اتوار، 31 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(69)

"یادوں کی تتلیاں" (69)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اسکول کی شروعات میں کچھ واقعات ایسے تھے ، جو کبھی پریشان اور کبھی حیران کر دیتے ،،، کیوں کہ جب خواتین اپنے آپ کو بہادر سمجھنے لگتی ہیں ، تو شاید اُنہی کی ٹریننگ ہونے لگتی ہے کہ جب پریشان کر دینے والا کوئی واقع آجاتا ہے ۔ 
ابھی ہمارا سکول جماعت ششم تک ہی  تھا ،،، سبھی جماعتوں کے ایک یا دو سیکشنز تھے،،، فوجی حضرات کی ٹرانسفر ہوتی تو وہ اپنے بچوں کے لیۓ ہمارے سکول کو ترجیح دیتے ،،، ایک دن سکول کی چھُٹی کے بعد میں اپنے معمول کے کام نبٹا رہی تھی ، سارا سکول خالی ہو چکا تھا سواۓ " آیا اور چوکیدار " کے ،،، میرے آفس کا دروازہ کُھلا اور فوجی یونیفارم میں ایک 40 ، 41 سا ل کا جوان سا افسر اندر آیا ،،، اُس نے اس طرح کلام کیا " السلامُ علیکم ،، کہاں ہے آپ کی " فلاں " ٹیچر ؟ میں تو اس کے چیر کر چار ٹکڑے کر دوں گا ، وہ ہوتی کون ہے میری بیٹی کو ہاتھ لگانے والی ، اس نے جراؑت کیسے کی میری بیٹی کو مارے !! " میں ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی اور اُس کے الفاظ نے تو جیسے میرے سَر کو بَھک سے اُڑا دیا تھا ،،،،۔
میں نے اسے کہا " کیا آپ آرام سے بیٹھ کر بتائیں گے کہ کیا ہوا ہے ! تب ہی مجھے علم ہوگا " ،،، جناب نے فرمایا میری بیٹی کی ٹیچر نے اسے سٹک سے مارا ہے " ،، ہماری وہ ٹیچر بہت پڑھی لکھی اور اچھی ٹیچر تھی اور اتفاق سے سکول کے نزدیک ہی رہتی تھی ، میں نے کہا" میں اپنی ٹیچر کو بُلواتی ہوں ، آپ اپنی بچی کو لے آئیں ،،، پھر جو ہو ، سامنے آجاۓ گا ،،، کیوں کہ میں نے جسمانی سزا پر پابندی لگا رکھی تھی ، اور وہ ٹیچر ویسے بھی مار کی بالکل قائل نہیں تھی ،،،،،،،،، خیر فون کیا تو ٹیچر 5 منٹ میں آگئی اور دوسری طرف آرمی آفیسر ، معہ اپنی بیگم اور بچی کے آگۓ !۔
اس سے پہلے کہ آرمی آفیسر کچھ بولے ، میَں نے کہا آپ کچھ نہیں بولیں گے ، پہلے ٹیچر کو مجھے پوچھنے دیں ،، میں نے پوچھا کیا آج اِس بچی کو مار پڑی ہے؟ اگر مارا گیا ہے تو کس چھڑی سے ، اور کس وجہ سے؟ ،،،، میرے سوالوں پر ٹیچر نے کہا " مجھے بچی سے سوال کرنے دیں ، ٹیچر نے پوچھا " بیٹا میں نے آپ کو جسم کے کس حصے پر سٹک ماری ؟ اور وہ سٹک کتنی بڑی تھی ؟؟؟؟
جواباً بچی چُپ ، ٹیچر نے دوبارہ پوچھا ،، بچی پھر بھی چُپ ، میں نے کہا "جب تک آپ جواب نہیں دیں گی آپ یہیں کھڑی رہیں گے !" تب بچی نے ہلکی اور شرمندہ آواز میں فرمایا " سٹک نہیں ماری ،، بس اِن کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ میں نے ابو سے کہا کہ مجھے مار پڑی ہے !! " بچی کی نظریں تو نیچی تھیں ہی ،،، اب اباجان کی نظریں بھی نیچی ہو گئیں ،،،،یہ سب تو صوفے پر بیٹھے تھے صرف بچی کھڑی تھی ،،، میں نے آفیسر سے کہا " کھڑے ہو جائیں ،،، اور نہ صرف مجھ سے بلکہ ٹیچر سے معافی مانگیں ،، اور اگر مجھے آپ کی بیگم کا خیال نہ ہوتا تو میں آپ کے کمانڈنگ افسر کو یہ سارا واقعہ اور آپ کے الفاظ لکھ کر بھیج دیتی ، تو آپ کی رپورٹ میں ہمیشہ کے لیۓ یہ خرابی آجاتی ،،، تب اُس نے مجھ سے اور ٹیچر سے معافی مانگی ، ، ، اور بیٹی کی طرف غصے کی نظر سے دیکھا کہ مجھ سے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا ! ،،، بچی کو باہر انتظار کا کہہ کر اُن میاں بیوی سے کہا " اپنے بچے ہر ایک کو اچھے لگتے ہیں ، ، لیکن اُن کی اچھی تربیت کرنا بھی ہمارا ہی کام ہے ،،، آپ کی بچی کتنی بھی لاڈلی سہی ،، کیا شادی کے بعد آپ ساتھ جائیں گے ؟ کہ کہیں اس کی ساس یا نند یا شوہر کوئی ذرا سا بھی ٹیڑھا بولیں ،، تو ہم انھیں " چیر کر رکھ دیں " ،،، بچوں کو اتنا بھی پروٹیکٹ نہ کریں کہ وہ آپ کی محبت کو کیش کروانے لگیں ،،، دوسرے یہ کہ جب آپ افسر بن رہے ہوتے ہیں ، تو آپ کی ٹریننگ میں ایک بات یہ بھی سکھائی جاتی ہے کہ " ہر عورت کا احترام کرنا ہے ، اور یہاں تو ٹیچر ہے ،،، جس کا ادب تو گھروں سے ہی سکھا دیا جاتا ،کجا یہ کہ آرمی کے ماحول میں اس بات کا مزید خیال رکھا جاتا ہے " ؟؟؟ آپ کے ٹیچر سے متعلق الفاظ مجھے زندگی بھر نہیں بھولیں گے ! آپ کی بےجا محبت دراصل بچی کے راستے میں کانٹے بو رہی ہے " وغیرہ ، شاید میں نے اسے بہت کچھ اور بھی کہا ہو گا ، لیکن جو یاد رہے وہ یہ الفاظ ضرور تھے ، ، اب تو محترم کی نظریں اوپر نہیں ہو رہیں تھی ، انھیں جانے کا کہا ، وہ تو اُٹھ کر باہر چلا گیا ،،، بیگم وہیں بیٹھی رہیں ،، اور جو میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ جب آفیسر بچی کو لینے گیا اور ساتھ بیگم ساتھ تھیں تو آفس میں داخلے کے وقت بیگم ، اپنے شوہر اور بچی کے پیچھے تھیں اور انھوں نے مسلسل اپنے ہاتھ معافی کے انداز میں جوڑے ہوۓ تھے اور جب بچی کا جھوٹ پکڑا گیا تو وہ مسلسل روتی رہی ،،، شوہر کے جانے کے بعد اس نے کہا " آپ کا بہت شکریہ کہ اِسے بھی کسی نے نصیحتیں کی ہیں ورنہ اس کے اِسی غلط لاڈ پیار نے بچی کو خودسر بنا دیا ہے ! آج اِ ن دونوں کو شرمندگی اُٹھانی پڑی ہے ، عقل ہوئی تو آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے ! "۔ 
میں نے اسے واضح کیا کہ جتنی دیر میں یہ بچی کو لینے گھر گیا تھا میں نے آپ کی بچی کا ایس ،ایل ،سی تیار کر لیا تھا ،، اور ابھی یہ میرے پاس ہی رہے گا ، میں اسے ضائع نہیں کروں گی " وہ بےچاری عورت ، معافی مانگنے اور رونے کے علاوہ کیا کر سکتی تھی ۔ لیکن یہ واقع مہینوں میرے لیۓ کوفت کا باعث بنا رہا ،،،،،،،، مجھے اپنے والد اور ان کے ساتھ کے آرمی آفیسرز کا خیال آتا رہا ، جنھیں اپنے بچوں کو ٹیچر یا سکول سے متعلق غلط جملے بولنے کی قطعی اجازت نہ تھی ،،، ہمارے والدین ہمیشہ ٹیچر کے معاملے میں صرف اُنہی کو حق بجانب سمجھتے تھے ،،، اور وہ صاف کہہ دیتے تھے ، اگر تمہاری جماعت میں 30 بچے پڑھ رہے ہیں اور انھیں کوئی شکایت نہیں ، تو دراصل آپ خود محنت نہیں کر رہیں ، جس کی وجہ سے ٹیچرکو آپ سے شکایت ہے ۔ اپنی محنت سے ٹیچر کی شکایت دور کرو !۔
یہ ایک ایسا تجربہ تھا ، جس کے بعد میں اپنے سالانہ رزلٹ ڈے پر جو تقریر کرتی اس میں یہ ایک جملہ بھی ضرور کہتی " آپ کا بچہ جب کسی سے متعلق شکایت کرے ، تو بہت طریقے سے پہلے اُسی سے کُرید کُرید کر اصل بات کو معلوم کریں ، اور پھر مہذب انداز سے اپنی شکایت ، پہنچانے سکول آئیں ، ورنہ آپ خود شرمندہ ہو سکتے ہیں ،،، کہ اکثر بچے خود کو مظلوم بنانے ، اور ہمدردی سمیٹنے کے چکر میں " بڑے بڑے جھوٹ " بول دیتے ہیں ، جب کہ بات کچھ اور نکل آتی ہے !!! اور گھر میں یہ جملہ کبھی مت بولیں "" ہم فیس دیتے ہیں ،، ٹیچر کی کیا مجال کہ وہ تمہیں مارے " یا یہ کہ "" میں کل آؤں گا تمہارے سکول ، سیدھا کروں گا تمہاری ٹیچر کو " وغیرہ ،،، ہمارے آج کے والدین نے "بچے "کو اپنا " بڑا " بنا لیا ہے ، خود اس کے بڑے نہیں بن رہے ، یہی وجہ ہے کہ ذیادہ تر بچے بہ زعم خود ، عقلِ کل بننے لگتے ہیں ، اسی لیۓ تو اشفاق احمد صاحب نے فرمایا تھا ، "" بچے کو ' نہ' کرنا سیکھیں اسے اس رویۓکی عادت ڈالیں "" !! اور "" بچے کے دوست نہ بنیں، اس کے رہنما ء بنیں ""۔
( منیرہ قریشی، 31 دسمبر 2017ء واہ کینٹ(جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں