بدھ، 23 مئی، 2018

سفرِانگلستان(14)۔


" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت،یو کے " ( ایستادہ جنگل ) ( 14)۔"
بُدھ ، یعنی سینما کی دعوت کا دن ، جوجی اور میَں ، 11 بجے تک تیار ہو گئیں ،، مائرہ ، جب آتی ہاتھ میں کچھ نا کچھ ہمارے لیۓ سرپرائز ہوتا ،،، اس دن بھی پیسٹریوں کے دو ڈبے اُٹھا ۓ آئی ،،، تو پہلے ایک ایک پیسٹری کھائی ، تب راچٹیل یا راچڈیل کی طرف روانہ ہوئیں ،، مائرہ کے پاس ، وقت کافی تھا ، اس لیے کہنے لگی ! " میَں پہلے آپ کو ایک تاریخی ، سڑک دکھانے لے جاتی ہوں " راستہ بہرحال خوب صورت مناظر کے ساتھ چل رہا تھا،، اور پھر شہری آثار نظر آۓ ،، اور مائرہ نے سسرالی گھر سے ایک الگ راستے کی طرف کار موڑ لی ۔ جہاں دو یا تین میل لمبی ،، اورکم از کم 30/25 گز چوڑی ایک سڑک تھی ، جو اینٹوں کی بنی ہوئی تھی ،،،، ( میَں اگر بھول رہی ہوں تو معذرت ، شاید اس کا نام پرنسسز سٹریٹ ہے ) اس سٹریٹ یا شاہراہ ، کو کونسل کی طرف سے نہیں چھیڑا گیا ، ، کہ پرانے زمانے کی ایک یادگار قائم رہنا چاہیۓ ، جہاں کبھی گھوڑے اور بگھیاں چلتی تھیں ۔ آج اس کے گرد کوئی تجاوزات ، کوئی ہوٹل ،ریسٹورنت نہیں کھولا گیا ،، تاکہ اس کا پرانا تائثر برقرار رہے ۔ ،، یہیں سے اس نے کار اپنی ساس کو لینے کے لیۓ موڑی ۔ وہ منتظر تھیں ،، ہم نے علیک سلیک کیا ، اور نۓ رشتوں سے محتاط گفتگو کرتی رہیں ۔ آدھ گھنٹہ کی ڈرائیو ، کے بعد ہم شاہین کے پسندیدہ ، سینٹر پہنچیں ۔ اس کا نام( ٹریفیرڈ سینٹر ) تھا ، یہ بہت بڑا سینٹر تھا ، اور کوئی شک نہیں اسے نہایت خوبصورتی سے بنایا ، اور سجایا گیا تھا ، داخلی دروازے سے ہی جگہ جگہ پلرز کے ساتھ رومن لباسوں میں ملبوس کہیں ، عورت اور کہیں مرد کے مجسمے تھے ، کہیں موسیقی کے آلات سمیت ، حسین خواتین و حضرات کے مجسمے تھے ، جو کسی فوارے کے گرد بناۓ گۓ تھے ،، اسی ایک چھت تلے ، شاپنگ کا سبھی مال ومتاع ، موجود تھا ، کچھ چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹس ،،ساتھ ہی ایک مناسب سائز کا سینما ہال ، بھی دوسری منزل پر بنایا گیا تھا ،، شاہین نے اچھی میزبانی کی روایت نبھاتے ہوۓ ہمیں دوپہر کے کھانے کے لیۓ مجبور کیا ،، ہم نے انھیں بتایا ناشتہ دیر سے کیا گیا تو بھوک نہیں ،، انھوں نے ہمارا کوئی بیان ماننے سے انکار کر دیا،، تو ہم نے ان کی بات مان لی ،، لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کوئی ، ہلکا پھلکا لنچ ہو ،، ایک چھوٹے سے لبنانی ریسٹورنٹ میں آ گئیں ، لبنانی کھانے ٹیسٹ کرنے کا میرا پہلا تجربہ تھا ، اور وہ واقعی بہت اچھا تھا ، خاص طور پر یہ کہ ، کسی قسم کا آئل نہیں تھا ،، یہ کھانا ختم ہوا تو ، آئس کریم پر زور دیا گیا لیکن ہم نے اسے کسی اور وقت کے لیۓ رکھا ۔۔ اور اس وقت تک دوپہر کے تین بج چکے تھے ، مائرہ نے انڈین فلم " حیدر " کے ٹکٹ لے لۓ تھے ، یہ ، جدید ، طرز کا درمیانہ سائز کا سینما ہال تھا ، جس میں 20/ 25 انڈین لوگ اور 8/9 پاکستانی نظر آۓ ۔ حالانکہ اس میں 200 سو لوگوں کی گنجائش تھی۔ یہ تھری ڈی سینما تھا ۔ فلم اچھی لگی ، موضوع بھی دونوں اقوام کی باہمی دلچسپی ، اور باہمی مسلے کا تھا ، جو کئی عشروں سے حل مانگ رہا تھا ۔ تین گھنٹے سے پہلے فلم ختم ہوئی تو ہم یوں تھک کر چور تھیں ، کہ لگتا تھا ، ہم دونوں ، جیسے بےکپ سے پیدل آئیں تھیں ۔ اور ، ہمارے منہ کو بھی جیسے " تھکاوٹ " چڑھ گئی تھی کہ ہم دونوں ایک لفظ کہے بغیر کار تک پہنچیں ،، اور ، واپسی کے سفر میں سواۓ شاہین سے شکریئے کے ، جملوں کے ، کو ئی تبادلہ الفاظ نہ ہوا ۔ ہم تھکن سے چُور، پہلے شاہین کو اتارا ،، پھر ، مائرہ ہمیں گھر چھوڑنے چلی ، لیکن راستے بھر ، اس نے ہمیں ہلکے پھلکے انداز میں کہا " توبہ ہے آپ لوگوں سے اتنا نہیں ہوا کہ میری ساس کو کہتیں ، ہاں بھئ شکریہ ، اچھی فلم تھی وغیرہ وغیرہ ،،، کچھ بھی تبصرہ نہیں کیا ،، یہ سچوئیشن ہم دونوں کے لیۓ پھر شدت سے ہنسی روکنے والی بن گئی،، میرا دل چاہا کہوں "" کیا شاہین نے یہ فلم بنائ تھی ""، ؟ لیکن ہم دونوں کا صرف ہنسی روکنے اور چپ رہنے میں فائدہ تھا ! ہمیں ڈراپ کر کے وہ ، واپس چلی گئی۔ ،،
ایمن ثمن نے ہماری شکلوں پر چھائی تھکاوٹ کا فوری علاج کیا کہ ہمیں گرماگرم چاۓ پلائی ، اور تھکاوٹ دور ہوئی ،، آج رات کے معمول میں فلم کو شامل نہیں کیا ،، اور اس دن اُن سے اپنےبچپن کی ، اور اپنے والدین کی باتیں کرتیں رہیں ،، اسی دوران ہم نے اپنا " جائزہ" لیا کہ ، یہ حد درجہ بےزاری کی وجہ ہمیں یہ سمجھ آئی کہ سینما میں فلم دیکھنے کی نہ تو دلچسپی رہی تھی ، نہ اتنا شور سہنا اچھا لگا ،، یہ تفریح اب مدت ہوئی چھُٹ چکی تھی ۔ اب اگر فلم دیکھنے کو دل چاہے بھی تو ، تو اپنے ٹی وی چینیلز سے جو دیکھنے کو مل جاۓ ، بس ٹھیک ہے ،، اگلے چند دن ایمن ثمن ہمیں کبھی کسی چیز کی خریداری کروانے لے جاتیں ، کبھی پیدل ارد گرد کے خوبصورت گوشوں کو دکھاتیں ۔ اور پھر ایک دن مائرہ ، ایمن ثمن اور ہم دونوں کو لمبی ڈرائیو پر لے گئی ،، ! ۔
اباجی کی گاڑی کو میں نے شادی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کافی چلایا لیکن واہ کے اندر ہی 15یا 10 میل کے اندر ،،،جبکہ جوجی نے گاڑی ، اپنی شادی کے بعد سیکھی ، اسوقت اس کے تین بڑے بچے بہت چھوٹے تھے، 1981 سے آج تک چلا رہی ہے،، لیکن مجھ سے اپنی کار ایک مرتبہ گھر کے اندر داخل ہوتے وقت لگ گئی ، یہ نقصان کم ہی ہوا لیکن ، میَں اعتماد کھو بیٹھی،، اور پھر نہ چلا پائی ،، جبکہ جوجی نے اپنی مہارت برقرار رکھی ، اس سے یہ فائدہ ہوا کہ اپنے بےشمار کام نبٹانا  آسان تو ہوا۔ لیکن ایک فائدہ یہ ہواکہ جب موسم خوشگوار ہوتا ، ہم بچوں کو کار میں بٹھاتیں ، اور ذرا نزدیکی پکنک پوائنٹ پر پہنچتیں ، یا کبھی لمبی ڈرائیو پر نکلتیں ،، اور اکثر ایسی خاموش ، سڑک ، جو نامعلوم سے محسوس ہوتی ، اس طرف گاڑی موڑ لیتیں ، محض ایڈونچر کے خیال سے ، کہ اپنے علاقے کے آس پاس کے خوبصورت گوشوں کو دریافت کریں ۔، اسی عادت کو کچھ حد تک ہماری اولادوں نے اپنا لیا ہے ۔ خاص طور پر لڑکیوں نے ،، لڑکے خواتین کے ساتھ ہونے پر محتاط ہو جاتے ہیں ،، اور اب ،،، یہاں مانچسٹر کے خوب صورت راستے ہمیں ، اپنی طرف کھینچتے ، اور کبھی کسی تنگ پگڈنڈی کی طرف ، ،، کبھی کسی خیابان کی طرز کے راستے میں جا کر چکر لگا آتیں ، ، اسی طرح ایک دن ایک چھوٹا سا راستہ نظر آیا ، مائرہ نے کار اسی طرف موڑی ، اور ایک بہت پرانے طرز کے پُل سے گزر کر آگے پہنچیں تو چند پلرز لگے ہوۓ تھے ، جس کا مطلب تھا کوئ بڑی گاڑی نہیں آ سکتی ۔ یہاں گاڑی روک کر ہم پیدل آگے چلیں ، تو خاموشی ، کھیتوں ، فینس لگے ایک فارم ، اور ان سب کے ساتھ ایک پتلا راستہ ، جو بہت آگے جا کر صرف دو پرانی طرز کے گھروں کی طرف جاتا تھا ،، اور ان سب کے سائڈ سائڈ پر گھنا جنگل ،،، جو اونچے پتلے درختوں سے اٹا ہوا تھا ، ان کی شاخیں بہت اوپر جا کر گتھم گتھا تھیں ،، لیکن یہ خاموشی ، یہ سبز ، کھیت ، اور فینس کے اندر، گلابی رنگ کی نشانی لیۓ بھیڑیں ،، اور گہرا سیاہی مائل سبزجنگل ،، کیا منظر تھا کہ ، قدم آگے جانے کو تو تیار تھے ، لیکن واپسی کے لیۓ نہ تو دل چاہا ، نہ ذہن مانا ۔ مجھےیہاں دیر تک رکنا بہت ہی اچھا لگا ،،، اور اسی منظر نے یہ چند جملے سُجھا دیۓ ۔ اس نظم کے تصوراتی ، جنگل کی منظر کشی ، " کومل ذیشان " نے اس نظم کو ایک گھنے ، نامعلوم جنگل کے پس منظر سے کیپشن دے کر مجھے تحفہ دیا تو مجھے بہت اچھا لگا ۔ یہاں یہ نظم لکھ رہی ہوں کہ میرے احساسات ، آپ سب سے شیئر ہو جائیں گے ،، ٰ( یہ محض احساسات کو الفاظ میں سمونا ہے ، اوزان کو ذہن میں نہ رکھا جاۓ )۔
" شام کے دھندلکے میں "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اکتوبر کی خاموش جھڑی میں 
ایستادہ جنگل ،،
یوں کھڑا ہے ، جیسےکوئ بوڑھا فوجی !!
اپنی کہانیاں سنانے کو بے قرار ہو 
اور سننے والا کوئی نہ ہو 
دُکھ کچھ کہنے کا ، کچھ سننے کا ،
دُکھ کچھ چُپ رہنے کا ! !
دُکھ بے نیاز وقت کی ٹِک ٹِک کا 
بقا کا عجیب دُکھ !
فنا کا بے آواز دکھ !
نظاروں کو سراہتی آنکھیں ،، اندھیروں میں اتر جاتی ہیں !
ایستادہ جنگل لبوں پہ لفظ سجاۓ ، کھڑے ہی رہ جاتے ہیں ! ( 24 اکتوبر 2014ء)۔
وہاں کا جنگل ، مجھے آج بھی بلاتا محسوس ہوتا ہے ،، 
( منیرہ قریشی ۔ 23 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں