ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " (22).

 یادوں کی تتلیاں " (22)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اماں جی کو اگر باقاعدہ تعلیمی ماحول ملتا، صحت ملتی اور وہ کسی کالج تک پہنچتیں تو، تو وہ بیک وقت سوشل ورکر، سائیکیٹریسٹ ، بیالوجی کی ماہر ، بہترین باورچن ،اور پتہ نہیں کیا کچھ ہوتیں ۔ ان کے ساتھ کی ہمارے خاندان کی خواتین سواۓ ایک آدھ کے ، اچھے ، کپڑے ، اچھے زیور ، چمکتے برتن اور فرش یا فرنیچر کو چمکانے کے دائروں میں گھوم رہی تھیں ، جب کہ اماں جی کو جب موقع ملا ، انہوں نےنئی بات یا چیز سیکھی ، چاہے وہ کسی ان پڑھ سے ہی سیکھتیں ، ،،، اب جب مرضی کا لان ملا تو نئے تجربے ہونے لگے ، سائیڈ لان چونکہ کافی بڑا تھا اس میں سے سرونٹ کواٹرز کی طرف کا چار ، پانچ مرلے ،ایریا کو سنتھے کی چھوٹی سی باڑ سے الگ کردیا گیا، اور اس ایریا پر " کپاس" لگائی گئی ، ظاہر ہے ہمارے یہاں سردی کی شدت سے اسے بچانا تھا اس سارے ایریا کو پولی تھین کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے ڈھانپا گیا، اس دوران جب وہ وقت آیا کہ کپاس کے پھول نکل آۓ تو میں بتانہیں سکتی کہ کیا میلہ لگ گیا ،ہر جانا انجانا آرہا ہے جی کپاس کے پودے دیکھنے ہیں ، ابا جی ، اماں جی کا حکم تھا جو آۓ لان میں لے جاؤ اور دکھا دو! میرا ، "بے اعتمادی " کا یہ حال کہ اماں جی نے یہ تجربہ "کیوں "کیا کہ اب طرح طرح کے لوگ وقت بے وقت کپاس دیکھنے آرہے ہیں ، یہ بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے وغیرہ ! اماں جی کو بہر حال کوئی ڈسٹرب نہ کرتا ! ،،، بہت بعد میں ہمیں کچھ بالکل انجان لوگ ملے ! اورجب انھیں پتہ چلتا کہ یہ اسی گھر میں رہتی تھیں ، تو وہ بہت ہی ستائشی اندازسے " کپاس " کا ذکر کرتے کہ یہ تجربہ واہ میں پہلی دفعہ کیا گیا اور ہم نے پہلی دفعہ یہ پودا دیکھا ۔،،،،، خیر کپاس کے پھول اتارے گئے اور تھیلے میں ڈال کر ایک اور گاؤں میں ، جن کے پاس " چرخہ" تھا ، کاتنے بھیجا گیا ، انھوں نے اطلاع دی " جی دھاگا بن گیا ہے ، اماں جی نے ایک چھوٹا اور ایک بڑا " دُھسہ" بنانے کا کہہ دیا ،،، جب وہ " براؤن رنگ " کے دُھسے آگۓ ،، تو ایک اور ستائشی سلسلہ چلا ، یہ ہم دونوں بہنوں کے لۓ کوئی " خاص " بات نہ تھی ،، جسے خصوصی اہمیت دی جاتی ، لیکن اماں جی ان دنوں اتنی خوش تھیں ، جتنا ایک طالب علم کو اپنے رزلٹ پر غیر معمولی کامیابی پر ہوتا ہے اور آج جب میں یہ واقعہ لکھ رہی ہوں تو سوچ رہی ہوں کہ ہمیں کتنی منفرد " ماں " ملی تھی ،میرے لیے ایک قابلِ فخر ، قابلِ ذکر بات ہے کہ اماں جی نے " ناممکن کو ممکن " کر دکھایا تھا ! وہ دُھسے آج بھی ہیں ، بڑا میرے بھائی جان کے پاس اور چھوٹا میرے بھانجے کے پاس ، ، !۔
۔1 ، کچنار کا گھر ، کارنر پر تھا ، اور آج بھی ہم پر " نوسٹلجیا " کا  فیز آتا ہے تو ذرا ادھر کا چکر لگا لیتی ہیں۔ اب اُس دور کے مکین ، خود ، نانی ، دادی بن چکے ہیں ، پہلے اپنے بچوں کو اوراب گرینڈ چلڈرن کو اس گھر کے باہر سے گزرواتی ہیں کہ ، یہ گھر ہمارے خوب صورت خوابوں سے بھرا ہوا ہے !،، وقت کچھ آگے ہوا اور 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ کے دن آگۓ ، میں یہاں ایک دفعہ پھر ذکر کر دوں کہ ہمیں بچپن سے نماز کی پابندی کی عادت تھی ، اور ان دنوں میں جتنا ہو سکتا درودِ پاک ضرور پڑھتی ، 6 ستمبر سے ہفتہ بھر پہلے ۔،،،، " میں نے خواب دیکھا اسی کچنار روڈ کے گھر میں ہوں اور محسوس یہ ہو رہا ہے کہ گھر میں کوئی نہیں ، میں کچن سےباہر " کے برآمدے میں نکلتی ہوں کہ اچانک ایک سفید شلوار قمیض اور جناح کیپ میں ایک درمیانی قامت کی شخصیت ہمارے اندر کی کمروں سے تیزی سے نکلتی ہے اور پچھلے لان میں آکر اتنی اونچی آواز میں کہ جو آسانی سے سنائی دے رہی ہے ، کہتے ہیں " گیٹ کھلا ہوا ہے ، کوئی چوکیدار موجود نہیں ، اور دشمن پہنچا جاتا ہے " ،،، مجھے فورا" احساس ہو جاتا ہے یہ تو " حضورؑﷺ " ہیں ، میں مارے عقیدت کے ہاتھ سینے پر باندھ لیتی ہوں ، اور مسلسل کہتی جاتی ہوں ، " میں قُربان ، میں قُربان یا رسول اللہؑ ! " لیکن وہ مجھے نظرانداز کرتے ہوۓ ، دوسری دفعہ بھی یہ ہی جملہ دہراتے ہیں اور ، اس دوران آپﷺ بے چینی سے کبھی چند قدم ایک طرف کبھی دوسری طرف چلتے ہیں اور پھر یکدم سائیڈ لان کی طرف چلے جاتے ہیں، اور میری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ،،،،،،،،،،،،یہ میری زندگی کا پہلا ایسا خواب ہے جو میرے لیے کیا معنی رکھتا ہے ، اس کا اندازہ ہر اس بندے کو ہو سکتا ہے جسے پیارے نبی پاکﷺ سے عشق ہے !! اور جب چند دن بعد 6 ستمبر کی پاک بھارت جنگ ہوئی تو کیا یہ ایسی صورتِ حال نہ تھی کہ' میرے نبیؑ ﷺکے الفاظ کے عین مطابق تھی !! 6 ستمبر 1965 کے دنوں کی لمبی تفصیل ہے ،ان شا اللہ !اگلی قسط میں ۔
( منیرہ قریشی، 30 ستمبر 2017ءواہ کینٹ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں