بدھ، 2 مئی، 2018

سفرِانگلستان(5)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 سفرِ ولایت ،یو کے " ( 5)۔"
ان کا کچن بہت مناسب سائز کا تھا ، اسی میں واشنگ مشین اور ایک سٹور بھی تھا ، میَں نے از راہ ہمدردی اور ایک کار آمد رکن ثابت کرنے کے طور پے کہہ دیا کہ" بھئ مجھے اور کچھ نہیں آتا ، صرف برتن دھو دیا کروں گی "،، ایمن ، ثمن نے ہنس کر کہا ، " خالہ ،، یہاں دیکھیں ، ڈش واشر بھی فِٹ ہے ،،بس آپ خوب انجواۓ کریں ، ہم یہ ہی چاہیں گی ۔
ایمن ثمن ، نے دس بجے تک ہمیں ناشتہ دے دیا ،،، تو مائرہ کی طرف سے ہمیں ، ہمارا شیڈول پڑھ کر سنایا گیا کہ آپ سب ، شام ٹھیک سات بجے تیار ہو جانا ہے ، تیمور اپنی بیوی سمینتھا اور دونوں بچوں کے ساتھ ، آۓ گا اس کی دو گاڑیاں ہوں گی ، سمینتھا ، اسکے دونوں بچے ، آپ دونوں ، ساتھ ہوں گی ،، تیمور مجھے اور ایمن ثمن کو لے کر پہلے بیوٹی پارلر لے کر جاۓ گا ، پھر ہمیں اس کریم ہوٹل میں پہنچاۓ گا ،، پھر عرفان اپنی فیملی کے ساتھ پہنچے گا ، ہر کام وقت پر ہونا چاہیۓ کہ ہوٹل کا وقت مقرر ہے ۔ اس دوران چوں کہ میَں اور جوجی ، تو بطورِ " مہمان ادکار " کے شامل ہو رہیئں تھیں ، اس لیۓ ہمارے چہروں پر اس کی ہر بات کے جواب میں ایک مسکراہٹ ہوتی ۔ کچھ دیر گپ لگائی اور پھر سب اپنے شام کے ملبوسات استری کے میز پر رکھ دیۓ ،، یہ کام انہی دونوں ٹونزوں میں سے ایک نے کرنا تھا ،، اور میَں اور جوجی پھر اپنے کمروں میں جا کرریسٹ کرنے لگیں ،، ظہر ذرا دیر سے ، اور عصر ذرا اول وقت پڑھ لیں ، اور تیاری شروع کی ، میں تو تیمور کی فیملی سے ملنے کی بھی شائق ہورہی تھی ، کہ تیمور نے سات آٹھ سال سے اس گوری سے شادی کر کے کبھی پاکستان کا چکر نہیں لگایا تھا ، جوجی اور ٹونز اس کی بیوی کی تعریف کرتیں تھیں ۔کہ کافی پاکستانی سوچ والی گوری ہے ۔ 
شام 6 بجے تک ہم سب تیار تھیں ، ، اس وقت تیمور اپنی فیملی کو چھوڑنے اور دلہن اور ٹونزوں کو لینے آگیا ، آپس میں علیک سلیک ہوئی ، تیمور چھ فٹ چار انچ کا ہے اور سمینتھا چھ فٹ کی ہے ،، وہ مجھے بھی اسی محبت ، اور عزت سے ملی جس طرح وہ اپنی ساس سے ملی ۔ اسے ہمیں ملنے کے لیۓ کافی جھکنا پڑتا تھا، اس نے بہت شوق سے پاکستانی چست پاجامہ ، اور خوب گھیردار فراک پہنا ہوا تھا اور دوپٹہ تو ایسا سلیقے سے کندھوں پر تھا ، جیسے وہ اوڑھتی رہی ہو ، ماتھے پر ٹیکہ ، اور ماتھا پٹی بھی سجا ہوا تھا، دونوں بچے سجے سنورے گلے ملے ،، طارق اعوان اور ملیکہ اعوان ، آٹھ سالہ بیٹا اور 6 سالہ بیٹی ، ، کو سکھایا گیا تھا کہ پاکستانی گلے مل کر ہی خوش ہوتے ہیں ، تو اسی اندازسے ملے،، بہر حاؒل سب گاڑیوں میں بیٹھے اور کریم ہوٹل جو 20 منٹ کی ڈرائیو پر تھا ،، پہنچے ،، یہ ہوٹل کسی پاکستانی نے اپنے نام سے کھولا تھا جو چھوٹے فنگشنز کے لیۓ بہترین تھا ،، یہاں پاکستانی اور نیگرو خوش مزاج ویٹرز تھے ، سمینتھا ہمیں چھوڑ کر باہر سے ہی چلی گئ ، ہم دونوں منہ اُٹھاۓ چھوٹے سے ہال میں آئیں تو ، آٹھ دس خواتین ، و حضرات ایک ہی بڑی سے میز کے گرد بیٹھے تھے ، ابھی ہماری طرف سے کوئی موجودنہ تھا ، اس لیۓ ہم نے سوچا ہم خود ہی اپنا تعارف کرواتی ہیںہم نےاس ٹیبل کے لوگوں کے پاس جا سلام کیا ،، اور تعارف کرایا کہ یہ دلہن کی اماں ہے اور میَں خالہ ہوں ،، وہ سب خوش مزاجی سے ملے اور ہم بھی دو کرسیاں گھسیٹ کر ان کے پاس بیٹھ گئیں ۔ وہ سب چودھری صاحب کے پرانے جان پہچان والے تھے ، پاکستانی سیاست پر ذیادہ ڈسکشن ہو رہی تھے ۔ جب دروازہ کھلتا ، " چوں " کی آواز آتی ، ہم دونوں کی نظریں دروازے پر جاتیں ،، مجھے بھی دلہا کو دیکھنے کا شوق ہورہا تھا ،،لیکن جوجی تو پہلی مرتبہ اپنے داماد کو دیکھ رہی تھی ،،اور یہ نئے رشتے کتنے پیارے لگنے لگتے ہیں ،، اس دوران چند پاکستانی مہمان آۓ ، یہ سب دلہا والوں کے ملاقاتی تھے ، ،،اور پھر ہمارے چچاذاد افتخار بھائی ، معہ اپنی بیگم ( ہماری پھوپھی ذاد ) طلعت ، ان کی بڑی بیٹی سارہ ، اپنے بچے نوریز کے ساتھ آۓ ،،، تو ہمیں بہت خوشی اور اطمینان ہوا ، اسی دوران مائرہ کی پھوپھو ، انکے شوہر رشید بھائ ، ان کی بیٹی ڈاکٹر نائلہ ، اور اس کا ڈاکٹر شوہر ، اپنی بیٹی کے ساتھ آ گۓ ، اور یوں ہمارے لیۓ مزید باعثِ ، تقویت ہوۓ ،، آج ان اپنے رشتے داروں کو اس غیر ملک میں بیٹی کی شادی کی تقریب میں ، دیکھ کر احساس ہوا رشتہ داروں کی موجودگی ، انسانی فطرت کو مضبوطی اور خوشی کا احساس بخشتی ہے ۔ اسی لیۓ خوشی مکمل لگنے لگتی ہے ۔ 
مزید ایک گھنٹہ گزرا تو ، دلہا اپنے والدین ، اور دو بہنوں کے ساتھ داخل ہوا ،، وہ ماشا اللہ ، خوب مسکراتا ہوا ، خوش قامت و خوش شکل ، کالے سوٹ میں ملبوس سیدھا تیمور کے پاس آیا ،،جس نے اپنی اماں کا اُس سے تعارف کروایا ، جوجی نے اسے پیار کیا ، اس کے والدین فیصل آباد کے رہنے والے ہیں ، اور گھر میں صرف پنجابی اور انگلش بولی جاتی تھی ، اس لیۓ ، زبان کوئی خاص مسئلہ نہ بنی ،، اس کی امی ، ابا سے مل ملا کر ایک جگہ ، بیٹھے ہی تھے کہ دلہن اپنی بہنوں ، اور بھابھی ، کے ساتھ داخل ہوئ ، ماشا اللہ ، دلہا ، دلہن بہت پیارے لگ رہے تھے ۔ میَں نے جوجی سے کہہ دیا تھا ، تحائف آج ہی دے دینا ، شادی کے دن بہت رش میں مناسب وقت نہیں مل سکے گا ۔ چناچہ نکاح کے مبارک فریضے کے بعد ، میَں نے اور جوجی نے مائرہ کی ساس کو تحائف کے ڈبے پکڑاۓ کہ یہ محبت کے طور پر ، آپ کے لیۓ ، اور جب شاہین ( دلہا کی امی ) نے کہا کہ یہ بینگل آپ کے لیے ہے ، تو وہ کِھل اُٹھی ، ہم نے کہا اگر پہننا چاہتی ہیں تو پہن لیں ،، وہ کہنے لگی آپ خود پہنائیں ، جوجی نے اسے پہنایا ، اسے خوشی ہوئ ،، ہم کہیں بھی ہوں ہم کافی رواج پاکستانی ہی چاہتے ہیں ،، جبکہ اگلے دن ہی مائرہ نے بتایا ، فرحان پوچھ رہا تھا امی کو یہ بینگل دینے کی تُک نظر نہیں آرہی ،، جوجی نے کہا ، اسے بتانا یہ صرف محبتوں کے تحفے ہوتے ہیں ۔ ، ، اس کا سسر بہت سادہ اور عاجز سا بندہ تھا ، اور سارا وقت پنجابی میں اپنی خوشی کا اظہار کرتا رہا ، کھانا شروع ہوا ، اور یہاں کی شادی کے کھانے کے رواج سے بھی متعارف ہوئ ! یہاں انگلش اور پاکستانی ، رواج کامکسچر نظر آیا ، پہلے ، سٹاٹر کے طور پر ، بہترین فش ، کباب ،اور سلاد اور چھوٹے سموسے تھے ،، جو کھا لیۓ تو مزید بھوک ہی نہیں رہی ۔لیکن اصل کھانا سرو ہوا تو وہ بھی چاول ، مرغی اور مٹن کے ساتھ سلاد کی ڈشیزز تھیں ،،، میَں تو اپنے چچا ذاد، پھوپھی ذاد کی فیملی کے ساتھ بیٹھی رہی اور ،ان کے ساتھ بیٹھنا بہت اچھا لگا ،، میرے یہ کزنز گزشتہ 30 سال سے یہاں سیٹل ہیں ، ، آج کا کھانا مائرہ کے والد کی طرف سے تھا ،، آخر میں تصاویر سیشن کافی لمبا ہوا ، سب مہمان چلے گۓ ، اور ہم 11 بجے وہاں سے رخصت ہوئیں ، اور آدھ گھنٹے میں گھر پہنچے ،،اگرچہ ایمن ، سمن تھکی ہوئیں تھیں لیکن انھوں نے سب کو قہوہ بنا کر پلایا ، اور پھر بیٹھے ، تو ایک ڈیڑھ بج گیا ،،،، اور مائرہ نے اگلے دن کا شیڈول سنایا کہ ،،،،،،،، کل ہم سب نے دوپہر تک اس جگہ پہنچنا ہے جہاں شادی کا فنگشن ہو گا ،، اور ہم یہاں ایک رات ٹھہریں گے ، پھر اس سے اگلے دن یعنی 7 ستمبرکے دن،، سہ پہر شادی شروع ہو جاۓ گی ،،، ہم نے " مہمان اداکار " کے طور پر مسکراہٹ پھینکیں ، اور سب سونے چلی گئیں ،،، فجر جوجی کے الارم سے نہ جگاتی تو میری تو نماز قضا ہو جاتی ،، نماز کے بعد میرا پسندیدہ کام ، کھڑکی کھول کر آسمان کے بدلتے رنگ ، اور مناظر جو ہلکی تاریکی سے روشنی کے مناظر میں تبدیل ہوتے چلے جاتے تو اور ہی چھب دکھاتے ، میَں تومحو دیکھتی رہتی، آسمان پر ، کالے ، سفید اور سُرمئی بادل ، تیزی سے شکلیں بدلاتے ، ہلکی سی بھی ٹھنڈی ہوا لگتی ، تو میَں چادر لپیٹ لیتی ۔ لیکن یہ خوبصورتی ، جو وادی کی صورت میں دور تلک میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں ،، میَں ہر منظر اپنی یادوں میں محفوظ کر لینا چاہتی تھی ، اور جب اس دوران اپنی تسبیحات بھی کر چکتی ،،تو پھر تھوڑی دیر کے لیۓ سو جاتی ۔۔۔ میرا یہ معمول مسلسل دو ماہ رہا ،،، کہ خاموشی ، قدرتی حسن ، اور ترتیبِ انساں ، کو اسی دو ماہ تک انجواۓ کرنا تھا ،،، اور رب کی شکر گزاری بھی کر رہی تھی کہ ، جس نے صحت دی ، آنکھیں دیں ، کہ یہ نظارے دیکھ رہی تھی، اور اتنی توفیق کہ ادھر ، اُدھر پھر سکوں ۔!
میَں جب بھی کوئی خوبصورتی دیکھتی ہوں ،، تو دعاؤں کا ایک تسلسل میرے دل سے شروع ہو جاتا ہے کہ ، یا اللہ پاک یہ ان لوگوں کو بھی دیکھنے کی توفیق عطا کر ،،، جو دیکھنا چاہتے ہیں ،، لیکن یا تو صحت نہیں ،یا وسائل نہیں ، یا جراؑت نہیں کر پا رہے ،، توُُ ان کے راستوں کی سب رکاوٹوں کو دور کر دے ،،آمین ! لیکن ، لاتعداد دنیا وہ بھی ہے جو بہت کچھ ہوتے ہوۓ بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتے ، قدرت کے نظاروں کو دیکھنے کیآرزو نہیں کرتے ،، اور سوچ ، اور روٹین میں یکسانیت کے ساتھ زندگی گزار لیے ہیں ۔ اور خوش ہیں۔ 
اسی لیۓ جب ایک دفعہ ڈاکٹر شارق علی کے ایک انشائیہ پر احساسِ " خوشی " پر بحث ہوئی ،، تو میں نے کہا تھا " خوشی " کے لیۓ کسی حتمی اور آخری ، نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا ،،کہ کیا ہو اور کیا نہ ہو تب خوشی کا احساس توانا ہوتا ہے ، " میرے خیال میں "یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو ہمارے سامنے یکدم آ جاۓ ، اور ہمیں دلی مسکراہٹ دے جاۓ ، چاہے وہ پل بھر کے لیۓ ہی ہو "چاہے ، اجاڑ جھاڑیوں کے درمیان سے ایک نازک سی تتلی کانظر آجانا ہی کیوں نہ ہوں " تو بس یہ ہی خوشی کا ،،سرشاری کا مل جانا ہے ،،۔ 
؎ سپر دم بتوی خویش را 
تُو دانی کم و بیش را ،،،
( میَں نے تجھے اپنا آپ سونپ دیا ہے ، اس لیۓ کہ میرے لیۓ کم کیا ہے اور ذیادہ کیا ہے ، یہ تو صرف تجھے علم ہے ، )
💐🌷🥀🌲🌹🍨🍨🦋🐟
( منیرہ قریشی ، 2 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں