منگل، 19 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(64)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( 64)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 ڈرائنگ روم " ( 7)۔"
"پروفیسراحمدرفیق اختر " کا نام،اور کچھ حد تک" کام" ،،،، مجھ تک ممتاز مفتی کے ذریعے متعارف ہوا ۔ذہن میں ایک " ٹپیکل بابے"کا تصور جا گزیں ہو گیا ، جو دعا کرتے ، تعویز دیتے ، یا دم درود کرتے ہیں ،اور ضرور کوئی ایک " ڈونیشن بکس " ایک کونے میں ہو گا ! وغیرہ وغیرہ۔ 
مفتی صاحب ، کے کہنے پر میں نے انھیں کبھی فون کرنا ، تو وہ خود فون اُٹھاتے ، (یہ وہ وقت تھا کہ جب پروفیسر صاحب اتنے مصروف نہ تھے کہ آج تو فون پر آواز سننا بھی محال ہو چکا ہے )تین منٹ وہ بات سُنتے، اور وہ صرف اللہ کےاسماء حسنہ کا وِرد بتاتے اور پانچویں منٹ میں " گُڈ لک " کہہ کو فون بند کر دیتے ۔ یہ انداز اتنا پُر امید سا نہیں تھا کہ " لو بھئ ، کوئی لمبی ،لمبی تسلیاں تو دیں ہی نہیں "اور فون رکھ دیا ، بھلا یہ کوئی بات ہوئی وغیرہ ! ۔
اس سلسلے کو چلے کچھ ماہ ہی ہوۓ تھے کہ میرے بھانجے یاور کو ایک مسئلہ درپیش ہوا اور وہ اپنے والدین کے پاس آیا ،، آپا ، بڑے بھائی جان نے مجھے کہا کہ " کیا خیال ہے پروفیسر صاحب سے مل آتے ہیں " ۔ میرے لیۓ بھی یہ نادر موقع تھا ، اور میں بھی پہلی مرتبہ ان سے ملنے جا رہی تھی ۔ اور ہم سب دوپہر دو بجے ان کے گھر گوجرخان پہنچے ،،، یہ ایک چھوٹا لیکن خوب گنجان آباد شہر ہے اور پروفیسر صاحب یہاں کے پرانے رہائشیوں میں سے تھے ، ان کے والدین جس گھر میں رہتے تھے ، وہ آج بھی اُسی محلے اُسی گھر میں رہائش پذیر ہیں ، اور اس گھر میں صرف وہ میاں بیوی اور اُن کے پانچ بچے ہی نہیں رہتے ، بلکہ تین چار مزید اپنی نزدیکی عزیز بمعہ بال بچے بھی رہائش پذیر ہیں ،،، اس گھر تک پہنچنے کے لیۓ خوب " زِگ زیگ" تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے ،،میں  آپا  اوربھائی جان جب اُن کے گھر پہنچے تو دوپہر گزر رہی تھی۔ان کی " بیٹھک " میں کچھ دیر بیٹھے، تو جلد ہی کولڈڈرنکس پیش ہو گئیں،،، اور پھر پروفیسر صاحب سامنے آۓ ، وہ کیسے ہیں ، یہ بتانے سے ذیادہ ضروری یہ ہے کہ انھیں دیکھ کر کسی صورت " کسی بابے " کا تصور نہیں آیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم سب نے انھیں" اپنے جیسا "عام بندہ سمجھ کر  سلام دعا کی اور ہم سب"ایٹ ایز" ،، میں اور آپا اندر خواتین کے حصے میں آگئے ، تاکہ یاور ، اپنی بات خود کر لے !! تھوڑی دیر کے بعد اُن کی بیگم اور کچھ اُن کی عزیز خواتین بھی آگئیں ،،  سلام کے بات عام باتیں شروع ہوئیں اور چند منٹ کے بعد ہی پروفیسر صاحب کی بیگم نے کہا ، کھانا تیار ہے ، یہیں لے آؤں ،، تو آپا نے کہا ،، کھانا تو ہم کھا کر آۓ ہیں اگر ایک پیالی چاۓ ہو جاۓ ،،، تو انھوں نے کہا " بسم اللہ !" وہ کھانے کے لیۓ چلی گئیں اور پندرہ منٹ میں چاۓ کی ٹرے آگئی ، جو ہم سب کے لیۓ تھی۔ یہ سب مناظر اور بات چیت کا دورانیہ ،،، جلدی جلدی ،،، تبدیل ہو رہے تھے ،،، اور پروفیسر صاحب کے امیج کی " سیٹنگ " بھی بنتی ، بدلتی گئی !! اندر کے کمرے با لکل اسی طرح تھے ، جیسے شہری طرزِ رہائش کے ہوتے ہیں ، جب کہ بیٹھک ، جہاں ہم کچھ لمحے بیٹھی تھیں ، بالکل عام اور سستا سا ایک صوفہ سیٹ رکھا تھا اور ایک سائڈ پر ایک پلنگ بھی رکھا تھا اور بس ،،،،!ہمارے وہاں بیٹھے عصر ہو گئی ،، اور اس دوران پروفیسر صاحب نے ہم سب سے اطمینان سے باتیں کیں ۔ ،، میں نے آتے وقت اُن کی بیگم سے پوچھا بھی، کہ ہم کچھ پیش کر سکتے ہیں ؟ وہ ہنس پڑیں ،،، اور کہنے لگیں " آپ پہلی دفعہ آئی ہیں ،، آپ پھر آئیں گی تو آپ جان لیں گے کہ یہاں کیا سلسلہ ہے " !۔ 
میں چُپ ہو کر رہ گئی۔ 
اور جب بہت دفعہ آنا جانا ہوا تو ، معلوم ہوا ،، یہ " اللہ والوں کا ہی ڈیرہ نہیں ،،، علوم کے اونچے مدارج پر بیٹھے " اِس دور کے عظیم مذہبی سکالر"کا وہ ٹھکانہ ہے ،،، جہاں سے لوگ صرف اور صرف ترجیحِ اول و آخر کی پہچان پانے آتے ہیں ، پروفیسر صاحب صرف اللہ کے ناموں کے وِرد کی تاکید کرتے ہیں ،،، اور یہ کہ اسے اپنی زندگیوں سے کبھی خارج نہ کرنے پائیں ۔ کسی تعویز ، گنڈے کے قائل ہی نہیں ، یہ ایک ایسے رہبر کا ٹھکانہ ہے ،، جہاں بھٹکے ہوؤں کو راستے کی نشاندہی کی جاتی ہے ،،، الحمدُللہ ! اب آگے کون اس راستے پر مستقل مزاجی سے چلتا ہے ، اُس کی اپنی فہم پر مبنی ہے ۔ میں پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب ، کے بارے میں مزید کوئی باتیں قطعاً نہیں لکھ سکتی،، ان کے بارے اتنا ہی کہوں گی ۔ کہ ان کا تعارف کرانا "سورج کو چراغ دکھانے برابر " ہے !۔
( منیرہ قریشی، 19 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

2 تبصرے:

  1. Shahida Naeem
    · December 25, 2017 at 4:08pm
    I still wonder which room in his house will be "Baithak"?.I have seen no less than 6/7 rooms of his house... non is baithak and yet every room can be a baithak.Its a kind of a house which I dont think i will ever see elsewhere.The hous،the family an dthe "baithak" of Prof Rafique is as unique as he himself.
    · December 25, 2017 at 4:08pm

    جواب دیںحذف کریں
  2. · December 30, 2017 at 3:20pm
    بالکل صحیح ،،، ان عظیم لوگوں کے دل بھی دریا اور گھر بھی "دریا " ہوتے ہیں ، اسی لیۓ انسان اور حیوان ، چرند پرند سبھی اُن سے فائدے اُٹھا تے ہیں ،،،دراصل جب میں نے پہلا وزٹ کیا تھا، ( 1989ء)،، تب ایسی ہی بیٹھک تھی ،،،ا لبتہ ایک عرصے بعد جب 10، 15 سال گزر گۓ ،، تو اُن کا ہر کمرہ " بیٹھک"بن چکا تھا ! اللہ انھیں زندگی ، تندرستی دے آمین !

    جواب دیںحذف کریں