جمعہ، 11 مئی، 2018

سفرِانگلستان(9)۔

'' سلسلہ ہاۓ سفر''
 سفرِ ولایت ، یو کے" (9)۔"
اب رات کے 2 بج چکے تھے ، جب ہم تین خواتین ، "بے کپ " کے اس گھر میں ، پہلے خوب دیر تک اس گزری سچوایشن پر دل کھول کر ہنسیں ،،اور ثمن نے چاۓ بنا کر ہماری تھکاوٹ کا علاج ہاتھوں میں تھمایا ! تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی بات یاد آجاتی اور ہم اسے دہرا کر ہنستیں ،،ثمن سخت تھکی ہوئی تھی ، وہ جا کر سو گئی ، ایمن کی آج رات اپنے بھائی تیمور کے گھر گزر رہی تھی ،، ہم دونوں ، بہ مشکل دو گھنٹے سوئیں ، اور فجر پڑھ کر جوں سوئیں تو دوپہر کے 11 بج چکے تھے ،،، آج زبردست دن تھا ، کسی فنگشن میں نہیں جانا تھا ،،آرام اور سکون کا بہت خوبصورت احساس جسم پر حاوی تھا ،، سارے گھر کے پردے ہٹا کر باہر کے ایک ایک چپے کے منظر کو انجواۓ کرنے لگی ، ثمن اور جوجی نے ناشتہ تیار کیا ، اور مجھے کارن فلیکس کی بہت سی ورائیٹیز پیش کی گئیں ،، ساتھ سلائس ، شہد اور ایک ایک ابلا انڈا ،،، یہ بھاری ناشتہ اس لیۓ بھی تھا کہ ابھی دوپہر ہونے ہی والی تھی ، اور کچھ اِس میں بھی پکانا تھا ،، لیکن ذرا وقفہ لمبا ہو سکتا تھا ،،، ابھی دوپہر کے دو بجے تھے کہ کال بیل ہوئی ، اور باہر دلہن دُلہا کو دیکھ کرخوشگوارحیرت ہوئی،، شکر ہے دلہن نے اپنی اماں کی طرف سے دیا گیا ، ایک نیوی بلیو جوڑا پہن رکھا تھا ، جس پر کچھ چمک کا کام تھا ،، ورنہ یہ اسی قسم کی تھی کہ اگر ٹریک سوٹ پہنا ہے تو اسی میں ساری دنیا ، پھر کے آسکتی ہے ۔اور شادی کا آج دوسرا دن ہے ، یا آٹھواں ،، اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ، دلہا تو خیر بالکل ہی اس گھریلو ڈریس میں تھا ،جو وہ شاید گھر میں پہنتا ہی تھا ،، وہ بہت پیار سے ملنے کے بعد کار سے بڑے بڑے تین چار ٹفن نکال لایا ،، ہمیں بتایا گیا کہ نواب کیٹرنگ والوں نے بہت سلیقے سے ہمارا شادی سے بچا فالتو کھانا ، تین چار حصوں میں ان ٹفنز میں سیٹ کیا ،،رات کو ہی اسے سمیٹ لیا گیا تھا بڑے بڑے فریزرز میں رکھ لیا تھا ،، آج انھوں نے ہمیں ڈلیور کیا ، اب ایک حصہ جس میں سب کھانے کی چیزیں کچھ مقدار میں موجود تھیں ، ہمارے لیۓ لے آۓ ، ایک اپنے والدین کو، ایک گوری مما کے گھر اور ایک پیکٹ ، تیمور کے لیۓ ہمارے پاس ، رکھوانے لے آۓ تھے ۔ دلہا دلہن ، کچھ دیر ہی رکے ، اور انکے جاتے ہی تیمور کی بیگم " سیم " ایمن کو پہنچانےآگئی ، ( سمینتھا کا مخفف )، جوجی نے فوراً اسکے ڈبے اسے پکڑا دیۓ ،، اس نے بھی رکنے سے انکار کیا کہ بچوں کو گھر چھوڑ آئی تھی ، ، سیم ان لوگوں سے بہت اچھے سے مکس اَپ ہو چکی ہے ،یعنی ، اکثر گھر آکر رہنا یا ان بہنوں کو بلانا ۔ کھانے پر روکنا ، یہ باتیں یہاں کی خالص برٹش خواتین میں عموماًنہیں پائی جاتیں ۔ اس کے بچے بھی ، ہم سب سے گلے لگ کر ملتے ہیں کہ باپ نے انھیں یہ بتایا تھا کہ پاکستانی رشتے داروں سے صرف ہاتھ ہی نہیں ملانا ۔ 
ایمن ایک انرجیٹک لڑکی ہے ، اس کے آتے ہی ہم سب بھی ذرا جاگ گئیں ، گھر میں کوئی کام ہی نہیں تھا ،،،،،، کیسے مزے کی شادی تھی ،، ایک ہی اصل فنگشن ہوا ، اور ختم ،،!! ** دلہن کی طرف سے بھجوایا جانے والا ناشتہ " ،،،اس رسم سے مجھے سخت نفرت ہے ،، کیا دلہا والے دوسرے دن ہی خالی جیب ہو چکے ہوتے ہیں ،،، یا ،، ہاتھ پاؤں تھکاوٹ سے شَل ہو چکے ہوتے ہیں کہ کوئی ناشتہ بنانے کے بھی قابل نہیں رہتے ! محبت قائم کرنے یا دکھانے کی یہ ہی رسم ، رہ گئی ہے ،،، ؟( الحمدُ للہ ، ہم نے ایسی کوئی رسم نہ کی نہ کروائی)۔
کچھ رسمیں مجھے لگتا ہے ،، دلہن والوں کو پہلے دن ہی " کمتر " باور کرانے کے لیۓ ایجاد ہوئیں ،، اور یہ سو فیصد ہندوؤں کی طرف سے نافذ شدہ لگتی ہیں ،، کہ اُن کی سوسائٹی میں دلہن والوں کو " ذلیل ' کرنے کے بہت سے طریقے ہیں ،، ہم یہ سب آج بھی ان کے ڈراموں میں دیکھتے ہیں ، اور حیرت اور افسوس اس پر ہوتا ہے کہ ہم ایک "احمق قوم " کی طرح ، ان کی نہایت فضول رسموں کو اپناۓ چلے جا رہے ہیں ۔ ہماری نئی نسل کو چاہیۓ وہ اس بارے خود مضبوط اور دلیرانہ قدم اُٹھائیں ، کہ
۔1) نہ میں جہیز لوں گا ،،، لڑکی کہہ دے نہ میَں جہیز لے کر جاؤں گی، جسے میری ضرورت ہے ، وہ مجھے اہمیت دے ،مادی چیزوں کو، یارسم رواج کو نہیں ،!۔
۔2) اگر تیسرے دن کوئی فنگشن نہیں ،، تو دلہا دلہن ، کو" چڑیا گھر" کے جانوروں کی طرح ، نمائشی طور پر سب کے سامنے پیش کیۓ جانے کی ، رسم بھی ختم ہونی چاہیۓ ۔
۔3) اگر ان کی لَو میرج ہے ،یا ، ارینج ،، اگر دلہا پر بہت ذمہ داریاں ہیں ، تو ، کچھ دن کے لیۓ سہی انھیں دوسرے شہر ، چند دنوں کے لیۓ ضرور بھیجنا چاہیۓ ، تاکہ وہ اپنے "مشرقیت " کے بوجھ تلے دب کر ، نہ رہ جائیں ،، اگر تو ، وسائل بہت کم ہیں تو ، کچھ دن کے لیۓ نزدیکی رشتہ داروں کی طرف ہی رہ آئیں ،، یہ خوبصورت دن عموماً رسموں کی نظر ہو جاتے ہیں ،یہ ایک لمبا بحث طلب قصہ چل سکتا ہے ،، لیکن ، " میرے پیارے نبیؐﷺ نے کتنی پاکیزہ بات کہہ دی ، " سب سے اچھی شادی وہ ہے ، جس پر کم سے کم خرچ ہو "ایمن نے گھر آتے ہی ہمیں تیار ہونے کا حکم دیا ،،، کہ اب سیر کے لیۓ کے لیۓ ایک دن ضائع نہ کریں ۔ ہم نزدیکی بازار تک جائیں گے ،، خالہ کو ایک پرانی ٹرین کی سیر بھی کروا دیتے ہیں،اور وہاں مانچسٹر کا "ٹاؤن ہال"بھی دکھا لاتے ہیں ۔ ہم نے منٹوں میں تیاری پکڑی ، اور گھر کو تالا لگا چند منٹ کی ڈھلان کے بعد پانچ منٹ مزید چلنے کے بعد بس سٹاپ آ گیا ، کچھ لمحے ہی گزرے تھے کہ ، آرام دِہ بس آئی ، اور میں نے یو کے ، کی ٹرانسپورٹ کا پہلا تجربہ شروع کیا ، صاف بس میں بچے بڑے آرام سے بیٹھے تھے، ایمن یا ثمن میں سے ایک میرے ساتھ بیٹھتی، تاکہ زبانی زبانی معلومات بھی دیتی رہتی ، راستوں کے بارے میں ، یہاں کے لوگوں کی عادات بارےمیں ،،، اسی نے بتایا ، "میَں نے ہم سب کے ٹکٹ ، وہ لیۓ ہیں کہ اب ہمارا" پاس " بن گیا ہے ،ہمیں اب ہر دفعہ ٹکٹ خریدنا نہیں پڑے گا، ہم سب اپنا اپنا ٹکٹ اس کمپیوٹرائذڈ مشین سے ٹچ کریں گے ، اور ڈرائیور کے سامنے لگا بٹن آن ہو جاۓ گا ، جس کا مطلب ہے " او ، کے" اور یہ کہ ہم ہر دفعہ اترتے وقت ، ڈرائیور کو شکریہ کہہ کر اترتے ہیں ، ڈرائیور سفید فام ، اور درمیانی عمر کا تھا ،،، ایک مخصوص جگہ پہنچ کر ہم اتریں ، چھوٹے چھوٹے بچے بھی لمحہ بھر رک کر ڈرائیور کو تھینک یو ، بول کر اترتے ،،، اقوام صرف ، لٹریسی ریٹ اونچا ہونے سے مہذب نہیں بنتیں ،، اچھی عادات و حرکات،اسے مہذب بناتی ہیں ،،، ہم ان تین الفاظ سے ناآشنا ہوچکے ہیں ، شکریہ،۔۔،معافی چاہتا/ چاہتی ہوں ۔۔ ،اور ذرا معذرت !!!، بہت ارفعٰ فیسوں والے سکول ہیں یا کم فیس والے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،، جب تک والدین بچوں کو وقت نہیں دیتے ، جب تک والدین ان پر کڑی نظر نہیں رکھتے ،، کچھ تبدیل ہونے والا نہیں۔
 بس نے جہاں اتارا ، اس سے چند قدم پر ایک ٹرین کا ٹریک سٹیشن تھا ، یعنی ایک بس سٹاپ کی طرح کا ٹرین سٹیشن ، ایک ٹکٹ گھر نظر آیا اور ثمن ٹکٹ لے آئی ، جوں ہی ہم ٹرین ، کی طرف مڑیں ،، سامنے پھر وہ شخصیت ، لمبے لمبے بال لہراتی نظر آئی ،، جس کے سامنے ہم "اپنی شکلیں ،" ہنسنا منع ہے " جیسی بنا لیتیں ،،، جی ہاں مائرہ دلہن ، کالی ٹائٹس ، کالے بوٹ ، فراک اور ایک بڑا سا قیمتی پرس لیۓ سامنے سے آرہی تھی ۔ مجھے اور جوجی کو ایک دن کی دلہن کا اس طرح " پھرنا " ،،، کچھ عجیب ، لیکن حیران کن لگ رہا تھا ،، کہ ایک دن کے لیۓ بھی ،اس نے" چاؤ سبھاؤ " نہیں دکھاۓ اور اپنی ضرورت کی چیزیں لینے نکل پڑی ،،، ہم جلدی جلدی اس سے مل کرٹرین میں جا بیٹھیں ۔،، یہ ایک پرانے ٹریک پر بنی پرانی ہی ٹرین تھی ،جو شہر سے مزدوروں کو بھر کر شہر سے باہر بنے کارخانوں تک پہنچاتی تھی ۔
لیکن اب یہ چند سو ورکرز ،، اور کچھ وہاں کے مقامی لوگوں کو پہنچاتی تھی، ایک گھنٹے کی اس رائیڈ سے مڑ کر آجاتی ،، یعنی اس پر کوئی دوسری ٹرین نہیں چلتی ۔ یہ سارا راستہ ، ایک ملک کی اندر کی حالت کو بھی ظاہر کر رہا تھا ،، جوں جوں شہر دور ہوا ، پتہ چلا بہت سے بڑے بڑے شیڈ ، ویرانے کا منظر پیش کر رہے تھے ، یہ وہ کارخانے تھے ، جو گرتی ہوئی  معیشت کے باعث برسوں سے بند ہو چکے ہیں ،،، اور فی ا لحال ،، انکے چلنے کا کوئی امکان نہیں ،، آخری موڑ کے بعد ٹرین ،، چھک چھک کی آواز کے ساتھ واپس ہوئی ، ایک چھوٹے سٹیشن پر رکی ، تو ہماری بچیوں نے اترنے کا اشارہ کیا۔اب یہاں میرا امتحان شروع ہوا ،،،،،،!۔
( منیرہ قریشی ، 10 مئی 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں