بدھ، 13 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(61)۔

یادوں کی تتلیاں" (61)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ڈرائنگ روم " (4)۔"
زندگی بھی کبھی کبھار ایسی جگہ لے جاتی ہے ، جہاں انسان کی سوچ بھی نہیں جا سکتی ،، تو کجا یہ کہ خود وہاں جا بیٹھے ،، اس گھر کے رزق میں سے بھی حصہ لے بیٹھے ،،، اور پھر زندگی بھر ، کے لیے ذہن پر ایک الگ نقش لے کر محفوظ کر بیٹھے ،،، کہ جب " اُس محلے ، اُس سڑک پر گزر ہو جاۓ ،،، تو پردہ ہٹ جاۓ ،،، اور وہ کردار ، وہ دن ، وہ ڈرائنگ روم لمحے بھر کے لیۓ ہی سہی ، لیکن جھلک دکھا جاتے ہیں۔
یہ یاد نہیں آرہا ،، کس کے لیۓ جیولری خریدنی تھی،،، لیکن مری روڈ کے " سُوقِ ادریس " مارکیٹ تک پہنچے تو بیشتر دکانیں بند تھیں ،، یا آدھی ، کھلی آدھی بند والا سلسلہ تھا ۔ خود ہمارے جیولر کی دکان بھی ابھی بند تھی ، پتہ چلا اتوار کے دن یہ بازار کچھ دیر سے کھلتا ہے ،،، اباجی ، میں اور آپا ،تھے ،،، بہت بے زاری ہوئی ،، کہ اب وقت کیسے گزارا جاۓ کہ جیولر مارکیٹ کے کھلنے تک کہاں جائیں کہ جو نزدیک جگہ ہو ۔ اباجی کہنے لگے ،، ، پریزیڈنٹ ہاؤس کی ڈیوٹی کے دوران " بریگیڈیر ادریس"سے کچھ علیک سلیک ہو گئی تھی ،، بہت اچھے لوگ ہیں،پتہ کرلیتا ہوں ، ہو سکتا ہے وہ یہیں ہوں ،،، اور گاڑی" سُوقِ ادریس "مارکیٹ کی پچھلی جانب لے گۓ۔ ایک پرانے سے کُھلے ہوۓ گیٹ سے داخل ہو گۓ۔اچھی لمبی ، چوڑی ڈرائیو وے تھی۔ اور پرانی طرزِ تعمیر والی کوٹھی تھی ،، جیسے انگریز کے دور میں ہوتی تھیں ۔ بلکہ وہ کوٹھی خود بھی" عمر رسیدہ" سی تھی ، ہم گاڑی میں بیٹھی رہیں ،،، اور اباجی خود ہی اُتر کر گئے،معلوم کر کے آۓ تو کہا " برگیڈئر صاحب خود تو گھر پر نہیں ہیں ، لیکن اُن کی بیگم کا اصرار ہے کہ آپ میرے پاس کچھ وقت گزاریں ۔ کچھ دو دلی کیفیت سے ہم دونوں بہنیں اباجی کے ساتھ چند سیڑھیاں چڑھ کر پہلے چوڑے سے برآمدے تک پہنچیں ،،،تو دو مرد اور ایک عورت کافی غریبانہ حلیۓ میں بےفکری   کے سٹائل میں بیٹھے تھے ۔ داخلی دروازہ کھلا تھا اورہم پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوئیں ،،، دائیں  ہاتھ خوب کُھلا ، بڑا کمرہ تھا جو ڈرائنگ روم کا منظر پیش کر رہا تھا ،،،، وہاں دو صوفہ سیٹ نہ صرف پرانی طرز کے تھے بلکہ خود بھی پرانے تھے۔ چوں کہ کمرہ بڑاتھا اس لیۓ دو سیٹ صوفوں کے باوجود تنگی کا احساس نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔ درمیان میں دو ہی میزیں پڑی تھیں۔ ،،،، دیواروں پر جابجا  برگیڈیئر ادریس صاحب کی فوجی ادوار کی تصاویر لگی ہوئی تھیں، ایک دو خود مسٹر مسز کی جوانی کی تصویریں تھیں ،،،، اس کے علاوہ بہت پرانے چھوٹے چھوٹے گلدان یاد ہیں ،،، کوئی قابلِ ذکر ڈیکوریشن نہیں تھی۔ البتہ دو طرح کے قالین جو بچھے تھے ،، کبھی قیمتی اور خوش رنگ رہے ہوں گے ،، لیکن اب بدرنگ اور کافی پرانے ہو چکے تھے ،،، صفائی کا معیار بھی واجبی سا تھا ،،،،،،،،،،۔
یاد دلا دوں کہ یہ 1979ء 78ء کی بات ہے ،، گویا پنڈی میں نہ تو ذیادہ رش کا شور تھا ، نہ ہی آج کی طرح یوں لوگوں کا اژدھام تھا ،،،،" ویلیوز " کے پردے ابھی لہرا رہے تھے " پھَٹے " نہ تھے۔اسی ڈرائنگ روم کے ساتھ ہی ڈائیننگ روم تھا جو تھوڑے سے اوپن پارٹیشن کے ساتھ تھا، وہاں بارہ کرسیوں والا ڈائیننگ ٹیبل اور کرسیاں دھری تھیں ،، اور باقی کسی قسم کی ڈیکوریشن نہ تھی ، البتہ پردے تمام کھڑکیوں ، دروازوں پر موجود تھے۔ اور شاید اس کے بعد جو ایک دروازہ نظر آرہاتھا وہ کچن ہو گا ،، کہ کسی وقت کسی برتن کی آواز آجاتی ،،۔ 
ڈرائنگ روم ،،، کی حالت قطعی ایسی نہ تھی ، کہ کوئی اچھا تائثر لیا جاسکتا،،، جتنا ادریس صاحب کے اعلیٰ خاندانی پس منظر نے ہمارے دلوں پر اثر کیا ہوا تھا،،،، کہ وہ دونوں کسی نواب فیملی سے تعلق رکھتے تھے ،،، اور یہ مری روڈ پر موجود " سوقِ ادریس " انہی کی تھی اسی لیۓ اُن کے نام پر تھی ۔ یہ بڑی سی کوٹھی شاید خود خریدی تھی ،،، اس زمانے میں زمینیں سستی تھیں ،،، اب اُن دونوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا دور اسی میں گزر رہا تھا۔ چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک بہت باوقار ، خوب صورت ، دبلی پتلی ، مسکراتی ، ریشمی ساڑھی میں ملبوس خاتون اندر داخل ہوئیں۔ اور بہت اچھے سے انداز سے سلام دعا کی،، اُنھوں نے ہم دونوں بہنوں کو گلے لگایا ،،، اور اباجی سے کہا " تو میجر صاحب یہ ہیں آپ کی بیٹیاں " ،،، ہمیں بٹھایا ،، اور اسی دوران ایک 15،14 سالہ لڑکی دوپٹے میں لپٹی ، شربت کا ٹرے رکھ گئی۔ مسز ادریس ، نے شربت لینے کا کہا ، اور وہ ہمارے نام اور کام کا پوچھنے لگیں ، یہ سن کر کہ ہم " شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوں اور بچوں کی پرورش میں مصروف ہیں ،،، تو انھوں نے خوشگوار انداز سے سراہا ،،، " یہ بھی تو اہم ترین ڈیوٹیاں ہیں " کچھ دیر وہ اباجی کے ساتھ ،، صدر ایوب کے بارے میں ،،، اور پھر برگیڈیر صاحب کی مسلسل گرتی صحت کے بارے میں بات کرتی رہیں ، کہ اس دوران دوپہر کا ایک بج گیا ،،، اباجی فوراً اُٹھے ،،، شاید باتوں میں انھیں وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا تھا ،،، اور اجازت چاہی ،،، مسز ادریس نے شُستہ اور اپنائیت کے لہجے میں کہا ،،،" میجر صاحب ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کھانا کھاۓ بغیر چلے جائیں ،،، آپ کو اندازہ ہے ادریس صاحب کتنا بُرا منائیں گے ،،، " یہ جملے اتنے اصرار سے کہے گۓ کہ ہم مجبوراً بیٹھ گۓ ۔ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دو مرد اور پھر ایک باوقار عورت سلام کر کے آنے کی اجازت چاہی۔ انھوں نے خوش دلی سے اور بہت نارمل انداز سے انھیں "ویلکم" کیا ،، جیسے یہ روز کے آنے والے ہوں ۔ بعد میں پتہ چلا ، دونوں مرد الگ الگ اپنے کام سے اور خاتون اپنے کام سے آئی تھیں۔ اتنے میں وہی بچی سامنے نظر آئی اور وہ اُن کے لیے بھی شربت دے گئی ،،، مسز ادریس نے سب کے لیۓ وہیں کھانا لگانے کا کہا ،،، اور ابھی کچھ اور منٹ گزرے تھے کہ ایک بابا جی جو خاصے بزرگ تھے ، ہاتھوں میں صرف ہاٹ پاٹ پکڑے آۓ اور اُن درمیانی میزوں پر رکھ دیا،، پھر ایک اوربزرگ اسی حلیۓ اور عمر کے آۓ اور برتنوں کی ٹرے لا کر ہمارے سامنے رکھ دی۔ دونوں نے کوئی سلام نہیں کیا اور نہ ہمیں نظر بھر کر دیکھا ،،، اور یوں پھر پہلے بزرگ ایک ڈونگا پکڑے لشٹم پشٹم آۓ اور رکھ گئے ،،، مسز ادریس نے پلیٹیں لینے کا اشارہ کیا اور بسم للہ کرنے کا کہا ،،،ہاٹ پاٹ میں روٹیاں بھری ہوئی تھیں ، اور ڈونگے میں دال مونگ تھی ،،،،، ہم نے کھانا شروع کیا ابھی چار نوالے لیۓ ہوں گے کہ دوسرے بزرگ ایک ڈونگا لاۓ اور دھر دیا ،، مسز ادریس نے اس کا ڈھکن اُٹھایا ،، تو مرغی کا سالن تھا ، سب نے تھوڑا اور سالن ڈالا ،،،، ابھی اس کی بھی چار نوالے لیۓ تھے کہ دونوں بزرگ آگے پیچھے ایک ایک ڈونگا لیۓ آۓ اور رکھ کر چلے گۓ ،، میں یہ مناظر پہلے بےزاری سے اور اب دلچسپی سے دیکھنے لگی ۔اِن ڈونگوں میں سبزیوں کی بھجیا تھیں ،، مجھے تو مزید کی چاہت نہیں تھی ،،، لیکن اباجی اور آپا نے تھوڑا سا لیا اور ، لنچ کا دورانیا ختم ہوا ،،،، دونوں آنے والے مرد مسلسل بولتے رہے ، کبھی آپس میں اور کبھی مسز ادریس کے ساتھ ! خاتون بالکل خاموش تھیں ،،، سب نے کھانا کھا لیا ،، تو مرد حضرات نے اپنے کام کی یاددہانی کا کہہ کر رخصت چاہی ،،، ہم نے بھی شکریہ ادا کیا اور اُن کو بھی کبھی واہ آنے کا کہا ،،، لیکن مسز ادریس نے آج ہی میزبانی کے سبھی حق استعمال کرنے تھے کہ ،، " ارے بھئ اب چاۓ بن چکی ہوگی وہ تو پی کر جائیے گا ، اماں بی ،، چاۓ لاجواب بناتی ہیں " ،،، اور ویسے بھی آپ نے بازار کوئی دور تو جانا نہیں ، ساتھ ہی تو دکانیں ہیں"،،، اور ہم پھر اس نہایت عام سے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گۓ۔ جس کے " مالکوں " نے لنگر کھولا ہوا تھا ، ، اسی دوران مسز ادریس نے معذرت کر کے کچھ دیر کے لیۓ اندر گئیں ۔ تو وہاں بیٹھی درمیانی عمر کی باوقار خاتون سے آپا نے باتیں شروع کردیں ، انھوں نے بتایا ،،، مسٹر،مسز ادریس بہت ہی عجیب اور عظیم ، لوگ ہیں یہ ،جو آپنے باہر بر آمدے میں بیٹھے " فقیر " لوگ دیکھے ہیں یہ عین ساڑھے بارہ بجے آ جاتے ہیں ، ابھی اور بھی لوگ آگۓ ہوں گے یہ سب یہیں دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں ،،، اور یہ دونوں بزرگ دنیا میں بالکل تنہا ہیں ، لیکن کچھ کام کر کے کھانا چاہتے ہیں ،، آپ نے ان کی عمر اور صحت دیکھ لی ہے ،، مسز ادریس کے نزدیک یہ ہی کام سب سے آسان تھا لہذٰا یہ کام کہ کھانا لگانا اور دینا کرہی لیں گے ، اب جو رفتار اور طریقہ ہے ،،دیکھ ہی لیا ہے ،،، کیا مجال کہ انھیں کوئی ٹوک دے ،،، اتنے میں مسز ادریس آگئیں اور ان کے ساتھ وہی بچی پھر چاۓ کی پیالیوں کی ٹرے رکھی اور چلی گئی،،، اسی دوران کھانے کی میز کی طرف دو پیارے سے بچے عمر 7 اور 8 سال آۓ ، ایک ٹیوٹر آۓ اور پھر وہ بچی بھی آگئی ،، اور پڑھائی ہونے لگی ،،، اس خاتون نے بچی کے بارے میں پوچھا کس جماعت تک پہنچی ہے ؟ تو انھوں نے بتایا ، " میٹرک " میں اس سال گئی ہے ،،، پھر ادھر اُدھر کی باتوں کے دوران مسز ادریس نے بتایا یہ دونوں بچے میرے نواسے ہیں اور میری بیٹی میرے ساتھ ہی رہتی ہے ، چاۓ ختم ہوئی اور ہم نے شکریۓ کے ساتھ اجازت لی ،،، باہر بر آمدے میں دو تین فقیروں کا مزید اضافہ ہو چکا تھا ،،، اور جناب ،، لان میں کچھ آوارہ کُتے بھی کھانے کے منتظر تھے ، ،،،،،،،،،،،،،،،۔
صرف کچھ عرصے بعد اتفاقاً اسی اجنبی خاتون سے ایک تقریب میں ملاقات ہو گئی ،،،وہ بھی پہچان گئیں ، اور مسز ادریس کا ذکرِخیر ہوا ۔۔۔ انھوں نے بتایا ، وہ جو ایک نوجوان لڑکی آپ نے اُن کے گھر دیکھی ہو گی ،،، وہ کوئی ان کے دروازے پر چھوڑ گیا اور انھوں نے اسے پالا پوسا ،،، اور بعد میں وہ بی اے تک پہنچی اور شکر کہ اس کی شادی بھی مسز ادریس نے اپنے ہاتھوں کر دی تھی ، ،،اور کچن کے کام کے مزید بزرگ خواتین بھی بےبس اور بےآسرا تھیں ،، وہ مسز ادریس کی مکمل ذمہ داری میں تھیں ، اُسی سے علم ہوا کہ ادریس صاحب انتقال کر چکے ہیں اور اُن کی مسز بھی ہاسپٹل میں ہیں ،، !وہ اُس عام ،،، بلکہ بالکل ہی عام سے ڈرائنگ روم ،،، کو جب بھی یاد کرتی ہوں ،،، تو دل سے اُس کے مکینوں کی قدر محسوس کرتی ہوں ،،، دل سے ان کو سلام پیش کرتی ہوں ،،، وہ ایسے لوگ تھے جنھوں نے زندگی میں سے " اپنی ترجیحات " چُن لی تھیں ،، اور پھر وہ "بےنیاز " ہو گے تھے ،،،،، توکل اور بےنیازی کی دولت کا اور پیسے کی دولت کاحسین امتزاج، اور صحیح استعمال کم ہی دیکھنے میں آیا ہے ،،، پیسے کی دولت تو ہم سب کے پاس اکثر ہوتی ہے ،،، اسے اپنی آرام و سکون کے لیۓ استعمال کرنا گناہ نہیں لیکن ،،،، اگر مخلوقِ خدا کی خدمت اور انسان کی عزت کا جذبہ ،، بغیر ناک بھوں چڑھاۓ ساتھ ساتھ چلے تو کیا ہی بات ہو ،،،، تو کوئ اگرآپ کے ڈرائنگ روم سے احترام اور میزبانی کا سلوک لے کر گیا،، توآپ کو ہی یاد کرے گا ، آپ کو سراہے گا ، آپ کے لیۓ دعاگو ہو گا۔ آپ کے شاندار ڈرائنگ روم کو کوئی یاد نہیں رکھے گا ۔ ہمارے لیۓ رہ جانے والے یہ ہی اعمال ہیں ۔ کبھی کبھی شاندار ڈرائنگ روم ،،، کتنے تنہا ہوتے ہیں ،،،،،!۔
( منیرہ قریشی، 13 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں