جمعہ، 4 مئی، 2018

سفرِانگلستان(7)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت ، یو کے" (7) ۔"
جوجی اور میَں ، اس شادی پر دو دن پہلے پہنچی تھیں ، جب کہ ہمیں ایک دو ماہ پہلے پہنچنا تھا ،،، اس لیۓ اب اتنے گرینڈ لیول والی شادی کے انتظامات ہم سے ہضم نہیں ہو رہے تھے، جو ان تین لڑکیوں نے خود کیۓ تھے ،، اور تیمور بھی اس میں " مدد گار " کے طور پر ہی تھا ۔ اب اس صورتِ حال میں نئے طرز کی شادی کے سب مناظر صرف ہمارے " "تصورات " پر منحصر تھے ۔ اب بھلے ، کشتی ڈگمگاۓ تو ، اور دلہا دلہن نچڑتے کپڑوں سے آئیں ، تو کسی کو کیا ! ، ، بس اس بات کا شکر کہ باراتیوں کو کشتی میں سوار ہونے کا حکم نہیں ہوا ،،، ورنہ اگر میری اور جوجی کی کشتی الٹ جاتی ، تو ہمیں تو تیرنا بھی نہیں آتا تھا ،، 😍،دلہن کے برا مان جانے کے ڈر سے ہم نے اپنے تصورات سے پیچھا چھڑایا ۔،،، آس پاس اس وقت کچھ جنگل ، اور ویرانہ سا سماں تھا شام دبے پاؤں آیا چاہتی تھی ۔ ،عام حالات میں یہ پکنک کے لیۓ آئیڈیل جگہ تھی ۔ ہم واپس ،، قلعے میں جانے کے بجاۓ کار میں بیٹھیں اور نزدیکی بازار کی طرف چل پڑیں۔ کیوں کہ قلعے میں کھانے کا انتظام نہیں تھا!۔نزدیکی بازار،رات نو بجے تک آدھے سے ذیادہ بند ہو چکا تھا ، کچھ دیر اور ہو جاتی تو، یہ دو ریسٹونٹ بھی بند ہو چکے ہوتے ،، جنھیں مائرہ نے جا کر ، پوچھا کہ حلال کھانا ؟؟؟،، تو ایک میں کچھ کھانے کا انتظام تھا ، اور وہ ایک چھوٹا سا ٹرکش ریسٹورنٹ تھا ، جہاں پھیکے ، ابلے چاول اور کچھ ان کا اپنا سوپ ٹائپ ، ایک پیا لہ سالن تھا ، اور ایک کافی کنگ سائز بینگن ، جسے ابال کر کچھ اس کے اندر چٹنیاں مکس تھیں ، ایک سویٹ ڈش بھی منگائی۔جو بہت براۓ نام سویٹ ڈش تھی ،، ! لیکن یہ سارا کھانا ، نہ صرف کچھ پھیکا ، بلکہ خاصا مہنگا تھا ،، شاید یہ علاقہ ہی مہنگا ہو گا ۔ لیکن واپسی پر 11 بجے رات کو ٹونزوں سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا وہ ، قلعہ میں پہنچ چکی ہیں ۔ 
اور ہم پانچوں آج رات اس پرانے قلعے کے کردار تھیں ،، دو ڈھائی سوسال پہلے کوئی ہم جیسی معمر خواتین ، اور کچھ جوان العمر لڑکیاں لمبے گھیردار، لیس کے فراک اور ایمبرائیڈڈ ، پہنچوُ کندھوں پر ڈالے ، اور سروں پر خوبصؤرت پھولوں کی پِنیں لگاۓ ہاتھوں میں جاپانی پنکھیاں ، جُھلاتیں ، یہاں وہاں پھر رہیں ہوں گی ،،، میَں اور جوجی تو عشا پڑھ کر بستر میں گھسیں ، اور خراٹے بھرنے لگیں ،، ایسے جیسے ہم اب تک پیدل چلتی رہیں ہوں ۔ 
صبح فجر کے الارم پر اُٹھیں ، اور کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر اجنبی سر مین ، کی اجنبی قیام گاہ کی ، اجنبی سی دھندلی فجر دیکھی ،،،، لیکن یہ کیا ،، اس منظر نے مجھے اتنا مسحور کیا کہ میَں آبدیدہ ہو گئی ،، فجر کے مالک و خالق کے حضور یہ دو آنسو گرا دیۓ ،،، تشکر اور بس تشکر ،،،،کہ لفظ ختم تھے ۔
گھاس کا دور تک پھیلا میدان ،، لہراتی محسوس ہوتی دھند ، اور ساکت و ساکن دور کھڑے درخت ،۔ گھاس شاید رات کی ٹھنڈ کھا چکی تھی ، اسی لیۓ اس کا چہرہ ہلکی ہلکی دھند میں ہلکورے لے رہا تھا ۔ کافی دیر اسی منظر کو آنکھوں میں جذب کرتی رہیں ، اور پھر کچھ دیر اور نیند لینے کے بعد،، ہم دونوں اُٹھیں ،، کہ ناشتہ ، قلعے کی طرف سے آنا تھا ،، اور دس بج چکے تھے ۔ بچیوں کے کمرے میں رکھے ڈائینگ ٹیبل پر ، کل جیسی خوبصورت ، لڑکیاں اور لڑکے ویٹرز کی وردی میں ، ہاتھوں پر گلوز چڑھاۓ ، ٹرے لاتے چلے گۓ ، یہ اچھا خاصا " بھاری ناشتہ" تھا ،، لیکن چاۓ ہم نے اپنی تیار کی ،، جو خوب سٹرونگ تھی ،، 11، ساڑھے گیارہ،، مائرہ کی بیوٹیشن پہنچ گئی ،، پینٹ اور کوٹ پہنے ایک پاکستانی لڑکی تہمینہ مسکراتی اندر داخل ہوئی ۔،، ہم سب اس سے محبت سے ملے ، اور پوچھا کس کے ساتھ آئی ہو ، پتہ چلا میاں صاحب ، ساتھ آۓ ہیں وہ باہر ٹھہرا رہے گا ،، سب سے پہلے ایمن ، ثمن تیار ہوئیں ، انھوں نے بالوں کی خوب " بیک کومنبنگ " کروائی ،، اور ایسے فیشن میں ،، بہت بڑی بڑی چیونٹیاں لگنے لگیں ، میَں نے سخت اعتراض کیا کہ کم کرو اس کوہان کو ، خود اتنی لمبی ہو ، تمہیں اتنے کومبنگ کی کیا ضرورت ہے ،، وغیرہ ،، برے دل سے انھوں نے کچھ کم کرواۓ ! بعد میں ڈانس کرتے ہوۓ یہ سب فیشن کھل کھلا گۓ ، تو انھیں پِن اَپ کرنا آسان رہا ! اور پھر دلہن کی اماں کو بھی سنوارا گیا ، حالانکہ جوجی کو اللہ نے قدرتی خوبصورتی دے رکھی ہے ، اسے کسی میک اَپ کی ضرورت نہیں، لیکن ، شاید ہر عورت گھر کی شادی میں تیار ہونا چاہتی ہے ، اور پھر آخر میں دلہن نے تیار ہونا شروع کیا ابھی وہ زیور پہن ہی رہی تھی کہ ، عرفان ، دُلہا کے خوبصورت ڈریس میں ، اندر داخل ہوا ،، ماشا اللہ وہ اس خالص ، مشرقی ڈریس میں بہت پیارا لگ رہا تھا ،سفید کھڑا پاجامے کے اوپر سفید شیروانی ، اور سفید کھُسے بھی پہناۓ گۓ تھے ،، ابھی اس نے سر پر پگڑی نہیں پہنی تھی ،، اگرچہ وہ سر کے بالوں سے بالکل فارغ ہے لیکن یہ کمی اس کی خوبصورتی ، کو بڑھا رہی تھی ۔،،، عرفان کا ڈریس ہو یا دلہن کا اپنا ڈریس ،، شادی کے مینو ، یا شادی کی جگہ کا انتخاب، ، سب اختیار دلہن کے پاس تھا ۔ ابھی تک سب عین اس کی پلاننگ کے مطابق ہی ہو رہا تھا ۔ جیسا میَں نے لکھا کہ مائرہ ایک مغربی ملک میں 8 ،، 9 سال سے خود ہی اماں تھی خود ہی بیٹی ، اس سارے اختیارات نے اسے خود انحصاری دے دی تھی ۔ جو خود اعتمادی اس میں تھی وہ چاہتی تھی ، دونوں چھوٹیوں میں بھی موجود ہو ،،، لیکن ابھی ایسا پوری طرح نہیں ہو پایا تھا ۔
ماہرہ ، جب پوری طرح تیار ہو گئی ، تو کوئی شک نہیں ، وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ اور اب فوٹو سیشن شروع ہوا ،،، تہمینہ کی ہمت تھی کہ جوں 11 بجے سے کھڑی ہوئی توشام کے 5 بج چکے تھے ،،، لیکن ، اس نے پیسہ صحیح حلال کیا تھا ۔ پاکستان کی عورت ہر جگہ شوہر کی رائٹ ہینڈ رہتی ہے ،، یہاں بھی میاں آج کل جاب لیس تھا ، سال بھر سے وہ ہی کماؤ پوت بنی ہوئی تھی ،،،، اسے چاۓ پلا کر ، گلے ملیں اور اللہ حافظ کہا ۔ ہم دونوں، ایمن ثمن کے ساتھ " مارکی " کی طرف چل پڑیں کہ مہمانوں کی آمد کا پتہ چلا ،، آج ایسے بہت سے لوگوں سے ملنے کا موقع ملنا تھا جن کا ذکرِ خیر ہوتا رہتا تھا ،کچھ ،،لوگوں سے پاکستان میں مل بھی چکی تھی ۔ جب ہم مارکی تک پہنچیں ،،،تو آج اِس وقت ،، " جنگل میں منگل " کا سماں تھا ۔ ارد گرد کی سجاوٹ ، پھولوں کے گلدستے ، لڑیاں ،، داخلے کی جگہ پر ایک اونچا خوبصورت میز رکھا ہوا تھا جس پر تین منزلہ کیک رکھا گیا تھا جو ابھی ڈھکا ہوا تھا ،،،۔ 
ہمارے کزن افتخار بھائی اور طلعت معہ بچیوں اور اپنے پیارے نواسے نواسیوں کے ساتھ موجود تھے ، یہ تو مانچسٹر ہی سے آۓ تھے ،لیکن حکیم چاچا ، ان کے دونوں بیٹے ، بہوئیں اور پوتی ، پوتا ، لندن سے آۓ تھے جو وہاں سے چار گھنٹے کی مسافت پر تھا ، اسی طرح مائرہ کی پکی سہیلی ڈاکٹر نادیہ بھی لندن سے آئی ، البتہ ، اس کا خاندان جوایک جوان پھوپھی ، دو بہنوں ، ایک ممانی اور اسکی بیٹی پر مشتمل تھا ، یہ لوگ ، "لیڈز " سے آئی تھیں ،، ،، طلعت کی دونوں نواسیوں نے ایک جیسے فراک پہن کر متوجہ کر لیا ، جبکہ سارا اور شعیب کا بیٹا ، نوریز ، جو نہایت جینٹل ، اور ذہین بچہ ہے ، اس کی دوستی ، تیمور کی بیٹی ملیکہ سے ہو گئی ،، لیکن تیمور کے بیٹے نے دلہا کے بھانجے سے ہیلو ہاۓ کر لی ، جو اس کا ہم عمر تھا ۔ ،، آج ملیکہ نے ٹپیکل پاکستانی گلابی لہنگا جوڑا پہنا ہوا تھا ، اور وہ بہت خوش تھی کہ یہ دونوں " برائیڈ اور برائیڈ گروم " کے ساتھ ساتھ چلنے والے بچے تھے ۔ مائرہ کی پھوپھو اور ان کے شوہرآج کل امریکا سے بیٹی نائلہ کے گھر آۓ ہوۓ تھی ، وہ سب سے آۓ تھے ۔باقی سب لوگ دلہا کی طرف سے تھے ، آج کا فنگشن ، دلہا دلہن دونوں کی طرف سے تھا ، گول میزوں کے گرد آٹھ ، آٹھ کرسیاں تھیں ، اور ہر کرسی کے لحاظ سے تمام لوگوں کے نام کے کارڈز رکھے گۓ تھے ۔ خواتین کے کارڈز گلابی ، اور مردوں کے نیلے رنگ کے تھے ، ہر کارڈ کے ساتھ ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا جس میں ایک بلیک چاکلیٹ بند تھی ،،، گویا بیٹھتے ہی مہمان کو کچھ پیش کرنے کا انداز ،،، یہ بالکل ایسے ہی تھا ، جیسے برِ صغیر میں ، مہمان کو فوراً  پان پیش کیا جاتا ہے ، یا پانی ، شربت وغیرہ  ،،، انگریز بنیادی طور پر مہمان نواز قوم نہیں،،برِصغیر پر حکمرانی سے ان کے عام درمیانے طبقے میں جو خوشحالی آئی ، اس میں کچھ روایات کو انھوں نے اپنایا ،، رہی سہی کسر ، یہاں آکر بَس جانے والے مشرقی لوگوں نے رائج کیں ،،، اور یوں یہاں کی شادیاں بتدریج مشرق ،مغرب کا امتزاج بنتی گئیں ،، بے شک یہ امتزاج کچھ اتنا حسین نہیں لگا ،، !! یا میَں اس دو تہذیبی ، سنگم کو اس لیۓ تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہی تھی کہ وقت کا زیاں بہت ذیادہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔
یہ ہیں وہ کارڈز ، جن پر سیٹ کے مطابق نام لکھے گۓ اور ہر کارڈ کے ساتھ ان گلابی ڈبوں میں بلیک چاکلیٹ بند تھیں۔ 

( منیرہ قریشی 4 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں