پیر، 4 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(55)۔

یادوں کی تتلیاں " (55)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب اپنا سکول شروع ہوا ، تو اکثر نئےننے تجربات کیۓ جاتے ، یا ہمیں نئے نئے تجربات سے گزرنا پڑتا ، اب سمجھ آتی ہے کہ " جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا " ہی تواصل زندگی ہے ۔ اگر سبھی دن لگے بندھے ، یک رنگی لیۓ ہوتے تو ہم اِتنا کچھ نہ سیکھ پاتیں ،جو کچھ بھی سیکھا دوسروں کو گائیڈ بھی کیا ۔ 
جیسا پہلے لکھا تھا کہ یہ صرف تین بنیادی جماعتوں پر مشتمل سکول تھا ، ارادہ بھی اتنا ہی رکھنے کا تھا ، کہ سرمایہ بھی محدود تھا ۔ لیکن جب میں نے چارج سنبھالا تو تین بچے کلاس وَن کے بھی تھے ،جنھیں ان کے والدین نے یہ کہہ کر لے جانے سے انکار کر دیا تھا کہ ایک تو ہمارے باقی دوبچےاسی سکول میں ہیں ہم بڑے کو کہاں الگ کسی اور سکول میں بٹھائیں! دوسرے دو ، بہت خوشحال خاندان سے تھے اور وہ جس سکول میں تھے وہاں چل نہیں پا رہے تھے ، والدین کے خیال میں ،، یہاں کم بچے ہیں ،ذیادہ توجہ ملے گی تو چل پڑیں گے ، اس وقت ہمیں بُرا لگا کہ یہ زبردستی ہم پر ان بچوں کو لاد رہے ہیں ،، لیکن انہی تین بچوں سے ہماری ٹریننگ ہونے لگی ۔ اوریہ سب اللہ کی خصوصی کرم نوازی تھی کہ وہ ہمیں سٹپ وائز تیار کر رہا تھا ۔ ورنہ اگر ہم پر یکدم 10 یا 20 بچوں کا بوجھ پڑ جاتا ، اور ہم انصاف نہ کر پاتیں تو ، شروع سالوں میں ہی ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جاتا،،، شاید یہ بات والدین کو پتہ بھی نہ چل سکتی ،، لیکن ہمارے ضمیر پر بوجھ بن جاتا ، انہی تین بچوں سے ہمیں جلدی جلدی اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع ملتا چلا گیا ، اور اگلے ہی سال میں جب ون میں 16 بچے آموجود ہوۓ ، تو ہمیں انھیں پڑھانے ، لکھانے ، اور ایکسٹرا ایکٹیوٹیز کروانے میں کوئی مسئلہ  نہ ہوا۔ اس دوران مسز انجم رضوی ، انگلش ،  ریاضی اور سائنس پڑھاتیں ، جبکہ میں اردو ، اسلامیات ، اور مطالعہ پاکستان  لیتی رہی ۔ جوجی نے سکول کے اکاؤنٹ کا شعبہ سنبھالے رکھا ۔ ہم وقت پر اپنے سٹاف کو تنخواہیں  دیتیں ، اور ذیادہ تر سکول کی چیزوں کی خریداری کے لیۓ ہی بقایا پیسے بچتے ،،، تب اپنے آپ کو مائینس کرنا پڑتا ۔ سکول کا سلیبس تو مل جل کر بنایا جاتا ، لیکن سب کلاسز کا " ٹائم ٹیبل" سال ہا سال میں ہی بناتی رہی،ہمارے بڑھتے قدم بہت ہی آہستہ آہستہ چل رہے تھے ،اور اپنے طور پر ہم کچھ ایسے کامیاب نہیں تھے کہ مطمئن ہونے کا سوچتے ،،،،، جیسا میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ بہت جُز رسی سے گزارا کر کے کبھی ایک کمرہ اور کبھی اس کے ساتھ لٹرین بنوایا، پھر مزید پیسے جمع ہوۓ تو دو کمرے اور بنوا لیۓ ، اس طرح ہماری جدوجہد کا آغاز بھی ٹف تھا ۔ اسی دوران چوتھا سال آگیا ، اور اب سکول میں 150 بچے تھے ،، اور کلاس فور تک جماعتیں تھیں۔ کہ سٹاف ممبرز کی طرف سے پُرزور فرمائش ہونے لگی کہ "پیرینٹ ڈے" منایا جاۓ ، چناچہ تیاری شروع کی ، صرف تین ہفتے ان کو تیاری کے دیۓ۔ اپنی بھی سخت نگرانی رکھی کہ کوئی ناچ گانا ،، یا غیرمعیاری ڈرامہ وغیرہ نہ پسند کر لیا جاۓ ۔ اور اس دن کے لیۓ مہمانِ خصوصی، اپنی عزیز سہیلی ، اور اس سکول کے اجراء کی وجہ بننے والی ،،،" مسز شاہدہ نعیم " کو چُنا ۔ انکل رشید کو بھی خصوصا" دعوت دی ۔ اس فنگشن میں اباجی ، بڑے بھائی جان ، اور آپا ،،، فرنٹ لائن کے مہمانانِ گرامی تھے ،،، ہمارے سکول کا اپنا گراؤنڈ اتنا بڑا تھا کی 250 لوگ بہ آسانی بیٹھ سکتے تھے ،،،،ہم نے مہمانوں کے لیۓ پُرتکلف چاۓ کا اہتمام کیا تھا ،،، لیکن میں سکول کے
اس سب سے پہلے فنگشن پر بہت" ٹینس " تھی اس لیۓ مجھ پر ذرا بو کھلاہٹ طاری تھی،، حالانکہ " مہمانِ خصوصی " ،، اپنی ہی "پکی سَکی" سہیلی تھی ، اس کے سامنے کچھ بلنڈر ہو بھی جاتا تو کوئی فکر کی بات نہیں تھی لیکن بچوں کے والدین بھی ہمارے لیۓ " مہمانِ خصوصی" تھے ، ، اور چاہتی تھی کہ وہ بھی ہمارے فنگشن سے مطمئن ہو کر جائیں۔ خیر شاہدہ اور انکل رشید وقت پر پہنچے ،ان کا استقبال بڑے بھائی جان ، آپا ، جوجی اور ہماری سینئر ٹیچرز نے کیا ، ، اباجی اور میں سٹیج کے قریب رہے ، اور وہاں ان کو خوش آمدید کہا ، اور بٹھایا،،، سب سے پہلے ایک پیارے بچے نے تلاوت کی اور ایک نے نعت پڑھی ،،، اس کے بعد کلاس وائز بچوں نے اپنے اپنے تیار شدہ ڈرامے پیش کرنے شروع کر دیۓ۔ اور واقعی بہت ہی "ڈیسنٹ" انداز سے بچے ، اپنے لیول کے مطابق " نظمیں آڈیو " کی بیک گراؤنڈ کے ساتھ ایکٹ کرتے ہوۓ آتے اور چلے جاتے ، ،،، ایک موقع پر مجھے احساس ہوا ، سب " بہت آہستہ چل رہا ہے " ،،، یا یہ میرا خیال تھا،،، جو بھی تھا ، میں اُٹھی اور ایک دفعہ ذرا سب کو ڈانٹ آئی کہ، بچے جلدی جلدی سٹیج پر آئیں ،! اس بیک سٹیج ڈیوٹی میں میری بیٹی نشل ( نور العین ) اور جوجی کی بیٹی ماہرہ لیلیٰ بھی شامل تھیں ۔ وہ بھی میرے چڑھے پارے کو دیکھ کر گھبرا گئیں ۔ اور ٹیچرز کی مدد کرنے لگیں۔ اس دوران نرسری اور پریپ کے پیارے بچوں نے " جوڈو کراٹے " کی پرفارمنس کی تو " والدین نہال ہو گۓ ۔ لیکن جب اگلا" سِکٹ "پیش ہوا تو آواز کافی مدھم تھی ،،، مجھے پھر غصہ آیا اور اُٹھ کر سٹیج کے پیچھے پہنچی اور ٹیچرز ، اور مائک انچارج لڑکے سے کہا " طُو ، طُو " کہاں ہے اس کا رُخ ٹھیک کرو ،،، آواز نہیں آرہی ،، اب میں یہی لفظ دہرا رہی ہوں ، اور سب " بلینک " چہروں کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھیں کہ یہ کیا کہہ رہی ہے ، یہ کیا لفظ ہے ،،،،، دراصل بوکھلاہٹ میں ، مَیں سپیکر کو پنجابی زبان میں بول رہی تھی جسے " طُو طُو " کہتے ہیں ،،، وہ لمحے تو گزر گۓ لیکن آج 23 سال بعد اس " سین اور لفظ طُوطُو " کو نہ صرف انجواۓ کیا جاتا ہے بلکہ ،،، جب ہم میں سے کوئی ، اپنی بات سمجھا نہ پا رہا ہو ،،، تو کہہ دیا جاتا "اچھا تو طُوطُو " ،،،،، دوسرا لطیفہ یہ ہوا کہ نرسری کے جن بچوں نے " فینسی ڈریس شو " میں حصہ لیا ہوا تھا ،، وہ اپنے اپنے لباس پہنے پہنے نہ صرف تھک گئے تھے بلکہ بور ہو چکے تھے ،،، جب میں سب کو ڈانٹ کر اس بہت بڑے کمرے کے ایک کونے میں اس گروپ کو دیکھا ، تو اس کی ٹیچر عائشہ بھی بدحواس نظر آئی ،،، تمہیں کیا ہوا ہے ؟ میں اسی ٹینشن میں اس سے بولی ، تو وہ بولی " میڈم ، ہمارا کسان اتنا رو رہا ہے کہ کلہاڑی اُٹھانے سے بھی انکاری ہے ،، ہم کہہ رہے ہیں ، للہ ابھی چُپ ہو جاؤ ، لیکن انھوں نے چُپ ہونے سے انکار کر دیا ہے " !!!! عائشہ کی اتنی ، سُتھری اردو کو میں اس وقت کہاں انجواۓ کرنا تھا ،،، لیکن بعد میں یہ سب یاد کر کر کے ہنسی نہیں رُکتی ۔ لیکن سچ بتاؤں ، یہ انتہائی چھوٹے بچوں کی پرفامنس اتنی آرگنائز اور اتنی اچھی رہی کہ ہر ایک نے تعریفوں کے پُل باندھے ،،، بلکہ شاہدہ نے کُھلے دل سے سب آٹمز کی تعریف کرتے ہوۓ کہا کہ میں اپناسکول دس سال سے چلا رہی ہوں،اور دس فنگشنز کروا چکی ہوں لیکن تمہارے بچوں نے ، عین بچوں کے مطابق کار کردگی دکھائی ،،،،،، یہ ستائشی جملے ،، تو جیسے ہماری تھکاوٹ دور ہوگئی۔ ایسے ہی اور فنگشن ہوۓ لیکن ان میں سے دو اور کا ذکر مختصر طور پر کرنا چاہوں گی ۔ 
ایک " پیرنٹس ڈے " ایسا منعقد ہوا جس کےہونے تک ہمارے سکول کی کلاسز آٹھویں جماعت تک ہو چکی تھیں ، اگرچہ یہ تبدیلی بہت آہستہ آہستہ رو پزیر ہوئی ،لیکن یہ بات پہلے لکھ چکی ہوں کہ ہم نے خود کو " واہ واہ " کے چکر کے بجاۓ ،،، محنت اور ایمانداری کے دائرے میں رکھا اور یہ سکول قریباًً سولہ سال تک 8 ویں جماعت تک پہنچا ، شروع کے 6 سال تو پانچویں ، تک رہا ،،،، بہر حال ، جس فنگشن کا ذکر کر رہی ہوں ، یہ واہ کے بہت خوبصورت اور بڑے ہوٹل میں ہوا ،،، ہمیں اس کے لیۓ اُن سےاجازت لینی پڑی ، بچے اور ان کے والدین کو ملا کر قریبا" 600 افراد تھے ، بچوں نے بہت ہی معیاری اور خالص پاکستانی تصور اور تہذیب کے اندر رہ کر اپنے ڈرامے پیش کیۓ ۔،،،، لیکن جب نرسری جماعت کے پیارے پیارے بچوں نے تمام اسلامی ممالک کے ملبوسات پہن کر " جوڑا جوڑا " بن کر جب سٹیج پر آۓ اور اُن کے ہا تھوں میں اُسی ملک کا جھنڈا بھی پکڑا ہوا تھا جسے لہرا رہے تھے اور پسِ منظر میں " ہم مصطفوی مصطفوی ہیں " کا پُرجوش ترانہ لگا ہوا تھا ،،، یہ ہی سکول کا آخری آئٹم تھا ،،، پورا ہال کھڑے ہو کے نہ صرف خود گا رہا تھا بلکہ تالیوں سے وہ گونج اُٹھی کہ ہوٹل کے بےشمار لوگ بھی آ کر اس میں شامل ہو گۓ ،،، حتیٰ کہ کیمروں کی چکاچوند میں بہت سے والدین جذباتی ہو کر رونے لگے ! خود میں بھی جذباتی ہو چکی تھی ،، اب سٹیج کا پردہ گر چکا تھا ۔ چاۓ کا اعلان بھی ہو چکا تھا ، لیکن خواتین میرے گلے لگ لگ کر مجھے مبارک باد کہتیں ، یہاں تک کہ مہمانِ خصوصی جو اس کالج کی موجودہ پرنسپل تھیں جہاں کبھی میں نے اور جوجی نے پڑھا تھا۔،،،، انھوں نے کہا " بچوں کی پرفامنس اتنی اچھی تھی ، کہ لوگوں کو چاۓ بھی بھول گئی ہے۔ انھوں نے ہمارے سٹاف کے ساتھ چاۓ شروع کی تب باقی لوگوں کو خیال آیا ۔،،،،،،، پھر کچھ وقت اور گزرا اورہماری کلاسز نہم دہم تک پہنچ گئیں ! انہی دنوں "پیرنٹس ڈے " کا موقع پھر آگیا ۔ اس میں جماعت دہم نے اپنا ڈرامہ تیار کیا وہ " علامہ ؒ کی مشہور نظم " شیطان کی مجلسِ شوریٰ" پر تھا ،، بچوں نے انتہائی محنت سے اس کے مختلف مجالس کے اشعار یاد کیۓ اور کہیں نہ اٹکے ،،،، شیطان کے گیٹ اَپ والے بچے " محمدعلی گلفراز " نے کمال دکھایا ۔ اور یہ بھی اتنی قابلِ تعریف پیش کش رہی کہ اس میں موجود "کیڈٹ کالج حسن ابدال "کے پرنسپل نے دل کھول کر تعریف کی ،،،،،،، اور یوں ہمارے سکول کی یہ اچھی ، تقریبات اچھی شہرت کا باعث بھی بنیں ۔الحمدُ للہ !۔
( منیرہ قریشی ، 4 دسمبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں