پیر، 25 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(67)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 67)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 ڈرائنگ روم " (10)۔"
اور اب " ڈرائنگ روم " کی ذیلی اقساط کا آخری منظر بیان کر رہی ہوں ،،، تاکہ واپس یادوں کے باغ میں اُن تتلیوں کے پاس جا سکوں ،جو انتظار میں ہیں،، جب ہم بانو قدسیہ صاحبہ سے مل کر نہال ، شاداں و فراواں واپس ہوئیں! تو اب اپنی سہیلیوں پر میرا امپریشن پڑ جا چکا تھاکہ یہ ان حسین ملاقاتوں کے بارے میں  سچ بتاتی رہی ہے۔ اس لیۓ پروگرام بنا کہ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھائیں اور کل ہی " اے حمید صاحب" سے ملنے چلتے ہیں ،،، یہ تینوں انھیں نام سے تو جانتی تھیں ، لیکن انھیں پڑھا نہ تھا ، ،،، جب کہ میں ان کی تحریر کی اس قدر عاشق تھی کہ جب میں نے ان کے نواۓ وقت کے سنڈے میگزین میں " بارش، سماوار اور خوشبو" کا قسط وار سلسلہ پڑھنا شروع کیا ، تو ہر قسط پڑھنے کے بعد بہ مشکل خود کو اپنے کمرے یا لان میں محسوس کراتی ،،، کیوں کہ میں اُن کے ساتھ ساتھ جنگلوں ، ٹرینوں ، اور اجنبی شہروں کی سیر کر رہی ہوتی ،،، اور اس محویت سے نکلنے کے بعد ڈیپریشن میرا پیچھا کرنے لگتا ، کیوں کہ مجھے" سفر " و سیاحت " کے دن رات بہت ذیادہ خوشی دیتے ہیں ،،، اور رہی سہی کسر اُن کی تحریر میں منظر کشی، اور جُزیات کے ساتھ ، ہر شخص کے خدوخال ، ہر منظر کا پس منظر اور پیش منظر ، ہر درخت ، بلکہ ہر پتے کا حال ایسے بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو یا تو ماحول کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے ،،یا خود کو وہیں کہیں بیٹھا دیکھتا ہے ۔تو انکوئری سے فون نمبر پوچھا ،،اگلے دن انھیں عصر کے وقت فون کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ، حاضر ہو سکتی ہیں ، انھوں نے تحمل کے ساتھ پوچھا " کس سلسلے میں ؟" ،، میں نے شرمندہ ہو کر کہا " جی بس میں آپ کی قاری ہوں ،،، کچھ کتابیں ، کچھ اقساط کے سلسلے پڑھے ہیں ، متاثر ہوں اگر موقع مل جاۓ تو ،،" تب انہوں نے کہا " کیوں نہیں ،کیوں نہیں " اور ایک دفعہ پھر دل خوش ہو گیا ۔ہم نے ثمینہ اور فریدہ کو فون کیا کہ عصر کو چلنا ہے ، لیکن انھوں نے عدم دلچسپی ظاہر کی،، تو مہ جبین نے اپنی کار نکالی ،، اور ہم سمن آباد روانہ ہو گئیں ، ان کا گھر پرانے طرزِ تعمیر کے ساتھ ایک درمیانہ ، بلکہ چھوٹا گھر تھا ،،، پرانا طرزِتعمیر کا ہمیں لگا ، کیوں کہ اس وقت تک نئے نئے طرز کے گھر بن رہے تھے ،، گیٹ کی گھنٹی بجائی تو خود اے حمید صاحب نے آکر گیٹ پر استقبال کیا ،، وہ دُبلے ، لمبے ،اور کھڑے نقوش والے وہ بندے لگے ،،، جن کے چہرے پر ایک تائثر نمایاں تھا اور وہ تھا " سکون "اتنا ٹھہراؤ ،،، اتنا سکون !! بہت ہی کم چہرے ایسے ہوتے ہوں گے ،،، وہ اس وقت قریبا" 75 کے پیٹھے میں تھے ، ، ، وہ مسکراۓ " بغیر" ہمیں لے کر اپنے"ڈرائنگ  روم "میں آۓ ،، جس کے اندر داخل ہوتے ہی مجھے " افضل پرویز چاچا جی " کا نہایت مختصر ، نہایت سادہ ڈرائنگ روم یاد آگیا ۔ ہو سکتا ہے وہ ڈرائنگ روم نہ ہو ، وہ صرف انہی کی نشست کا کمرہ ہو ،،،جہاں بیٹھنے کے لیۓ اُنہی کا ایک قدرے اُونچا دیوان یا پلنگ تھا جس کے ایک کنارے پر پاؤں اوپر کر کے بیٹھ گئے ،، میں اور مہ جبین 3 فٹ کے فاصلے پر دھری ایک سَیٹی تھی جو دو بندوں کے لیۓ ہی تھی، ہم دونوں اس پربیٹھیں ،، ذرا دیر بعد ہی ہمیں بے آرامی کا احساس ہو نے لگا کہ وہ ذرا ہم دونوں کے لیۓ تنگ تھی ،، لیکن کچھ دیر کی علیک سلیک کے بعد انھوں نے ایک پلاسٹک کی کرسی کو کتابوں سے خالی کیا اور ہمیں دی ،، مہ جبین اس پر جا بیٹھی ۔ انھوں نے کچھ دیر ہمارے شہر ، ہمارے کام کا پوچھا ،، ،، وہ مہ جبین سے مصروفِ گفتگو ہوۓ تو میں نے اس چند فُٹ کے کمرے کا جائزہ لیا ،،،جس میں صرف اور صرف کتابیں تھیں ، دیوار کے اوپر ، نیچے کچھ ریک تھے جن پر کتابیں ،، ان کے پلنگ کے قریب میز پر کتابیں ، ان کے پاؤں کی طرف ایک ریک ، اس پر کتابیں !( راشد اشرف جو کتابوں کا ، ادیبوں کا عاشق ہے اس نے ان کی ایک جگہ جو تصویر دی تھی میں کوشش کروں گی مل جاۓ تو آپ کو میرے الفاظ کا تصور واضع ہو جاۓ گا )۔
مہ جبین کی باتوں ، سوالوں ، جواب کے دوران ،، انھوں نے مجھ سے پوچھا میری کون کون سی کتابیں اچھی لگیں ،،، تب میں نے انھیں بتایا میں آپ سے اپنے بچوںکی وجہ سے متعارف ہوئی ،، جب میرا بڑا بیٹا کتابوں کی طرف مائل نظر آیا تو گھر میں " نونہال ، جاگو جگاؤ ، تعلیم و تربیت ، " تو آ رہے تھے ،،، ہم نے اپنے بچپن میں سعید لخت ،، اور ( چند اور بھی ، ) کی کہانیاں پڑھتی تھیں ،،، اب یہ نسل تو اُس ذوق کو شاید نہ پسند کر سکے ! تب میں نے آپ کے بچوں کے لیۓ لکھے ، ناول پہلے خود پڑھے ، اور بہت لُطف اُٹھایا ،،، " عالی مصر میں ، عالی اسرائیل میں ، عالی امریکا میں " وغیرہ سیریز ،، یہ ایسے معلوماتی ناول تھے ، جس میں بچوں کے لیۓ بھرپورمعلومات بھی تھیں ،، اور جذبہء حب الوطنی کی اور اخلاق کی تربیت بھی ملتی تھی۔ اس کے بعد اگلا تعارف " نواۓ وقت کے سنڈے ایڈیشن میں آپ کا قسط وار سلسلہ " بارش ، سماوار ، خوشبو " جو سالوں جاری رہا اور شاید ہی میں نے کوئ قسط چھوڑی ہو ،،، اور پھر امریکا نو ، لاہور کی یادیں ،اُداس جنگل، اور گنگا کے پجاری ، پڑھیں ہیں ! میں نے واضع کیا ،، کہ میں نے آپ کے افسانے مختلف رسائل میں پڑھے ہیں! ،، مجھے آپ کی طرزِ تحریر نے ہمیشہ متاثر کیا ،، اور ہم آج آپ کے وقت دینے پر مشکور ہیں ،،، ! ( حالانکہ یہ بعد میں علم ہوا میں نے ان کے لکھے ادب کو صرف چھُوا تھا) ہم ان کے لیۓ مٹھائی کا ڈبہ لے گئی تھیں ، انھوں نے چاۓ ، قہوہ کا پوچھا ،، ہم نے صاف انکار کر دیا ،، تو وہی ڈبہ کھول کر ہمیں پیش کر دیا ،، میں نے ان کی بیگم سے متعلق پوچھا کہ " ریحانہ ، آپ کی محبت تھی ، آپ کو مل بھی گئی ،، اتنی لمبی شادی شدہ زندگی میں وہی محبت جوان رہتی ہے "؟ تو اس پوری ملاقات میں پہلی دفعہ مسکراۓ ،،، اور بہت گول مول جواب دیا ، جو مجھ پر واضع نہیں ہوا ،،، البتہ جب میں نے کہا کیا آپ ہمیں اُن سے ملوائیں گے،،کہنے لگے" نہیں" ،،، میں نے جن لفظوں اور جملوں کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے ، وہ اب ایسی نہیں دِکھتی ، اس لیۓ پڑھنے والوں کے امیج میں ویسی رہنی چایئۓ ،" ہم یہ لاجک سن کر خاموش ہو گئیں ،،، اپنی طرف سے انھوں نے ذیادہ باتیں نہیں کیں ،، شاید وہ اتنے اجنبی لوگوں سے کم بولتے ہوں،اور ہم بہ مشکل ایک گھنٹہ گزار کر اُٹھیں ، تو خدا حافظ کرنے گیٹ تک آۓ !! ۔یہ ایک عظیم ادیب سے نہایت انکساری ، اور سادگی ، اور سکون کے ماحول میں ڈوبی ملاقات تھی ،،،، اپنے طور پر میں نے ان کا جو تائثر لیا ،،، وہ ایک "جوگ لیۓ ایسے جوگی کا موجودہ ٹھکانہ تھا جو ، اَب درختوں کے جنگل کے بجاۓ کتابوں کے گھنے جنگل میں بسیرا کیۓ بیٹھا تھا " اور باقی ہر چیز سے بےنیاز لگا " ،،،،۔
اور میری زندگی کے اُن " اہم ترین ڈرائنگ روموں کا ذکر یہاں اختتام پزیر ہو رہا ہے ،،، شاید کسی اور ایسے سورج ، چاند ، ستاروں " جیسے روشن ضمیر لوگوں سے ملوں ،، تو ان سے ہوئی " یک کمرہ " ملاقات کا ذکر کروں گی ، کہ اُس وقت وہ کمرہ اُس شخصیت کی روشنی سے ایسا جگمگ کر رہا ہوتا ہے کہ میں بےاختیار " اس کمرے اور اُس شخصیت " کو میچ کر رہی ہوتی ہوں ،،، کہ یہاں ذوق مہمان نوازی کیوں ذیادہ بلند ہے ، یہاں ویلیوز کی قدر و منزلت اور اہمیت کیسےہے !، کیوں کر یہ " خالص شہد " جیسی شخصیتیں بیٹھی ہیں ، اور ارد گرد شہد بانٹ رہی ہیں ،، کیوں کہ انھوں نے ان کمروں میں "" انسانوں کو لوگوں ""کو ذیادہ اہمیت دے رکھی ہے ،،، قیمتی سجاوٹوں کو نہیں ، قیمتی سجاوٹی اشیاء ، جن پر صَرف کیا گیا پیسہ ان کے نزدیک اَسراف میں شامل تھا ،، یہ نشست گاہیں صرف "ضروری " چیزوں سےآراستہ تھیں ،،، وہ لوگوں کی واہ واہ ، اور اپنے سٹیٹس کے " دبدبے " سے نکل چکے تھے ،،، یہ لوگ بھرے برتن ہوتے ہیں ،،، اور ہم جیسے خالی برتن ان کے سامنے چند گھنٹے ، بیٹھ کر اپنے برتن کو بھی کچھ نا کچھ بھرنے کی کوشش کر لیتے ہیں ،،، ایسے ہی ڈرائنگ رومز ،،، " علم و تربیت " کی عملاً  درسگائیں ہیں ،، کاش ہم اس ، فانی زندگی کا عملی ، مظاہرہ کچھ سیکھ لیں ،،، اور جلد سیکھ لیں ، آمین !۔ 
( منیرہ قریشی، 25 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں