پیر، 18 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(63)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 63 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ڈرائنگ روم " (6)۔"
" یادوں کی تتلیاں " کی اقساط لکھتے لکھتے ،،، جو میں نے یہ سلسلہ اچانک روک لیا ، تو دراصل " کب سے اپنے ذہن میں کُلبلاتے اس موضوع کو لکھنے سے خود کونہ روک پائی" ،،، اور جیسے ہی اُس " ڈرئنگ روم " میں پہنچی ،،، جس کے بعد اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا ،،، تو سب ہی وہ ڈرائنگ رومز بھی " پہلے میں ، پہلے میں " کی صدا دینے لگے ،، اور ظاہر ہے پہلے تو پھر بچپن کے مناظر کا حق ہی بنتا ہے ، اسی لیۓ افضل پرویز چاچا جی کا حق ہی پہلے تھا تو پہلے اُنہی کی سادہ لیکن قد آور شخصیت بارے لکھا ،،، اور درمیان میں بھی جن ڈرائنگ رومز کا ذکر کیا ،، یہ سب سلسلہ وار خود ہی سامنے آتے گئے، اور میں اُنھیں الفاظ کا پیرہن پہناتی چلی گئی ،،، لیکن اب میں ممتاز مفتی صاحب کے ڈرائنگ روم کی طرف آچکی ہوں ،،،،،میں نے پہلے کی قسط میں لکھا تھا کہ اپنی عزیز سہیلی شاہدہ ، کی واقفیت ، مفتی صاحب کی بہو تہمینہ سے تھی ،اسکے ساتھ ہم مفتی صاحب کے گھر پہلی مرتبہ گئیں ،،، جیسا کہ میری غیرشعوری حرکت ہوتی تھی کہ کسی کے گھر کے اِس پہلے تعارفی کمرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور کسی مناسب جگہ بیٹھ گئی ،،، یہاں بھی جب داخل ہونے لگے تو معلوم ہوا کہ ایک سٹیپ ڈاؤن فرش پر قدم رکھنا ہے ،،، اچھا خاصا کثرتِ استعمال سے پتلا ہو چکے دوقالین بچھے تھے ، جب کہ ان کے نیچے ایک سادہ کسی ہلکے رنگ کا سینتھیٹک قالین تھا ، اب اس کا رنگ یاد نہیں ،،،اس ڈرائنگ روم کو ، جو مستطیل کھلا کمرہ تھا ، دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، شاہد اس لیۓ کہ جب ذیادہ مہمان آجائیں تو اُس کلوز سیٹنگ کے حصے میں بیٹھ جائیں ،جہاں ، سیٹی ، دو سنگل صوفے اور ایک "ٹو" سیٹر رکھا تھا، اور جہاں ہم لوگ بیٹھے ، وہ نارمل ڈارئنگ روم کی طرح ڈیڑھ ، دو صوفوں پر مشتمل تھا ،، نہایت عام سا ، فرنیچر ، کوئی سجاوٹ کا پیس تھا بھی تو اتنا غیر اہم کہ یاد کے صفحے پر کوئی نشان نہیں اُبھر پایا ۔ مفتی صاحب سے ملنے جانا ہی ہمارے لیۓ " اہم واقع " تھا ،،، اس لیۓ میں اور جوجی ،، اپنی بولنے کی صلاحیت سے یکدم عاری ہو گئیں ،،، شاہدہ شروع سےنہ صرف پُراعتماد ہے بلکہ ، اُس کی یہ پہلی ملاقات بھی نہ تھی ،،، اس لیۓ اس نے آرام سے گفتگو شروع کردی ،، ہم دونوں مفتی صاحب کی نہیں ،،، اُن کے " بڑی شخصیت " کے ٹرانس میں آچکی تھیں ،، مفتی صاحب خود اگر اتنے خوبصورت ،ذہن کے مالک نہ ہوتے ، اور الفاظ اور منفرد موضوعات ان کے گِرد گھوم نہ رہے ہوتے ،،، تو خود وہ نہایت عام گھریلو سے بندے نظر آتے ، لیکن ان کی شخصیت میں ذہانت ، محنت اور اُن کی منفرد موضوعات کی کتب نے انھیں وہی کشش عطا کر دی تھی جوایک مشہور و معروف شخصیت کا وصف ہوتا ہے ،،، میں نے پہلے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ اُس دن ، قریبا" ملگجے ، استری کے بغیر ، کھلے پاجامے اور کُرتے اور کالے سلیپر میں بہت تیز تیز ادھر اُدھر جا رہے تھے ،،شاہدہ نے ہمارا تعارف کروایا،،، اور انھوں نے ہمیں کچھ دیر دیکھا اور ہماری مصروفیات کا پوچھا ،،، اس دور میں،مَیں کونونٹ  سکول میں پڑھا رہی تھی، اور جوجی ابھی فارغ تھی ،، لیکن ہم نے شاید ہی اُن کی کوئی کتاب ہو گی جو نہ پڑھی ہو ،،، میں نے موقع دیکھ کر انھیں اباجی کا بتایا ، کہ وہ آپ کے صدر ہاؤس میں تعیناتی کے دور میں وہیں تعینات تھے ، اور اُن کا یہ نام تھا ،،، شروع میں انھیں یاد نہیں آیا پھر اُن کے بارے ایک دو باتیں پوچھیں تو انھیں یاد آگیا ،،، اور فوراً اُٹھے اور اپنی ایک کتاب،،،" " اپنے دستخط کے ساتھ عنایت کی ،، اور بعد میں مجھے بھی اپنی کتاب " روغنی پُتلے" ،،اپنے دستخط کے ساتھ دی ،، جو آج بھی محفوظ ہیں ،، ۔ مفتی صاحب اُس وقت قریبا" 80 سال سے اوپر کے تھے، لیکن اپنی بیماریوں کے باوجود ، خوب ایکٹو تھے،،، اپنے "بلنٹ " انداز میں انھوں نے ہمیں سنا دیا ،،، بھئ چاۓ کی توقع نہ رکھنا " ،،،، لیکن ہم تو اُن سے ملنے گئیں تھیں ، چاۓ پینے نہیں ،،، لیکن گھنٹہ بھر بیٹھی تھیں کہ اُن کی بہو تہمینہ نے ایک ٹیبل پر چند پیالیاں اور ایک تھرمس چاۓ رکھی ، ،،، تو مفتی صاحب نے مسکرا کر ہمیں چاۓ خود ہی لینے کی آفر کر دی ،،،،مفتی صاحب ، ( میرے خیال میں ) اب زندگی کے اُس دور میں تھے ، جس میں کسی بھی بات سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ،،، کوئی اُن سے ملنے آ گیا تو ٹھیک ،، نہیں آیا تو بھی ٹھیک ،،، کوئی بندہ ذیادہ دیر بیٹھا ،تو بھی صحیح ،،، کچھ دیر بیٹھا ، تب بھی صحیح،،،، ! چاۓ پی گئی اور کچھ منٹ بعد ہم نے بھی اجازت چاہی ،، چلتے وقت یہ ضرور اجازت لی ،، کہ کیا کبھی کبھار فون کر لیا کریں " ،، بہ خوشی اجازت دے دی !۔ 
شاید ایک ، ڈیڑھ ماہ گزرا ہوگا کہ میری سہیلی مہ جبین کے اصرار پر پھر پروگرام بنا لیا اور ہمیں شاہدہ کی وساطت سے دوسری ملاقات کا موقع مل گیا ،، اس دفعہ ہم نے مہ جبین کو ہی ذیادہ موقع دیا کہ وہ کوئی مشاورت کرنا چاہتی ہے تو کر لے ،،، لیکن مفتی صاحب نے ہمیں بھی اسی طرح ، کچھ نا کچھ جملے کہہ کو توجہ دی، اس مرتبہ ہم اپنی چاۓ کا سبھی سامان ساتھ لے کر گئی تھیں،،، یہ بات ہمیں خود بھی سوچنی چایئے تھی کہ ایک معروف شخصیت کے گھر تو ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہو گا ،،، آخر وہ کتنی میزبانی کرے ! مفتی صاحب نے ہمارا چاۓ کی تھرمس اور کچھ لوازمات دیکھ کر کہا " اے چنگا کیتا جے " ،،، وہ ذیادہ تر پنجابی زبان میں گفتگو کرتے ! جوجی اور میں نے عام سی باتیں کیں ،، شاہدہ بہرحال کافی ذہانت والے سوال ، جواب کرتی رہی اور کسی حد تک جوابی وار کرتی رہی۔ اسی دن کی ملاقات میں ، جب میں نے اُن سے دعا کرنے کا کہا تو اُن کا مختصر جواب مجھے آج بھی یاد ہے " کُڑیۓ ،، میں دعا والا بابا نیئں " اور پھر فوراً  بولے " کبھی پروفیسر کو ملی ہو ،، " ہم نے تو اُن کانام بھی نہیں سنا تھا ،، تو کہنے لگے ، " مل لینڑاں کدی "،،، !اور پھر ہم واپس آگئیں ! یہ ملاقات کم ازکم دو گھنٹے تک رہی ۔ اورڈرائنگ روم کیسا ہے کیسا نہیں ہے ، مکمل طور پر پسِ منظر میں جا چکا تھا اور صرف وہ شخصیت پیشِ نظر تھی ، جو کمرے میں مرکزِنگاہ ہو چکی تھی ، اُن کا اندازِ ملاقات ، محبت ، والا نہیں بلکہ دوسرے کو " اہمیت " دینے والا ہوتا ۔ وہاں سے اُٹھ کر ہم نے اپنے طور پر آپس میں "پروفیسر " کا ذکر تک نہ کیا ۔ اور تیسری اور آخری ملاقات کے دن اتفاق سے میں اکیلی ہی تھی ،،، اِس ڈرائنگ روم ،، کا دروازہ کُھلا رہتا تھا ،، جب میں داخل ہوئی تو مفتی صاحب ہی اُٹھ کر سامنے آگئے،،،اور میں وہیں  رُک گئی کہ ڈرائنگ روم کے" کلوز سرکل" والے حصے میں کوئی چھے ،سات ادیب حضرات دائرے میں بیٹھے تھے ، اور صرف ایک نے کہ جس کے ہاتھ میں کچھ صفحے پکڑے ہوۓ تھے ، مُڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو وہ "منشا یاد" صاحب تھے،،، مفتی صاحب نے کہا ،بھئ آج تو تمہارے لیۓ وقت نہیں نکل سکے گا ،،، آج ہمارے ادیبوں کادن ہوتا ہے ، ایک پڑھتا ہے ، تو باقی تنقید یا تعریف کر کے اس کو " اپروو" کرتے ہیں !اگر ضروری ہے آنا تو تین ، چار گھنٹے تک پتہ کر لینا اگر یہ چلے گۓ ہوۓ تو ،،،،، ! اور اس دن ڈرائیور اور گاڑی ملی ہوئی تھی ،، کہہ دیتی کوئی بات نہیں مفتی صاحب میں ایک کونے میں بیٹھ کر سُنتی رہوں گی !! لیکن اپنی جھجھک کی وجہ سے " اچھا خدا حافظ " کہہ کر لوٹ آئی ،،، لیکن اتنی اہم اور خصوصی میٹنگ کے باوجود انھوں نے مجھے ساری تفصیل بتائی کہ آج ان ادیبوں کا اکٹھا ہونے کی کیا وجہ ہے ،،، ساتھ ہی مجھے یہ ضرور کہا " اے رنگ تیرے نال چنگا لگدا پیئا اے " ،،، یا تو محض دل رکھنے کے لیۓ کہا یا واقعی اُن کا تبصرہ تھا ، بہرحال شکریہ کہہ کر واپس آگئی ،،،، اور اُس دن میں نے " میرون " سا رنگ پہنا ہوا تھا ،،،، اِس سے پہلے دوسری ملاقات میں ، جب ہم دو گھنٹے اُن کا مغز کھاتی رہی تھیں ،،، تو میں نے انک بلیو رنگ کے کپڑے پہنے ہوۓ تھے ،، ادھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے ، انھوں کہہ دیا " اے کی رنگ پایا ہویا ،ای ،، اے تیرے نئیں جچ ریا "،،،،، اور اب اِس مرتبہ کی تعریف سے میں سمجھ گئی کہ یہ پچھلی دفعہ کی تلافی کر رہے ہیں ،، کہ کہیں اس کو رنج نہ پہنچ گیا ہو ،،،۔
زندگی شدید مصروف ہو گئی اور اس دوران صرف فون پر رابطہ رہا ،،، اُس وقت تک اپنے ذاتی سکول میں آچکی تھی اور ذاتی قربانیاں بھی چلنے لگ گئی تھیں ،،، ایک دن میں " مالی کمی " کے ہاتھوں پریشان ہو گئی ،، اور سکول کی چھٹی کے بعد انھیں فون کیا ،،، " مفتی صاحب ! بس مجھے 2یا 3 کروڑ چاہیئں ،،، مفتی صاحب فورا" بولے " بس ! (بس کے لفظ کو خوب کھینچا ) میں نے کہا کیوں میں نے اپنی اوقات کے مطابق مانگنا ہے ، بس آپ دعا کریں ،،،، کہنے لگے ،، جس سے مانگ رہی ہے اس کے ظرف کی طرف نظر کر ،،، وہ تو کئی کروڑ لے کر بیٹھا ہے ،، کیا پتہ وہ کتنا نواز دے ! " ،،،، بہرحال ایسے ہی اُن کی تسلی آمیز گفتگو سے دل ہلکا ہو جاتا ، اور کچھ دن اچھے گزر جاتے ! ۔
اسی طرح پھر ایک دن میں نے فون کیا " اور میں نے انھیں بتایا میں نے آپ کو اور شہاب صاحب کو خواب میں دیکھا ہے ،،، انھوں نے خواب سنانے کی فرمائش کی : : : دیکھا کہ ایک محلہ سا ہے ، اور میں ایک گھر میں داخل ہوتی ہوں تو وہ اندر سے بہت کُھلا اور قالینوں سے سجا ہوا ہے ،، جگہ جگہ گاؤ تکیۓ لگے ہیں ،،، صحن میں کچھ لوگ ہیں جو مصروف سے ہیں انہی میں شہاب صاحب بھی موجود ہیں اور وہ دھیمی آواز سے اُن لوگوں کو کچھ کرنے کا کہہ رہے ہیں ،،، میں تو اسی بات سے نہال ہو رہی ہوں کہ شہاب صاحب ، اور مفتی صاحب اکھٹے نظر آرہے ہیں ،،، اور ایک طرف ہو بیٹھتی ہوں، اتنے میں اذان کی آواز بلند ہوتی ہے ، تو وہاں موجودسبھی مرد حضرات ایک کُھلے کمرے میں آکر صفیں بنالیتے ہیں ! اسی دوران کچھ لوگ شہاب صاحب کو کہتے ہیں آپ امامت کرا دیں ، تو وہ ایک نہایت خوبصورت نوخیز ، نوجوان کو بازو سے پکڑ کر امامت کے لیۓ کھڑا کر دیتے ہیں اور خود پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں مفتی صاحب دوسری صف میں کچھ اور لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ،،، اور میری آنکھ کھل گئی ،،،،، یہ سارا خواب سُن کر مفتی صاحب نے صرف ایک جملہ کہا " کُڑیۓ ،،، لے تُو تے میری نماز پڑھا چھڈی "،،،، جی ہاں یہ جملہ بعد میں مجھے یاد آتا رہا اور تب خیال آیا کہ وہ اس خواب کی تعبیر کو سمجھ گئے تھے ، کہ اب چلنے کا آوازہ آیا چاہتا ہے ،،، اسی آخری فون پر انھوں نے مجھے پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کا فون نمبر دیا ،،،اور کہا ،،، " تم نے انھیں بتانا ہے کہ مجھے آپ کا فون نمبر اور ایڈریس ، مفتی نے دیا ہے " ،،، اور ساتھ ہی کہنے لگے ،،، پروفیسر نوں چھڈی نئیں ،، انھیں روز فون کرنا اور ہر دفعہ کہنا " مجھے دعاؤں میں یاد رکھیں " اتنافون کرنا کہ تنگ کر ڈالنا ! "،،،، بس یہ ہی میری اُن کی آخری گفتگو تھی ،،، اور اِس دوران میرا فالتو وقت پروفیسر صاحب کو ہر دوسرے دن ایک فون کرنے پر لگ گیا ۔ اور صرف ایک ڈیڑھ ہفتے بعد ، اخبار ، ٹی وی ، ریڈیو پر مفتی صاحب کی رحلت کی خبر سن لی ،،، ایک ایسا بوڑھا ، جس نے جوانوں کو ذیادہ متاثر کیا اور مایوس نہ ہونے کا درس دیا ،،، اُن کی کتاب " لبیک " ہمارے گھر کے ہر فرد نے پڑھی ہوئی تھی،حتیٰ کہ اماں جی اُن دنوں زندہ تھیں اور اللہ سے اُن کی بےتکلفانہ اظہارِ محبت کو بہت انجواۓ کرتیں،، اور ان کی" آخری کتاب" تلاش " تو اللہ کے پیار کا انوکھا انداز لیۓ ہوۓ تھی ! ۔
اللہ تعالیٰ نے بھی کتنے پیارے لوگ دنیا میں بھیجے ہیں ،، کیسے انسانی نفسیات کے ماہر بن کر انھوں نے جو ہو سکا " اچھائی بوئی" ،،، یہ کتنا مشکل کام ہے کہ اپنی برائیوں ، کا علم ہے ،، اور اعتراف ہے ،،، اور انھیں سُدھارنے کی کوشش ہے ،،، اور دوسروں کے دلوں پر مرہم رکھنے کی پوری کوشش بھی ہے ! کم ازکم لوگوں کے راستے کھوٹے نہیں کیۓ ، راستے کے رہبر بنے رہے ،،،، اور ایک عام سے ڈرائنگ روم میں لوگ آ رہے ہیں ،جا رہے ہیں اور کسی کو متاثر کرنے کا کوئی روگ نہیں پالا ہوا۔ امن و سکون کے ساتھ علمی محافل سج رہی ہیں ،،، اور جہاں تک ہم جیسے لوگ ہیں ،، انھوں نے اپنی شہرت کے باوجود ، ہمیں ، کم علمی کا ذرہ جتنا احساس نہیں ہونے دیا، نہ ہی ایسے حد درجہ غنی لوگ، شان دار رہن سہن کے چکر میں ، دوسروں کو گُنگ نہیں کرتے ، واہ مفتی صاحب ، واہ !!!۔
نیچے اُن عظیم ادیبوں سے ملنے کے "محفوظ اور یادگار لمحے "آپ سب کے لیۓ!۔


( منیرہ قریشی ، 18 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں