اتوار، 20 مئی، 2018

سفرِانگلستان(13)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
" ولایت ، یو کے " (13)۔"
مائرہ کے دلہا کا پورا نام ، عرفان ذاکر چودھری ہے ، اتنے لمبے نام سے بلایا جانا ہمارے اردو بولنے والوں کے لیۓمشکل ہے ،تو انگریزی ، بولنے والوں کے لیۓ اور بھی مشکل تھا ،،، سکول یا کالج کے زمانے سے ہی دوستوں کی طرف سے اس نام کو مخفف کر کے پکارنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سب اسے " ذی سی " کہہ کر بلاتے ہیں ،،،، آنے والے ہفتے ، کو مائرہ کی ایک پرانی سہیلی ڈاکٹر ہما اور اسکے شوہر ڈاکٹر فیصل ، نے ڈنر رکھا تھا ،،، اس ہفتہ ذی سی کی چھٹی تھی۔ 
ذی سی کے والدین کا گھر مانچسٹر کے علاقے " راچٹیل " میں تھا وہاں ، بہت سے پاکستانی اور انڈین نظر آۓ ، اور انہی کے ٹیسٹ کے مطابق ، ان کی دکانیں تھیں ، جن میں مٹھائی کی دو، تین دکانیں تھیں ،، اور سننے میں آیا کہ یہ مٹھائیاں ، صرف ایشین ہی نہیں اِن برطانوی لوگوں کو بھی بھا گئی ہیں ،، اس لیۓ ہر وقت رَش رہتا ہے ،،، جب ذی سی اور مائرہ ہمیں لینے ، بےکپ میں آۓ ، تو ہم نے اسے انہی مٹھائی کی دکان کی طرف جانے کا کہا ، تاکہ میزبانوں کے لیۓ کچھ لیا جا سکے ،،، جوجی نے اس کے لیۓ رَس ملائی لے لی ،، اور مائرہ نے مٹھائی کا اچھا بڑا ڈبہ ۔ ،،، میں ، جوجی ، اور ایمن ثمن پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھیں ، مسٹر مسز ذی سی ، مٹھائی کا ڈبہ ہمیں دے کر ، کوئی تحفہ لینے چلے گۓ ، اور ہم سب کی مٹھائی دیکھ کر آنکھیں چمک اٹھیں ،،، اور وہ بھی پاکستانی مٹھائی،، اور وہ بھی واہ کینٹ جیسی ،،، بس دیکھتے ہی رالیں ٹپک پڑیں ،، صرف 15 منٹ بعد ذی سی ، اور مائرہ واپس آۓ ،، تو ہم چاروں نے ایک کلو ، مٹھائ تقریباً ختم کر لی تھی ،،، اور ہم اپنی اس بچگانہ حرکت ، پر اس قدر لطف لیا کہ ، سچی بات ہے کہ بےتحاشا ہنسی ، چھوٹ رہی تھی کہ جب مائرہ نے پوچھا ،، کیا ہوا ؟ تو ہم نے بہ مشکل یک جملہ بولا،، کہ مٹھائی مزید لے کر آؤ ، یہ ڈبہ تو ختم ہو گیا ،،، ذی سی کو ایک ڈبہ اور لانے کا کہا ،، تو وہ حیران نہیں ہوا ،، کہنے لگا " میَں بھی میٹھے کا حد سے ذیادہ شوقین ہوں ،، لیکن کیک ، پیسٹری کا " ،، ، ہما کے گھر جانے سے جڑا یہ قصہ جب مجھے یاد آتا ہے ، تو آج بھی وہ بچگانہ حرکت ، مزہ دے جاتی ہے ۔ دراصل ، سیر و تفریح کا لفظ ایسے ہی ایجاد نہیں ہوا ۔ ایسی ہی چھوٹی اور بےضرر حماقتیں ، کسی سفر کا حصہ بن جاتی ہیں۔ 
ہما کے گھر پہنچے ، تو وہ خوبصورت ڈریس میں ملبوس تھی ، خوشی اور اخلاق سے سب کو خوش آمدید کہا ،، اس کا گھر بھی دو لوگوں کے لحاظ سے بہت کافی تھا ، وہی انگلش سیٹنگ ، کہ ڈرائنگ ڈائینگ ، کچن اور ایک واش روم ، گراؤنڈ فلور میں ، اور دو بیڈ رومز اوپر کی منزل پر ،، لیکن بے حد سلیقے سے سجا ، ، جو کسی حد تک کچھ ذیادہ بھی لگا ،، کہ احتیاط سے ادھر اُدھر ہونا پڑا ،، کہ کوئ ڈیکوریشن پیس گر نہ جاۓ گپ شپ میں گھنٹہ بھر لگا ،، تب تک ہما نے ڈرنکس دیں ، اصل میں اس کے شوہر کی ڈیوٹی 10 بجے ختم ہوئی ،، وہ گھر پہنچا ،، تب کھانا ، شروع ہوا ، ہما ، جاب نہیں کر رہی تھی،، کہ ان دنوں وہ اپنے پہلےبچے کی،آمد کی تیاریوں میں تھی ،، اس کی ہمت کہ اس نے بہت کچھ بنایا ، اور سبھی خوش ذائقہ تھا ، لیکن برتنوں ، اور وہ بھی انتہائی خوب صورت برتنوں ، میں کھانے کاتجربہ ، ذاتی طور پر مجھے کبھی ریلیکس نہیں کرتا ، ایک تو میز چھوٹا سا، اور پھر انگریزی تہذیب کے مطابق ،کٹلری ، دو، دو گابلٹ ، ، فی بندہ تین پلیٹیں ،، !!!آخر ذی سی اور ایمن ثمن اپنی اپنی پلیٹیں ،لے کر لاؤنج (یا ڈرائنگ روم) میں جا بیٹھے ! ،، لیکن ان کی بےتکلف ، اندازِ میزبانی اور گفتگو نے ، ڈنر یاد گار بنایا ،،، واپسی ، میں جب بےکپ اترے ،، تو ذی سی نے بتایا پیر کو آپ سب کو امی ، ابو نے بلایا ہے دوپہر کا کھانا کھانا ہے ۔ ،،، جیسا میں نے لکھا کہ اب دلہا دلہن کی دعوتوں میں ، ہماری شمولیت ، نے مجھے ،، نئے ، لوگوں اور نئ جگہوں کو دیکھنے کا موقع دلا دیا تھا ،، میَں تو ہر لمحہ انجواۓ کرتی رہی ۔ چھٹی کے دن ایمن ، ثمن نے پیدل یہاں وہاں جانے کا پروگرام بنایا ، اور اس بےکپ کے گھر کے آس پاس کا بہت دور تک چکر لگایا ، ہر گھر کے مکین اپنے اندر گھروں میں ، چھٹی منا رہے تھے یا ، کہیں باہر گۓ ہوۓ تھے ،،، کہ ذیادہ گھر خاموش ، نظر آۓ ۔ ویسے بھی ایک بچہ یا دو بچے ، لیکن تین چار کتوں کے ساتھ ، یہ لوگ خوش نظر آتے ہیں ،، یہاں اگر 20 گھر بنے ہوۓ تھے ، تو ان میں سے 6یا 7 کے باہر بکنے کے لیۓ ، موبائل نمبر لکھے ہوۓ تھے ،،، تب ایمن ثمن نے بتایا ،،، ان یورپین اور برٹش لوگوں کی عادت ہے کہ یہ زندگی میں ، تین سے چار بار گھر بدلاتے ہیں ،، ایک جب وہ ، شادی کرتے ہیں ، دوسرا جب چھوٹے بچے سکول جانے والے ہوتے ہیں ،، کہ سکول ان کی مرضی کا گھر کے نزدیک ہو ،، ایک اس وقت جب بچے ،ہائی کلاسزیا کالج پہنچ جائیں ،، اور آخری اپنے بڑھاپے کے مطابق ،،،، اور یہ آخری گھر ہمیشہ چھوٹا لیتے ہیں ، تاکہ اسے سنبھالنا ، آسان ہو ۔ اسکے بلز کادینا بوجھ نہ پڑے ،، اور ویسے بھی اس سٹیج پر یہ لوگ نہ بچوں کو ساتھ رکھتے ہیں نہ یہ خود بچوں کے ساتھ رہتے ہیں ،،، اگر میاں بیوی میں سے ایک زندہ رہ گیا ہے تب بھی ، ویلفئر سٹیٹ کی سہولتوں کے تحت ، جب تک اکیلے رہ سکتے ہیں ، رہتے ہیں ۔ ،،، بےکپ ، میں ایک دن واک کے دوران ایک 75یا76 سال کی برٹش خاتون ملی ،، محض ہیلو کہنے سے وہ رُک گئی ، مسکرا کر ، ہم سے نیشنیلٹی کا پو چھا ،، تو میَں نے تعریف کی ، کہ " آپ کا یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے " تو اس کے چہرے پر یکدم اداسی پھیل گئی ،،، اور کہا ،" ہاں ! لیکن اکتوبر آچکا ہے اور آگے چار ماہ تک سارا ماحول گرے ہو جاۓ گا ، باہر نکلنا مشکل ، دن کاٹنے مشکل ،،، گویا ، موسم ، بڑھاپا ، پرائویسی کا رواج ،، سب مل کر ، آس پاس کی خوب صورت کو بےمعنی بھی بنا دیتا ہے ! آہ ،، ! انسان کسی حال میں مطمئن نہیں ہوتا ،، جب تک دل کو" توکل اور غنا" کا شربت نہیں پلا دیتا ،،، !۔
ایک ہم مشرقی لوگ ، بہت مشکل سے جمع کیا پیسہ ، جو بہت سوچ بچار سے گھر بنالینے پر لگاتے ہیں ،،، تو امید کرتے ہیں ، اب ہمارے بچے بھی اس کی قدر کریں گے ، کبھی نہیں بیچیں گے ، اور نسلوں تک اکٹھے بھی رہیں گے ،،، ! شکر ہے کہ اب اس سوچ میں تبدیلی آرہی ہے ، لوگ اپنے جمع شدہ سرماۓ ، سے بڑے بڑے گھر نہیں بنارہے بلکہ ، صرف ضرورت کے مطابق بنا کر اولاد سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنا ، گھر خود بناۓ ،، لیکن ایسا ابھی تک 50 فیصد لوگ کر پا رہے ہیں ،،، اولاد کو شادی کے بعد بھی والدین ،،کا ، اپنے ساتھ رکھنا ، عام بات ہے ، بلکہ اسے ستائش سے دیکھا جاتا ہے ،، کہ اچھا ہے بچوں میں سے کوئ آپ کے ساتھ رہتا ہے ۔ یا اولاد کا اتنا بڑا گھر بنانا کہ والدین ، ساتھ رہیں ،، اسے بھی قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے ۔ ،، کلچر یا رہن سہن ، سوچ میں فرق ہونا ،، اپنے اپنے خطے کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی لیۓ تو کہتے ہیں ،، مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ،،،سوموار کو گیارہ بجے تک مائرہ اپنی کار میں آگئ ، آج ایمن ثمن کا پروگرام ہماری غیر موجودگی میں گھر کی مکمل صفائی ، کپڑوں کی دھلائی ، اور کچھ استری ، کچھ مزید کھانے بنانے کا تھا، اس لیے انھوں نے معذرت کرلی ، اور ہم دونوں ، پہلی مرتبہ مائرہ کے سسرالی گھر پہنچں ،، کہ مائرہ اور ذی سی بھی ابھی انہی کے ساتھ تھے کہ ذی سی کا اپنا گھر جو کراۓ پر تھا ، خالی نہیں ہوا تھا ۔ نچلی منزل میں چودھری صاحب کا بہت بڑا جنرل سٹور تھا ،، اور سائڈ سے سیڑھیاں اوپر جا رہیں تھیں ،، لیکن پہلے ہم نے چودھری صاحب سے علیک سلیک کرنے کا سوچا ، ، ان کے سٹور میں داخل ہوئیں ، تو انھوں نے سلام کے بعد نہایت احترام اور اپنائیت سے کہا " جی آیاں نوں ، " اور کہا کہ مجھے آپ کے آنے کی بہت خوشی ہوئی ہے ،، وہ بذاتِ خود بھی سادہ مزاج ہیں ، اور پھر دوست بھی ساد ہ ملے ،، کہ زندگی کے چند اُصؤل بنا لیۓ ،، محنت کرو ، سادگی سے زندگی گزارو اور بڑھاپے کو مصروف رکھو ،، انھوں نے اسی اُصؤل کے تحت ، اچھی جائیداد بنا لی تھی ، بلکہ دونوں بیٹیوں کو ایک ایک گھر بھی دے چکے تھے ، تاکہ وہ آرام سے رہیں ۔ اوپر پہنچیں ، تو مسز شاہین ، منتظر تھیں ، یہ گھر چار بیڈ رومز پر مشتمل تھا ، اور اسکا کچن تو بہت بڑا تھا ۔ ، خیر ہمیں لاؤنج میں بٹھایا گیا ، بہت ، رسمی باتیں ہوئیں ، بچوں میں سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا غیرشادی شدہ ہیں ، جو گھر پر نہ تھے ، ،، باتوں میں کھانے کا وقت ہوا تو مائرہ نے ٹیبل لگائی اور ساس کی مدد کی ،، کھانے کے دوران شاہین نے کہا میں ہر بدھ کو سینما ہاؤس جا کر فلم دیکھتی ہوں ،، جس کا اپنا ہی مزہ ہے ،، اور ایک فلم آپ کو لازماً میرے ساتھ دیکھنا پڑے گی ،، اب میں اسے بہتیرا کہہ رہی ہوں کہ مجھے آخری فلم سینما ہاؤس میں دیکھے ،، 30 یا 32 سال ہو گۓ ہیں، یہ شوق ختم ہو گیا ہے ،، ویسے بھی گھر گھر ٹی وی نے یہ سہولت دے دی ہے کہ آن پےمنٹ ، فلم دیکھ سکتے ہیں وغیرہ ،،،، لیکن ،،، یہ رواج ،، یا یہ میزبانی ، انڈین کلچر میں بہت ہے کہ ، مہمان کی تواضع کرنے میں ایک آئیٹم ،،" سینما میں فلم " دکھانا ہے ۔ جو شاید انگلینڈ میں بس جانے والے پاکستانیوں نے بھی اس رواج کا اثر لے لیا ہے ،،، خیر ہمیں بےدلی سے یہ حامی بھرنا پڑی کہ پرسوں ،، بدھ ہے اور مائرہ ہم تین کی موجودگی کو " بادلِ نا خواستہ " برداشت کرے گی ، اور ہمیں سہ پہر کی فلم دکھانے لے جاۓ گی ۔ اور پھر "بدھ کے سینما "کے لیۓ مائرہ ہمیں گھر سے گیارہ بجے لینے آگئی۔
،( منیرہ قریشی 20 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں