اتوار، 6 مئی، 2018

سفرِانگلستان(8)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت ،یو کے" (8)۔"
ہم سب کا ملنا ملانا، سبھی مہمانوں سے تعارف ہوتا رہا ۔ یہاں چودھری صاحب (سمدھی صاحب) کے مہمانوں میں ایک انہی کی عمر کا سکھ جوڑا بھی تھا ،،جن کا تعارف کرواتے ہوۓ انھوں نے مجھے کہا ،،، "آپا جی، (وہ ہر خاتون کو عزت کے خیال سے آپا جی کہتے تھے)۔یہ میرے انگلینڈ کے اُن دنوں کے دوست ہیں،جب سخت جدوجہد کا دور تھا ِاور ایک پاکستانی ، اور ایک ہندوستانی نے ایک ہی وقت پر خود کو محنت کی کٹھالی میں ڈالا،، اور یہ دونوں اب بہت خوشحال بڑھاپا گزار رہے تھے۔ لیکن دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ہر خوشی غمی میں وہ ان کے اور یہ اُن کے گھر جاتے رہتے ہیں،، اسی شادی پر میری ملاقات " لیڈز "  والوں سے ہوئی ، اس فیملی سے دوستی کی ابتداء ،،، مائرہ کے "ایوب میڈیکل کالج "ایبٹ آباد،، میں داخلے کے وقت ہوئی ،،جب کانوں میں چھوٹے چھوٹے سونے کے جھمکے پہنے ،، ایک صحت مند جسامت والی لڑکی نے مائرہ کی طرف بہت سادگی اور محبت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ اور آج 15 سال سے ، ان کی محبت بھری دوستی میں ،، کمی نہیں آئی ، اسکے والدین ، ماموں ،، چچا ، دادا ، نانا وغیرہ پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ہی "ولایت" آ گئے تھے۔جی ہاں ،، ہمارا سادہ لوح طبقہ ،،، آج بھی انگلینڈ کو "ولایت" کہتے ہیں،، ِولایت،اونچی جگہ ،، اونچی سلطنت کے معنی میں بولتے ہیں،گویا ہم پر 130 سال برطانوی،بادشاہت نے کامیاب حکومت کیِِ اور جسمانی غلامی سے زیادہ ذہنی غلامی میں کامیابی حاصل کی۔یہ ہی نتیجہ ہے کہ اسے اولیت دینے کے چکر میںِ،،زیادہ ذہنی غلاموں نے برطانیہ کو لفظ"ولایت" کا '" خطاب" ،،، خود سے دے دیا ،، جو، اب ا گر ، بولا بھی جاتا ہے تو طنزیہ انداز سے !! لیڈز والے انھیں اس لیۓ کہا جاتا ہے کہ یہ فیملی ، مختلف شہروں میں محنت کے چکر سے نکلتے نکلتے ، ، آخرکار انگلینڈ کے ایک خوبصورت ، شہر " لیڈز " میں مستقل رہائش پزیر ہو گئے۔ آج ان کے بہت اچھے ، بڑے بڑے گھر اسلام آباد میں بھی تھے اور یہاں یو کے میں بھی،،، نئی نسل ، انگریز، پاکستانی کلچر کا مکسچر ہے ،،، لیکن آج بھی ان کے گھروں میں بہت سی اقدار کی اہمیت ہے ،، یہ سارا خاندان ، گوجر خان کی پنجابی اور انگریزی بول چال رکھتے ہیں ۔ نادیہ نے میڈیکل پاکستان سے ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد سے کیا ،، اور اِس پانچ سال میں ،، اگر مائرہ نے نادیہ سے محبت کی تھی ،،، تو نادیہ نے اسکا جواب دگنا کر کے دیا ،، بلکہ مائرہ کو ہوسٹل ، میں جب کوئی مسئلہ ہوا ، نادیہ نے اسے منٹوں میں دور کرایا ۔ مائرہ جب انگلینڈ اپنی ڈینٹسٹری کا پارٹ ون کرنے پہنچی تو ، لیڈز والوں کے گھر دو ماہ ٹھہری ،، اس دوران جب جوجی ، دونوں جڑواں کے ساتھ پہلی دفعہ انگلینڈ کی نیشنیلیٹی کے لیۓ پہنچی تب بھی انہی کے گھر دو ماہ رہی ،،، انھوں نےشاید اسی مقصد کے تحت ایک مکمل اینکسی بنا رکھی ہے جو ایک کچنٹ ، اور واش روم پر مشتمل ہے ، تاکہ جو مہمان بھی آۓ ، بےتکلفی اور بےفکری سے رہ سکے ، اسی انیکسی میں فراخ دلی سے مائرہ کو ہی نہیں ، اس کے سارے خاندان کو ویلکم کیا جاتا رہا ، مائرہ دبلی ، پتلی اور لمبی تھی ،، اسی لیۓ وہ سارا خاندان اسے " کینڈی " کہتا ہے ،وہ اسی نام سے انکے گھر پہچانی جاتی ہے۔ 
اب شادی کے " خیمے " میں آ جاتے ہیں ، ، میزبانوں کا ، مہمانوں سے ملنا ، ملانا جاری تھا ،، اور اس دوران نواب کیٹرنگ کی طرف سے ، جوان ، پھرتیلے ،لڑکے ، لڑکیاں ، سیاہ اور سفید یونیفام میں ، مختلف مشروبات ، مہمانوں کو پیش کر رہے تھے ،، کہ ایمن ، ثمن کی طرف سے کہا گیا ،، سب لوگ مارکی سے باہر آکر دلہن دُلہا کا استقبال کریں ،، سب بہت شوق سے باہر آگۓ ،، اور یہ ایک خوبصورت منظر تھا ، دور سے ایک سجی سجائی چھوٹی سی ایسی ( بوٹ )کشتی آ رہی تھی ، جو ایک روایتی ڈریس میں ملبوس ، ملاح ، باقاعدہ چپو سے کھیتے ہوۓ آرہا تھا ۔ دلہا ، دلہن سیٹ پربیٹھے ہوۓ تھے۔ بالکل شاہی سواری لگ رہی تھی ،،، کنارے تک آنے میں مزید 15 منٹ لگے ،، اور کنارے پر لگتے ہی سب نے تالیاں بجا کر استقبال کیا ،، سرسبز لان پر رنگارنگ لباس پہنے قطار میں ، اہلِ خانہ کھڑے تھے ، جن کے ساتھ فوٹو سیشن شروع ہو گیا ، ابھی شام کے سات 
بجے تھے ، اور روشنی کافی تھی ،، باقی مہمانان واپس مارکی میں آن بیٹھے ،، پروگرام کے مطابق ،، "سٹارٹر " شروع کر دیا گیا ،، کچے قیمے کے کباب ، تلی مچھلی ، اور چاٹ کو آئس کریم پیالوں ( گابلٹ ) میں پیش کیا گیا ،، ہر سٹائل میں ہمیں لطف آ رہا تھا ۔ میں اس دوران صرف اپنے ایک میز میں پورے آجانے والے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھی رہی ، یعنی حکیم چچا اور ان کی فیملی ، افتخار بھائی اور ان کی فیملی کے ساتھ ۔ لیکن سٹارٹرسروس کے بعد پھر اعلان ہوا سب مہمان کیک کٹنے کی تقریب کے لیۓ آجائیں ، سب اس جگہ پہنچے جو مارکی کے شروع میں بنائی گئی تھی ، جہاں ایک اونچے ٹیبل پر ڈھکے کیک سے کپڑا ہٹایا گیا اور دلہا دلہن نے اکٹھے کیک کاٹا ، یہ بہت خوبصورت تین سٹپ میں بنا یاگیا تھا ،، یہ خوبصورت پنک رنگ کا کیک ،،،
جس برٹش خاتون نے تیار کیا تھا ، وہ اپنی 10 سالہ بیٹی کے ساتھ ، مدعو تھی ۔ اور اپنی تعریف پر بہت خوش تھی ، بلا شبہ ، کیک صرف خوب صورت ہی نہیں ، خوش ذائقہ بھی تھا ،،، اس دوران ، دلہا میاں ، کچھ شرماتے رہے ، لیکن دلہن پر ُاعتماد مسکراہٹ سے ساری تقریب میں پھرتی رہی ۔ آخر میں اصل کھانا سَرو ہونا شروع ہوا ، اور اسی دوران مہمانوں اور سٹیج کے درمیان کالا پردہ ، جو سنہرے ستاروں سے جگمگ کر رہا تھا ،،،، ہٹایا گیا۔
اور وہاں سفید سجاوٹ کے ساتھ مناسب سائز کا سٹیج سجا ہواتھا ، دلہا دلہن وہاں جا بیٹھے ، اور وہیں کچھ کھانا پینا ہوا ، سٹیج کے ایک طرف میوزیشن بیٹھے ہوۓ تھے ۔جن کو مطلوبہ گانوں کی فہرست پکڑا دی گئی تھی، ، اور جوں ہی کھانا ختم ہوا تب تک 9 بج چکے تھے ، یہیں ایک طرف دو تین صوفہ سیٹ پڑے تھے ، ہم میں سے کافی بزرگ ٹائپ بندے انہی صوفوں پر جا بیٹھے ،، اس دوران حکیم چچا اور ان کی فیملی واپس لندن کے لیۓ روانہ ہو گۓ ۔ ،،، آج دلہا کی اماں نے سراپا سُرخ جوڑا پہنا ہوا تھا ، اوراچھی بھی لگ رہی تھی وہ خوش بھی تھی ، دلہا کے گوری مما کے دونوں بیٹے آۓ ہوۓ تھے ، اور عرفان کے ساتھ فوٹو سیشن میں موجود رہے ، وہ بھی تمیز و ادب والے تھے ،، سب سے مل رہے تھے ۔اس دوران تیمور کا برٹش باس اپنی مسز کے ساتھ جوں اول وقت پر آیا ، تو آخر وقت تک بیٹھے رہے ،،، کیک میکر خاتون بھی آخر تک بیٹھی رہیں ، ، حالانکہ کھانا کھا کر کئی مہمان خداحافظ کہہ گۓ تھے ،، لیکن یہ برٹش لوگ ہماری روایتی شادیوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ، ایسی رنگین شادی ، انہی پاک و ہند کی شادیوں میں نظر آتی ہیں ۔ جیسا میں نے " لیڈز " والوں کا لکھا کہ وہ کافی فیملی ممبرز آۓ تھے ، خالہ ان کی دو دو بیٹیاں اور اُن کی دو سہیلیاں ، دو نوعمربیٹے وغیرہ اور پھر ،،،،، جب میوزک کا شور وغُل اُٹھا ،، تو یہ سب ایک بےہنگم ہجوم تھا جو فلور پر ناچ رہا تھا ،، خاص طور پر انہی لیڈز والوں کی بیٹیاں اور سہیلیاں ،، شاید صرف ڈانس کے شوق کو پورا کرنے آگئی تھیں ،،، کہ انھوں نے مدہوشی کے انداز سے صرف جھومنا شروع کیا ، تو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کوئی ڈانس ہے ،، یا انھیں کچھ ہو گیا ہے ۔ ایمن ثمن نے جو تیاری کی تھی ، اسے بتاتی رہیں ، اور ایک گھنٹے بعد وقفہ کیا گیا ،، کیوں کہ اب انگریزی تہذیب کے مطابق ، سٹیج پر کچھ قریبی افراد نے دلہن کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا تھا ،، اس وقت رات کے 10 بج چکے تھے ،، نادیہ ، اور ایمن نے لمبے لمبے صفحے پڑھنے شروع کیۓ ،، تو اسی میں 11 بج گۓ ،، میرا نہیں خیال ان لکھے گۓ جملوں کو کسی نے غور سے سنا ہو گا ،، کچھ روایات ، بےموقع محسوس ہوتی ہیں ، اور ان کا شامل کرنا کوئی ضروری نہیں ہوتا ۔ اب کچھ اور مہمان رخصت ہوۓ ،، ڈانس دوبارہ شروع ہوۓ تو آدھ گھنٹہ اور گزر گیا ،، تب ایمن ثمن کو یاد آیا کہ ہم نے تو اندھیرا ہونے پر کاغذی لالٹینیں جلا کر جھیل میں ، چھوڑنی تھیں ،،، جلدی جلدی پیکٹ کھولے گۓ ، لالٹینیں جلائی گئیں ،، لیکن اس وقت تک ایک تو مہمان بہت تھوڑے رہ گئے تھے ، دوسرے شام کی " اوس " پڑنے سے لالٹینیں ، جھیل میں جاتے ہی چند فٹ کے فلوٹ کرنے کے بعد ڈوب جانے لگیں ،،، تو باقی پیکٹ بند رہنے دیۓ گۓ ،،َ (اور یہ پیکٹ بعد میں ہم پاکستان لے آئیں ،،جو یہاں بچوں میں تقسیم کیۓ گۓ تو وہ بہت خوش ہو گۓ )،،، اب رات کا 12 سے اوپر کا وقت ہو چکا تھا ،، دلہا دلہن سے رخصتی مانگی گئی ،، اور ہم اور بقایا مہمانان گرامی اپنی سواریوں میں رخصت ہوۓ ، میَں ، جوجی ، ایمناور ثمن تو تیمور کی کار میں بیٹھیں ، اس کی کار ہمارے سامان سمیت بھر چکی تھی۔سمینتھا ، اپنے دونوں بچوں اور تیمور کے ابو کے ساتھ دوسری گاڑی میں سیدھے " لیور پول " کی طرف چل پڑی ۔ اب آس پاس کا علاقہ، خاصا ویران ، اور ڈراؤنا منظر پیش کر رہا تھا ،،، یہاں سے رخصت ہوتے وقت ہم نے دیکھا تھا کہ سب لوگ جا چکے ہیں سواۓ دلہا دلہن کے،،، جو اپنی " ٹو سیٹر جدید کار " میں جانے کے لیۓ تیار تھے،،، لیکن ، عرفان ، َکے والد اکیلے کھڑے تھے ، یہ ہی خیال آیا کہ وہ اپنی کار کا انتظار کر رہے ہوں گے ،، ہمارے نکل آنے کے 15 منٹ بعد ہی "'مائرہ دلہن " کا فون آیا کہ "جہاں ہو وہیں رُک جاؤ " میں ابھی آپ کے ساتھ چلوں گی ،،،اور یہاں سے ایک زبردست ڈرامے کا منظر سامنے آیا ،،، جس کے بعد مائرہ کی شادی مزید منفرد بن گئی ،،، ۔
ہوا یوں کہ اس جنگل میں منگل والی جگہ پر چودھری صاحب ، اکیلے کھڑے رہ گۓ ،، کہ اس دن ان کی اپنی کار ، انہی کے داماد نے کھمبے سے دے ماری تھی ،، اور سسر کو نہیں بتایا تھا بلکہ خاموشی سے ورکشاپ چھوڑ کر خود شادی میں شریک ہونے پہنچ گیا ،، چودھری صاحب کا خیال تھا چھوٹا بیٹا میری گاڑی لے آۓ گا ، تو ہم باپ بیٹا اکھٹے واپس آئیں گے ،،۔
جب گاڑی نہ آئی اور چھوٹے بیٹے نے بھی انگریزی تہذیب کے تحت ، باپ کو پوچھا ہی نہیں ۔تو فون کر کے انھوں نے پوچھا ،،، تب صورتِ حال کا علم ہوا ،،، اب اس ویرانے میں اورکوئی کار موجود نہیں تھی ،،، عرفان کے پاس ٹو سیٹر تھی ،،، اس میں یا دلہن بیٹھتی یا والد صاحب ،،، ظاہر ہے ایک اچھے فیصلے کے مطابق ، اس نے فوراً تیمور کو فون کیا ، ، عرفان پہلے دلہن کو یہ چند میل کار دوڑا کرہمارے پاس چھوڑنے آیا ،،، پھر فوراً پلٹا ، کہ بزرگ والد ویرانے میں کھڑے تھے ،، اس دوران ایمن نے عقل کی اور سمینتھا کو اپنی گاڑی  تک آنے کا کہا ، وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی ،، اور مائرہ کے لیۓ ، ، "ٹھوسم ٹھوس " جگہ بنائی گئی کیوں کہ سامان ہماری گودوں میں بھی لدا پڑا تھا ،،، اور ،،، اُس وقت تک ، دلہن کا " پارہ " بلند ہو چکا تھا ،،، اور اس کے لاجواب جملے ہم سب خاموشی سے سننے لگے ،،، جوجی ، ثمن اور میری ہلکی سی روشنی میں نظریں ملیں ،، تو ہم سب کی آنکھوں سے قہقہے روکنے کی کوشش میں ،، آنسو نکل رہے تھے ،،، کیوں ایک دلہن ، کی رخصتی اس حالت میں ہو گی کہ بہترین ویڈنگ ڈریس میں وہ بندوں اور سامان میں "ٹُھس " کر تنگ ہو کر بیٹھی ،، اور بم باری شروع ہو گئی ،،، دراصل کار چھوٹی تھی اور ہم سب لدے ہوۓ تھے ،، جو لا جواب جملے یاد رہ گۓ ،،، وہ یہ تھے ،،" یہ سب آج کا دن ،،،میری ان نکمی بہنوں کی وجہ سے دیکھنا پڑا ،یہ اگر گاڑی چلانا سیکھ چکی ہوتیں تو یہ حالت نہ ہوتی ،،،،،،،سارادن تھکنے کے بعد ،،، میں چند انچ کی جگہ پر بیٹھی ہوں ،،، لہنگے میں پھنسی ہوئی ،،اور ،،، اور مجھے ڈینٹڈ گاڑی میں بھی آج ہی بیٹھنا تھا ،، اُف ،، !!!""سچویشن کچھ ایسی تھی کہ کسی کا کوئی قصور نہ تھا ،،، لیکن دلہن نے غصہ کسی پر تو نکالنا تھا ،،، یہی دونوں بہنیں جو خود بھی کئی ہفتوں سے تھک رہی تھیں ،، اس وقت نشانے پر تھیں ،،، اور ہم حسبِ سابق ، اس سچویشن سے بھی لطف اُٹھا رہی تھیں ،، ہمارے ۔۔قہقہے بےآواز ہی اچھے تھے،، ورنہ ہم دونوں کا لحاظ بھی ختم ہو سکتا تھا ،،، تیمور خاموشی سے تیز ڈرائیو کر رہا تھا ،، تاکہ وہ "بے کپ" والے گھر میں دلہا سے پہلے پہنچ جاۓ ،، اور پہنچ بھی گیا ،، ابھی ہم نے گھر کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ دلہا ،، اپنی دلہن کو لینے پہنچ گیا ،،، اگر عین وقت پر "ایمن" سمجھ سے کام نہ لیتی ،، تو مائرہ لیور پول پہنچ چکی ہوتی اور دلہا ،،، راچٹیل میں ،، دونوں شہروں کے درمیان اتنا فاصلہ ضرور تھا کہ جب دلہا دلہن کو لے کر گھرپہنچتا تو صبح ہو چکی ہوتی ،،، اور یوں مائرہ ، کی شادی جہاں اور باتوں سے یاد رہے گی ،، وہاں ، یہ واقع بھی منفرد رہا اور کبھی نہیں بھولے گا !!! ۔
( منیرہ قریشی ، 6 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں