پیر، 11 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(59)۔

یادوں کی تتلیاں "( 59)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 ڈرائنگ روم" (2)۔"
ایک مدت سے میرے ذہن میں ایک خاکہ ، کچھ الفاظ کا روپ دھارتا ، اور پھر مِٹ جاتا ،، سمجھ نہیں آتا تھا ،،اسے کیسے ، اور کیوں کر لکھوں ! بہت شکریہ اُن خوبصورت " اذہان " کا جنھوں نے ، میری " یادوں کی تتلیاں " کے تحت لکھے گۓ عنوان ، کےآرٹیکل کو اتنا پسند کیا کہ میرا ارادہ صرف دو اقساط تک محدود رکھنےتھا ،، اور اسی پسندیدگی کے تحت مجھے " یادوں کی کتاب سے گَرد جھاڑنی پڑی " اور آج یہ سلسلہ 59 قسط تک چلا گیا ،، اور یہ ہی موقع تھا کہ اب وہ لمحہ آن پہنچا کہ جو ذہن میں بہت پہلے موجوداس عنوان " ڈرائنگ روم " کو الفاظ میں پیش کر دوں۔
لفظ ' ڈرائنگ روم " انگریزی زبان کا لفظ ہے ۔ اور اب یہ ہماری پیاری قومی زبان میں اس طرح مستعمل ہو چکا ہے ،جیسے اسی کا ایک حصہ ہو! ہمارے بچپن میں مہمان کے بٹھانے والی اس جگہ یا کمرے کو " بیٹھک " کہتے تھے ، پاکستان کی باقی علاقائی زبانوں میں کہیں اس کمرے کو " حجرہ" کہیں " اوطاق " ،،، کہیں ڈیرہ یا " ہماچہ ' کہہ لیتے ہیں ، لیکن مطلب واضع ہوتا ہے کہ یہ مہمان کے لیۓ مخصوص جگہ ہے ، اور خاص طور پر اُن لوگوں کے لیۓ جو " مکمل یا جزوی اجنبی " ہوں ۔ ان مہمان خانوں کو ہر گھر اپنی حیثیت ، اپنے ذوق، اور اپنے مہمانوں کی کم یا ذیادہ آمد ،،،، کے مطابق سجاتا ، سنوارتا ہے ،،،، یہ مہمان خانے اسی" حُلیۓ "کی وجہ سے اہلِ خانہ کا پہلا تعارف بن جاتے ہیں ،۔
ہر انسان کو جو ایک حلقۂ احباب رکھتا ہو،،اسے مختلف النوع ، " مہمان خانوں کی دید کا موقع ملتا رہتا ہے ، اور جب ہم کسی کے مہمان خانے میں " براجمان " ہوتے ہیں تو اس کے تائثر کو قبول کیۓ بغیر نہیں رہ سکتے ،،لیکن اگر اس میزبان سے متعلق ہمارا تعارف مزید بڑھتا چلا جاتا ہے تو ، نظریں اس کے ڈرائنگ روم کی طرف کم اور " میزبان " کی طرف ذیادہ متوجہ ہونے لگتی ہیں۔ اور تیسری سٹیج ایسی آتی ہے،،، کہ بس میزبان ہی میزبان مدِنظر ہوتا ہے ،،،، اور لفظ " ڈرائنگ روم " جو بھلے اُس وقت لوگوں سے بھرا ہو ،،، ہمیں اپنا میزبان اچھا لگتا ہے تو ہم پُرسکون ہوتے ہیں ،،، اپنے میزبان کے چلنے ، پھرنے ، باتیں کرنے کے انداز کو جی جان سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ اپنے اس میزبان کو " پیر ومُرشد " بنا لیتے ہیں ۔ ،،،،، اور اگر میزبان اچھا تائثر نہیں دے پایا ،، ہمارے دلوں میں جگہ نہیں لے پایا ،،، تو اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی ،، اس کے ذوق کو ، اس کی گفتگو کو ، اس کی مہمانی کے انداز کو عجیب تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ،، جو قطعی درست رویہ نہیں ،،، لیکن یہ ہماری بھی " نا پختگی" ظاہر کرتی ہے۔ ایسا ہونا نہیں ہونا چاہیۓ ،،،، لیکن ایسا ہو جاتا ہے ،،، اور ہوتا چلا جاتا ہے !!!۔
جیسا میں نے " یادوں کی تتلیاں " میں اپنے بچپن کا احوال کافی حد تک بتایا ہے، اور ہمیں والد اور والدہ کے ساتھ اُن کے مختلف احباب کے گھروں میں جانے اور اُن کی "بیٹھکوں یا ڈرائنگ روم " میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ اب اگر میں عمومی ملنے ملانے یا رشتہ داروں کے ڈرائنگ رومز کا ذکر کرنے لگوں ، تو یہ غیر دلچسپ تحریر ہو گی ،،،،، میں اُن بہت ہی خاص الخاص لوگوں کی بیٹھکوں کا ذکر کرتی ہوں ،،،جو اپنی ذات میں "انجمن" ہیں ،، ان کے ڈرائنگ روم ، اگر قابلِ ذکر ہیں تو " اُنہی " باغ و بہار شخصیتوں کی وجہ سے ۔،،،، اباجی چوں کہ خود " صاحب ِ ذوق" اور لکھنے لکھانے والے آدمی تھے ،، اسی لیۓ اُن کے حلقۂ احباب میں انہی جیسے لوگ تھے، راولپنڈی میں اور بہت سے دوست تھے لیکن اباجی کا ذیادہ آنا جانا " جناب افضل پرویز صاحب " سے تھا ،، جنھیں ہم "چاچاجی"کہتیں تھیں۔ وہ خود قدرِ چھوٹے قد وقامت کے ، صحت مند ، اور کچھ سانولے سےتھے ،، ان کے خدوخال ، درمیانے لیکن پُرکشش تھے، لیکن جب وہ بولتے تو نرمی ، محبت ، اور مٹھاس کا احساس واضع طور ہر محسوس ہوتا ۔ اب اس وقت جب میں لکھ رہی ہوں تو میرے کانوں میں اُن کی محبت بھری آواز گونج رہی ہے ،، وہ ہم سے پنجابی زبان بولتے ،، جب ، ہم اُن کے گھر جاتے ، تو ہماری عمر اُن سے ملنے کے لیۓ جانے والی نہیں تھی لیکن اُن کے گھر کے ایک بولنے والے طوطے کی کشش ہمیں وہاں لے جاتی، ، ، اُن کا گھر پنڈی کے علاقے " مری روڈ " کی ایک گلی میں تھا ، جہاں ایک چھوٹا اور عام سا گھر ،،، عام اور نہایت سادہ ساتھا، جہاں بنیادی ضروری چیزیں تو موجود تھیں ،،،لیکن کوئی آسائش نظر نہیں آتی تھی ،،، ( اب میں انھیں چاچاجی ہی لکھوں گی ) ، چاچاجی ، خود پوٹھوہاری زبان کے نامور شاعر  تھے ،،، ساتھ ہی ریڈیو پاکستان پنڈی سے پوٹھواری پروگراموں کی کمپیئرنگ کرتے ،،، اور اپنی پنجابی زبان میں کی گئی خوب صورت شاعری کی کتابیں چھپواتے ،،، اور اگر اس دوران ہمارا ان کے گھر جانا ہو جاتا تو وہ اباجی کو اپنے ہاتھوں سے " کمپائل " کی گئی کتاب دکھاتے جسے اب وہ چھاپنے کے لیۓ دینا چاہتے تھے،، اباجی اُن کے " ڈرائنگ روم " میں بیٹھتے،،، جب ہم دونوں بہنیں اباجی کے ساتھ کچھ دیر بیٹھتیں ،،، تو میں نے جو ذہن میں اُن کی اس " بیٹھک " کی تصویر نقش کر رکھی ہے ، وہ یہ ہے ،،، کہ وہ ایک 8 فٹ بائی 6 فٹ کا " کمرہ " تھا ،جس میں چھوٹے سائز کا، پرانا سا اور قدرِ ملگجا کپڑے والا " تھری سیٹر"صوفہ تھا ،، ظاہر ہے اتنے چھوٹے کمرے میں ایسا ہی چھوٹا سامان ہونا چاہیۓ تھا،، دو چھوٹے سائز کی سادہ کرسیاں تھیں ، ایک میز درمیان میں ہوتا،،، ایک کونے میں " کارنس " بنی ہوئی تھی جس پر کتابیں بےترتیبی سے اوپر نیچے" ٹھونس" کر اٹکائی گئی تھیں ۔جن پر دھول بھی ہوتی،،، جس کتاب کو اباجی پکڑے مطالعہ کر رہے تھے،،، وہ کالے قلم سے ( سیاہی والے پین سے) لکھی گئی تھی ،،، اس کی ایک صفحے پر ایک نظم ہوتی اور اس کے مخالف صفحے پر اسی نظم سے لی گئی خیالی تصویر تھی،،اور اسی صفحے پر اُس گیت کی موسیقی کے سُر کی لائنیں دی ہوئی تھیں ، اصل میں اس کتاب کواس ابتدائی شکل میں ، میَں نے بھی اباجی سے لے کر دیکھا تھا ۔ چاچا جی نے موسیقی کے سُروں کی کمپوزیشین ، اور ڈرائنگ خود کی ہوئی تھی ،، یہ ایک کتاب تھی جس کا نام " بَن پھلواری " تھا ،،، البتہ دوسری کتاب جب چَھپ گئی تو اباجی کو اپنے ہاتھ سے اپنے دوست کے نام پیاربھرے جملے لکھ کر دی ۔اس کتاب کا نام ہے " ککراں دی چھاں " ( ککر کی چھاؤں ) اور یہ انتہائی خوبصورت سہ حرفی ہے ! جس کی تصویر منسلک ہے اور اُن کے پیار بھرے الفاظ بھی،،،،، جو پنجابی ہی میں لکھے گۓ ہیں اور یہ زبان نہ جاننے والوں کے لیۓ ترجمہ کر رہی ہوں " اباجی کو لکھا کہ " بہت ہی گہرے اور بہترین دوست،میجر ظفرالحق قریشی کے لیۓ "۔
اور اِس خوبصورت سہ حرفی کا ترجمہ کچھ یوں ہے " میں نے محبت کی مشکل منزل بوئی ہے ، اور اب ایک ایسا مسافر ہوں جو تھکن سے بے حال ہے ، اور اے میری محبت ،، تومیرے لیۓ ککر کی چھاؤں بن گئی ہے!۔


باخبر لوگ جانتے ہیں کہ ککر کا درخت سراپا کانٹے دار ہوتا ہے ، اور اس کی کوئی خاص چھاؤں بھی نہیں ہوتی اور اس کی
 گروتھ بہت ہلکی ہوتی ہے، آج ،،،، لفظ ڈرائنگ روم ،، کے پہلے ڈرائنگ روم میں آپ کو بھی لے گئی ہوں ،،، چاچاجی کی بیوی درمیانے ،لیکن نکلتے قد کی خوبصورت ،، گلابی رنگ کی ان تھک خاتون تھیں جو چاچاجی کی محبت کا مرکز تھیں وہ انھیں محبت اور پیار سے " قندھاری انار " کہتے تھے ،، دونوں میاں بیوی بچوں سے اس لیۓ قریباً فارغ تھے کہ ایک بیٹی شادی شدہ اور دو بچے بیرونِ ملک جا چکے تھے، ایک بیٹی ایئر ہوسٹس تھی جو کبھی کبھار نظر آتی تھی ۔ بچے انتہای ذہین، لیکن موسیقی کے دیوانے تھے، ایک بیٹا جو امریکا سیٹل تھا اس نے پی ایچ ڈی کسی مضمون میں کرلی ،لیکن اپنا شعبہ چھوڑ کر موسیقار بن گیا۔ چاچاجی اوراباجی کی خط و کتابت کافی چلی ، خاص طور پر جب ہم واہ آگۓ ۔ تو ایک خط ( 1996ء)جو میرے پاس کافی عرصہ محفوظ رہا لیکن اب کہاں ہے ، پتہ نہیں ! اُس میں اباجی کو مخاطب کر کے انھوں نے انھیں یاد دلایا " ظفر تم وہی ہو جس نے ایسی مشکل بحر میں غزلیں لکھی ہیں ، تم اب بھی قلم اُٹھاؤ اور کچھ لکھو ، لیکن اباجی تو اُس وقت " سنائیل" ہو رہے تھے ! وہ شعر یہ تھا ۔
رہ گۓ محوِ تماشا لبِ ساحل دانا ! ! !۔
اور موجوں سے لگے کھیلنے دیوانے چند
اور ،،، اتنی عظیم شخصیت اتنے چھوٹے سے گھر میں رہ کراور انتہائی چھوٹی سی " بیٹھک" میں سب کو بٹھاتے ، اسی چھوٹی سے بیٹھک میں ادب کے چاند تارے اترتے ،،، مہمان نوازیاں کی جاتیں۔ تو پھرمہمان خانے بڑے ،، یا ،، لوگ !۔
( منیرہ قریشی ، 11 دسمبر 2017ء ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں