منگل، 5 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(56)۔

یادوں کی تتلیاں" (56)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ جو میں اپنی یادوں کا رُخ سکول کی جُزیات کی جانب موڑ لیا ہے کہ ،، ایسے "پیرینٹس ڈیز " مناۓ گۓ ، اور ایسے ہمارے اخراجات ہوتے رہے ، اس کی وجہ ایک تو محض یہ ہے کہ یادوں میں چُھپے کھٹے میٹھے واقعات کو قلمبند کر کے دوسروں کے ساتھ شیئر کر لوں ،،، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اور ایسا بندہ جو ہماری طرح جدوجہد کے دور سے گزر رہا ہے، تو وہ گھبراۓ نہیں کہ روزانہ کے پیسوں کو ایسے تقسیم کرنا کہ ،،،، یہ بچت کے مد کے پیسے ہیں یہ اخراجات کے لیۓ ، یہ مزید کچھ سامان خریدنے کے لیۓ اور آخر میں اپنی تنخواہوں کو نکالنا ،،،، یہ سب کام اتنے تواتر سے سالوں ہوتا رہا کہ کئی مرتبہ بددل ہو کر سکول بند کرنے کا سوچا !! میں سمجھتی ہوں ، یہ کیفیت اس لیۓ طاری ہو جاتی تھی کہ میں محنت بہت ذیادہ کررہی تھی اورکامیابی کا ریشو خاصا کمزور تھا۔ ۔ لیکن 10 سال بعد صورتِ حالات میں تبدیلی آنا " شروع" ہوئی ،،،، مزید پانچ سال میں ایسا خوشگوار دور آنے لگا ،،، جس نے ہمیں حوصلہ دیا ۔ اس دوران ہم پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا رہا ،،، بچوں کی تعداد بھی بڑھی لیکن سکول کی ایک ہی برانچ تھی جس میں نرسری سے جماعت ہشتم تک کے بچے تھے ! اور یہاں میں واضح کر دوں کہ ہم نے شروع دور میں جو آمدن جمع ہوتی تو بےربط انداز سے جو تین کمرے بناۓ تھے ،، اب ایسے اخراجات کو بند کردیا ، ،، اور کسی بھی قسم کے اللے تللے کیۓ جانے پر بھی خود پر پابندی لگا دی ، تاکہ کچھ سرمایہ جمع ہو جاۓ کہ مناسب اور طریقے کی بلڈنگ بنائی جا سکے ،،، !۔
سکول ،، اور اپنے بچوں کو دیکھنا ، اُن سے جڑے مسائل حل کرتے چلے جانا ،،، اور گھر میں آنے جانے والے دوستوں،رشتہ داروں کے ، پڑوسیوں کے ،،،، اور باقی جو انسانی زندگی کے اہم فرائض ہوتے ہیں ،،،، وہ سب بھی نبھاۓ چلے جانا ،،،،، کم ازکم میرا وہ دور قائدِ اعظم کے اس فرمان کے عین مطابق تھا " کام کام اور بس کام " ،،،، اسی لیۓ جب کوئی اور مجھے ایسی جہد میں جُتا نظر آتا ہے تو کم ازکم ہم اسے زبانی کلامی حوصلہ نہیں دیتیں ، بلکہ ہم اپنے تجربات کو اُس سے شیئر کرتی ہیں۔ اور اسے مشورے دیتی ہیں ،،،، (ا ب ویسے بھی مشورے ہی دینے والی عمر بھی آگئی ہے !)۔
ہم اپنے سکول میں بچوں کو 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پڑھائی ، پڑھائی پر زور نہیں دے رہی تھیں ،،، اور ایسا بھی نہ تھا کہ صرف آۓ دن چھوٹے بڑے فنگشنز ہو رہے ہوں اور بچوں کی خوشی کو ہی مقدم سمجھا جارہا ہو۔جیسا کہ اکثر سکولوں کا ماٹو تھا اور ہے ! بلکہ بچوں کے آئی کیو کو جانچنے ، بڑھانے کی طرف بھی مختلف اقدامات کرتی رہتیں ،،، ایک تو آرٹ ٹیچر کی موجودگی اور ہر کلاس کو آرٹ پیریڈ کا ملنا لازمی تھا ۔ جماعت نرسری تا پنجم کے بچوں کا سارے سال میں اتنا آرٹ ورک جمع ہو جاتا کہ آخر میں انہی بچوں کی فائل کے ساتھ نتھی کر کے دے دیا جاتا ہے ،،،، لیکن ابتدائی سالوں میں بچے کم تھے ،، آرٹ ٹیچر بھی ٹیلنٹڈ مل گئی تو ،،، اُسی نے تجویز کی کہ سکول کا " آرٹ ایگزیبیشن " کروانا چاہیے ، لہٰذا ہمارا پہلا آرٹ ایگزیبیشن " واہ آرڈیننس" کلب میں ارینج کیا گیا ، اور یہ بہت کم اشیاء کے ساتھ تھالیکن والدین حسبِ معمول اتنے پُرجوش تھے کہ انھوں نے شرکت بھی بھرپور کی اور پھر فرمائش شروع ہو گئی کہ ہم اپنے بچوں کی بنائی چیزیں لینا چاہتے ہیں ، ہم نے محض اس خیال سے ان کی نہایت معمولی قیمت بھی رکھ دیں کہ ان پیسوں کا کہیں نا کہیں چیرٹی کی مد میں استعمال کر لیں گے ،،،، کہاں ،،،؟؟؟؟ کریں گے ، یہ ابھی سوچ نہیں آئی ،،، دیکھتے ہی دیکھتے 1500 روپے جمع ہو گئے۔ جی ہاں صرف پندرہ سو روپے ،،، یہ 1994ء کی بات ہے ۔ ہمارے اس فنگشن میں واہ میں موجود " گونگے بہرے بچوں " کے سکول " نشیمن " کی پرنسپل مسز صبیحہ آئی ہوئی تھیں ،، میں نے اور جوجی نے فوراً صلاح کی اور اسی وقت اپنے سٹاف اور چند والدین کی موجودگی میں انھیں " نشیمن " کے لیۓ اس ڈونیشن میں مزید 500 روپے شامل کر  کےدے دیۓ ۔ بھابھی صبیحہ ،، بہت کمال خاتون تھیں ( اب وہ واہ میں نہیں رہتیں ) ، انھوں نے بہت جوانی میں شوہر کی وفات کے بعد نشیمن کی پرنسپل شپ کی جاب شروع کی، وہ ایک نہایت دردمند ، اور اپنے کام سے مخلص خاتون تھیں ،، اس لیۓ وہ اس ادارے کو جسے فیکٹری سے ایڈ ملتی تھی ، باقی لوگ کم ہی مدددیتے تھے۔ ان بےبس بچوں کے لیۓ ہر طرف سے جو مدد ملتی ،، نہال ہو جاتیں ۔ اللہ انھیں جہاں رکھے ، مطمئن اور خوش رکھے، ، ، اللہ کا شکر ،،،، کہ نشیمن کو ہر سال ڈونیشن دینے کایہ سلسلہ اور یہ مقصد کچھ ایسے طور چلا کہ 1994 سے 2006 تک یہ تواتر نہ ٹوٹا ۔ ( اور رابطہ کیوں ٹوٹا اس کا ذکر آگے کروں گی )اور ہر سال یہ رقم بڑھتی چلی گئ،، یہاں تک کہ انکے لیۓ ایک سال ایسا آیا کہ ایک بڑا فریج اور ٹی .وی بھی اسی میں سے خرید کر دیا گیا ۔ مسلسل نشیمن کے " کاز " میں شمولیت سے وہاں کا سٹاف اور فیکٹری کے سرکردہ افسران ہم سے واقف ہو چکے تھے اور ہمیں " فرینڈز آف نیشیمن " کا اعزازی ٹائٹل بھی مل گیا تھا ،،، انہی سالوں میں ہم نے تین سال ایسے گزارے جن میں ہر سال اپنی " سب سے سینئر " کلاس کو تیار کرتے کہ گھر سے ٹافیوں کا ایک ایک پیکٹ لا کر دو ،، سکول اپنی طرف سے ایک پنسل ، ایک خوبصورت ربر اور ایک شاپنر شامل کرتا ،،، ہر بچے سے موصول شدہ دو ٹافیاں شامل کی جاتیں اور انہی چیزوں پر مشتمل جتنے پیکٹ بن سکتے بناۓ جاتے ،،،، اگر 30 بچے ساتھ جانے والے ہوتے ، تو ہر ایک کے ہاتھ میں دو پیکٹ دیۓ جاتے ، کہ ہم " سپیشل بچوں کے سکول" جا رہے ہیں ،،، وہاں آپ نے کیسا رویہ رکھنا ہے اور اپنے ہم جماعت بچوں کی کلاسز میں جا کر ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک پیکٹ کا تحفہ دینا ہے ، ،،، کسی کی طرف مذاق سے ،یا بہت غور سے نہیں دیکھنا ،،، جو بھی وہ آپ سے کہنے کی کوشش کریں انہی کی زبان کو ان کی ٹیچر سے سیکھ کر جواب دیں۔ یہ ہدایات ہمارے بچوں نے بہ خوبی سمجھ لیں ، جب پہلی مرتبہ صبیحہ بھابھی کی اجازت سے ان کے سکول کا وزٹ کیا تو وہ بھی پُرجوش تھیں ، اور ہم بھی،،،،! میں اور جماعت پنجم کے دو سیکشنز اور اُن کی تمام ٹیچرز ساتھ تھیں ،،، صبیحہ بھابھی نے بذاتِ خود ہر کمرے میں جاتیں رہیں اور تفصیل سے ان کے مسائل بھی بتاتی رہیں ، مجھے بھی بہت سے باتوں کا علم وہاں جا کر ہوا ،،، مثلاً وہاں دو بڑے کمرے اُن جسمانی معذور بچوں کے تھے جو بول ، اور سُن ،، دیکھ سکتے تھے لیکن جسم کے اعضاء بےبسی کی تصویر تھے ،،، ان کے والدین انھیں اس لیۓ وہاں کچھ گھنٹوں کے لیۓ چھوڑ جاتے کہ ان بچوں کے لیۓ بھی ماحول کی تبدیلی ہو ، اور خود اُنھیں بھی کچھ دیر کے لیۓ ریلیف مل جاۓ ،، ان ہی بچوں میں ایک 12،،13 سال کی" تھی نیلو "جس کا چہرہ ،پیارا سا لیکن جسم ایک ڈیڑھ فٹ کا تھا ، وہ مکمل طور پر جسمانی حرکات سے دوسروں پر انحصار کرتی تھی جب کہ ذہنی طور پر پوری طرح الرٹ تھی ، جب ہم ان کے کمرے میں گئیں  تو ٹیچر نے ملوایا ، نیلو نے بہت اچھے انداز سے خوش آمدید کہا ، اور پوچھا " کیا آپ کے پاس اتنا وقت ہے کہ میں آپ کو ایک گیت سنا سکوں؟ " میں نے کہا کیوں نہٰیں ، ضرور !! تب اس نے جب بہت ردھم کے ساتھ پُرسوز آواز نکالی اور ایک نعت سنائی کہ میں نے منہ پھیر لیا ، کہ آنسو ضبط نہ کر سکی اُس کی آواز جیسی کم ہی ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد اس نے اپنی پسند کا گانا انتہائی خوب صورت لَے کے ساتھ سنایا " آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے" کہ ،،، آج اس وقت بھی جب میں یہ جملے لکھ رہی ہوں تو میرے کانوں میں اس کی خوبصورت آواز گونج رہی ہے اور اس کی معصوم شکل یاد آرہی ہے ، ، ، اور میری آنکھیں برس رہی ہیں ،،، ،،،،، میں نے بچی کو پیا ر کیا ، اور پوچھا تمہیں کس چیز کا شوق ہے ۔ کہنے لگی میرا دل چاہتا ہے ایک اچھی سی گڑیا ہو " میں نے اسے کہا ٹھیک ہے تمہاری گڑیا تمہیں مل جاۓ گی ! واپسی پر بھابھی صبیحہ کو پیسے دیۓ کہ یہ گڑیا خریدنے کا کام آپ کریں گی ! !اگلے دن بھابھی کا فون آیا " منیرہ میں نے اسے گڑیا دے دی ہے ! وہ شکریہ ادا کرنے کا کہہ رہی تھی اس لیۓ فون کیا ہے " ،،،،،، پھر بہ مشکل 8 ،9 ماہ ہی مزیدگزرے ہوں گے ، کہ صبیحہ بھابھی کا فون آیا " وہ جسے تم نے گڑیا بھجوائی تھی ، وہ گڑیا ، خود اللہ مالک و خالق کے پاس پہنچ گئی ہے !!! کہ ڈاکٹرز نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ یہ بس 12، 13 سال کا آب ودانہ لے کر آئی ہے ۔ ۔
خیر ہم نے بچوں کو مختلف کلاسز کو دکھایا ، گونگے بہرے بچوں نے اشاروں کی زبان میں اپنی خوشی اور محبت کا اظہار کیا۔ ہمارے بچوں کے چہروں پر کچھ حیرت اور کچھ زندگی کا ایک اور ہی روپ دیکھے جانے کا تجسس کا انداز بھر پور تھا ،،،، جب اِن بچوں کی گیم ٹیچرنے بتایا ،، آپ سب کے اعزاز میں بچوں نے اپنی پرفارمنس دکھانی ہے ، آپ بھی بچوں کو لے کر گراؤنڈ میں آجائیں ، ہم نے گراؤنڈ میں دیکھا کہ 70 کے قریب بچے ترتیب سے لائنوں میں کھڑے تھے،۔ ٹیچر نے اپنے گلے میں اچھا بڑا سا ڈرم بمعہ سٹکس لٹکارکھا تھا۔ اب پہلی مرتبہ میں بھی دیکھ رہی تھی کہ ڈرم کی دھمک ، جسے بچے پاؤں سے موصول کر رہے تھے، اور اسی ترتیب سے وہ اپنا ایکشن بدل رہے تھے ،،، جن بچوں کو سنائی بھی نہ دے وہ موسیقی کے ردھم کو انجواۓ کر رہے تھے ، آفرین ہے اُن ٹیچرز کے لیۓ جو ان سینکڑوں بچوں کو نہ صرف معاشرے کا کارآمد فرد بنا رہی تھیں۔ اور انھیں خود کفیل بھی بنا رہی ہیں۔ دوسرے دن ہم نے بچوں کو اسمبلی میں بتایا ، کل کے وزٹ میں ہمیں اللہ سے ملی ان نعمتوں کا ازحد شکر ادا کرتے رہنا چاہیے جو دیکھنے ، سننے، اوربولنے کی نعمتیں ملی ہوئی ہیں اور ہم اس کا احساس ہی نہیں کرتے ۔ لیکن ہم نے دیکھا ،،، اتنے چھوٹے بچوں نے بھی اچھا اثر لیا ، ،، اور آگے چل کر انھیں جب بتایا جاتا آپ کی بنائ چیزیں ،،، بِکیں گی تو اُن بچوں کے کام آئیں گی تو وہ اور بھی جوش سے کام کرتے ، نشیمن سکول وزٹ کا یہ سلسلہ تین بار ہی دہرایا جا سکا ،،، اس کے بعد ایک تو ہماری مصروفیت ، دوسرے صبیحہ بھا بھی کی نشیمن سے ریٹائر منٹ ! ! لیکن اُن کے بعد آنے والی پرنسپلز نے رابطہ قائم رکھا ،،،،،، اور ہماری تھوڑی بہت ڈونیشن جاری رہی ،،،،،، اور نشیمن میں ایک گرینڈ پیرینٹس ڈے کے موقع پر فیکٹری کے چیئر مین جنرل درانی مہمانِِ خصوصی تھے۔ ہمارے سکول کو خصوصی دعوت نامہ ملا،،،، مَیں اور ہماری رائٹ ہینڈ مسز شیما زاہد ، اور ( شاید جوجی بھی ) ہم اس تقریب میں شریک ہوۓ ،، جنرل صاحب نے ہمارے سکول کی خصوصی توجہ کی تعریف کھلے دل سے کی، اور آخر میں " فرینڈز آف نشیمن " کی ایک شیلڈ دی گئی۔ جو ہمارے لیۓ اس لیۓ اعزاز ہے کہ پورے واہ میں اُس وقت 100 کے قریب سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں سے ہمیں یہ محبت دی گئی ،، الحمدُ للہ ! کہ ہم نے کئی سالوں تک یہ ربط قائم رکھا تھا ،،،!۔
لیکن پھر ہماری توجہ اپنے ایک ایسے پروجیکٹ کی طرف ہوگئی جو حادثاتی طور پر شروع ہوا ،،، اور اُس ربِ غفور و کریم کا شکر کہ آج ابھی تک تو جاری ہے ،،، آگے بھی اُس جلِ جلالہ' کا حکم ہوا تو ہی جاری رہے گا۔
( منیرہ قریشی ،5 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں