ہفتہ، 19 مئی، 2018

سفرِانگلستان(12)۔

 " سلسلہ ہاۓ سفر"
" ولایت ،یوکے" " لیک ڈسٹرکٹ " (12)۔"
اب ، ان دنوں تو دلہا دلہن کے اعزاز میں دعوتوں کا سلسلہ بھی چل رہا تھا ، جس سے مجھے بھی طعامِ دہن کا فائدہ توپہنچ ہی رہا تھا، اسی بہانے مختلف علاقے دیکھنے کو مل رہے تھے ۔ مائرہ ،، وغیرہ کی منجھلی پھوپھو ممتاز اور ان کے میاں جو مستقل رہائش تو امریکا میں رکھتے تھے، لیکن اکثر اپنی ، یوکے میں رہائش پزیر بیٹی ، نائلہ کے پاس آ کر رہتے ہیں ،، وہ دونوں ان دنوں یو کے، آۓ ہوۓ تھے ، اور اسی لیۓ مائرہ کی شادی میں بھی شریک تھے ،، نائلہ، اور اسکا میاں سجاد ڈاکٹر ہیں ، لیکن نائلہ کافی عرصہ سے پریکٹس نہیں کر رہی ، ان کی ایک ہی15 سال کی بیٹی ہے ، ان دونوں نے اپنی طرف کی دعوت اتوار کو رکھی ، تاکہ عرفان ،اور مائرہ کو بھی چھٹی ہو ، اس دن ہم صبح ذرا جلدی تیار ہو گئیں ، کہ ، ایک لینڈ کرور ٹائپ گاڑی ،جو عرفان کی تھی ،میں سب نے اکٹھے جانا تھا ۔ ہم سب معززخواتین 10 بجے ہی تیار ہو گئیں ، تاکہ دلہن کی ڈانٹ نہ شروع ہو جاۓ ،، اور ساڑھے دس بجے ہمارا سفر شروع ہوا ،، ہم" بلیک برن " جارہۓتھے جو " بے کپ"،،، یا ،مانچسٹر سے 50یا 40 منٹ کی ڈرائیو پر تھا ،،، سارا راستہ ، بہت ہی صاف ، آرگنائز ،، کوئی وال چاکنگ نہیں ، کوئی غیرمتعلقہ عمارت نہیں ، نہ حکمرانی کے نشے میں چُور ، وزراء ، بیوروکریٹس نے جگہ جگہ الاٹمنٹ کرا کر بنگلے ، یا ریسٹورنٹس ، بنا رکھے ہوں ،،، وہی بات "" قانون سب کے لیۓ "" نتیجہ یہ کہ نہ راستوں کی خوب صورتی متاثر ہوئی ، نہ بےتحاشا  بلڈنگز کی بھرمار نے رش اکٹھا، کیا ،، اور نہ خواہ مخواہ کی ہاؤسنگ سکیموں نے ، گرین ایریاز کو نگلا ۔،،،، راستوں کے لش گرین نظارے ،، دیکھنے والے کو بھی تازہ دم رکھتے ہیں ۔ اور یہاں بھی سارا راستہ ، بڑی ، چوڑی ہائی وے کے ذریعے وقت ایسا گزرا کی ، علم ہی نہ ہوا ۔ نائلہ کے ،، گھر کے آس پاس کا ماحول ، ، یوں لگا جیسے کسی "میگزین" میں سے نکل کو یہ گھر ، یہاں سِٹ کر دیا گیا ہو ،، اس کی روڈ پر بہ مشکل دو تین گھر تھے ، جو ذرا مناسب فاصلے پر بنے ہوۓ تھے ، اس کے گھر کے آگے کا فینس کے بعد کنالوں میں دور تک لش گرین ایریا تھا ، جس کے آخر میں کوئی فارم شروع ہو گیا تھا ، جہاں اکا دکا بھیڑیں دکھائی دے رہی تھیں !!! اور حسبِ معمول مجھے ، " فطرت کے جادو " نے جکڑ لیا ۔ باقی خواتین و حضرت ،،تو گھر میں داخل ہونے والی چند سیڑھیوں کی جانب چل پڑے ، اور میرا رُخ اس طرف مڑ گیا، اس خوب پھیلے " اوپن اییریا " اور بعد میں بنے فارم ہاؤس اور اسکے فورا" بعد سرسبز ٹیلا شروع ہو رہا تھا ، ، اس سارے منظر کی خوب صورتی ، کو آنکھوں میں سمونے کے لیۓ کچھ دیر کھڑی رہی! سجاد اور نائلہ ، باہر اسقبال کے لیۓ کھڑے تھے ،، خیر، چند منٹ بعد، گھر میں داخل ہوئی ، اور ان کے گھر کے محلَ وقوع کی تعریف کی ،،، تو کہنے لگے ، ہمارے اکثر احباب آتے ہیں تو باہر بیٹھنا ذیادہ پسند کرتے ہیں ،، گھر کے ڈرائنگ میں باجی ممتاز اور انکے شوہر رشید بھائی سے علیک سلیک ہوئی ، ،، انھوں نے کہا ، پہلے گھر دیکھو ،، اور یہ تمہارا باہر کے منظر کو سراہنا ، ہمیں اچھا لگا ۔ سارا گھر دیکھا ، نائلہ اور سجاد نے یہ گھر خرید رکھا تھا ، اس لیۓ ، اسے اپنے ذوق اور جیب کے مطابق سجا رکھا تھا ،، یعنی پاکستان سے سپیشل منگواۓ گۓ ، چنیوٹی فرنیچر سے ،،،، اب آخر میں رشید بھائی نے نچلی منزل ( گراؤنڈ فلور)کے اس پورشن کو دکھایا ، جو دراصل کچن کے ساتھ جڑا گیراج تھا ۔ ان کی بیٹی داماد نے ، کونسل سے اجازت لے کر اس گیراج کو لاؤنج میں " تبدیل " کروا لیا تھا ، اور اب یہ دونوں اماں ابا ، جب اس بیٹی کے پاس آتے ، ان کا جاگنے کا سارا وقت ، اسی لاؤنج میں گزرتا ،اور یہ بات خصوصی طور پر اس لیۓ بتائی گئی کہ باہر کا سارا منظر اسی لاؤنج سے نظر آرہا تھا ،،،، میں نے رشید بھائ کے ذوقِ منظر کی داد دی ۔ باقی گھر نہایت آسودہ حالی کا مظہر تھا۔ عین ایک بجے تک کھانا کھا ، لیا گیا ، تصاویر بنیں ، اور دوپہر دو ڈھائ بجے ہماری واپسی بھی ہو گئی۔عرفان ، کبھی پنجابی اور کبھی انگلش میں ہم سے باتیں کرتارہتا ، وہ ایک خوش اخلاق ، محبت ، اور عزت کرنے والا بچہ ہے ، اللہ اس جوڑے کو خوش آباد رکھے ،،، سارا راستہ عرفان اپنے ملک کی اچھائیاں گنواتا رہا ،، جو بے جا نہیں تھیں ، ،وہ پاکستان اپنے والدین کے ساتھ اس وقت گیا ، جب ایک ڈیڑھ سال کا تھا ، اس کے بعد اسے پاکستان جانے موقع نہیں ملا ،تھا اسلۓ اسے پاکستان سے متعلق کچھ خاص معلومات نہ تھیں ۔ اس نے یہاں کے قوانین کی بھی تعریف کی ، کہ اگرچہ ہم یہیں کے پیدائش ہیں ، لیکن کبھی کبھار کوئ متعصب گورے ہمیں تنگ کریں یا کوئ ذرا بھی مسلہء پیدا کریں ، تو پولیس ہمیں پورا تحفظ دیتی ہے ،،، اس نے مائرہ سے کہا ، آنٹی اور خالہ کو " لیک ڈسٹرکٹ " دکھا کر لاؤ ، وہ جگہ ان کے ذوق کے مطابق ہے ۔ ،،، پتہ چلا کہ مانچسٹر خود شمال کی طرف واقع ہے لیکن ، " لیک ڈسٹرکٹ ، ذرا ہمارے ہاں کی" گلیات " کی طرح ہے ۔ ساتھ ہی مائرہ اور عرفان نے صلاح دی کہ کسی ورکنگ دن میں جائیں گے ، وہاں رَش کم ہو گا ، کیوں کہ ہفتہ ، اتوار مری کی طرح یہاں بھی بے تحاشا رش ہو جاتا ہے ۔ چناچہ آنے والے منگل کادن مقرر ہوا کہ لیک ڈسٹرکٹ کو بھی ، مل آئیں ،،، !گھر آکر رات کے کھانے کے ساتھ ایمن ،ثمن نے لیک ڈسٹرکٹ کے حساب سے کھانے پینے کی لسٹ بنائی ، اور ایک اگلے دن سب چیزیں لے کر پیک بھی کر لیں ۔ 
منگل کی صبح ، فجر کے بعد لمبا سونے ، یا ریسٹ کرنے کے بجاۓ ذرا جلدی تیار ہو گئیں ، 9 بجے تک ، مائرہ کی لینڈ کروزر کی آمد کا علم ہوتے ہی ہم باہر آگئیں ، تاکہ اس سے اپنی " جلد تیاری " کی داد حاصل کریں ،، لیکن اس نے صحیح " ہیڈ مسٹریس " کی طرح ہم پر نظرڈالی ، اور ایمن ثمن پر سوالوں کی پوچھار کر دی ،، جس میں ، پہلا سوال اکثر یہ ہوتا " موبائل چارجرز رکھے ہیں ؟ پانی کی بوتلیں ،، ؟ سر درد کی دوا،،؟ ؟ اور آج ان میں سے سب سوالوں کے جواب ہاں میں تھے ،، کیوں کہ وہ دونوں بھی  پُرجوش تھیں ، ،، اللہ کا نام لے کر بے کپ سے چلے تو راستہ ویسے ہی بہت صاف ، اور سرسبز تھا , صفائی میں یہ قوم ہمارے دین کا رہنما اُصول اپنا چکی ہے " کہ صفائی نصف ایمان ہے "،، جبکہ کبھی یہ انتہائی گندہ رہنے والی قوم تھی ،، خود کوکوئی بدلانا چاہے تو ، بدلا سکتا ہے ،، اگرچہ ابھی بھی انھوں نے جسمانی صفائی بہت نہیں اپنائی ، لیکن ماحولیات کو صحت مند رکھنے میں پوری توجہ دی ہے ، ، لیک ڈسٹرکٹ ، اچھا خاصا دور تھا ، یعنی دو گھنٹے سے زیادہ کی ڈرائیو ، تھی ، جوں جوں اس علاقے کے قریب پہنچیں ، سڑک کے دونوں طرف گھنی اور اونچی جھاڑیوں کا ، جنگل نظر آنے لگا ۔ خاموشی کا اپنا اثر اور زبان ہوتی ہے ، جو ہر علاقے ، ہر فضا ، ہر ماحول میں فرق طور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ ایک نہایت معنی خیز قول پڑھا تھا ، پتہ نہیں کس کا ہے ۔۔۔۔" خاموشی کا ادب کرو ، یہ آوازوں کی مُرشد ہے"۔
لیک ڈسٹرکٹ ،، کاحسین درختوں سے گھِرا " کنج " !۔
یہاں بھی ابھی دن کی شروعات تھی ، لیکن آبادی نہ ہونے یا ، سڑک سے دُور تھی ، کہ خال خال کوئی گھر نظر آرہا تھا ، شاید کافی بڑے بڑے فارمز ، حکومت کی طرف سے آباد کرنے کےلیۓ دیۓ گۓ ہیں ۔ 
لیک ڈسٹرکٹ خوب صورت پہا ڑیوں میں گھِرا ایک ٹاؤن ہے ، جو اپنی خوب صورت ،جھیلوں ، انگلینڈ کے پہلے نیشنل پارک، نہایت خوبصورت اور مشہور شاعر " ولیم ورڈورتھ" کی وجہ سے مشہور ہے ،، وہ شاعر جو اپنے ہی علاقے جس کانام "ڈیوڈن " تھا، کا اتنا عاشق تھا کہ اسے دنیا کے کسی خطے کی سیر کی بھی خواہش نہ ہوئی ، اس نے اپنی شاعری میں حسین ترین منظر کشی کی ، کہ اپنے علاقے کی خوبصورتی کا حق ادا کر دیا ،، اور اب دنیا بھر کے سیاح اس علاقے کی قدرتی خوب صورتی کے واقعی عاشق ہو جاتےہیں ۔ 
اتفاق سے آج موسم بھی بہت خوشگوار تھا ،، مری کے علاقے نتھیا گلی ،جیسا علاقہ ، آس پاس کی دیواریں اَن گڑھ پتھروں سے بنی ہوئی تھیں۔
ہم پیدل ادھر اُدھر چلنے لگیں ، بالکل بہاڑی علاقے کی طرح مخصوص چھوٹی چھوٹی دکانیں ، چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ ، اور جگہ جگہ سڑک کناروں پر بنچ ،،، مجھ جیسے جلد تھک جانے والے کچھ دیر سستا لیں ، اور کچھ دیر پھرنے کے بعد ، مائرہ نے ایک خوبصورت ، دوتین منزلہ ہوٹل کااتخاب کیا۔ یہ بہت پرانے انداز سے  آراستہ کیا گیا تھا۔پرانے اندازکا فرنیچر ، کچھ وکٹورین ، کچھ جرمن ، کچھ سپین کے  کلچر کی عکاسی کر رہا تھا ۔
ہم نے ایک بڑی سی کھڑکی کے ساتھ کی میز سنبھال لی ۔ اپنے ساتھ لاۓ سینڈوچز بھی نکال لاۓ ، اور ہوٹل کے کھانے کے انتظار کرنے لگے ،، کھانا اگرچہ منفرد اور بہت تھا لیکن ایسا کوئی خاص ذائقہ نہ تھا ، شکر کہ ہم اپنے سینڈوچز لے گئی تھیں ، آخر میں کافی پی کر ، وہیں  ظہر اور عصر پڑھی ، اور پھر لیک کی طرف پہنچ گئیں ، صاف ستھری جھیل ، جس میں کچھ چھوٹی کچھ بڑی بوٹس کھڑی تھیں ، کچھ چل رہیں تھیں ۔ ہم اس نظارے سے لطف ہوتی رہیں۔اور جھیل کے کنارے نہایت خوبصورت بنے سرسبز پارک میں بھی کچھ دیر بیٹھیں ، وہاں ہمیں بہت ہی پیارے کبوتر کے سائز اور شکل کے سفید پرندے جابجا پھرتے نظر آۓ ، اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب اس پرندے نے آواز نکالی تو وہ " کائیں کائیں" کی تھی۔

بےاختیار ہنسی آئی کہ اب تک ، کالے ،یا، گرے کوے تو دیکھے تھے لیکن سفید کوا دیکھ کر مزا آگیا ۔ یہاں کچھ تاریخی عمارتیں تھیں جن تک تھوڑی سی چڑھائ چڑھنی پڑتی تھی ، میرا جانا ممکن نہ تھا ، جوجی میری وجہ سے رک گئ ، بچیوں نے ہمت کی ہو کر آگئیں ، لیکن اسکے 200 سال پرانے داخلی دروازے کے ساتھ ہم نے تصویریں بنوائیں ،،،جو ہماری پہنچ تک تھا ، یہاں سے مزید آگے جانے والی سڑک اس خوبصورت پہاڑی کی طرف جا رہی تھی جہاں کی آبشار دور سے پانی کی شفاف لکیر کی صورت نظر آرہی تھی ،، چونکہ ہم نے ذرا رات ہونے سے پہلے واپس پہنچنا تھا ، اس لیۓ واپسی کی راہ لی ،، اگرچہ " کہ دل ابھی بھرا نہیں " والا سلسلہ تھا ، ، لیکن یہاں کا اصل لطف اٹھانا ہے تو کم ازکم ہفتہ بھر رہنا مناسب ہوگا ۔ اور کچھ یاد گار سوئینئرز کے ساتھ واپس چلے آۓ ، ابھی ، شام کے 5 بنے تھے ، لیک ڈسٹرکٹ سے نکلے آدھ گھنٹہ ہوا تھا ، مائرہ نے ایک خوبصورت سپاٹ دیکھ کر کچھ دیر کے لیۓ کار روکی ، اور ہم سب ایک ایسے کُنج میں داخل ہوئیں ، جو قدرتی رنگین پھولوں اور رنگین پتوں کے درختوں سے گھِرا ہوا تھا ،، یہاں نہ صرف فضا میں رنگ گھُلے ہوۓ تھے ، بلکہ وہی حُسن کا جزو ، " خاموشی " موجود تھی ، جس نے ذہن پر اپنا خاص تاثر چھوڑا ،، جو 2014ء میں لیا گیا ، اور آج 2018ء تک تو موجود ہے ،،،، فطری حُسن ، میں اس کے خالق کی وہ بوقلمونی نظر آتی ہے ، کہ بھلاۓ نہ بھُولے ،،، !!۔
( منیرہ قریشی 19 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں