ہفتہ، 30 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(68)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( 68)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یادوں کی تتلیاں ،،، کے عنوان کو 58 نمبر کے بعد کچھ دیر کے لیۓ راستے کے اس ٹریک کو روک کر " ڈرائنگ روم " کی جھلکیوں کی طرف موڑ لیا تھا ،،، کہ طبیعت کی بےچینی آمادہ کر رہی تھی کہ پہلے اِن لاجواب اور اثر چھوڑ جانے والے کمروں کی یادیں تازہ کر لوں ،، پھر آگے بڑھوں !!۔
میں نے یادوں کے باغ میں اپنی تتلیوں کو تلاش کیا تو ،،، وہ ذاتی سکول کے دور میں موجود تھیں ۔ 
میں نے اور جوجی نے شروع میں ہی فیصلہ کر لیا تھا ، کہ ہم سکول کو بتدریج آگے بڑھائیں گے ،،، اور وہ بھی اُس صورت میں کہ اگر والدین مطمئن ہوتے چلے گۓ ! ،،، یہ ہی وجہ تھی کہ 1991ء سے شروع ہونے والا سکول 1993ء تک صرف پلے گروپ ، نرسری ، پریپ اور ون ،، تک پہنچا ،،150 بچے تھے۔ سرمایہ کچھ خود اپنے پاس بھی کم تھا ،،، کچھ سکول فیس بھی نارمل رکھی ،،، تاکہ اچھی تعلیم کم سے کم چارجز کے ساتھ " مڈل کلاس تک پہنچ سکے ۔ " الحمدُ للہ ، یہ نظریہ آج بھی سامنے رکھا ہوا ہے " !۔
اُن دنوں میں کچھ ایسے تجربات ہوۓ جنھوں نے ہمیں بھی کچھ ہوشیاری ، سمجھ داری عطا کی ،،جیسا میں نے پیچھے کسی جگہ لکھا ہے کہ ، جب ہم نے سکول شروع کیا تو اُس مال روڈ پر کوئی اور سکول نہ تھا ۔ صرف ایک گندھارا کالج اور ایک بی ایڈ کروانے والا ادارہ " فاطمہ جناح کالج" تھا ، ، ، 94ء تک ، اگر کوئی سکول تھے بھی تو اس مین مال روڈ پر نہیں تھے ،، اندرونی سڑکوں میں کچھ موجود تھے ! لیکن ان سبھی سکولوںمیں ہمارا سکول نمایاں ہوتا چلا گیا ،،، اور لوگوں میں یہ جملہ عام طور پر گردش کرنے لگا کہ ، " بچے کی "بیس'(بنیاد) بنانی ہے تو " مارگلہ گرامر سکول " بہترین ہے ، وغیرہ ،،، ۔
ایک دن میں آفس میں ہی تھی ،، کہ ایک جوان لڑکی جو چہرے سے ہی میچور لگ رہی تھی ،، اور اس کے ساتھ ایک اور میچور شکل کا لڑکا تھا ،، اجازت لے کر آفس میں داخل ہوۓ ، کہنے لگے ہم نے اپنی بھانجی کو پلے گروپ میں داخل کرانا ہے ،،، لیکن ، ہم پہلے پلے گروپ کا کمرہ دیکھنا چائییں گے " ،،،،،،،، میں نے بچی کی عمر پوچھی ، وہ تین ، ساڑھے تین کی تھی ،،، انھوں نے سلیبس دیکھنے کی بھی فرمائش کی ، اور پہلے میں نے انھیں سلیبس کی آؤٹ لائن دکھائی پھر ،،، انھیں لے کر کلاس روم کی طرف آئی ،،اور ساتھ میں کہا " کمرہ اور ماحول کا دیکھا جانا ، بچے کے سرپرستوں کا حق ہے کہ وہ دیکھیں ، پرکھیں "،، اور انھیں پلے گروپ دکھایا ،، بلکہ آتے آتے نر سری کلاس بھی دکھلا دی ،،، آفس آۓ ،، بیٹھتے ہی ،، دونوں میں سے پہلے لڑکی بولی " میڈم ، ہم دونوں بہن بھائی ہیں اور ہم نے کوئی بھانجی داخل نہیں کروانی ، ہم نے آپ کی ان" انیشل کلاسز "کی شہرت سُن کر یہ سب سوچا ، کہ ہم اپنے والد کا چلایا ہوا سکول گذشتہ 6 سال سے چلا رہے ہیں ، لیکن لوگ آپ سے مطمئن ہوتے چلے جا رہے تھے ، سوچا ہم بھی دیکھ کر آئیں ، اور کچھ ٹپس نوٹ کر لیں ، ،،، آپ نے کھلے دل سے اپنی کلاسز کا وزٹ کرا دیا ،، تو ہم بہت شرمندہ ہوۓ ہیں ، کیوں کہ ہم کسی کو کلاسز کا وزٹ نہیں کرواتے,۔
انھوں نے اپنے سکول کا نام بتایا ، والد کا نام بتایا ،،، تو میں پہچان گئی ، تب میں نے انھیں کہا " اب آپ دوبارہ اُنہی کمروں میں چلیں ، وہ کچھ حیران سے ہو گۓ ،،، میں نے کمرے میں لے جا کر انھیں بتایا " یہ کُرسیاں اور میز فلاں ، کاریگر سے بنوائیں ، یہ نرسری ایکوپمنٹس فلاں دکان سے لیں ، یہ اور یہ فلاں جگہوں سے لیا ،،، یہ ہم نے مہنگا ملا ،، آپ نے لینا ہوا تو آپ فلاں سے لیں ،! اور پھر آفس لے آئی ،، اور میں نے اُن دونوں بہن بھائی سےکہا " یاد رکھیں جہاں جائیں اول تو اپنے وزٹ کا مقصد ضروبتادیں۔
،، اس طرح آپ کے لیۓ باعزت انداز ہو گا ،،، اور دوسرے ایسے کاروباری معاملات میں ایک دوسرے سے اچھی مساقبت ہو جاتی ہے تو یہ صحت مند مقابلے کی فضا ہو گی ،،، وغیرہ ، اور یہ کہ ان چیزوں کے ہونے ، نہ ہونے سےکوئی فرق نہیں پڑتا ، اصل چیز آپ کی ٹیچرز کا  سکلڈ ہونا ہے ، اگر وہ اپنے کام سے آگاہ نہیں اور وہ دلچسپی نہیں لے رہی تو ، ان سب بھری ہوئی کلاسز کا کوئی فائدہ نہیں ،،،،،،، اُس دن سے وہ اس حلقہء میں شامل ہو گۓ ، جن سے میرے احترام والے مراسم آج بھی ہیں ، ۔ وہ جب کسی معا ملے میں مدد چاہیں ، مجھے ان کو گائیڈ کرتے ہوۓ خوشی ہوتی ہے ، ،۔
ہم نے سکول کو ، کاروبار کے نقطۂ نظر سے کم اور مشن کے طور پر ذیادہ توجہ دی ۔ جب بھی کسی ٹیچر کی تعیناتی کرتیں ، اسے اس کی ڈگری یا تجربے سے میں کبھی متاثر نہیں ہوئیں ، میں نے اس کے جذبے کو ، اس کی دلچسپی کو ، اور ان اقدار کو جو اس کے اندر مجھے نظر آجاتیں تو تب اہمیت دیتی ۔ اور اسی بنا پر اُس کی تعیناتی کرتیں۔ ہم دونوں اپنے اس خیال اور مقصد سے آج 27 سال بعد بھی ڈٹی ہوئی ہیں ، کہ تربیت پہلے اور تعلیم بعد میں ،،،،،!۔
۔1991ء میں ہم نے سکول شروع کیا ، اور 1994ء میں کچھ ٹیچرز نے ہمیں جوائن کیا ،، انہی میں ایک شیما زاہد تھیں جن کا سسرال ، اور والدین کی طرف سے بہت مضبوط تعلیمی پس منظر تھا ۔ وہ اپنی بیٹی کو داخل کروانے آئیں ، تو میں نے پوچھ لیا کیا کرتی ہو ، کتنا پڑھا ہے ؟ وغیرہ۔ 
اس نے بتایا میں نے بی ایس سی اور بی ایڈ کیا ہوا ہے لیکن ، آج تک کہیں جاب نہیں کی ، ،، میں نے آفر کی ، اگر آنا چاہو تو بیٹی کے ساتھ خود بھی آجاؤ گی تو تسلی ہو گی ، شیما اپنے ساس سسر کے ساتھ رہتی تھی ، اس لیۓ چھوٹی بیٹی جس کی ابھی سکول کی عمر نہیں ہوئی تھی، بچوں کی دادی ،دادا دیکھ بھال کر سکتے تھے۔ اور اس کا بڑا بیٹا کسی دوسرے سکول میں کلاس دوم میں تھا ،،، شیما نے اپنے گھر والوں سے مشورہ کیا ، اور اگلے مہینے ہمیں جوائن کر لیا ،،، شروع میں اسے نرسری کلاس دی اور پھر پریپ کلاس ،، اور پھر جماعت دوم ، کی کلاس ٹیچربنائی گئی ۔ وہ دوچار سال نہیں بلکہ 12 سال کے عرصے میں اپنی ڈیڈیکیشن ، اور مکمل حاضری کی روایت پر کاربند ہونے ،، اپنی کلاس کو مکمل توجہ دینے اور باقی سٹاف ممبرز سے خوشگوار تعلقات کی عادت نے ، ہمارے دلوں میں ایک مقام بنا لیا ۔ تب ہم دونوں نے باہمی مشاورت سے اسے پرنسپل کی ٹریننگ دینے کا فیصلہ کیا ، کیوں کہ جوجی کے لیۓ سکول کو بہت وقت روزانہ دینا اس وقت ممکن نہ تھا ،،، سکول ان بارہ سالوں میں پہلے چَھٹی تک اور پھر آٹھویں تک ہو چکا تھا ،، بچے بڑھتے جا رہے تھے، اور اس رش اور والدین کی توجہ اور مطالبے نے ہمیں " بورڈ کلاسز " تک لے جانےپر سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ، اور تب میں نے شیما سے کہا " فری پیریڈ " میں اپنی کاپیاں چیک کرنے کے لیۓ آفس میں ایک کونے میں بیٹھ کر چیک کرنا ،،، اور بس ڈیلنگ دیکھتی رہا کرو وغیرہ ، وغیرہ !!۔
ایک سال مزیدگزر گیا ، تب دوسری بلڈنگ کراۓ پر لی گئی ، اور چھَٹی تا دہم وہاں شفٹ کی گئیں ، اور باقی پلے گروپ تا پنجم یہیں اپنے اباجی کی دی ہوئی بلڈنگ میں رہنے دیں ، اور اب 12، 13 سال بعد ہم اس پوزیشن میں تھیں کہ بورڈ کلاسز بھی شروع کریں پلے گروپ تا پرائمری کلاسز کے تین تین سیکشنز بن گۓ ، اور یوں شیما کو دی گئی ذمہ داری کو آزمانے کا وقت بھی آپہنچا ،،، اور اسے جو نیئر سیکشن کی پرنسپل بنا دیا گیا ، اور میں نے خود سینئر برانچ کو سنبھال لیا ،، مجھے نویں دسویں کو پڑھانے کے تجربے نے بہت فائدہ دیا ،،، یہاں کا سارا سٹاف نیا مقرر کیا گیا ،،، اس نئی برانچ کی بلڈنگ خاصی مایوس کن حالت میں تھی لیکن ہمیں کچھ کم کراۓ پر مل گئی ،،، دو ماہ تو اس کی صفائی ، کچھ مرمتوں میں گزرے ۔ اور ایک نیا قدم اللہ کی مہربانیوں سے اُٹھا اور پھر قدم اٹھتے چلے گۓ ،،،، شیما نے اپنی ذمہ داریوں کو بہ احسن سنبھال لیا ،،، اور میں مکمل یک سوئی سے سینئر برانچ کو چلانے لگی ۔
جیسا میں نے لکھا کہ ہم نے کاروبار نہیں مشن شروع کیا ،، لیکن مختلف تجربات ہمیں سیانا کر تے گۓ، یہ بات جو لکھ رہی ہوں اس وقت تک سکول کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے، میں خود ہی بطورِ پرنسپل سکول چلا رہی تھی، ہماری فیس کافی کم تھی ،، پھر بھی کچھ والدین اس میں بھی  رعایت مانگتے ، اور اس خیال سے کہ چلو کچھ تو آمدن ہوگی تاکہ اخراجات نکلتے رہیں ،،، اور حال یہ تھا کہ آدھا واہ کینٹ اباجی کا واقف تھا کچھ ہماری واقفیتیں تھیں ،،، کچھ رشتہ داریاں بھی موجود تھیں ،،، ان سب کا بھی لحاظ کرنا پڑتا ،، اور یوں صورتِ حال ، کچھ بہت امید افزا نہیں تھی ،،، اور اس دوران ہمارے" ملک کا ٹاپ سکول سسٹم بیکن ہاؤس "کھُل گیا ، جس کے کامیاب سکول ہونے میں کوئی شک نہ تھا ،،، وہیں ، مین مال پر ایک بہترین بلڈنگ میں اس کی شروعات ہوئیں ،،، اور حیران کن بات یہ ہوئی کہ ہم سے کنسیشن لینے والے بہت سے والدین نے اس طرح اُس نہایت اونچے فیس پیکیج رکھنے والے سکول میں سب سے پہلے بچوں کو داخل کروانے پہنچ گۓ ، جیسے وہاں مفت پڑھائی ہوگی ،،، اور انہی میں سے دو والدین نے ایس ایل سی لیتے وقت بدلحاظی سے کہا " آپ ، تو اب اپنا سکول بند کر دیں ، مشکل ہی اب یہ چل سکے " ،،،، میں نے انھیں غور سے دیکھا (اور دل میں کہا ، آپ تو ہم سے اتنی کم فیس کے باوجود کنسیشن والے لوگ تھے ،اب باتیں کیسی دل آزاری کی کر رہے ہیں !) اور اُن سے کہا ،،، کیوں جہاں جہاں بیکن ہاؤس ہے وہاں سب ہی سکول بند ہو گئے ہیں کیا ؟ ؟ ؟ ،،، اور الحمدُللہ ، کہ وہی لوگ ایک سال کے بعد دوبارہ آۓ کہ ہمارے لیۓ اخراجات پورے کرنا مشکل ہے ،،، !! لیکن اب ہمارے لیۓ مثبت مقابلے کی فضا پیدا ہو گئی تھی ، ، ، اور ہم اپنے اسی مشن پر قائم رہیں کہ " بہترین تعلیم ، کم فی پیکیج " کے ساتھ !!!! ہمارے لیۓ وہ وقت جلد آگیا کہ تعلیمی سال کے خاتمے پر اور نئے تعلیمی سال کی شروعات پر ہمیں پہلے ہی سکول کے باہر "نوایڈمیشن" کا بورڈ لگا دینا پڑتا ہے ،،، الحمدُللہ ، الحمدُ للہ !!۔
( منیرہ قریشی ، 30 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں