اتوار، 13 مئی، 2018

سفرِانگلستان(10)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت ، یوکے "(10)۔"
میرا امتحان ، اس لیۓ کہ میَں نے پیدل چلنے کی عادت کو چھوڑ رکھا تھا ،، اور اب ایک تو لمبے سفر سے آئی تھی ، دوسرے پیدل نہ چلنے کی عادت نے ، جو تکلیف مجھے پہنچائی ،، اپنے پڑھنے والوں کو نصیحت کروں گی ، کہ اگر آپ سیر کے شوقین ہیں ، اور اگر کہیں باہر ملک جانا ہے تو پہلے پیدل ، چلنے کی عادت کو بہت باقاعدگی سے اپنائیں ۔ ورنہ اپنی حالت بھی بےزار ، اور ساتھ والے بھی تنگ ،!،،، اور یہاں مانچسٹر ، شمال میں واقع ہونے کے باعث، قدرِ اونچی نیچی زمین پر بنا ہوا ہے ،، سیدھے میدانی راستے نہیں ہیں ۔ واک نہ کرنے کی عادت سے وزن بھی بڑھ چکا تھا ، اور اب حال یہ ہوا کہ ، ہر تھوڑی دیر بعد سانس پھول جاتا ، اور چلنا دو بھر ہو جاتا، آس پاس بیٹھنے کی کوئی جگہ ڈھونڈتی ، کچھ منٹ آرام ہوتا ، پھر آگے بڑھتیں ،،، لیکن ثمن ایمن ، اس موقع پر سارا وقت ، بہت ہی محبت سے ، کہتیں ،" کوئی بات نہیں خالہ ،، چند منٹ بیٹھ لیں ،، یا کہتیں ، کچھ دن میں آپ عادی ہو جائیں گی " یہ حوصلہ افزائی والے جملے ، یا ، رویہ ، انسان کے لیۓ کتنا ضروری ہوتا ہے ،، جو بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے ، اگر الفاظ سخت نہیں بولے جا رہۓ ہوتے ، تو لوگوں کا ، ناگواری کا رویہ ، دل مسوس کر رکھ دیتا ہے !،،، 
ایمن ، ثمن مانچسٹر کے جس حصے میں ہمیں لے کر آئیں ، اسے راچٹیل کہتے ہیں ، یہاں ایک بہت بڑے مضبوط پُل پرکھڑے ہو کر، جب کہا کہ"" خالہ مانچسٹر کا یہ سارا علاقہ ، ایک نہر کے اوپر بنایا گیا ہے ، کیوں کہ ان کے پاس زمین کی کمی تھی ۔ تو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ سات ، آٹھ سو سال پہلے کا بنا رہائشی علاقہ ، ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی چند سال پہلے بنا ہو ۔ انھوں نے بتایا ،، اس کے پلرز کی صفائی اور مرمت مسلسل ہوتی رہتی ہے ، ،، میں نے سوچا ،، ابھی تو جدید آلات کی بدولت ، پانی کے اندر ماہرین کا جا کر مرمت کرنا آسان ہے ،،، لیکن ، 7 یا 8 سو سال پہلے ایسی سہولتیں کہاں تھیں ، لیکن ، ؎ اگر ہے جذبہء تعمیر زندہ ،،، تو پھر کس چیز کی کمی ہے !! والا حساب تھا ! جن قوموں نے کچھ کرنا ہوتا ہے ، وہ باتیں کم اور کام کر کے دکھا دیتی ہیں ۔ یہاں آس پاس آرام دہ انداز کے چوراہے بنے ہوۓ تھے ، بہت بلند و بالا مالز نہیں تھے ، بس دو تین منزلہ، اونچی بلڈنگز ،، مختلف چھوٹے ، بڑے ہوٹلز بنے ہوۓ تھے ،، ثمن ہمیں ایک " بہت پرانے چرچ میں لے گئی جو پانچ سوسال پرانا تھا ،، لیکن صحیح دیکھ بھال کے باعث ایسا نیا لگ رہا تھا ، جیسے سو سال تک پہلے بنا ہو ،، یہ سارا کا سارا لکڑی کا بنا ہوا تھا ،، یہاں کے پرانے دور کے رواج کے مطابق انکے سینئر پادری صاحبان کو وہیں ، کہیں چرچ کے اندر دفن کیا جاتا تھا ، اور اس قبر کے اوپر اس شخصیت کی شبہیہ پتھروں سے تراش کر لیٹی ہوئی پوزیشن میں بنائی گئی تھی ۔ ،، سارا چرچ ہوا دار اور روشن تھا ، لیکن، یہ ایک چھوٹا چرچ تھا، آج کادن چرچ سے وابستہ ، اُن بچوں کی پریکٹس کادن تھا ، جنھوں نے مذہبی گیتوں کی، حمد وثنا ، کو بطورِ مضمون لے رکھا تھا ،، یا مستقبل میں چرچ سے وابستہ ہونے کو اپنانا تھا ،، ہمارے ہوتے ہی ان پیارے بچوں کی قطار ، مرکزی ہال میں داخل ہوئی ،، اس میں مختلف عمر کے بچے تھے ، پانچ تا 16 سال تک کے ۔ سب کے ہاتھوں میں اپنے ڈیوٹی کے مطابق موسیقی کے آلات تھے ، اور بہت سنجیدگی ، اور باقاعدگی سے سیٹوں پر بیٹھے ۔ ہمارے علاوہ بھی دس بارہ ٹورسٹ خواتین و حضرات تھے ،، جو کچھ دیر کو بیٹھ گۓ ، دس ، پندرہ منٹ تک ہم سب نے انکے سَرمن کو سنا ، ، اور پھر باہر آکر ایک بنچ پر نمازِ عصر پڑھی ،، اور آگے چل دیں ۔ کچھ دیر ہی چلی تھیں، کہ ایک چوڑی شاہراہ کے کنارے ، قلعہ نما عمارت میں داخل ہوئیں ،، چند سیڑھیاں چڑھ کر ایک داخلے کی لابی تھی ، جس کے ایک طرف چند بہت بزرگ خواتین ، اپنے اور دوسروں کے " ہاتھ سے بنی اشیاء" کی فروخت کا سٹال سجاۓ ہوۓ تھیں ۔ ان کے ساتھ ہی کچھ سیڑھیا ں چڑھ کر اوپر ایک کافی بڑا ہال تھا ، خوب بڑی کھڑکیوں والا، یہاں یہ واضح کرتی جاؤں کہ " ہر تاریخی عمارت میں ، دو یا تین گائیڈ مقرر ہوتے ہیں ،اکثر یہاں ریٹائرڈ افراد چند گھنٹے کی ڈیوٹی دے کر اپنی آمدن کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ۔ جب مناسب تعداد میں ٹورسٹ اکٹھے ہوجاتے ، تب وہ گھمانا ، دکھانا شروع کرتے ہیں ! یہاں ہمارے گائیڈ ایک ، 75 یا76 سالہ بہت سمارٹ بزرگ تھے ، شاید کسی محکمے کے ریٹائرڈ بندے تھے ، ، دبلے پتلے ، نرم لہجے میں حسِ مزاح لیۓ ہوۓ ،،، اس سارے گروپ میں 15، 16 بندے تھے ،، انھوں نے بتایا" یہ ایک لارڈ کا اپنا ذاتی قلعہ تھا ،،، جسے مدت پہلے سے " ٹاؤن ہال " میں تبدیل کر دیا گیا تھا ،، یہاں چیدہ چیدہ کانفرنسسز منعقد ہوتی رہتی ہیں ،، اس ہال کی دیواروں پر ، اور چھت پر بےشمار مصوری کے شاہکار بناۓ گے تھے ،، جو انگلینڈ کے پہلے بادشاہ " ہنری اول ( شاید دوم ) !! کی زندگی کی عکاسی کر رہی تھیں , گائیڈ نے مزاحیہ انداز میں بتایا " بادشاہ سلامت ، اصلی بادشاہ تھا ،، کھایا پیا ، عیش کرو ، کی پالیسی پر کاربند تھا ، رعایا کا کیا حشر ہو رہا ، کوئی پرواہ نہیں تھی ،قانونی بیوی ایک تھی ، باقی کسی طرح چکر چلا کر تین چار کر لی تھیں ،، اور ناجائز اولادیں تو پندرہ ، سالہ تھیں وغیرہ ! " (یہ سن کرلگا اپنے ملک کے بادشاہوں کے قصے ہیں ) ،،، اس کی انہی عیاشیوں کو دیکھ کو ایک" وزیرِ باتدبیر " نے ہمت کی اور دوسرے عقل مند وزراء نے جتھا بنا کر انگلینڈ کا " مشہور میگنا کارٹا " قانون بنایا ، اور بادشاہ کی عیاشیوں کو لگام ڈالی ،،، اور جس چیز نے یوکے کو ترقی کی راہ پر ڈالا وہ تھا " قانون سب کے لیۓ "لوگوں کو انصاف ملا ،، تو اب عوام کواپنی غربت بری نہیں لگتی تھی ، جو تبدیلی آئی ، ان کی اپنی محنت سے آئی ، اور محنت کا معاوضہ ملنے لگا ، ایک " ویلفئر ریاست" سامنے آئ ،،، کسی خونی انقلاب کی ضرورت نہیں پڑی ۔
ہم 70 سال سے ایسی "ویلفئر " کے منتظر ہیں ،، جس کے بنیادی خدوخال حضرت عمربن خطاب ؒ ر ض نے اللہ کی کتاب اور سنتِ رسولﷺکے اقوال و احکامات کو سامنے رکھ کر بناۓ ،،، اور مدینہ کی اس ویلفئر سٹیٹ میں نافذ قانون کوقانونِ فاروقی کہا گیا ،،،اور کئی لوگوں کو شاید ہی علم ہو، کہ میگنا کارٹا ،،لاء کے بہت سے نکات ، اسی " قانونِ فاروقی " سے لیۓ گئے   ہیں،،،یہاں کے کونے کونے کی سیر کر کے نیچے اتریں ، تو ثمن جلدی سی لابی کے کارنر پر لگے ٹورسٹوں کی میزبانی کے لیۓ لگاۓ گۓ،، خوبصورت ، نازک گابلٹس میں سرخ مشروب ڈلوا کر لے آئی ۔ ہم دونوں نے کہا یہ کیوں لائی ہو ،،، ؟ یہ تو شراب ہو گی !! اس نے بتایا ، میں پوچھ کر آئی ہوں ، یہ چیری کا شربت ہے ۔ ہم نے چکھا ، واقعی چیریز کا شربت تھا ، اور لذیز بھی ٹھنڈا بھی ،، ہم پھرنے سے تھک بھی گئی تھیں ،، اور ہمیں کسی حلال مشروب کی ضرورت بھی تھی !! کچھ دیر ایک بینچ پر بیٹھیں ، تصاویر اوپر کی منزل پر کافی لے چکی تھیں ، جہاں کے بر آمدے ، کمرے اور بالکنیاں کافی دلچسپ نقاشی سے سجی ہوئی تھیں اس کی تصاویر بھی لی تھیں ۔ اب چلنے کا وقت آ چکا تھا ۔
اور مجھے اپنی واک نہ کرنے کی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ یہاں سے اُٹھ کر بس سٹاپ تک 20 منٹ چلنا پڑا ، اور بس میں بیٹھ کر جب " بے کپ" کے سٹاپ تک پہنچیں ،،، تو ہمارے گھر سے ایک سٹاپ پہلے ہی ( دو میل پہلے ) بس رُک گئی ۔ علم ہوا کہ رات دس ، یا ساڑھے دس کے بعد یہ بس وہاں نہیں جاتی ۔ اس لیۓ ہمیں یہاں اترنا پڑے گا ،، ہم تو پریشان ہو گئیں کہ ،، ایک تو میرا اتنا ذیادہ چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،، دوسرا وہ علاقہ بہت خاموش اور گاؤں سا تھا ، جہاں ٹریفک نہ ہونے کی برابر تھی ،،، اب کیا کریں ،، ڈرائیور نے کہا ،، ٹیکسی آن لائن منگوا لیں ، اسی نے نمبر دیا اور نزدیکی ٹیکسی سروس سے پانچ منٹ تک ٹیکسی آگئی ،، بس ڈرائیور ، اس وقت تک ہمارے ساتھ کھڑا رہا ،، یہ ایک ذمہ دارانہ ، انداز تھا ، ٹیکسی میں بیٹھیں ، تو احساس ہوا ڈرائیور ایشین لگ رہا ہے ، پو چھنے پر بتایا ،، جی میَں آزاد کشمیر کا ہوں ،، ابھی انگلینڈ آئےتین سال ہو گے ہیں ،، میرا سسرال بھی یہیں راچٹیل میں ہے ،،، انہی تین چار تعارفی جملوں میں دو میل کٹ گۓ اور گھر آگیا ، ، پوچھا کتنے پونڈ ،، صاف کہا " نہیں جی مجھے شرمندہ نہ کریں ، میں کرایا نہیں لوں گا " ہم نے کہا یہ نا ممکن ہے ،، کرایا تو لینا پڑے گا ، کیوں ہم تمہیں نقصان پہنچائیں ،، مشکل سے بتایا کہ بنتے 5 پونڈ ہیں ، آپ 4 پونڈ دے دیں ۔ " اتنا لحاظ بھی بہت تھا ،، ہمیں دوسری دفعہ پھر تجربہ ہوا ، تو اس پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے بھی کرایا لینے سے صاف انکار کر دیاتھا ،، یہ مشرقی روایات شاید ہمارے خون میں شامل ہوتی ہیں ، ایسا اپنائیت کے انداز سے بول دینا ہی کافی ہوتا ہے ،،الحمدُللہ کوئی بھی کسٹمر اس طرح کے محنتی طبقے سےغلط فائدہ نہیں اُٹھاتا۔
ہمارے اترتے وقت اس نے یہ بھی کہا " آپ لوگ کہاں اس متعصب گوروں کے علاقے میں آگئیں ،؟ گویا آج بھی بہت پڑھے لکھے گورے ، ایشین لوگوں سے ، فاصلہ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اور ایسا دوسری دفعہ ہوا،، ،، اپنے چلنے کے سٹیمنا کو بڑھانے کے لیۓ میَں اکثر اکیلی واک پر نکل جاتی ، اسی طرح ایک دن واک کر رہی تھی کہ ایک ایشین شکل وصورت کا لڑکا اپنی گاڑی کی طرف آیا،اس کے دروازہ کھولنے تک میَں قریب پہنچ چکی تھی،اس نے مجھے دیکھ کر بےاختیا رکہا " السلامُ علیکم ، ہیلو !!" میَں نے " وعلیکم السلام " کہا تو وہ رُک گیا ،، پوچھا " آپ پاکستانی ہیں یا ہندوستانی ، ، میَں نے کہا پاکستانی ہوں !! میرے پوچھنے پر کہ تم کہاں کے ہو ،، تو کہنے لگا " میَں تو بنگلہ دیشی ہوں ،، لیکن میرے بچپن ہی میں والد یہاں آگۓ ، اور ہمارا " ٹیک اوے " کا بزنس ہے ،، میں اپنے والد کے ساتھ 6 سال سے اس علاقے میں آرہا ہوں ۔ آج پہلی دفعہ ایک ایشین خاتون کو اس علاقے میں دیکھا ہے ، اسی لیۓ میَں رہ نہیں سکا اور آپ سے سوال کر بیٹھا ۔ " اس لڑکے کی یہ بات سن کر مجھے کچھ افسوس بھی ہوا ۔ کہ بہت پڑھے لکھے لوگ کیوں اتنے متعصب مشہور ہو گۓ ہیں ۔
،، ایمن ، ثمن نے لگتا ہے اچھی میزبان بننے کا کورس بھی کر رکھا ہے ۔ میرے ان دو ماہ کے دوران کھانا کھانے ، عشاء پڑھنے کے بعد ، ہم دونوں بہنیں آرام سے بڑے سے صوفے پر بیٹھ جاتیں ، اب ٹوئنزوں میں سے ایک ،، لیپ ٹاپ سے ، کوئی ایک فلم لگاتی ،،، جو میری فرمائش کو ترجیح دے کر  لگائی جاتی کہ " سچی کہانیوں پر مبنی فلمیں لگانا " وہ ڈھونڈ کر اچھی فلم لگاتی ،، اور ایک گھنٹے کے بعد لمحۓ بھر کا وقفہ ہوتا ، اور دوسری ٹوئن ، ہمارے آگے ، " پاپ کارن " کا خوب بڑا پیالہ رکھتی ، جب وہ ختم ہوجاتا ،، تو مزید وقفے میں کافی بڑے بڑے آئس کریم کے سکوپ ، پیالوں میں پیش کیۓ جاتے ،،! یہ وقت ہوتا کہ دہن و سماعت و بصر کی عیاشی کا ایک رنگ ، اللہ نے ہمارے نصیب میں کیا ہوا تھا ۔ مجھے ایمن ، ثمن نے یادگار فلمیں دکھائیں ، اور جس دن فلم نہ ہوتی تو کوئی " ٹاک شو " لگایا جاتا ،، جس میں نعیم بخاری ، عامر خان (انڈیا) کے اور کچھ مذہبی ، چینلز کو لگا کر ان کے نقطہء نظر کو سنا اور آپس میں ڈسکس کیا جاتا ۔ صبح،،، فجر کے بعد کا سونا ، ہمارے لیۓ مزید ریلیکسنگ ہوتا ، ، میں روزانہ جب بھی وقت ملتا ، اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتی ، اور " ایلس اِن ونڈر لینڈ " کی دنیا میں پہنچ جاتی ۔ 
( منیرہ قریشی 13 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں