منگل، 12 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(60)۔

 یادوں کی تتلیاں " (60)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ڈرائنگ روم " (3)۔"
۔1980ء 82ءکا دور تھا ، جب میری گود میں میری بیٹی بہ عمر ایک سال نِشل اور اُس سے دوسال بڑا ہاشم تھا ،، علی تو اب کلاس چہارم میں تھا ! اور میں ابھی ، کہیں جاب میں نہیں تھی۔ مکمل طور پر گھریلو ذمہ داریاں پوری کر رہی تھی، اتنے پیارے بچوں کے ہوتے ہوۓ، آس پاس مہربان ہاتھوں کےہوتے ہوۓ بھی ۔ لیکن میں دن بہ دن ڈیپریشن کا شکار ہورہی تھی،،،، جوجی اچھی ڈرائیوکرلیتی تھی ،،،، جب کہ میں نے بی اے کے فوراً بعد اباجی کے ڈرائیور محمدخان سے ، اباجی کی ووکس ویگن چلانا سیکھی تھی ، ،، بعد میں دو، تین سال چلائی، شادی کے بعد تک چلائی ،، لیکن پھر میں " ریورس " میں آگئی ،،، پہلے جڑواں بچوں ، پھر پانچ سال بعد اوپر تلے کے دو بچوں کی ذمہ داریوں نے ڈرائیونگ کی سُدھ بُدھ بُھلا دی ،،، اب جوجی ہی کہیں جانا ہوتا ،تو لے جاتی ، میں اور جوجی ، اکثر ساتھ ہی ہوتیں، لیکن اُن دنوں میرا کہیں جانے کو دل نہیں چاہتا تھا ،، جوجی زبردستی ، کوئی نا کوئی پروگرام سیٹ کرتی اور میں بادلِ نا خواستہ ساتھ چل پڑتی ،،، ہماری ذیادہ تر دوڑ اسلام آباد ،،، شاہدہ کے گھر یا ، واہ کے آس پاس خوبصورت لوکیشنز تک رہتی ۔ لیکن بات میرے لیۓ بڑھتی جا رہی تھی ، ، ایک مرتبہ ہم شاہدہ کے پُرجوش بلاوے پر لمبا ہفتہ گزارنے گئیں ،،، تو جیسا میں نے لکھا تھا کہ شاہدہ وسیع حلقۂ احباب رکھتی ہے، ،،، وہ دوستوں کی دوستی نبھانا ہی نہیں جانتی بلکہ اُن کے مسائل کو حل کرنے میں بھی پیش پیش ہوتی رہی ہے ۔ چناچہ ،،، اِس مرتبہ جب اُس نے محسوس کیا کہ میں کچھ ذیادہ ہی چُپ ہوں ، بےزاری حد سے ذیادہ حاوی ہے ،،، تو اگلے ہی دن اُس نے کہا ، " میری کلاس فیلو آج کل آئی ہوئی ہے وہ لاہور ہوتی ہے ،،، اور خاص بات یہ ہے کہ " شہاب صاحب اُس کے ماموں ہیں اور اُنہی کے گھر رہتے ہیں " ہمارے تو دل کی دھڑکنیں ہی تیز ہو گئیں ،،، اور شاہدہ کو مجبور کیا کہ جتنی جلد ہوسکے وقت لو ! ،،، اُس نے شہاب صاحب کی بھانجی ثمینہ سے وقت لیا اور اُس نےاسی دن ذرا لیٹ نائٹ آنے کا کہا ،ہم پہنچ گئیں،،، ثمینہ نے شاہدہ کو بتا دیا تھاکہ شہاب صاحب جلدی سونے کے لیۓ اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں اس لیۓ جلدی آنے کی کوشش کرنا ورنہ  
ملاقات نہ ہو پاۓ گی،یہ شہاب صاحب کا گھر نہیں تھا ،، اُن کی بیوی فوت ہو چکی تھیں ،،، بیٹا اب بڑی کلاسز میں تھا (شاید) ، وہ درویش بندہ الگ گھر کا کیا کرتا ۔اس لیۓ وہ بہن کے گھر ہی ایک کمرے میں قیام پذیر تھے ،، ہمیں احساس ہو گیا ،، یہ شہاب صاحب کے آرام کا وقت ہے جو ہماری درخواست پر ہمیں دیا جارہا  ہے،رات کے قریباً ساڑھے آٹھ یانو بج چکے تھے ،،، ہم تینوں اس با وقار لیکن سادہ انداز سے سجے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئیں ، کونوں میں تصاویر تھیں جو کارنر ٹیبل پر سجی تھیں ،،، ایک طرف ٹی وی ٹرالی بھی تھی ، ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں ، اور یہاں ایک مکمل صوفہ سیٹ تھا ، اور ساتھ دو اور سنگل صوفے بھی پڑے تھے،ثمینہ اور اُس کی نہایت درجہ دُبلی پتلی امی نے ہم سے علیک سلیک کی ، گرمیوں کے دن تھے ، فوراً ہی شربت پیش ہوا ،،، اور وہ دونوں شاہدہ سے باتیں کرنے لگیں ،،، یقین کیجۓ ،، مجھ پر بےوجہ کا غصہ اوربےزاری کا پارہ چڑھنا شروع ہو گیا اور اسی کیفیت کےساتھ میں باہر جانے والے راستے کی طرف دیکھنے لگی ،، حالانکہ کُل 20 منٹ گزرے ہوں گے ،، کہ جوجی اور شاہدہ کے سلام کی آواز پر میں نے مُڑ کر دیکھا ،،، سفید کُرتے پاجامہ ، میں ایک دُبلے ، باوقار ، مختصر قامت کے بزرگ داخل ہوۓ ، سفید بال ،سفید چھوٹی داڑھی ، انھوں نے دھیمے انداز سے وعلیکم السلام کہا اور صوفے پر بیٹھ گئے، ہم تینوں ذرا سائڈ پر بیٹھی تھیں ، ثمینہ نے شاہدہ کا تعارف کرایا ،، اور کچھ دیر کے لیۓ اندر چلی گئ ، شاہدہ نے شہاب صاحب کو بتایا ، یہ میری سہیلیاں واہ سے آئی ہیں ، آپ سے ملنے کا شوق تھا وغیرہ ،،، جوجی نے میری طرف دیکھا ،، مجھے کچھ یاد ہی نہ آیا کہ اُن سے کہوں ، میں آپ سے کچھ عرصہ پہلے ، ابنِ انشا صاحب کے ہمراہ مل چکی ہوں ، ، بس مجھ پر چُپ طاری تھی اور میں  خالی ذہن کے ساتھ اُن کو دیکھ رہی تھی، جوجی نے اُنھیں کہا آپ ہمارے لیۓ دعا کریں ،،، انھوں نے نظریں خبروں کے چینل پر لگائی ہوئی تھیں ، اور کہا " جی بہتر " ،،،، جوجی نےپھر کہا آپ نے اِس کے لیۓ دعا کرنی ہے " ،،، انھوں نے مجھے ایک سیکنڈ کی نظر ڈالی ،،، اور چُپ رہے ! بس یہ 7، 8 منٹ کی ملاقات ہوئی اور ہم اُٹھ کھڑی ہوئیں ، وہ بھی اُٹھ کھڑے ہوۓ ،، ثمینہ کی امی کو خدا حافظ کہا ،، باہر جانے کے لیۓ مڑیں تو میں نےتب ذرا اُونچا اور سخت آواز میں کیا " آپ نے میرے لیۓ ضرور دعا کرنی ہے " ،،،، اور وہ پُرسکون چہرے والا بولا " کیوں نہیں " ! اور میں جیسے مطمئن ہو گئی  اور اُس درمیانی سجاوٹ والے درمیانے سائز والے مہمان خانے سے ہم باہر آگئیں جس میں "اللہ کے پیارے لوگ"رونق افروز تھے۔جس پر اللہ کی کرم و فضل کا اظہار یہ تھا اس گھر میں سے سکون کی لہریں محسوس ہوئیں۔
ایک آدھ سال ہی گزرا تو دوسری مرتبہ شاہدہ ہی کی تواسط سے پھر حاضری دینے کا موقع ملا ،لیکن یہ نہایت مختصر دورانیہ تھا اس دفعہ بھی شہاب صاحب اُسی حُلیۓ میں تشریف لاۓ ، اس دفعہ یہ ڈرائنگ روم ،،، کچھ ذیادہ پرانا تائثر دے رہا تھا ،،، اور
بہت بعد میں مجھے خیال آیا ،، جس ڈرائنگ روم میں دن بھر نہ جانے کتنے " وفُود" شہاب صاحب سے ملنے آتے رہے ہوں   گے ،، کتنے ہی لوگ شہاب صاحب کی بہن ،بہنوئی اور اُن کے بچوں سے ملنے آتے ہوں گے ، اُس کا بار بار صفائی کا کتنا بکھیڑا ہوتا ہو گا ،،،یہ تو صاحب خاتونِ خانہ ہی کی ہمت تھی کہ کم از کم وہاں پھٹے قالین نہیں تھے ، اور صاف صوفے ، اور مکمل ڈسٹنگ کیا ہوا ، ڈرائنگ روم تھا ،، اور یہ سادہ اور کم قیمت اشیاء والا ، مہمان خانہ ،،، سب کے لیۓ کُھلا ہوا تھا ۔۔ دوسری مرتبہ بھی دعا کرنے کی تکرار کے ساتھ ہم اُٹھ گئیں ۔لیکن مجھ پر اطمینان کی کیفیت طاری ہونے لگی ،،، کہاں تو یہ کہ زندگی سے بےزاری بڑھتی جا رہی تھی ،،، کہاں یہ حال ہوا کہ ہر لمحہ ، ہر بات میں دلچسپی پیدا ہونے لگی ۔ ڈیپریشن کا فیز خیریت سے گزر گیا ۔ لیکن شہاب صاحب کی ایک لمحے کی نظر نے پھر کام کر دکھایا !! مگر میں آج بھی اُس نہایت سادہ سے باوقار ڈرائنگ روم کو یاد کرتی ہوں ، جہاں نہایت " قیمتی " لوگ ، مخلوقِ خدا کو "خدا " کا راستہ دکھا رہے تھے ،،، لوگوں کو عزت دے رہے تھے۔ تو دلوں میں لوگ رہ جاتے ہیں ،، سجے ، چمچماتے ڈرائنگ روم نہیں ،،، !۔
( منیرہ قریشی ، 12 دسمبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں