھا ، اس کے بہت سے بہن بھائی تھے، اس کا نمبر شاید پانچواں تھا ، اسے اپنے سب سے بڑے بھائی سے بہت پیار تھا جس کا ذکر گھر کےسب افراد سے زیادہ کرتی تھی ، وہ مارکیٹ کے ایسے فلیٹ میں رہتے تھے جس کے نیچے دکانیں تھیں اور ان کا خاصا شور اوپر منزل تک پہنچتا تھا اس کی شدید خواہش تھی کہ کسی پُرسکون جگہ ان کا گھر ہو ،،،جس میں لان بھی ہو ۔ ایف ۔اے پاس کر لینے کے بعد میں نے پنڈی کے سی۔بی کالج ( کامران مارکیٹ ) میں داخلہ لے لیا ، حالانکہ اب واہ کے اس کالج میں بی۔اے کی کلاسز شروع ہو گئی تھیں ، لیکن مجھے مضامین بدلنے کے شوق نے کالج بدلوانا اچھا لگا ،وہاں میں نے سائیکالوجی اور ہسٹری کے مضمون رکھے ، پنڈی آنے جانے کے لیے ، فیکٹری کے تمام  ملازمین کے بچوں کے لیے ایک بس اور ایک ویگن ، لڑکیوں کے لیے اور ایک بس لڑکوں کے لیے دستیاب تھی۔ مجھے ویگن میں جگہ ملی ، اور جوجی نے جب پنڈی بی۔ایس۔سی میں داخلہ لیا تو اسے بس میں جگہ ملی ، یہ سب رُوٹ کی سیٹنگ کے حساب سے ہوتا تھا ، ،،،لیکن میرا پرانی سہیلیوں سے ملنا جلنا اسی انداز سے رہا کہ ہماری درسگاہیں بدلنے کے باوجود ہماری ملاقاتیں اسی  تواتر سے رہیں ، ،،،، بی۔اے کرتے  ہی ہم میں سے سب سے پہلے رفعت کی شادی ، اصغر صاحب سے ہو گئی ، ہم سہلیوں کے لیے یہ نیا تجربہ تھا کہ ایک سہیلی، شہر سے ہی جا رہی ہے ، پتہ نہیں اب کب کب ملیں ، اصغر بھائی ان دنوں گوجر خان میں بنک میں ملازم تھے ، اور پھر رفعت ہمارے گروپ سے کچھ عرصہ کے لۓ غائب ہو گئی ، لیکن جلد ہے نسرین جمال بیگ ، کی باری آگئی ، اور ہم سب نے زور وشور سے ملبوسات ، اور شرکت کے اوقات ڈسکس کرنے ،،، لیکن اس دوران شہناز ہمیں پورا وقت نہ دے پاتی اور اس کے مزاج میں بھی کچھ چڑچڑا پن آجاتا تھا ، ، انہی دنوں اس کا علاج شروع ہوا کہ کیوں تھکی تھکی رہتی ہے تب معلوم ہوا کہ " ہارٹ ان لارج " ہو چکا ہے اور ، علاج کے کارگر ہونے کے امکانات کم رہ گئے ہیں ، ،،، نسرین کی شادی ہم سب سہلیوں کے لیے ایک عجیب سرخوشی کا باعث بنی کہ مجھے ایسا پیارا شادی کا ڈریس کم ہی نظر آیا ہے ۔ یہ اس کی امی کے ہاتھوں تیار ہوا تھا ( شاید اسی لیے اس میں مامتا کے حسن کی آمیزش تھی ) جس پر رنگا رنگ کپڑوں کی گوٹ ، اور پھرہر کپڑے کے بعد باریک گوکھرو اور گوٹا لگایا گیا تھا اس طرح یہ کنارے خوب چَوڑے سجے سجے سے تھے ، جب وہ غرارہ پہن کر بیٹھی تو ایک تو اس دور میں " بیوٹی پارلر " کا رواج تھا ہی نہیں ، سادہ سا میک اَپ تھا ،دوسرے روایتی مشرقی دلہن بنی کہ ماتھے پر بڑا سا ٹیکا اور ناک میں بڑی سی نتھ ! صاف رنگ تھا ، ہر چیز اچھی سج رہی تھی ، اوپر سے شرم سے سر جھکی دلہن کا مکمل سراپا ،، ہم نے ایک آدھ تصویر کھینچی ، ، ، ، لیکن اس دوران شہناز کی طبیعت خراب چلتی رہی !!!! کچھ مہینے اور گزرے میری شادی کی  تاریخ رکھی گئی لیکن چند دن بعد شہناز کو دل کا ایسا دورہ پڑا ،کہ وہ اپنی بہت معمولی حسرتوں سمیت اس جنت میں پہنچ گئی، جہاں اس کی مرضی سے سب کام انجام پا گئے ہوں گے ۔ جوانی میں کسی کی موت  کا دل پر گہرا اثر ہوتا ہے اور جب وہ "کوئی" اپنی گہری سہیلی ہو یا اپنا کوئی خونی رشتہ ہو تو اس کا اثر سالوں رہتا ہے ، شہناز کو ہم کبھی نہیں بھلا سکے ، وہ عام سے نقوش والی تھی ، اور اسے خواہش تھی کہ میں ایسے اور ایسے نقوش والی "ہوتی" ، اُس کی وفات کے چند ماہ بعد میں نے خواب دیکھا ،،،،،،،،۔،
۔( قارئین کہتے ہوں گے اسے اتنے خواب کیوں آتے ہیں ، میں یہ ہی کہوں گی یہ صرف قدرت کی دین ہے ورنہ میں کبھی سوچ کر نہیں سوتی ۔ مجھے خود بھی حیرت ہوتی کہ یہ بات کیسے ظاہر ہو گئی ) ! دیکھا کہ میں آسمان کے کسی حصے میں ہوں ، دور دور تک نیلی اور سبز گھاس بچھی ہے اور جہاں تک نظر جاتی ہے یا سیدھے تنوں والے درخت ہیں ، یا  ستون  ہیں ، یہ ستون  منقش ہیں ،،، مجھے وہاں کوئی جاندار نظر نہیں آتا ابھی کچھ قدم آگے بڑھاتی ہوں تو مجھے شہناز نظر آتی ہے ، میں اسے دیکھتے ہی کہتی ہوں " کیا یہ تمہارا گھر ہے ؟ وہ ہاں میں سر ہلاتی ہے ، اس کی شکل ویسی ہی ہے جیسی وہ تھی ، البتہ کپڑے ریشمی پہنے ہوۓ ہیں ، جب میں پوچھتی ہوں " تم یہاں اکیلی رہتی ہو؟" تو وہ کہتی ہے " نہیں تو ، یہاں میری بہت سی سہیلیاں ہیں یہ دیکھو ،،، اور یکدم ہر  ستون کے پیچھے سے ایک ایک لڑکی نکلتی ہے اور ان سب کی شکلیں بھی ، جسامت اور لباس بالکل ، شہناز جیسا ہی ہوتا ہے ، حیرت کی کیفیت کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی !" ،،،،۔
میرا خیال ہے اسے اللہ نے بہت سی سہیلیاں اسی کی شکل کی دے دی ہیں ، تاکہ اسے اپنی شکل سے گلےمندی ختم ہو جاۓ ۔ اس کی ایک حسرت تھی کہ وہ پُرسکون خاموش جگہ رہے ، اور اس کا سرسبز لان ہو ،،، وہاں اب لان بھی وسیع وعریض تھا اور خاموشی بھی تھی جب اس کی  وفات ہوئی  ، تو، اس کے ماں باپ ، بہن بھائی سب زندہ تھے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نےاس  کی وہی کمی پوری کی ہو گی جس کی اسے خواہش ہوگی ا  جنازے   کے وقت اسے دلہن والا دوپٹہ اوڑھایا گیا ، اس کی یہ تصویر میرے ذہن کے تصور میں محفوظ ہے !۔ 
؎ اس کارواں سرا میں کیا میر بار کھولیں 
یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا
اللہ پاک سے دعا ہے ہم سب سہیلیاں جنت میں ملیں ،پھر وہی بحث مباحثے ہوں ، پھر سے وہی بےفکری کےلیل و نہار ہوں ،!!! ۔
(منیرہ قریشی ، 8 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں