جمعرات، 24 مئی، 2018

سفرِانگلستان(15)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 سفرِ ولایت ، یو کے " (15)۔"
اور آج جوجی کے چھوٹے بیٹے تیمور نے دلہن، دلہا اور ہمیں ڈنر پر بلا رکھا تھا ،، ایمن ثمن ، نے وہی ہماری " علی الصبح " یعنی 9 بجے ، تک اُٹھایا ،،، جوجی اور ایمن نے ناشتہ ، تیار کیا ،، لیکن مَیں ایک نکمے مہمان کی مکمل تصویر بنی ، (اور شرمندگی کے بغیر ) کبھی ایک کھڑکی ، کبھی دوسری کھڑکی کے پردے ہٹا کر باہر کے نظاروں سے لطف اُٹھاتی ۔ حتیٰ کہ کھڑکیوں کے عین نیچے اُگی جھاڑیوں کو بھی دلچسپی سے دیکھتی ،، کہ صرف مختلف پتوں سے سجی یہ جھاڑیاں بھی مختلف رنگوں سے مزین تھیں ، فرنٹ کی کھڑکی کے عین نیچے کی جھاڑیوں کے پتے ، موٹے ، کھردرے تھے لیکن ایک ہی پتے پر سبز ، سرخ اور پیلے رنگ کے " سٹروک لگاۓ گۓ تھے ، گویا پھول نہیں بھی ہیں تو رنگین جھاڑی ہی کافی بہار دکھا رہی تھی ، ،، اسی طرح باقی  جھاڑیوں کی فرق چھب تھی ، خود بھی نہایت ننھےمنے پتوں والی اور اتنے ہی منے کہیں گلابی اور کہیں کاسنی پھولوں سے لدی ہوئی تھیں ،،، میں نے کچھ ، نمایاں خوبصورت پتوں کو سنبھال کر ڈائینگ ٹیبل پر رکھے ایک برتن میں ڈالے ہوۓ تھے کہ یہ پاکستان ساتھ لے کر جاؤں گی ، اور بچوں کو یہ جنگلی پتےدکھاؤں گی ،، لیکن تیاری میں وہ وہیں بھول آئی۔ 
ناشتے کے بعد، جوجی نے ایک دو پاکستانی سالن بیٹے کے گھر کے لیۓ بناۓ کہ ماؤں کو ہمیشہ اپنے بچوں کو " آسانیاں " دینے کی کوشش ہوتی ہے ، بھلے یہ شادی شدہ بچے خود روزانہ کھانا بناتے ہی ہیں،لیکن ، خالص مامتا کے جذبے سے جڑا ، ایک بین الاقوامی جذبہ ، مشترکہ ہے کہ ،،، کہ ماں اپنے ہاتھ کا ذائقہ وقتاًفوقتاً کھلا کر اس اولاد کو اپنے ساتھ گزارے دنوں کو یاد دلا دیتی ہے ، بیٹا یا بیٹی ، خود کو ماں کے گھر میں محسوس کرتے ہیں ، اور خاص طور پر بہو غیرملکی ہو ، اور اسے پاکستانی ذائقہ ، گھر میں رواج دینا ابھی بھی بہت کم آتا تھا ،، اسکے دونوں بچے ، کم مرچوں والی " بریانی " پسند کرتے ہیں ،، بریانی بھی بنی ۔ ساری پیکنگ ہونے تک ، دوپہر 12 بج گۓ ، اتنے میں ، مائرہ اور ذی سی بھی اپنی پجارو میں آگۓ،،اس بڑی گاڑی کی وجہ سے ہم چاروں بھی آرام سے پچھلی سیٹ پر بیٹھٰ گئیں ، اور آج ، مجھے " لیور پول " دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ، ، حسبِ معمول ، گاڑی کے باہر کے مناظر ، خوب صورت اور صفائی ،، سے نمایاں اور گاڑی کے اندر بیٹھے ، رشتوں کی مٹھاس کے لطف نے سفر ، میں سُرور بھر دیا !!!ذی سی ، مزے کی گفتگو کرتا رہا ،، کم از کم اب تک جو ملاقاتیں رہیں ، ہم اس کی موجودگی میں " ایٹ ایز " ہوئیں ،، ،،، ،، ۔
اگر ہم یورپ ، امریکا یا یوکے میں پیدا ہونے والے اپنے ایشین بچوں کی عادت کا تجزیہ کریں ،،، تو اس مغربی معاشرے کی ایک بہترین عادت ان میں سما گئی ہے کہ یہ بچے ،، "منافق " نہیں ہوتے ،، جو ان کے دل میں ہوتا ہے وہی ان کی زبان پر ہوتا ہے ،، ہم ایشین اپنے بچوں کی سادگی اور سچائی کو بہت جلد ختم کر ڈالتے ہیں ۔ ذرا بڑے ہوتے ہیں ، تو سکھایا جاتا ہے ،،" پھوپھو آرہی ہیں ، یہ بات ان کو نہیں بتانی ،، وہ مہمان آرہا ہے ،، یہ چیز انھیں نہیں دکھانی ، ، اپنے گھر کی باتیں کسی کو نہ بتاؤ ! ،، کسی کو اپنا پروگرام نہ بتاؤ ، نظر لگے گی وغیرہ وغیرہ ،،،، ! نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچے عجیب ، بے پیندے کے برتن بنتے چلے جاتے ہیں ۔ ان میں وہ " ہوشیاری " کچھ ذیادہ آجاتی ہے ،، جو ان کی عمر کے ساتھ مناسب نہیں لگتی ،، وہ گھر میں اور مزاج دکھاتے ہیں ، اور باہر ان کی شخصیت پر اور ملمع چڑھ جاتا ہے ،۔
بات ، ذی سی کے مزاج کی ہو رہی تھی ، کہ اس کیْْ شادی ہوۓ چند ہفتے ہوۓ تھے ، اور اس سے ملے ہوۓ بھی چند ہفتے ،، لیکن وہ، سادگی سے گھُل مل گیا تھا ۔ ایسی ہی جینئون مزاج کے ساتھ اس کی باتیں سنتے ہوۓ لیور پول داخل ہوۓ ، تو مائرہ نے بتایا ، تیمور کا شہر آگیا ، یہ ایک بہت تاریخی چھوٹا سا شہر ہے ،،، جو کسی زمانے میں شاید 300 سال پہلے ایک نہایت چھوٹا سا قصبہ تھا ،، اور پھر " نارتھ اٹلانٹک " کے کنارے، 1000 والی آبادی نے اس وقت تیزی اختیار کر لی ، جب غلاموں سے بھرے بحری جہاز ، لیور پول کے کنارے پہنچنے لگے ،اور ساتھ ہی آبادی میں بھی اضافہ ہوا اور تجارت میں بھی ،،، اور یوں اس چھوٹے سے قصبے کی تاریخی اہمیت بڑھ گئی۔ ،،
سیدھے تیمور کے گھر پہنچے ، جو صاف ستھرے، بہت خوبصورت علاقے میں ، رہتا تھا ،، وہ ساری فیملی باہر ہی انتظار میں تھی ،، 6 فٹ 3 انچ لمبے تیمور کو 6 فٹ لمبی سمینتھا مل گئی ،، دونوں جاب کرتے ہیں اور ایک بیٹا 6 سالہ طارق اور بیٹی 5 سالہ ملیکہ ،گلے لگ کر ہم سب سے ملے! تیمور پوچھنے لگا ،، چاۓ کا موڈ ہے تو پہلے پی لیں ،، پھر سیر کروا دوں گا ، ،، لیکن ہم سب نے پہلے سیر کو ترجیح دی ، میَں اور جوجی ، اور ٹونز میں سے ایک تیمور کی گاڑی میں بیٹھے ،،، تیمور نے بتایا یہ کوئی اتنا لمبا چوڑا شہر نہیں ، لیکن بہت تاریخی پس منظر رکھتا ہے ،، وہ ہمیں مشہور سینٹ نکولیس چرچ ، کے سامنے لے گیا ، جو اچھی دیکھ بھال کی وجہ سے بہترین حالت میں تھا ،، کھڑکیوں کے رنگین شیشے ، اندر کی بلب کی روشنیوں میں چمک رہے تھے ،، اور چرچ بہت خوبصورت تائثر دے رہا تھا ، کچھ اور فاصلے پر مسلمانوں کے لیۓ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد دیکھی ،، جو باہر سے ہی دیکھنے کو ملی ۔ اس دوران ،، چوں کہ شام ہونے کے خدشے کے تحت تیمور نے جلدی سے کار ، "لیورپول کاسل " کی طرف موڑی ،، اور یہ بارھویں صدی کا بنا قلعہ ، چھوٹی چھوٹی آریکٹیکچرل نفاستوں سے بھرا ہوا تھا ،، باریک پچیکاری ، نے اسے دیکھنے لائق بنا رکھا تھا ،،لیکن وقت کی کمی سے ہم اسے بھی سرسری دیکھنے والی صورتِ حال سے گزرے ،،، اور مزید آگے چلے تو سمندر نزدیک محسوس ہوا ،، اور قریب ہی وہ 6 منزلہ سادہ ،،لیکن مشہور بلڈنگ دکھائ دی جسے تاریخ میں " ایسٹ انڈیا کمپنی " کا نام دیا گیا ،کہ ،، جہاں برِصغیر سے آنے والے محنت کشوں ،، اور ملاحوں کو ٹھہرایا جاتا ،، اپنی زبان کا بھاشن سنایا جاتا ،، اور سرمایہ کاری کی بساط بچھائ جاتی ،،، قوموں کے فیصلے کرنے والوں ، کروانے والوں کا اس اجنبی ملک کا اس سمندری کنارے سے پہلا تعارف ہوتا ۔ 
تیمور ہمیں سمندر کنارے لے گیا ، ابھی شام کی روشنی اتنی ضرور تھی کی نگاہ دور تک احاطہ کر رہی تھی ،، اسی نے بتایا آجکل اکتوبر کا شروعات ہے ،، اور صبح ، شام شدید دھند سمندر کے اوپر چھانے لگتی ہے ،، واقعی گھنٹے کے اندر اندر، دھند پہلے دور اور پھر ذرا نزدیک کے سمندر پر نظر آنے لگی ،، سردی کی آمد آمد تھی ، ہم سب نے اپنے ساتھ لائ سویٹرز اور کیپ شال پہن لیۓ ، ہم ابھی ایک گھنٹہ ہی رکے تھے ، اور دور بہت دور ایک چھوٹے جہاز کے قریب آنے کی طرف متوجہ تھے ، ،،، ،،، کہ " کونجوں کی مخصوص آواز " سنائ دی ،، تیمور نے آسمان کی طرف اشارہ کی ،، بہت دور آسمان پر ایک کونج دکھائی دی ،، میِں نے سوچا ایک آدھ گزر رہی ہے ،، جب غور کیا تو وہ پہلی کانج تھی جو " رہبر " کونج ہوتی ہے ،، اور مسلسل ایک خاص آواز نکالتی رہتی ہے ۔ اس کے پیچھے " وی " (v) کی شکل میں پھیلی ہوئ ڈار تھی ،،، اور اب وہ مکمل منظر کے ساتھ دکھائ دے جانے والی پوزیشن میں تھی ،، ہم سب کے چہرے ،، اس قدرتی نظارے کو دیکھنے کے لیۓ آسمان کی طرف اُٹھے ،، تو گردنیں تھک گئیں لیکن ، نظر نہیں ہٹ رہی تھی ، کم ازکم میری کیفیت یہ تھی ، کہ خوشی ، حیرت اور شوق سے مجھے کپکپی محسوس ہو رہی تھی ،، آہ ،، اتنا بھر پور نظارہ ،،، لا تعداد کونجیں گزرتی چلی جارہیں تھیں ۔۔ لمحے بھر کا وقفہ ہوتا ، اور ہزار ، دو ہزار کونج گزرتی ، اور دوسرے لمحے پھر ایک " لیڈنگ کونج" نظر آتی ، اور پھر ایک خوب پھیلاؤ والا " وی " شیپ قافلہ گزرنے لگتا ۔ اور ایک آدھ قافلہ " قازوں " کا بھی گزرا ، جن کے رنگین پروں اور فرق آوازوں نے فضا میں رنگ بھر دیۓ ،، اگرچہ " سُرمئی کونجوں کے گزرتے وقت ،، ایک ہلکے سرمئی بادل کا احساس ہواتھا ، جو چلتا چلا جا رہا ہو ،،، !! ،، 
یہاں یہ بھی بتا دوں کہ تیمور کے ہمارے سیر کرانے کے دوران ، باقی اہلِ خانہ ، دلہادلہن سمیت ہم سے پہلے سمندر کنارے پہنچ چکے تھے ،، اب انھیں سردی بھی محسوس ہو رہی تھی ،، اور یہ ضروری نہیں تھا کہ میری طرح ، باقی بھی ، فطرت کے اس جلوے پر فدا ہو رہے ہوں ، ، میرے لیۓتو آنکھ چھپکنا مشکل ہو رہا تھا ،، یہ سلسلہ آدھ گھنٹہ چلتا گیا ، اب باقی لوگ ، واپس جانے کا اشارہ دینے لگے ، تو تیمور نے اپنے بیوی بچوں ، ثمن ، مائرہ اور ذی سی کو بھجوا دیا ،،میری خاطر ، وہ اور جوجی ، ایمن مزید 20/25 منٹ رکے رہے ،،، لیکن " کونجوں کی ہجرت کا سلسلہ " جاری تھا ، ، اب یہ سارا قافلہ "گرمائی " علاقوں کی طرف عازمِ سفر تھا ،،، کئی دفعہ انھیں مسلسل دو مہینے تک اڑتے رہنا پڑتا ہے ،، ہجرتیں آسانی سے کہاں ہوتی ہیں ،، آخر سردی بھی بڑھ رہی تھی ، اور تیمور کے گھر کاڈنر بھی منتظر تھا !لیکن ،، میِں اپنی زندگی میں دیکھے جانے والے اس بےمثال ، اورقدرت کے حسن کے ایک رُخ سے آگاہی کے نظارے کو دمِ آخر تک بھلا نہ پاؤں گی ،، بھاری دل سے اس سمندری کنارے کو چھوڑا ۔ اور لیور پول ، سمندر کنارے کونجوں کی ہجرت کا ناقابلِ فراموش نظارہ ،، غور سے دیکھنے سے یہاں تین گروپ نظر آئیں گے ،، اور یہ وقفے وقفے سے آتے چلے جا رہۓ تھے ،، لاکھوں کی تعداد میں ! 2014ء میں ستمبر کے آخری دن یا اکتوبر کی شروع کے دن ۔۔۔
اور واپس بے کپ آتے ہی انہی احساسات کو بیدار رکھا ،،، یہاں انھیں شیئر کر کے اپنے پڑھنے والوں کو اپنے تجربے میں شامل کر رہی ہوں !
" ہجرت"
،،،،،،،،،،،،،
کرسمس کے درخت سَر خوشی سے لہلہاتے ہیں 
برفانی ہواؤ ، خوش آمدید ! خوش آمدید 
آدھی دنیا کی خوشی کا یہ ہی موسم ہے ،
نیرنگئ موسم ہی تو دیتا ہے نئ سوچ 
یہی تو موسم ہے آگے پنپنے کا 
یہی تو موسم ہے ، ملاپ و وصال کا 
ہم ہی تو ہیں وہ نفوس !!!
جو ہیں ، حکمِِ ہجرت کے پابند !!
کہ ا نہی موسموں میں ہجرتیں فرض ہو چکیں 
لمبی مسافتیں ہیں پیشِ نظر 
گرم موسموں کے متلاشی ہیں باخبر
کہ انہی ہجرتوں میں چھُپی ہے زندگی
یہ ہجرت کوُنجوں کی ہویا قازوں کی 
یہ ہجرت ، انساں کی ہو یا نفسِ انساں کی!
یہ ہجرت خیال کی ہو یا خیالِ یار کی 
ثواب و عذابِ ہجرت جھیلنا ہے بہر طور
مقدر کا لکھا تو جھیلنا ہے بہرطور ! ! ! ( 16 اکتوبر 2014ء مانچسٹر)۔
تیمور کے چھوٹے سے دو منزلہ گھر میں خوب گہما گہمی تھی ،، سب نے ان کی میزبانی کو اور بچوں کو خوب انجواۓ کیا ،،لیکن میَں ذہنی طور پر ان کونجوں کے ساتھ اُڈاری میں تھی ، ، جسمانی طور پر بریانی ، ، مچھلی ، اور پتہ نہیں کیا کچھ کھا رہی تھی ،،،، زندگی کتنی خوبصورت لگنے لگتی ہے ،، اگر اپنے خول اور ماحول سے نکل جاؤ تب !!!۔
( منیرہ قریشی 24 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں