بدھ، 30 مئی، 2018

سفرِانگلستان(17)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
ولایت ،یوکے" ( 17)۔"
اور اب مانچسٹر کی جتنی اہم جگہیں مجھے دکھائی جا سکتی تھیں ،، دکھائی گئیں ،، البتہ ایک جگہ  بطورِ اصرار مجھے لے جایا گیا، کہ آپ کے مزاج کے مطابق مانچسٹر کا یہ نہایت پرانا گوشہء آپ کو ضرور بھاۓ گا ۔ اور یہ جگہ صرف بھائی نہیں ، آنکھوں کے راستے سے دل میں سما گئی ، کہ ایک ایک کونا ، بھُلا نہیں پائی۔ اس جگہ کا نام " ہیلی ڈیل"  ہے۔ایمن ثمن نے ہاتھ میں پکڑے " جامِ جِم " ،،، یعنی آئی فون سے بذریعہ  گوگل ، بتایا کہ یہ ڈھائی میل لمبا چوڑا،ایریا ،، بالکل نیچرل انداز سے چھوڑ دیا گیا ہے یہ راچڈیل کا وہ ایریاہے ،، جسے نیچرل ٹورزم کے تحت ، ان لوگوں کو جو بالکل آج کی کسی ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی جگہ دیکھنا چاہتے ہوں ، تو اِسے دیکھ سکتے ہیں ، یہاں پیدل جانا بہتر ہے ، کیوں کہ گاڑی کے لیۓ سڑک تنگ بھی ہے اور واپسی کا موڑ کاٹنا بھی مشکل مرحلہ ہوتا ،، اور پھر آج مائرہ بھی لے جانے کے لیۓ موجود نہ تھی ۔ ہم بس سے آسان اور آرام دہ ، سفر کر کے 20، منٹ بعد ہی اس بازار میں پہنچے جو خاصا ، پرانا ، یا بہت جدت لیۓ ہوۓ نہ تھا ، اور سارا وقت ، آنکھیں ، نہایت اونچی اور جدید بلڈنگز ، شاپنگ مالز ، اور بازار کو دیکھتیں رہیں ، تو یہ قدرِ پرانی لُک دیتا بازار اچھا لگا ،،، یا ،،ہم ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھنے والوں کو یہ نظارہ " اپنا اپنا " سا لگا ۔ چھوٹی چھوٹی دکانوں کی لائن ، جو ایک ہی سیڑھی چڑھ کر دکان کے اندر داخلہ ہو جاتا ۔ 
مانچسٹر کے بہت سے چوراہے ، آج بھی اُس پرانی طرز سے چھوٹی اینٹوں سے بنے ہوۓ ہیں ، جو پرانی سڑکوں کی یاد دلاتے ہیں اور یہاں اس ہیلی ڈیل کو بھی دیکھنے آئی ہیں،جسے یہ لوگ "چُھپا قیمتی پتھر"(ہڈن جیم) کہتے ہیں ،اس کی نہایت خوبصورت تصاویر ، گوگل کے ذریعے دیکھی جا سکتی ہیں۔ جب ہم بس کے ذریعے پہنچے ، اس دن نہ صرف موسم خوبصورت تھا ،، بلکہ اب مہینہ بھر سے خوب سیر کرنے اور پیدل چلنے سے میرے چلنے کی رفتار بھی بہتر ہو چکی تھی ، ، اور اب اس ہیلی ڈیل کے ایک بہت پرانے طرز کے گیٹ سے داخل ہوئیں ،، اور دل نہال ہو تا چلا گیا ۔ اس ڈھائ میل کے علاقے کو بالکل اسی طرح رہنے دیا گیا ہے ، جو 1867ء کی شکل میں تھا ۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے ، جو شروع سے ہی نیچے کی طرف جاتی چلی جاتی ہے ، ارد گرد کی خود رو جھاڑیاں ، درخت ، اور کوئی بلڈنگ نہیں ، اور خاموشی،، سرسراتی ہوا ،، اور کہیں کہیں چھوٹی رنگین چڑیاں ،، ! ہم جیسے اس ماحول میں ڈوبتیں ، چلیں گئیں ،، جیسے جیسے ڈھلواں سڑک پر چلیں ،، جنگل نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا ۔ ذرانیچے پہنچے ، ،، مخالف چھوٹی سی پہاڑی سے گرتی بہت خوب صورت سی آبشار نے تصاویر لینے پر مجبور کر دیا ،،۔
 ہیلے ڈیل کی آبشار اور اون دھلائی کی سِلیں"۔ "
یہ آبشار 300 سال پہلے بھی تھی ، ،، کہ یہیں آکر مزدور مرد وزن جو اُون ، کات کر لاتے ، تو یہاں آکر اسے دھوتے اور پھر سکھاتے ،، اس طرح کی دھلائی  کی جگہیں یا سلیں ابھی بھی موجود ہیں ۔

ہیلے ڈیل میں اترائی کے آخر میں ، جہاں مزدور مرد و زن ، اپنی لائی اون دھوتے اور رنگتے تھے ،، ! اب یہ علاقہ ہر طرح سے ، نیچرل رہنے دیا گیا ہے ،، اور یہاں کی قدرتی سینری ، اور خاموشی ، لاجواب ہے !۔ 
 آس پاس بہت ہی خاموشی ، جنگلی پیڑ پودے ،، اور نزدیک ہی ایک پرانا سا پُل بھی تھا ،، یہ ریل ٹریک تھا ، جو ،،راچڈیل اور بے کپ کے درمیان چلانے کے لیۓ 1870ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ شروع گیٹ سے نیچے آنے تک کی سڑک کچھ ایسی چوڑی نہ تھی ، شاید پرانی پگڈنڈی کو ہی کچھ بہتر کر کے سڑک بنا دی گئی تھی ۔ یہاں ایک ، دو بینچ بھی تھے ،، جن پر بیٹھ کر ہم نے فوٹو بنواۓ ۔ ایمن ثمننے تو آس پاس ، اونچے نیچے راستوں کو اور پُل پر جا کر ان مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرنا شروع کردیا ۔ میَں اور جوجی بنچ پر بیٹھے ، اس شعر کو یاد کرکے اس کا صحیح معنوں میں لطف محسوس کرتیں رہیں،۔
؎ ہم تم ہوں گے بادل ہو گا 
رقص میں سارا جنگل ہو گا
کس نے کیا مہمیز ہوا کو !
شاید اُن کا آنچل ہو گا 
یہ غزل کس کی ہے یہ تو یاد نہیں آیا ، لیکن خود بھی خوب صورت اور نہایت خوبصورت آواز والا گلوکار مسعود ملک یاد آگیا ، اس نے یہ غزل خوش گلوئی کے ساتھ اتنے دھیمے سروں سے گائی ،، کہ نہ شاعر یاد ہے ، نہ پروڈیوسر ،،، بس یہ غزل مسعود ملک کی پہچان بن گئی ، اور کچھ ہی ماہ بعد اس کے مرنے کی خبر نے سب کو اداس کر دیا ،،، شاید ایسے سریلے ، ایسے شاعرانہ ، وجود بس اتنی عمر لے کر ، بہت ساری شہرت سمیٹ کر اپنی جگہ خالی کر جاتے ہیں۔
تین یا چار گھنٹے گزر گۓ ،، ایمن ثمن کے متوجہ کرنے پر ، ہم بادلِ ناخواستہ اُٹھیں ، ، اور اب چڑھائی ذرا مشکل لگی ،، لیکن اگر اترتے ہوۓ بیس منٹ لگے تو چڑھتے ہوۓ آدھ گھنٹہ ضرور لگا ،، لیکن اس گوشہء سکون کی یاد آتی رہتی ہے ، جس کے درختوں ، نے 300 سال کی  تاریخ  دیکھ رکھی تھی۔اس کے اوپر کی دنیا ویسے ہی مصروف تھی ،، وہی دوڑتی بھاگتی زندگی !!کچھ وقت پیدل چلیں اور ایک چوراہے پر ایک چھوٹی سی ، لائیبریری کا بورڈ پڑھ کر، اس میں جانے کا کہا ،، تو ایمن ثمن مان گئیں ،، جیسے ہی ہم داخل ہوئیں ،، ا س کی لابی میں ایک دو روسٹریم تھے جن پر بہت پرانے اخبارات کو کمپائل کر کے ،  
عام عوام کے پڑھنے کے لیۓ رکھا گیا تھا ، میں تو کچھ دیر کے لیۓ اسے پڑھنے میں مصروف ہوئی ،،۔ جو ہماری دلچسپی کا باعث بنے ، اور اسی میں1914 ء کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوۓ !۔


لائبریری میں کمپائل کیےگئے اخباروں کا ،، 1914ء کا تاریخی صفحہ !،،،،·۔
 
، اتفاق سے دوسرے صفحے پر 1941ء کا پیج سامنے آیا ،، جس پر انڈین سولجرز سے متعلق کچھ خبریں شائع ہوئی تھیں ،،، اور یقیناً یہ ہم ایشین ، کے لیۓ دلچسپی کے صفحات تھے ،،یہ ایک دو منزلہ ، لیکن بہت چھوٹی سی ، صاف ستھری ، اور بہت سے سیکشنز کے ساتھ ترتیب دی گئی لائیبریری تھی ۔ اور ،،،،،،،، اب ہماری واپسی کا سفر تھا ،، بسوں میں بیٹھیں اور بےکپ ، کی بس سٹاپ پر اتریں ،، اپنے گھر تک کی بہت تھوڑی سی چڑھائی ، اب بری نہیں لگتی تھی ،، ! ( میں خود پر خوب دل میں خفا ہوتی تھی کہ میں نے پیدل چلنے کی عادت کو کیوں چھوڑ دیا ، کہ نہ صرف وزن بڑھ گیا ،، بلکہ میرے چلنے کی رفتار بھی کم رہی ) ،،۔
اگلے چند دن ہم نے قریبی حسین مناظر کو دیکھنے تک ہی رسائی رکھی۔، اور اسی دوران ایک " بس " نظر آئی ، جو دراصل ایک موبائل لائیبریری تھی ،،، جی ہاں یہ لائبریری ایک عام بس کو خاص طریقے سے سجا دیا گیا تھا جس میں ، انگلینڈ کی ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والی ، بسوں ، کی تصاویر ، پمفلٹس ، اور کچھ ماڈلز رکھے گۓ تھے ،، یعنی ، شروع دور میں بس بنی تو کس شکل صورت کی تھی اور بتدریج کیسے کیسے تبدیلیاں آتی چلی گئیں،،گویا اپنے عوام کے لیۓ چلتا پھرتا ، انسائیکلو پیڈیا ،، تاکہ کم ازکم نئی نسل کو چلتے پھرتے ، چند منٹ میں بہت کچھ سکھا دیا جاۓ !!۔
( منیرہ قریشی 30 مئی 2018 ء واہ کینٹ ) (جاری) 
ہیلے ڈیل کا ایک راستہ ،۔

ہیلے ڈیل کا جنگل !۔







کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں