جمعہ، 3 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (38)۔

 یادوں کی تتلیاں " (38)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آج یادوں کی تتلیاں اُس باغ کی طرف رواں دواں ہیں جہاں کچھ پرانی تحریریں اور کچھ تصویریں موجود ہیں ۔ کچھ سال قبل ایک دن ایسی ہی تصویریں دیکھیں تو یہ نظم کہہ ڈالی تھی! جو " خانہ بدوش " کے گروپ میں محفوظ ہے لیکن آج کے موضوع کے مدنظر اسے ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں ۔ " پرانی لکیریں پرانی تصویریں "۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آہ !یادیں رہ جاتی ہیں 
جب کچھ پرانی تصویروں سے 
جب کچھ پرانی تحریروں سے
آنکھوں سے چھینٹا دے کر
گرد ہٹائی جاتی ہے ،،،،،،،،،
تب آنکھیں پھول چڑھاتی ہیں 
بس ، یادیں ہی تو رہ جاتی ہیں !۔
( منیرہ قریشی 13 1کتوبر 2013ء)
آج دل چاہا کہ یادوں کی تتلیوں کا پیچھا کروں ، وہ جہاں بھی اپنی مرضی سے جا بیٹھیں ۔ یادوں کی تتلیاں، اماں جی کے 19 ،18سالہ عمر کے دور میں داخل ہوئیں ،،، تب شوہر اتنی کم عمر بیوی اور چند ماہ کی بیٹی کو چار سال کے لیۓ دوسری جنگِ عظیم ( 1941 تا45ء)کےمڈل ایسٹ کے محاذ پر جا چکا ہے ،،(مصر ،شام ، لیبیا ،اور سوڈان، ) ابھی ڈھائی ، تین سالہ شادی شدہ زندگی گزری تھی ۔ اب خط ہی آپس کی باتوں اور یادوں کا مضبوط آسرا تھا ۔ جس میں کڑوی اور میٹھی سبھی حکایتیں ہوتیں۔ مجھے ان خطوں کو یہاں لکھنا چاہیے ،یا نہیں ،،، لیکن یہ دنیا سے چلے گئے دو کرداروں کی محبت اور شکوؤں کا تحریری ریکارڈ رہ گیا، کچھ خطوط میں بہت سے دوسرے کردار ہیں جن کو نظرانداز کر دیا ہے کہ اب سبھی اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں !۔
یہ خط نقل کررہی ہوں کہ کاغذبوسیدہ ہونے کے باعث بہت سے الفاظ مدھم ہو چکے ہیں ! ورنہ کاپی پیسٹ کر دیتی!( 76 سال پرانے چند خط) یہ سب خط اماں جی نے 18،19 سال کی عمر میں شدید گھریلو ذمہ داریوں کے درمیان لکھے۔
از ٹیکسلا
ـــــــــ
۔1941۔12۔۔17۔
پیارے سرتاج ، سلامِ شوق
آپ کا محبت نامہ بڑے انتظار کے بعد ملا۔ پڑھ کر حالات سے آگاہی ہوئی۔ یہ پہلا خط ہے جو گِلوں شکوؤں کے بغیر ملا ہے۔اس کے لیے شکریہ ادا کرتی ہوں۔میری چند باتوں پر آپ نے تبصرہ فرمایا ہے۔اس داد سے دلداری کا شکریہ ۔آپ نے لکھا ہے۔میں ہمیشہ تمہاری خامیاں نظر انداز کرتا رہتا ہوں ، بہت سی ایسی باتیں ہیں جو تم میں بہ حیثیت " بابو کی بیوی کے نہیں پائی جاتیں (( بابو عام طور پر ہمارے علاقے میں سب سے بڑے بھائی کو کہا جاتا ہے ، جو باپ جیسی ذمہ داری اُٹھاتا ہے، اور اس کی بیوی بھی ،بڑی بھابی ہونے کے ناطے گھر کی بڑی کا رول نبھانا اس کا فرض سمجھا جاتا ہے ، یہ دیکھے بغیر کہ اس بھابی کی عمر اپنی نندوں سے چھوٹی یاہم عمر ہے!)) ،،، کیا میں نے کبھی میلا کالر آپ کو پہننے دیا ، کیا میں نے آپ کے بوٹ پالش نہیں کیے۔ کیا میں نے آپ کی پسندیدہ چیز پکا کر آپ کا دل جیتنے کی کوشش نہیں کی تھی ، کیا میں نے گھر آمد پر یا رخصت کرتے وقت آپ کے چہرے پر نظریں ڈالیں اور بلائیں نہیں لیں ؟ ذرا سر سے پگڑی اتار کر اور ٹھنڈا پانی پی کر یاد کریں وہ وقت جب دفتر سے واپسی پر آپ کے ماتھے پر بل ہوتے ، اور طیوری چڑھی ہوتی ۔ لیکن میں ہزار جان سے دھڑکتا دل لیۓ خاموشی سے آپ کی طرف دیکھتی رہتی ۔آپ کی گفتگو سننے کو بےقرار رہتی لیکن ،،،
زندگی کا راز کیا ہےنبضِ ہمت کی دھمک
گو کلیجہ شق ہو،لب پر ہو تبسم کی جھلک
آپ بتائیے کیا مرد ، عورت کو نکاح میں لانے کے بعد احسان کرتے ہیں اور اسکے بعد تمام پابندیاں لگانا فرض سمجھتے ہیں ۔ کیا وہ ہر وقت ایک پاؤں پر کھڑی رہے ، چوں نہ کرے، تمام گھر کے لوگوں کی بھی خدمت کرے ،اورہر کام وقتِ مقررہ پر کرے کہ اسی طرح عورت جنت کی حقدار ہو سکتی ہے ، کیا عورت کا مرد پر کوئی حق نہیں ۔ سارے حقوق مردوں کے ہیں۔ یہ کسی مولوی نے کہا ہوگا ۔خدا نے تومرد کا رتبہ عورت سے بلند کیا ہے لیکن حقوق میں دونوں کو برابر رکھا ہے ۔خدا نے عورت کو دنیا میں محبت دینے اور اس سے محبت کیے جانے کے لیۓ بھی پیدا کیا ہے ۔ باقی یہاں سب خیریت ہے ۔ موسم کافی تبدیل ہو چکا ہے ، سردیوں کی کالی لمبی وہ راتیں جو کسی کی یاد میں تڑپ کر گزارتی رہی ختم ہو گئی ہیں ۔موسمِ بہار کی آمد آمد ہے لیکن میں اس بہار کو خزاں سے بدتر سمجھتی ہوں کہ میری قسمت سے ابھی تک خزاں کا دور نہیں ہٹا، لیکن خیر۔ہمیشہ خزاں تو نہیں رہے گی ۔ باقی گھر میں خیریت ہے ، رقیہ ، ضیاء اور معروف آپ کو آداب کہتے ہیں ،نسیم بھی اب کھڑے ہونے لگی ہے ، اس کی صحت بھی اچھی ہے۔
ذیادہ حدِ محبت 
آپ کی بدنصیب بیگم ۔ 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جان عزیزہ ،بندگئ شوق ،،،1942،1،17ء از گانگو جمعہ(ٹیکسلا)۔
محبت نامہ موصول ہوا۔ حالات سے آگاہی ہوئی۔ہزارجان سے ایک ایک فقرے پر نثار ہو جاؤں۔نہ جانے میری تسلی کب ہوگی ۔ہر وقت دل میں ایک خلش ہوتی ہے معلوم ہوتا ہے ۔کہ فرشتے نے میرے نامۂ تقدیر میں تڑپ ،خلش،ہجر وفراق کے سوااور کچھ لکھنے سے قسم کھائی ہوگی ۔کبھی قسمت کو روتی ہوں کبھی خود کو کوستی ہوں ، دنیا کے دھندوں کے سوا گزارہ مشکل ہے ورنہ جی چاہتا ہےکوئی ایسی جگہ ہوجہاں کوئی واقف آشنا نہ ہودنیا کے بکھیڑے نہ ہوں ،کوئی بولنے اور پوچھنے والا نہ ہو،
صرف ایک میں ہوں اور آپ کا تصور ہو مگر میرے نصیب میں اتنی فرصت کہاں ۔ پرسوں بیگم ڈاکٹر رحیم اور ان کی ڈاکٹر بہن  آئیں ،، وہ بغیر اطلاع کے آئیں جس سے میں ان کی ویسی خدمت نہ کر سکی جو ہونی چاہیے تھی اور پھر آپ کی والدہ بھی بدمزاج ہو گئیں ، اور انھوں نے انھیں اہمیت دینے سے انکار کر دیا لیکن وہ پھر بھی اچھے طریقے سے میرے ساتھ ہمدردی کرتی رہیں کہ اپنی صحت کا خیال رکھا کرو ،بہت کمزور لگ رہی ہو ۔ خاموشی سے سنتی رہی۔ اس خط سے پہلے کے خط میں عید مبارک نہیں لکھا،کیوں کہ مجھے تو آپ کی دید ہو جاتی تو میری عید ہو جاتی ۔ نسیم نے اب کچھ باتیں شروع کردیں ہیں ، مجھے کبھی بھابی اور کبھی بادی کہتی ہے ! مجھے دیکھ کر نماز پڑھنے کی نقل کرتی اور پھر دعا کے لیۓ ہاتھ کر کے اللہ اللہ ابا ابا کہتی ہے ، رقیہ ، معروف اور ضیاء سلام کہتے ہیں۔
ذیادہ حدِ محبت ،،، آپ کی منتظرِ دید ،،، عزیزہ بیگم ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اماں جی کے خط " اپنے شوہر کی محبت میں غرق " ایک ایسی لڑکی کے خط ہیں جو اس شوہر کی جدائی میں آخرکار بیمار ہو گئیں ایسی بےلوث ، سچی محبت ،شاید ہی نظر آتی ہو گی ،،، تقریبا" تمام خط انہی کی محبت کا دم بھرتے نظر آتے ہیں اور تھوڑا بہت خاندانی خبریں ہوتیں ، جس میں واضح لکھاہوتا کہ میں چھوٹی نند کے لیے جہیز میں کیا کچھ بنا چکی ہوں اور مزید بھی کچھ بنانا ہے ، جبکہ اپنے لیۓ سوتی کپڑے بناۓ ، ( یہاں والدہ کا ذکر ہے جو ہمارے داداجان کی چوتھی بیوی تھیں ) ۔ان کے خطوں میں مختلف اشعار ہوتے جو انھیں یاد تھے ،چند اشعار لکھ کر اُن کے موضوع کو آگے نہیں بڑھاؤں گی اوراگر اباجی کے خط مل گے تو وہ شامل کروں گی فی الحال اماں جی کے خطوں میں لکھے گئے  اشعار پڑھیۓ! میں سمجھتی ہوں گھریلوطور پر 6 یا7 جماعت پڑھی ایک نوجوان لڑکی کا ذوق بہترین تھا !۔
؎ وہاں ہے لطف ملنے کا جہاں دل دل سے ملتا ہے
وگرنہ یوں تو دریا بھی لبِ ساحل سے ملتا ہے !
؎ حُسن آئینہء حق اور دلِ آئینہء حُسن
دلِ انساں کو تِرا حُسنِ کلام آئینہ !
؎ ناصبور ہے زندگی دل کی
آہ ! وہ دل کہ ناصبور نہ ہو
؎ اے دل کہاں لے جاؤں اب کیسا ٹھکانہ ہے
اپنے بھی نہ ہوۓ اپنے یہ کیسا زمانہ ہے !
بجلی میں ہے پو شیدہ طوفان قیامت کا !
ہنسنا بھی تو دنیا میں رونے کا بہانہ ہے !
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ابھی مجھے اباجی کے اُس دور کے خطوط نہیں مل پا رہے ، لیکن ان کے طرزِتحریر کے لیے  ایک خط ملا ہے، لکھ رہی ہوں ، یہ پاکستان بننے کے بعد کااس وقت کا خط ہے جب اباجی کی تیسری اولاد خالدہ ،بہ عمر ڈھائی سال کے وفات پا گئی تھی ، ( میں اس کے بعد دنیا میں آئی) یہ بچی کچھ ایسی پیاری اور دلکش تھی کہ وہ صرف ماں باپ کے لیۓ ہی نہیں باقی بہت سے خاندان کے ممبرز بھی اُس سے بہت محبت کرتے تھے اور اس کی تین دن کی بیماری اور وفات نے ان سب کو بھی سخت غمزدہ کردیا، اباجی نے میرے ماموں جی کے افسوس کے خط کے جواب میں یہ خط لکھا ہے !۔
1949ء 29 مارچ، راولپنڈی ۔
برادرم یوسف ! السلامُ علیکم ،
پچھلی دفعہ جب تم تشریف لاۓتھے،اور ہم روٹی کھانے بیٹھے،میری چھوٹی بچی خالدہ میری گود میں تھی ،جب تم پانی پینے لگے تو خالدہ نے جھپٹ کر تمہارے منہ سے گلاس چھین لیا تھا۔ تمہیں اس کی یہ ادا بہت پسند آئی۔ اور ہم دونوں ہنس پڑے۔تم کہنے لگے"سیلف ہیلپ(اپنی مدد آپ)" کا یہ فطرتی طریقہ کتنا بھلا تھا۔تم خالدہ کو اس سے ذیادہ نہیں جانتے ، اس کی طفلانہ معصومیت کی شعریت دیکھ ہی نہیں سکےتھے۔ مگر اب تم واپس آؤ گےتو میری ننھی خالدہ تمہارے ہاتھوں سے پانی کا گلاس چھیننے کے لیۓ موجود نہیں ہو گی ۔اجل کے بےرحم ہاتھ اسے اُٹھا کر دور کہیں حوروں کی محفل میں چھوڑ آۓہیں ۔تمہاری ہمشیرہ روتے روتے پاگل ہوئی جاتی ہے ، میں تو جذبات و محسوسات کی دنیا سے بھاگنے کے لیے احباب کی محفلوں کی پناہ ڈھونڈ لیتا ہوں۔ مگر اسے سمجھانہیں سکتا۔ تازہ زخم کا ذکر بھی نمک پاشی کے برابر ہے ۔دعا کرو کہ ہم اِس حادثے کو فراموش کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ 
مگر ایک سرخ داغ ، جس کی تپش ہمیشہ زندہ رہے گی انمٹ ہو چکا ہے،،،،اُمید ہے تمہارا کورس ختم ہو رہا ہو گا ۔واپسی پر کہاں پوسٹ ہوگے ؟
السلام ،، احقر ظفرالحق قریشی ،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
(منیرہ قریشی ،3 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں