جمعہ، 25 مئی، 2018

سفرِانگلستان(16)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
 سفرِِ ولایت ، یوکے " (16)۔"
اگلے ہی دن مائرہ کی پکی سہیلی نادیہ کی فیملی نے مائرہ اور ہم سب کو دعوت پر بلایا ، خود نادیہ لندن میں رہائش پزیر ہے ، اس لیۓ اس کا آنا ممکن نہ تھا ، ، لیڈز میں ان کے تین چار گھر ہیں ،، ایک نادیہ کے امی ابا کا ، دوسرا ماموں مامی کا ، جو نادیہ کی پھوپھو بھی ہیں ، تیسرامزید دو پھوپھیوںکے ، اور ایک خالہ کا ایک دو اور رشتے داروں کے ،، گویا یہ ساری گوجر خان کی فیملی ،،، تیسری نسل تھی جو انگلینڈ میں  پَل کر جوان ہوئی ، نادیہ کے دادا ، نانا ،پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی یہاں اپنے چند رشتہ دار مردوں کے ساتھ آۓ ،، سادے اور محنتی لوگ ، کچھ ہی عرصے میں خواتین کو بھی بلایا جانے لگا ، اور اپنے آپ کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ دی ،، پہلی اور دوسری نسل بہت تعلیم یافتہ نہیں تھی ،، لیکن آج ان کی بیٹیاں اعلی تعلیم یافتہ ہیں ، کچھ لڑکے پڑھ گۓ ہیں کچھ کم تعلیم یافتہ ،،، ۔
نادیہ سے ہمارا پہلا تعارف ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کالج میں ہوا جب میں ، جوجی کے ساتھ ، مائرہ کو ہوسٹل چھوڑنے گئیں ۔ مائرہ کو جو کمرہ ملا اس میں دو لڑکیاں اور بھی شامل تھیں ، ان میں سے ایک لڑکی پہنچ چکی تھی ، جو ذرا ریزرو ، سی لگی ،، جبکہ دوسری لڑکی ، اپنے ساتھ بڑے بڑے سوٹ کیسوں کے ساتھ ہم سے چند منٹ بعد پہنچی ،، مائرہ نے تھوڑی سی سِٹنگ میں اس کا ہاتھ بٹایا ،،، اور ،، ان دونوں کی ہیلو ہائ ہوئی ،، تو دراصل ان کی کیمسٹری مل گئی ،، دوستی کا وہ پہلا دن ،، اور آج 2018ء ،، مائرہ کا ذکر ، اس نے اپنی فیملی کے ہر بندے سے کیا ،، باہمی محبت ، نے یہ حال کر دیا کہ مائرہ ان کے گھر کا بندہ بن گئ ،، مائرہ لمبی اور دبلی ہونے کی وجہ سے اس فیملی کو " کینڈی " ( مشہور بے ڈھنگی گڑیا ) لگی ،، اور یہ نام اس خاندان کے لیۓ مائرہ کے لیۓ فکس ہے !۔
چونکہ نادیہ نہیں آسکی تھی ، اس لیۓ دعوت اس کی امی ، اور مامی کی طرف سے ملی ، ان کے بال بچے بھی جمع تھے ،، یہ لوگ لیڈز میں سیٹل تھے ،، بہت خوبصورت بنگلے ، ایک ہی روڈ پر کچھ فاصلوں پر تھے ، یہ محنتی لوگ ، پاؤں چادر کے مطابق پھیلا نا سیکھ گۓ تھے ،، اب تیسری نسل کچھ ذیادہ آرام طلب تھی ۔ ہم11بجے دوپہر پہنچے ، سب مامی کے گھر جمع تھیں ،، کافی دیر تک مجھے سمجھ ہی نہ آیا کہ کون ، کیا ہے ماشا اللہ 5 لڑکیاں ان کی اور ہماری ایمن ثمن ، مائرہ ، بڑی خواتین میں ایک تو نانی یا دادی تھیں ، اور ہمیں کمپنی دینے والی بھی چار خواتین تھیں ، خوب شاندار گھر تھا ، اسی گھر کے پچھلے لان میں ایک انیکسی ہے ، یہاں مائرہ اس وقت ایک ڈیڑھ مہینہ رہی جب اسے کسی کالج میں داخلہ لینا تھا ۔انھوں نے صرف اسی کو نہیں ، ان کے گھر آنے والے ہر مہمان کو اسی طرح ویلکم کیا جاتا ہے ، جو ذیادہ ٹھہرنے والا ہویہاں ٹھہرتا ہے ۔ مزیدار اور بھرپور ورائٹی والا لنچ دیا گیا ۔شام کی چاۓ پی کر ہم نے رخصت لی ، یہ ایک یادگار ملاقات رہی ،، واپسی پر مائرہ نے ایک بڑا چکر لیڈز کا لگایا ، اور اہم سڑکوں کا نظارہ کروا دیا ، اور یوں " لیڈز " کے علاقہ پر ایک نظرِ غائر ڈال کر واپس ہوئیں۔
اگلے دن گھر کی چیزیں اور گروسری کا دن تھا ، ہم نے آج موریسن مال سے گروسری خریدناتھی ، آج ہم بس میں وہاں پہنچیں ، تو چمکتے دن میں میں مطمئن چہرے دیکھتی رہی ، گروسری ایمن ثمن خریدتی رہیں ،، کہ وہ جانتی تھیں ، کون سی چیز کتنی خریدنی ہے ! خریداری کے دوران مجھے ، تو لوگوں کے چہروں ، رویئوں ، چال ڈھال ، سبھی پر فوکس کرنے کا موقع مل گیا ، ایک اجنبی ملک ، جہاں دنیا کے قریباً ہر خطے سے آۓ لوگ سیٹل ہیں ،، لیکن ہر کوئی اپنی جڑوں سے کسی نا کسی طور جڑا نظر آتا ہے ۔ کہیں خدوخال ، کہیں لباس ،کہیں کھانے کی چیزیوں کی پسند ، کہیں رویۓ ، ،،، اور صاف پتہ چل جاتا کہ اس کا تعلق کس خطے سے ہو سکتا ہے !،،، ورلڈ وائڈ کے نام سے شاپنگ مال نے سب سے پہلے " حلال فوڈ " کا سلسلہ چلایا تو ایسڈا ( یا ایسٹا ) شاپنگ مال نے نے فورا" ایک کارنر حلال میٹ ، کے نام سے متعارف کروایا ، اور اس کی شاخیں انگلینڈ کے ہر بڑے ، چھوٹے شہر میں ہیں ، جو مسلم ہی نہیں غیر مسلمز کی دلچسپی کا مرکز بھی بن چکی ہے ۔ کیوں کہ اب کچھ فیصد غیر مسلمز بھی حلال گوشت میں دلچسپی لینے لگے ہیں ۔ واپسی پر سامان ذیادہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسی منگوا لی گئ ،، اور اتفاق سے پھر ایک پاکستانی ڈرائیورنے ہمیں پہنچایا ، اخلاق سے احترام سے ۔دو دن بعد ایمن ثمن نے ایک چکر ہمارے ساتھ ، مانچسٹر کے اس علاقے کا پھر لگایا ، جہاں یہ لوگ رہ کر گئی تھیں ۔ مائرہ نے ہمیں مسلسل اپنی ٹرانسپورٹ سروسز مہیا کیۓ رکھیں ،، اس دن تو ویسے بھی طلعت کے گھر اس کے اور ذی سی کا ڈنر کیا گیا تھا ،، ذی سی تو مصروفیت کی وجہ سے نہ آسکا ،، ہم سب خواتین ذرا کچھ گھنٹے پہلے مانچسٹر کے اس شہر پہنچیں جہاں طلعت کا گھر تھا ،، کچھ ہی فاصلے پر مائرہ اور ایمن ثمن نے جب مانچسٹر میں آتے ہی رہائش اختیار کی تھی ،،، تو ان کا گھر تھا ،، جو وہ مجھے بھی دکھانا چاہتی تھیں ، ! یہ ایک با رونق چوڑی سڑک کے کنارے دو بیڈ رومز کے چھوٹے گھر تھے ، جو ایک لائن میں ایک جیسے بنے ہوۓ تھے ،، لیکن سجانے والوں نے اپنے فرنٹ پورشن کو پھولوں سے سجا سنوار رکھا تھا ،،، یہاں فطری ، نظاروں والی کوئ بات نہ تھی ،، یہ تو میری قسمت اچھی رہی کہ شادی کی وجہ سے بڑا گھر لینا پڑا ، اور وہ بھی کنٹری سائڈ پر ،،،۔ اور صحیح بتاؤں تو انگلینڈ کے ان دو بیڈ رومز میں ایک باتھ ، کی سمجھ نہیں آئ ،، ہم پاکستانی کچھ ذیادہ نخرے کرتےہیں ، اور چاہتے ہیں ، کم ازکم دو باتھ رومز ضرور ہوں ، اور دوسرے یہ کہ اس مصروف شاہراہ ، سے مجھے ہر وقت کے خوب صورت نظارے کہاں دیکھنے کو ملتے ،، لیکن باہر سے گھر کو دکھا کر جوجی نے مائرہ کو اس چھوٹے سے پرانے قلعے میں لے جانے کا بولا ،، جو فی الحال خالی پڑا تھا ، اور جوجی بچیوں کے ساتھ اکثر یہاں آکر بہت پرانے درختوں کے نیچے بیٹھتی ، تھی ۔ جس کے پیارے سے تین چار کنال کے لان میں بیٹھنے کی کوئ پابندی نہ تھی ، وئیں ، چند بینچ بھی پڑے تھے ،، جن میں سے ایک پر ہم بیٹھیں ، کچھ تصویریں لیں ، قلعہ چھوٹا ہی تھا ،، لیکن کسی باذوق لارڈ کا تھا ،، اسمیں مشرقی طرزِ تعمیر کا کافی عکس نظر آرہا تھا ،،، بے چارے لارڈ ، اور لیڈیز کے بڑے بڑے گھر اب ان سے سنبھالے بھی نہیں جاتے ، کہ سستے زمانے گۓ ،،، اتنے بڑے گھروں کے لیۓ ملازمین ، چار پانچ تو کہیں نہیں گۓ ،، انھیں تنخواہ دینا بھی محال ہو گیا ۔ اسی لیۓ بہت سے قلعے ہوٹلز میں "کنورٹ " کر دیۓ گۓ ہیں ، یا بند پڑے ہیں ،، اسی طرح ان ،،کے چرچ یا گرجا گھر بھی ویران ہونا شروع ہو گۓ ہیں ، اور اب انھیں بھی ، سکولوں میں بدل دیا جانے لگا ہے ،۔ کم ازکم لندن میں تو دو تین چرچ ایسے دیکھنے کو ملے ،،،، مانچسٹر میں ایک مشہور مال " پرئمارک " میں داخل ہوئیں ،، یہ بہت مناسب قیمتوں والا وسیع و عریض شاپنگ مال ہے ،، جس میں برتن ، میک اَپ ، کپڑے ، جوتے ، سویٹرز ، غرض ، ضرورت کی ہر چیز نظر آجاتی ہے ،، میں نے یہاں سے بچوں کی اور کچھ تحائف کے طور پر دینے کے لیۓ سویٹرز خریدے ! اگر میں کہوں کہ انگلینڈ سے تحائف کے لیۓ سویٹرز ضرور لیں ، اور چاکلیٹ میں بھی خوب ورائٹی نظر آئی ،، جسے خریدنے میں ، میَں نے کنجوسی نہیں کی ،، ! کہ مجھے پتہ تھا ، میری پوتی ملائکہ ، نواسی حمنہٰ ، ، پوتے عمر اور سلمان اور نواسہ موسیٰ ،،،،، میرا انتظار ،، اسی میٹھی چیز کے لیۓ ذیادہ کر رہے تھے ۔ کچھ خریداری کے بعد میزبانوں کے گھر چلے ، اور ان کے بچوں کو بھی چاکلیٹ پیش کیۓ کہ یہ دنیا بھر کے بچوں کی کمزوری ہے ۔ 
(منیرہ قریشی ، 25 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں