جمعرات، 3 مئی، 2018

سفرِانگلستان(6)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 سفرِ ولایت ، یوکے " ( 6)۔"
اگلی صبح پھر پُر ہنگام تھی ،، کہ جلدی گھر کو سمیٹو ،،، اپنے کپڑے استری کروا کر ہینگرز پر لٹکاۓ ،، رات کے پہننے والے کپڑے ایک بیگ میں رکھے گۓ ۔ ،، یہ مصروفیات ، جو خالص گھریلو ، اور ہم " مہمان اداکاروں " 😅کی حدود میں آتی تھیں ،،ہم نبٹا رہی تھیں ۔ اس میں سب سے اہم پیکنگ " چاۓ " کے سازو سامان کی تھی ( ہم دونوں بہنوں کے نزدیک )، یعنی ٹی بیگز ، خشک  ِدودھ کے ڈبے ، نمک پارے اور بسکٹوں کے ڈبے ، کہ ایسا نہ ہو بھوک لگ جاۓ ، اور وہاں کچھ نہ ملا تو ؟؟ ایمن ثمن کو انکا بھائ تیمور آکر لے گیا ،، کہ کل کے فنگشن کے لیۓ کچھ آرڈرز دینے، لینے تھے ۔ ہم دونوں کو مائرہ نے لے کر جانا تھا ، دوپہر کے بعد معہ سامان کے،باتیں کرتے ، کچھ عرفان ( دُلہا )کی اور اس کے خاندان کا تعارف کراتی ، ڈرائیوبھی کرتی رہی،، اسی نے بتایا ، عرفان کی امی شاہین ، اپنے شوہر سے کافی چھوٹی ہی ہیں ،، جب آج سے 45 سال پہلے جب انکل ،یوکے آۓ ، تو غیر شادی شدہ تھے ، کچھ ہی سالوں میں جب سٹور چل نکلا ، تو ایک برٹش خاتون سے شادی کی دوبیٹے پیدا ہوۓ ، وہ خاتون مسلم ہوگئ تھی ، بچے بھی باپ کے مذہب پر رہے، 12،14 سال ہی گزرے تھے کہ آپس کا اختلاف بڑھا ، اور طلاق ہو گئ ،، لیکن چودھری صاحب نے بچوں کے تمام اخراجات پورے کیۓ ، بلکہ سابقہ بیوی کا بھی خیال رکھا ۔اور آج بھی ان کو مالی مدد دیتے رہتے ہیں ، وہ خاتون ، آج بھی مسلمان ہے ،اور چودھری صاحب کے اپنے بچوں سے اچھے تعلقات ہیں ، وہ دونوں لڑکے بھی مسلم ہیں، ایک پڑھی لکھی پاکستانی لڑکی سے ایک لڑکے کی شادی ہو چکی تھی ،، اور دلچسپ بات یہ کہ ، عرفان کے اپنی اُس ماں اور دونوں بھایئوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں ، لیکن شاہین آنٹی ان کو نہ صرف نا پسند کرتیں ہیں ،،، بلکہ عرفان کابہت دل تھا کہ گوری مما شادی پر آئیں ، لیکن ، شاہین آنٹی نے صاف انکار کر دیا ہے ،، البتہ دونوں بھائ شادی پر آئیں گے ،، آپ ان سے ملنا ! باتیں بھی ہوتی رہیں لیکن میری نظریں آس پاس کے " باترتیب " کھیتوں ، کھلیانوں سے سجے راستے پر رہیں ،، جیسے ہی ہم اس پرانے قلعے کے راستے پر مڑے ،،،مجھے یوں لگا ،، میَں " ایملی برونٹے " کے کسی ناول کے زمانے میں پہنچ گئی ہوں ،،، ان دونوں بہنو ں نے مجھے ہمیشہ اپنے " ناولوں کے سحر " میں جکڑے رکھا ،،، آس پاس بہت بڑی گھنی جھاڑیاں ، اورپھر ایک بہت پرانے گیٹ کے اندر داخل ہوئیں ، اور پھر بہت ذیادہ چوڑی کچھ کچی کچھ پکی ،، ڈرائیو وے شروع ہوئی ،،، 10 منٹ ڈرائیو کے بعد ۔18 ویں صدی میں بنے ایک چھوٹے قلعے میں داخل ہوئیں ،،، گویا "21 ویں صدی" ، قلعے میں داخل ہوئی۔ 
اس علاقے کو  ( ویرہئل ) کہتے ہیں ۔ اور اس قلعہ کو" تھارنٹن مینور "کے نام سے سے جانا جاتا ہے ۔ یہ جس لارڈ نے ذوق و شوق سے بنوایا تھا ، اس کی اگلی ہی نسل سے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا ،، اور انھوں نے اس کے مختلف حصے ،،، مختلف اندازسے ، کراۓ پر چڑھا دیۓ ،، ایک حصے پر دیر تک ٹھہرنے والے مسافروں کے کمرے ، اور ایک بہت ہی خوب صورت سجا چھوٹا ہال جو ڈائینگ ہال تھا ، اسے باہر سے ہی دیکھا ، نہایت خوب صورت شینڈلیئر ، اتنا پر کشش کی چند لمحے دیکھتے رہنے کا دل چاہا ،، سارا ہال ، سفید ، سرخ اور کچھ سنہری فرنیچرسے مزین تھا ،، جس سائڈ کے کمروں میں ہم نے ٹھہرنا تھا ،، ہم اپنے سامان کو لے کر چلیں ہی تھیں ، کہ قلعے کے ملازمین جدید لباس میں ہمارا سامان ہمارے ہاتھوں سے کر اپنے پیچھے آنے کا کہا ،، ویسے اگر وہ نہ گائیڈ کرتے تو ذرا پیچیدگی ہوتی ۔ کہ بیڈ رومز تک کبھی سیڑھیاں ، کبھی کاریڈورز سے گزرنا پڑا ۔ ان" بہت خوبصورت" ملازمین ، یا پورٹرز میں کچھ لڑکے کچھ لڑکیاں تھیں ،، مائرہ نے بتایا ،، یہ سب یونیورسٹی کے وہ سٹوڈنٹ ہیں ، جنھیں یہاں یہ نوکری کرنے سے اچھی آمدنی ہو جاتی ہے اس طرح اپنے تعلیمی اخراجات اُٹھاتے ہیں ،، ،، ِ،ایک ہمارا ملک ہے ،، ذرا بھی درمیانہ طبقہ خوش حال ہوا نہیں ،، بچوں نے والدین پر پورا بوجھ ڈال دیا ،، اور اولاد ، کچھ عرصہ گزرنے پر ، اچھی کوئی نوکری مل جانے کے بعد اپنے والدین کو یہ مشہور ، پسندیدہ مگر تکلیف دہ جملہ کہتی ہے " آپ نے ہمارے لیۓ کیا ہی کیا ہے ؟ "،، اور اندازہ لگائیں ۔ بہت خوشحال طبقے کا کیا حال اور سوچ ہوتی ہو گی !! انھیں دیکھ کر احساس ہوا، کیا یہ اپنے والدین کے لاڈلے نہ ہوں گے ۔ !ہمیں دو کمرے ملے ،، ایک کمرے میں تو ڈبل بیڈ اور ساتھ ایک پرانے سٹائل کا صوفہ پڑا تھا ،، اس کی 5،، 6 کھڑکیاں تھیں ،، یہ ہم دونوں بہنوں کو ملا۔
دوسرا کمرا تین سیڑھیاں اتر کر ایک کافی بڑا کمرہ تھا ،جہاں ایک ڈبل بیڈ اور ایک صوفہ کم بیڈ رکھا ہوا تھا ، اور ایک ڈائینگ ٹیبل ، چار کرسیوں کے ساتھ ، ایک سنگار میز ، معہ ، ٹیبل لیمپ بھی تھا ، یہ سارا فرنیچر وکٹورین سٹائل کا تھا ۔ ان دو کمروں کے درمیان بہت تنگ ، چند فٹ کا کاریڈور تھا ، اسی میں ایک دروازہ کچنٹ کا اور دوسرا دروازہ ، غسل خانے کا تھا ۔سب کچھ بہت صاف ستھرا تھا ، لیکن ہم اپنے تولیۓ وغیرہ سب کچھ ساتھ لائ تھیں ،، یہاں سب سامان سیٹ کر کے مائرہ ہم ، دونوں کو پیدل ہی اس مارکی کی طرف لے چلی ، جو ایک خاموش جھیل کے کنارے فکس کی گئی تھی ۔ پہلے ہم خوب بڑے بڑے لان سے گزریں ،، سارا ایریا ، کٹی گھاس ، نہایت خوبصورتی سے " ہیج " کی کٹنگ ہوئ ہوئ تھی ۔ آس پاس دور دور بندہ نہ بندے کی ذات ،، البتہ بہت دور ایک دو گھوڑے گھاس چر رہے تھے ،، ہم نے ایک لکڑی کا " افسانوی سا پُل " پار کیا ( وہی جو تصویروں میں بھی نظر آتے ہیں ،، جیسا بریکٹ بنایا جاتا ہے ) ۔اس ُپل کے بعد آٹھ ، دس ، سیڑھیاں اتریں اور بےحد ، دل چھو لینے والا منظر سامنے تھا ، یوں لگا جھیل نیم غنودگی میں تھی ، لیکن ،، ہم تین ، نفوسِ انساں کی آوازوں نے جیسے ، اسے نیند سے جگا دیا ۔ اور اس نے پلکیں اُٹھا کرحیرت سےدیکھا ہو گا ،،، کہ سارا ماحول ایک لمحہ کے لیۓ ، ساکن ہونے کا ، رُک جانے کا احساس ہوا ۔ جھیل کوئ خاص بڑی نہ تھی ، شاید گہری ہو ،، اس کے دوسرے کنارے پر درختوں کا جھنڈ تھا ، بہت ہی صاف علاقہ ،، اب آگے بڑھیں تو " مارکی " تھی ، جو اس وقت ویرانے میں ،بہت بے کار لگ رہی تھی ، کیوں کہ ایک ہلکے براؤن بڑا سا ٹینٹ !اور کچھ دور قلعہ ، درمیان میں خوب بڑے بڑے ، سنورے لان ، یہاں پل اور یہ خاموش جھیل ، میَں نے مڑ کرایک اجنبی "لمحے" کو دیکھا ، جس نے کہا ،، میَں ہر آن یہاں ہی تو ہوں، بس صرف ابھی ابھی چند ، سوسال پہلے کا فرق ہے ، لمحے نے کبھی ایملی کو اور کبھی شارلٹ برونٹے کو دائیں بائیں دیکھا ،، اور وہ نہایت غریب ، جوان ، حالات کی ماری ،، ناکافی وسائل کے باوجود ، انھوں نے شاندار محلات ، قیمتی ملبو سات ، کی ایسے وضاحت ، کی ، جیسے وہ ایسے ہی حالات میں پلی ہوں۔ 
لیکن ،،، جیسے ہی میَں " زمانہ حال " میں آئ ،،، دیکھا کہ مائرہ ،، بہت ماہرانہ انداز سے کل شادی کے اس منظر کو ہاتھ ہلا ہلا کو واضع کرنے لگی ،،، کہ " میَں اور عرفان لوگوں سے اوجھل دوسرے کنارے سے سجی سجائ ، کشتی میں آئیں گے ،، جو کشتی کا مالک چلا رہا ہو گا ،، یہاں تمام باراتی اس مارکی کے کنارے ہمیں ریسو کریں گے ،، اور پھر فوٹو سیشن بھی یہیں ہو گا ، اور مووی والا ہمیں کشتی کو دور سے ہی فوکس کررہا ہو گا ،،" مسلسل اس کی تفصیل سنتے سنتے ہم دونوں ،،،، کی نظریں آپس میں ملیں ،،، اور،، رکی ہوئی ہنسئ ، پہلے قہقہوں کی صورت میں ،، پھر بے آواز ہنسی میں بدلی ،، اور یہ حال کہ آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے ،، اب مائرہ ، نے ناراضگی سے پوچھا ، میری باتوں میں ایسا کیا تھا جو آپ اتنا ہنس رہیں ہیں ،،، میَں نے کہا ،، " اگر کشتی ذرا ڈگمگا گئ ،، اور دُلہا ، دلہن ، نچڑتے ،، ویڈنگ ڈریس سے باراتیوں تک پہنچے ،،، تو ،، !! یہ بھی منفرد شادی ہو جاۓ گی یہ تصور ہمیں ہنسا گیا ،،، مائرہ ، آٹھ ، نو سال سے انگلینڈ میں رہ رہی ہے ،، اور اب اس کا " مزاح " کا معیار بھی کچھ بدل چکا ہے ،،، لیکن وہ برداشت کر گئ ،، اور ہم ، آنکھیں صاف کرتیں واپسی میں جلدی کرنے لگیں ،، کہ کہیں ، برونٹے سسٹرز ،، اپنے ناولوں کے کرداروں کو ہی نہ لے آئیں ! کہ یہ تعارف ، بھاری پڑ سکتا تھا ۔
( منیرہ قریشی ، 3 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں