اتوار، 10 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(58)۔

 یادوں کی تتلیاں"(58)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
"(1)ڈرائنگ روم"
ایک عام انسان جب عمر کے اُس دور میں پہنچتا ہے ،، جب وہ اپنے گھر کے علاوہ ،،، گھر سے باہر کے لوگوں کا انتخاب کرتا ہے ، اور ہم اسے کبھی چُھٹپن کی ،،، کبھی لڑکپن کی ،،، اور کبھی جوانی کی ، دوستی کا نام دیتے ہیں، بہت خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی اتنی پرانی دوستیاں نبھتی چلی جائیں ،، اور اُس سے ذیادہ خوش قسمتی یہ ہوتی ہے جب دوستی میں " خلُوص " کی اور " ملتے رہنے کی " کی چاہت شامل رہے ۔ مجھے آج کی نسل میں یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ وہ معمولی سے اختلاف کے بعدپرانی دوستیاں ختم ،،، اور نئے لوگوں سے ہاتھ ملانے لگتے ہیں۔ اور اُن لوگوں پر مزید حیرت ہوتی ہے،،، جب کچھ لوگ اپنی پسند ، نا پسند کے اتنے پابند ہوتے ہیں کہ وہ یہ لفظ بھی نہیں کہہ سکتے کہ" یہ میری،، یا میرا پرانا دوست ہے " ! ایسے بے چارے لوگوں کی زندگی کا یہ " کونہ " خالی ہوتا ہے ،، بلکہ اس کونے پر اندھیرا چھایا ہوتا ہے۔ 
لیکن ہم یعنی میں اور جوجی اس شعبے میں کچھ ذیادہ " خود کفیل یا خوشحال "رہی ہیں ،، ہماری بہت بچپن کی سہیلیاں ، آج بھی بےشک کم ملتی ہیں، لیکن اچھا ملتی ۔ پھر لڑکپن کی دوستیاں تو خیر سے آج تک ایسی چل رہی ہیں کہ اب اگلے جہان میں بھی ہم ہی ہم ہوں گے ، اور بعد میں ایک گروپ بنتا ہے ،،، شعور کی دنیا میں پہنچ کر ،،، تو یہ بھی الحمدُ للہ ،،،ایسا ہے کہ ہمارے غم اور خوشیاں سانجھی سمجھی جاتی ہیں۔اگر شاہدہ رشید کا ذکر کا ذکر دوبارہ کروں تو یہ اُس جیسی بندی کا حق ہو گا، ! جو دراصل ہمارے " کچنار روڈ کے پڑوسی بھی تھے ،اور جوجی کی کلاس فیلو بھی ،،، اور یہ لڑکپن کی دوستی کا وہ" کردار"ہے کہ جُوں جوں وقت گزرتا گیا کافی حد تک ہماری یہ دوستی مشترکہ ہوتی چلی گئی۔
اور سانجھے موضوعات ، اور دلچسپیاں بڑھتی گئیں ۔ وہ ایک وسیع حلقہء احباب رکھتی ہے ، مدت ہوئی وہ اسلام آباد میں جم چکی ہے اسی میں پہلے اس کی جاب اور پھر اپنا سکول چلایا اور اس دوران کچھ خاص لوگوں سے اس کی "ہیلو ہاۓ" نے ہمیں بھی فائدہ پہنچایا۔ شاہدہ کی ایک اور بہترین عادت یہ رہی ، ( اور اس وقت اس کے بچے اور ہمارے بچے چھوٹے تھے، یہی کوئی 6 ، 7 سال اور کوئی 9 سال کا ) لیکن جوں ہی گرمیوں کی چھٹیوں کی شروعات ہوتی، اس کا فون آجاتا ،،، بھئ پہلا ہفتہ میرا ہے ، معہ بچوں کے آجاؤ "،،، مزے کریں گے ، ریلیکس ہوں گے ،، ہم بھی خوشی سے نہال ہوتے ،لیکن ہمارے بچے ذیادہ خوش ہوتے۔ کوئی ایک کار ہمیں مل جاتی ، اور قافلہ ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر اسلام آباد پہنچ جاتا۔ شاہدہ نے پُرجوش ویلکم کرنا ، اور ساتھ ہی اپنا بنایا تمام پروگرام "اناؤنس"کردینا ، آج ہم بچوں کو لے کر "زو" جائیں گی،شام کا کھانا فلاں ہوٹل میں ہوگا، اگلے دن بچے یہ فلم دیکھیں گے،،اور ساتھ ساتھ کچن سے یہ یہ بن کر آتا رہے گا،سب سے بڑی اس کی بیٹی مُزنہ تھی(اصل میں تو میرا بیٹا علی بڑا تھا لیکن وہ ایک سال ہی گیا اور اس کے خیال میں وہ گھر میں ذیادہ کمفرٹیبل ہوتا ہے اس طرح ان سب بچوں میں مُزنہ کو بڑا بننا پڑتا ) ، اور ،، ساتھ ہی یہ بھی کہ یا صبح کی یا شام کی لمبی "واک " بھی ہو گی، اب بچوں کو واضح کر دیا جاتا کہ جب بڑے کہیں جائیں گے ، جہاں ان کا جانا ضروری نہیں تو وہ ضد نہیں کریں گے ، اور یہاں مکمل تعاون ہوتا نظر آتا، وہ ہمیں اپنی دریافت شدہ ، کافی کارنر ،،، یا چاٹ، اور گول گپے لازما" کھلاتی۔ اور کسی دن ایک ایسے ریستورینٹ کی باری آتی جو چائینز تو ہوتا ،،، لیکن اس کے آس پاس کے مسحورکن نظارے ذیادہ پُر اثر ہوتے ،،، جہاں ہم آج بھی کبھی کبھار چلی جاتی ہیں ،،، دراصل وہ ہمیں مکمل طور پر ایک بےفکری والا ٹائم دینا چاہتی تھی ۔ جس زمانہ کا میں ذکر کر رہی ہوں یہ ہے 1989 اور 2000ء تک کا زمانہ،،، اور میر ے جدوجہد کے سال چل رہے تھے۔ اسی قسم کے ایک وزٹ میں شاہدہ نے کہا " مفتی صاحب سے ملنا ہے؟ " میں نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ !!! دراصل شاہدہ ، جوجی اور میَں ،، ہم میں ایک قدرِمشترک اُردو ادب سے لگاؤ بھی تھا اور ،، ہے ! اس لیۓ ہمارے لیۓ پاکستان کے 80 فیصد ادیب اور شعراء کے نام اجنبی نہ تھے ،،، اگلے دن شاہدہ نے ممتاز مفتی صاحب کی بہو تہمینہ کو فون کر کے ملاقات کا پوچھا تو اس نے بھی کہا " آ جائیں " ،،، شاہدہ سے تہمینہ کی تھوڑی بہت علیک سلیک تھی ،، میں ، جوجی اور شاہدہ وقت پر پہنچے ،،،، مفتی صاحب ایک ایسے " بوڑھے تھے جو کام اور ملاقاتوں " کے لحاظ سے جوان تھے ۔ ہم تو آنکھوں میں شوقِ ملاقات کے " چمکارے 'مارتی ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئیں ، اور مفتی صاحب ، بغیر استری کے کچھ ملگجے کرتا پاجامہ میں بیٹھے تھے۔ اور نہایت نارمل انداز سے ہماری ملاقات ہوئی ، شاہدہ ہی ذیادہ بات چیت کرتی رہی ، میں اور جوجی ، اتنے بڑے ادیب کے ٹرانس میں تھیں ،،، اس ملاقات کی کوئی خاص بات نہیں ،،، سواۓ اس کے کہ انھوں نے اپنے مخصوص " بلنٹ " انداز میں کہا " بھئ ، چاۓ وغیرہ کی توقع نہ رکھنا " ،،، لیکن نہ معلوم کیسے ہمارے ایک گھنٹے کے قیام کے آخر میں تہمینہ تھرمس میں چاۓ اور 4 پیالیاں لے آئی،اور مفتی صاحب مسکرانے   لگے ! اس ملاقات میں انھوں نے ہماری سر گرمیوں سے متعلق سوالات کیۓ ! اور پھرہم خدا حافظ ہو کر باہر آیئں تو ، ہم نے تہہ دل سے شاہدہ کا شکریہ ادا کیا ،، کہ تم نے ایسی بڑی شخصیت اور پسندیدہ ادیب سے ملوایا۔ تب شاہدہ نے بتایا ، مفتی صاحب کے اکلوتےبیٹے عکسی نے دوسری شادی کرلی ہے ، جس کی وجہ سے گھر کا ماحول" ٹینس " چل رہا ہے ،،،،،، ہم نے مفتی صاحب سے رخصت ہوتے وقت اجازت لی کہ اگر اجازت ہو تو کبھی کبھی فون پر بات کر لیا کریں؟ انھوں نے خوشی سے اجازت دے دی ،،،،،، اگلے دو تین سال ،ہمارا ملنا تو تین چار دفعہ ہوا لیکن ،،، فون ہر دوسرے دن کیا جاتا رہا،،،،،،،،،۔
اِن ٹیلی فونی ملاقاتوں میں ، اُن کی نہیں بلکہ " میری اُن سے دلی ملاقاتیں بڑھتی رہیں " ،، جب دل پر بوجھ سا محسوس کرتی ، ان سے چند منٹ کی باتیں کر لیتی ،، اور اب وہ بھی میرے نام  کے واقف ہو چلے تھے ، اس لیۓ اب مجھے مکمل تعارف کی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی دوران شاہدہ کے کہنے پر اپنا سکول شروع کیا ،،، تو مصروفیت کی شدت مجھے بدمزاج بھی کر دیتی ، تو سکول سے نکلنے سے پہلے،مفتی صاحب سے سلام دعا کرتی اور ایک عجیب سا اطمینان کا احساس جا گزیں ہو جاتا ، کہ وہ "سہیلی کی طرح " باتیں سنتے ، ،،، چند دن اچھے گزر جاتے ! !۔
جب مفتی صاحب کے ڈرائنگ روم میں دوسری ملاقات ہوئی تو میں اور جوجی ،، تھرمس بھری چاۓ ، بسکٹ کے ڈبے اور اپنے واہ کینٹ کی مٹھائی لے گئیں جو اکثر لوگوں کو پسند آتی ہے ،،، مفتی صاحب سے درخواست کی ، صرف چار پانچ مگ منگوا دیں ،، تو مہر بانی ہو گی ،،، انھوں نے نہایت دلچسپی سے ہمارا یہ اہتمام دیکھا ، مسکراۓ ،،اور کہا ،،، " اے چنگا کیتا اے " ،،، انھوں نے بہ مشکل کچھ چکھا ،، البتہ چاۓ تھوڑی سی لے لی ! ! وہ ذیادہ تر " پنجابی" میں بات چیت کرتے تھے ! جو شاید ان کا "بےتکلفانہ" انداز تھا ۔۔۔ یا جو بھی تھا ہمارا تو دل چاہتا وہ ذیادہ بولیں اور ہم سُنیں ، لیکن وہ ہمیں بولنے کا ذیادہ موقع دیتے ! اس دوسری ملاقات میں بھی شاہدہ بھی تھی اور میری دوسری " دکھی سہیلی مہ جبین" بھی تھی ! میں خود بھی چاہتی تھی کہ وہ اپنی جومشاورت کرنا چاہتی ہے تو اسے موقع ملنا چاہیے ،، اسے ذیادہ وقت دیا ،،، چوں کہ میں نے ٹیلی فونک سلسلہ تواتر سے جاری رکھا ہوا تھا ،،، اس لیۓ وہ مجھ سے کچھ واقف ہو چکے تھے کہ یہ تو ابھی کچھ نہیں بول رہی، بعد میں فون پر بات چیت کر لے گی ،،، اُس دن میں نے " انک بلیو " رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا ،،، مہ جبین سے باتیں کرتے کرتے یکدم میری طرف مڑے اور کہنے لگے " اے کی رنگ پایا ہویا ، ای ؟ تیرے نال نئیں جچ رِیا " ،،،، میں تو شرمندہ سی ہو گئی !! لیکن گھر آکر اس نئے جوڑے کو فوراً کسی کو دے ڈالا ۔ جیسے اپنی اماں جی کے کہنے پر ہم عمل کر لیتیں کہ یہ تمہارے ساتھ نہیں جچ رہا تو پھر اس لباس یا زیور ، کی طرف دیکھنے کو دل نہیں چاہتا تھا !! ،، لیکن میں جب مفتی صاحب کی باتوں کو یاد کرتی ہوں ،، تو مجھے ایک بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ ادب لکھنے کا وصف رکھنے والے لوگ عام سطح کی سوچ والے نہیں ہوتے ،،، اور جب عمر بھی 85 سے تجاوز کر چکی ہو ،،، اور ایک دنیا کو اور اسکے گرم سرد کو پرکھ لیا ہو ،،، تو اُن کی باتوں میں کچھ ایسی گہرائی ہوتی ہے ،، جس پر خودبخود یقین آتا ہے ! !۔ 
اگلی قسط میں مجھے ایک عنوان دینا پڑ رہا ہے اس لیۓ میرے پڑھنے والوں کو کوئی اچنبھا نہ ہو،،،، یہ میرے ذہن میں ایک عرصے سے " موجود " تھا ، لیکن ایسا سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ اب اچھا موقع مل گیا ہے تو ان شا اللہ !!۔
( منیرہ قریشی ، 10 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری 

2 تبصرے:

  1. Shahida Naeem
    December 13, 2017 at 7:00pm
    I want to add here one more memory regarding our visit of Mufti sahib....... while discussing human nature and particularly that of men, Mufti sahib told us that a woman should never share "whole of herself" to a man because then the man loses his interest and looks forward to another woman. I remember I asked Mufti sahib... with full respect.. that "you are sharing this " gur" with us ... but I wish you could teach this to your own daughter in law ( Tehmina).... Now read it keeping in mind that Aksi married his office colleague while having a wonderful wife and two lovely sons. ...... anyhow i still remember the expressions of of Mufti sahib , on my remarks...... I can also recall the excitement Munira had after meeting Mufti sahib. She remained excited and overjoyed .....
    ·

    جواب دیںحذف کریں
  2. شاہدہ ،، واقعی " تم نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا " ،،، بالکل یاد آگیا ! میں نے لکھا ہے نا ، کہ شاہدہ ہی اُن سے باتیں کرتی رہی ،،، اور ہم اُن کی " شہرت کے ٹرانس " میں آ گئیں تھیں اور ہمیں " چُپ " لگ گئی تھی ،،، (مجھے خوشی ہے کہ تم " یادوں " کی وادی میں پہنچ گئیں ، اور میرے ساتھ ساتھ ہو ، ویلڈن )
    · December 13, 2017 at 8:08pm

    جواب دیںحذف کریں