جمعرات، 17 مئی، 2018

سفرِانگلستان((11)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
سفرِ ولایت ، یو کے " (11)۔"
پہلے دن ہی مانچسٹر ، نے اپنا نرم ( سوفٹ ) اثر ایسا ڈالا کہ ، میرا یوکے بارے پچھلا تاثر ،،، بہت حد تک دھندلا گیا ، ، ، اور اس سلسلے میں ، بہرحال دو تین اہم ، وجوہات تھیں ،، ایک یہ کہ موسم لاجواب تھا ،،، ستمبر اِن کا " سمر " کاموسم ہے اور ہمارے لیۓ ہلکی سی خوشگوار سردی ، جب کوئی پنکھا نہیں ، کوئی موٹے کپڑے نہیں ، ، ، بس اگر ہمیں ذرا سی سردی محسوس ہوئی ، شام کو تو بغیر بازو سویٹر ، یا شال لے لی ،، دوسرے ،گھر اور اس کا محلِ وقوع شاندار تھا ،،، اور تیسرا ،جس خوشی کے موقع پر ہم پہنچی تھیں ، ، اُس کی خوشی اور خمار نے ہمیں بہت ریلیکس کیا ہوا تھا ،، اور آخری اہم بات ، ایمن ثمن وہ گائیڈ تھیں ، جنھوں نے خوداعتمادی اوربہت عقل مندی سے انگلینڈ میں وقت گزارا تھا ،، اپنی مائرہ آپا کی کڑی نگرانی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اُس نے انھیں ، لین دین ، راستوں کی پہچان ، کروانے میں  فری ہینڈ دیۓ رکھا ۔ چھوٹی عمر میں ہی اپنے کالج ،خود بسوں میں جانا ، کالج کے تمام مسئلے خود نبٹانا ، پھر ان بہنوں نے مانچسٹر کے ارد گرد کی سیر سپاٹا بھی خوب کیا ، اور یوں بعد میں جب وہ دونوں لندن میں یونیورسٹیز میں داخل ہوئیں ، تو اُن میں مزید خود اعتمادی آئی ،، اور اب ،،،،،، وہ دونوں چھٹیوں پر تھیں ۔ اور ہم دو " نئی بھولی بھالی ، نا واقفِ راہ و رسم " کو اپنی پوری خدمات سے مستفیض کر رہیں تھیں ،، کہ اماں تو پہلے بھی کئی  بار آچکی تھیں ،، لیکن میرے لیۓ ان کا انداز بہت ہی " محبت بھرا ، کیئرنگ " تھا ، ! اور یہ سب عوامل ،، مل جل کو اس سیر کو یادگار بنا رہے تھے ۔ آج دلہن ، اپنی کار اور خدمات سمیت حاضر تھی کہ دلہا اپنی فارمیسی کی ڈیوٹی پر جا چکا تھا ،۔
ٹونزوں نے ہر روز ، صبح، ہمارے لیۓ پروگرام بنانا ، ہم نے آمنا و صدقنا کرنا ،،تیاری پکڑنی اور ہم کبھی بازار ، اور کبھی مشہور جگہوں کی سیر کرنا شروع کر دی ۔۔ ایک دن ہم مانچسٹر کے ، اس میوزیم میں گئیں ، جہاں برطانیہ کی مختلف ادوار میں مختلف ممالک سے جو لڑائیاں ہوئیں ،، ان سے متعلق تصاویر ،، ہتھیار ، بتدریج بدلتے ، یونیفارم ، اس دور کے استعمال ہونے والے برتن ، کچھ مجسموں کو فوجی وردیوں کے ذریعے ، مختلف ایکسپریشنز کے ساتھ دکھایا گیا تھا ،، کہیں زخمی حالت میں ، کہیں ماں سے ، اور کہیں ، بیوی سے ، کہیں بچے سے الوداع ہونے کے جذبات عیاں کیۓ گۓ تھے ،، ایک حصہ میں ڈیکومنٹری فلم کا اہتمام تھا ،، ہم دونوں نے ایک ایک ، حصہ نہایت ، غور اور دلچسپی سے دیکھا ،،، کہ تاجِ برطانیہ کے وفاداروں میں متحدہ انڈیا ، پوری طرح شامل رہا ، بلکہ اس کی بہترین فوج میں مسلمان ٹروپس کی بہت اہمیت تھی ،، انگریز کمانڈرز، اپنے ان ٹروپس پر اعتماد کرتے تھے ،، اس لیۓ ہم وہ حصہ " مِس " نہیں کرنا چاہتی تھیں ،، لیکن ٹونز اب بور ہو چکی تھیں ، ،، اس لیۓ انھوں نے ہمیں فلم دیکھنے سے روک دیا ،، آج کے دن شام تک ہم نے نہ صرف تھوڑا بازار پھرنا تھا ،، بلکہ افتحار بھائی اور طلعت کے گھر ہمارا ڈنر بھی تھا ، جو 7 بجے شروع ہو جانا تھا ،، میوزیم کا نام "امپیریل وار موزیم نارتھ"تھا ۔ اس کے بالکل سامنے ،، بی بی سی چینل کی ایک ریڈیو سٹیشن کی بہت بڑی بلڈنگ تھی ،، ہم اس کے بعدپھر بس میں بیٹھ کر اس " دلپسند بازار میں آئیں ،، بلکہ ٹونز لے کر آئیں جہاں " درمیانی عمر یا ،،، بوڑھی خواتین کے لیۓ ، آرام دہ جوتے ملتے تھے ، اچھے اور آرام دہ جوتے میری کمزوری ہیں ،، اس شاپ کا نام " پیورز،"،،۔ہے ۔ میں نے ڈیڑھ گھنٹہ لگا کر بہت سے جوتے ٹرائی کیۓ اور آخر کار تین جوڑے خرید لیۓ ،، یہ آرام دہ ، اور میری مرضی کی شیپ والے تھے ، مجھے اپنی طبیعت کا پتہ ہے کہ کافی عرصہ سے جوتوں کے معاملے میں میرے پاؤں حساس ہو چکے تھے،، اور یہ خریداری اگرچہ پاکستانی روپے میں بھاری تھی ، لیکن 100 پونڈز میں تین جوڑے مل گۓ ،، اور 2014ء کے خریدے ان جوتوں کے بعد آج 2018ء گزر رہا ہے ، تو مزید ان چھوٹی ہیل والے کسی جوتے کی خریداری کی ضرورت نہیں پڑی ،، )  سواۓ جوگرز اور سلیپرز کے) اس بات کا ذکر بر سبیلِ تذکرہ اس لیۓکر دیا کہ ، ایک ایسی دکان جہاں " حساس " پیروں کے لیۓ ،یا، بزرگوں کے پیروں کے مطابق جوتے مخصوص ہوں ، ، یہ ایک سوچ کی عکاسی بھی ہوتی ہے ،، کہ " اولڈ سٹیزن " کے مسائل کو اہمیت دی گئی ہے !!۔
، ایمن ثمن نے بھی کچھ خریداری کی ، اور طلعت کے گھر جانے کا وقت ہو گیا ، میَں طلعت کے گھر پہلی مرتبہ جارہی تھی ، اور خوش تھی کہ دونوں میاں بیوی ، میرے فسٹ کزن تھے ۔ وہ گذشتہ 25 سال سے یہاں رہائش پذیر تھے ، افتخار بھائی ،جوانی میں "یو بی ایل" میں جاب کے دوران یہاں ڈیپوٹیشن ، پر آۓ تو ، انگلینڈ ، دل کو بھا گیا ، شادی ہوئی تو بیوی بھی آ گئی ، بڑے تینوں بچے سارہ ، صیام ، اور مہوش یہیں پیدا ہوۓ ،اور اتنا عرصہگزرا کہ ، شہریت مل گئی ، واپس پاکستان پہنچ کر جو ایگریمنٹ تھا اسے پورا کیا ، اور پھر انگلینڈ میں مستقل رہائش اختیارکر لی ، تیسری بیٹی رمشہ پاکستان میں پیدا ہوئی ، آج بڑی دونوں تو شادی شدہ ہیں ، جب کہ رمشہ ابھی یونیورسٹی میں رہی ہے ،،، شام کو پہ ینچتے میں نیم اندھیرا چھا گیا تھا ، ، مائرہ کی ، آمد ، بچیوں کے لیۓ دلچسپی کا باعث تھی کہ " دلہن " آئی ہے ۔ یہ آج کا ڈنر میرے اعزاز میں تھا ، ، جبکہ اگلا ایک ڈنر دلہا دلہن کے اعزاز میں دیا گیا ، اور ہمیں پھر سے مزے دار کھانے ، کھانے کو ملے ۔ افتخار بھائی کا گھر بھی ، بےکپ " کے گھر کی طرح ، ساڑھے تین بیڈ رومز پر مشتمل تھا ۔ سب نے بہت تپاک سے استقبال کیا۔ ہم سب کزنز ، دیر تک ، کچھ نئے ، کچھ پرانے قصے دہراتے رہے ، رات 10 بجے اجازت لی ، ،، مائرہ نے ہمیں بےکپ اتارا ، اور خود واپس راچٹیل ، سسرال چلی گئی ۔ جو وہاں سے ڈھائی تین میل کے فاصلے پر تھا،۔
ثمن  کی،،،ناشتہ ، بنانے کی عید اور رات ، شب رات بنی ہوئی تھیِ۔ ایک دن گھر کا سودا سلف لانا تھا ،، تو یہ تجربہ بھی کروایا گیا ، نزدیکی بازار تک ، بس میں گئیں ، ، اور صاف ، ستھرا سٹور ، جہاں چھوٹی ، بڑی سب شاپنگ ہوئی ،، البتہ مجھے ، " گوشت کے کارنر " سے انتہائی صاف ، پیکڈ گوشت نظر آیا ، تو میں نے بھی " پاۓ " لینے کی فرمائش کی ،، جو بچیوں اور جوجی کے لیۓ حیرت کا باعث ہوئی کہ پکاۓ گا کون ؟ میں نے کہا یہ میری پسندیدہ ڈش ہے ، میَں خود بناؤں گی ، اور جب دو ، ہفتے بعد ایک دن ہم نے افتخار بھائی ، اور ساری فیملی کی دعوت کی ، تو افتخار بھائی کی پسندیدہ ڈش " پاۓ " ( بقول میری بہو صائمہ کے " بکری کے پیر) ہی تھی ، میں نے ہی پکاۓ ،، اور اتفاق سے اتنے اچھے بنے کہ اافتخار بھائی نے ، بقایا پاۓ لے جانے کا کہا ، ہم سب کو خوشی ہوئی ،، کہ دراصل مہمان کی خوشی کا ایک اندازہ اس سے بھی ہو جاتا ہے کہ چیزیں اچھی پنی ہیں ،، تب ہی کھائی گئیں ، یا فرمائش کی گئی ہوتی ہیں ! الحمدُ للہ !!۔ 
اکثر ہم دوپہر کو پیدل آس پاس ، سیر کو جاتیں ،، بہت صاف ، اور خاموش علاقہ ،،، کبھی کبھار کوئی کار یا بندہ نظر آتا ، ،، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مکین صبح کے گۓ شام کو آتے ہیں ، اور پھر شام کویہ فیملیز ، ایک ، دو بچوں یا کتے کے ساتھ دل بہلاتے ہیں ۔ ،، جوجی کے گھر کے ایک طرف ایک  جوڑا ، 50، 55 کی عمر کا ایک 10 سالہ بیٹی کے ساتھ رہتے تھے ، جو صرف ہفتے کو نظر آتے ، ورنہ ان کے پچھلے لان میں دو کتے اس گھر کو انجواۓ کر رہے ہوتے ۔ دوسری جانب ، ایک بڑی عمر کی ،لیکن بہت سمارٹ خاتون اکیلی رہتی تھی،وہ بھی ان دو ماہ میں تین مرتبہ نظر آئیں،حالانکہ انھیں جوجی نے " گڈ وِل" کے طور پر ایک دفعہ شامی کباب اور ایک دفعہ بریانی کی پلیٹ بھجوائی ، تاکہ پاکستانی مزاج سے آشنائی کروائی جا سکے،اس نے پلیٹ دیتے وقت کھانے کی چیز کی تعریف بہت کی ، لیکن گھر کا چکر نہ لگایا ، ۔ ،، پتہ چلا تھا کہ متعصب تو لوگ ہیں ، لیکن یہ بھی تھا کہ یہاں بہت پڑھا لکھا طبقہ رہائش پذیر ہوتا ہے،آس پاس زیادہ تر یونیورسٹیز کے پروفیسرز ، ڈاکٹرز وغیرہ رہتے۔،،جو اپنی بامقصد مصروفیت میں مگن رہتے ہیں ۔ لہذٰا ، اگراپنی ذاتی زندگی انھیں عزیز ہے تو بھئ ،،، دنیا میں رنگا رنگ نفوس ہیں ، خالق نے سبھی کو مرضی سے زندہ رہنے کا حق دے دیا ہے !۔
ستمبر تھا اور موسم کی موشگافی ،،، کہ فجرپڑھ کر حسبِ معمول اپنی پیاری کھڑکی کو کھولتی اور ملگجےا ندھیرے ،،، جیسے مجھ سے سرگوشیوں کے منتظر ہوتے ، ، ، یہ منظر دل کی دھڑکنوں کو روک دینے والا ہوتا ،،، کہ خامشی ،کی تنی چادر ،کائنات کا احاطہ کیۓ ہوۓ ہوتا،، ہر جامد شے جیسے ہلکورے لے رہی ہو ،،، ۔
ایسی ہی کیفیت نے یہ چند سطریں سجھا دیں ،،،،۔
" مخروطی چھتوں پر 
بادل دبے پاؤں آ بیٹھے ہیں 
سرو کے پیڑ جھوم جھوم کر 
بادلوں کے آنے کی خبر دیتے ہیں 
کائنات نے سُر مئی لبادہ اؤڑھا ہے 
ہر چیز پر تقدس طاری ہے ،،،۔
ایسے جیسے ،، دنیا اپنے ابتدا کی کہانی میں ہو !!!!۔
(مانچسٹر 15 ستمبر 2014ء)
میری کھڑکی کے منظر میں مشرق سے نکلتے سورج کا سین نہیں تھا ،، بلکہ سورج نکلنے کے بعد کی روشنی اور کرنیں میرے سامنے پھیلی وادی پر آہستگی سے پھیلتی چلی جاتیں ۔ اور جیسے جیسے فضا صاف ہوتی ،، اس جگہ کی ہر شے واضح ہوتی چلی جاتی ،، دُور فارم ہاؤس کے خوبصورت ، جانور اپنے اپنے " فینس " کے اندر پھیلے نظر آنے لگتے ! اور ،، میَں کھڑکی سے ہٹ کر ، اس مالک ، و خالق ، و مصور و باری کی کاریگری کے اثر سے " سُن " ہو کر پھر کچھ دیر کے لیۓ خوابوں کی دنیا میں چلی جاتی تھی ۔ کبھی صبح ایسی نظر آتی کہ باہر پورے ماحول پر بےآواز بارش ہو رہی ہوتی ،، اور اندر ، ایک کمرے میں سناٹا جم کے بیٹھا ہوتا ، ، تضاداتِ کا اپنا حُسن نظر آتا ۔
( منیرہ قریشی ، 17 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں