جمعہ، 22 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(65)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 65)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 ڈرائنگ روم" (8)۔"
۔16 ستمبر 1989ء میری بھانجی کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے بیٹے عمیر سے نوازا تو ، میں نےاور جوجی نے لاہور کا پروگرام بنا لیا۔ ہم نے بچوں کو ان کے باپوں کے پاس گھر چھوڑا ، ،، اور لبنیٰ اور یعقوب کے گھر پہنچ گئیں۔ ہم صرف دو ،دن کے لیۓ گئیں تھیں ، پہلے دن پہنچیں ،، مبارک سلامت ہوئی ،، گپ شپ ہوئی ! اور دوسرے دن قریباً دس بجے ،، یعقوب سے فرمائش کی " سُنا ہے اشفاق صاحب تمہارے گھر سے نزدیک ہی رہتے ہیں ، اس نے کہا کہ وہ تو ہمارے سٹریٹ سے صرف دو سڑیٹ پچھلی طرف رہتے ہیں،،،، یہ سن کر میں نے کہا" کیا کچھ دیر کے میں اُن سے مل سکتی ہوں اگر تم چھوڑوا دو " ،، اُس نے کہا میں دفتر کے لیۓ نکل رہا ہوں آپ ساتھ چلیں ! میں تو خوشی سے نہال ہو گئی، جلدی سے تیار ہو کر اس کے ساتھ چل دی ،،، جوجی اور آپا نے کہا " چلو جلدی آ جانا " ۔
121۔C ماڈل ٹاؤن کے اس تاریخی گھر جس کے باہر مشہور اور منفرد تختی لگی ہوئی تھی " داستان سراۓ " تک صرف پانچ منٹ کی ڈرائیو کے بعد پہنچے ،، گیٹ پر جو چوکیدار کھڑا تھا ،، پوچھنے پر کہ اشفاق صاحب ہیں ، اس نے سادگی سے ( بغیر نخوت کے ) بتا دیا ، جی وہ گھر پر ہی ہیں ۔ میں نے اسے کہا کہ اندر جا کر بتاؤ ،،، میں واہ سے آئی ہوں ، اور کچھ دیر کے لیۓ آسکتی ہوں ؟؟ ،،، اس نے کہا آپ چلیں ، اور خود آگے چل پڑا ،، میں بر آمدے سے ایک بڑے دروازے کے کھلنے پر نظریں جماۓ کھڑی تھی کہ اشفاق صاحب نمودار ہوۓ ، میں نے سلام کیا ،، اور صرف اتنا کہا " کیا میں صرف تھوڑی دیر کے لیۓ آ سکتی ہوں ! انھوں نے بغیر توقف کے کہا " آپ بالکل بیٹھ سکتی ہیں ،،،! میں اپنی خوشی کا بیان نہیں کر سکتی ،،، یہ سن کر نہ ہی پوچھیں کیا محسوس کر تھی سواۓ اس کے کہ میں ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی ،،، ! میں جھٹ سے یعقوب کی طرف مُڑی اور اسے جانے کا کہا ، وہ حیران بھی ہوا ہوگا کہ " خالہ نے کچھ بتایا نہیں کہ کتنی دیر سے لینے آؤں " جب میں اس ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی ، تو اندر کم ازکم 25 ،22 خواتین و حضرات بیٹھے ہوۓ تھے ، میں داخلی دروازے کے فوراًبعد دائیں جانب دو تین کرسیاں پڑی تھیں ، اُن پر بیٹھ گئ ،، انھوں نے نہایت   شفقت ، سے کہا کچھ دیر آپ بیٹھیں ، بس کچھ ڈسکشن رہ گئی ہے ، پھر آپ سے بھی باتیں ہوں گئ ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں خوشی کی اس لہر میں تھی ، جیسے کوئی " وکٹری سٹینڈ " پر کھڑا ہو تو اسے باقی ہر چیز پس منظر میں لگتی ہے ، اور میں صرف خود کو اور اشفاق صاحب کو پیشِ منظر میں دیکھ رہی تھی ۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کہہ کیا رہے ہیں !!۔
میں چند منٹ بعد حواسوں میں آئی تو ذرا ڈرائنگ روم پر نظر ڈالی۔ ایک اچھا بلکہ کافی وسیع کمرہ ،، جس کے تین کونوں پر تین ہی مکمل صوفہ سیٹس رکھے تھے ایک سنتھیٹک کارپٹ پر بہت بڑا قالین بچھا تھا ، کہیں کہیں میز بھی دھرے تھے ، سبھی خواتین حضرات چاۓ پی اور کچھ کھابھی رہے تھے ، کسی نے منہ موڑ موڑ کر نہیں دیکھا کہ کون آیا ہے ۔ بلکہ میرے بیٹھتے ہی ، لمحہ بھر میں جو ڈسکشن ہو رہی تھی اسی انداز سے شروع ہو گئی ،،، میں اتنی بے وقوف سی تھی کہ غور ہی نہیں کیا کہ سامنے بیٹھے لوگوں میں شاید کوئی مشہور شخصیات ہو سکتی تھیں ،، ان دنوں میں تو عام گھریلو عورت تھی ، جسے اِن معروف ادیبوں کو پڑھنے کے علاوہ ، ایسا کوئی خواب میں بھی سوچ نہیں سکتی تھی کہ اب کسی اپنے پسندیدہ ادیب یا شاعر سے ملاقات ہو پاۓ گی ،،، اور آج حیران کن انداز سے میں اشفاق صاحب اور بانو قُدسیہ آپا کے ڈرائنگ روم میں موجود تھی ،، اتنے بڑے لوگ ،، اتنا بڑا ڈرائنگ روم ،،، اور اتنا سادہ ،جتنا سوچا جا سکتا ہے ،،،، اتنے میں بانو صاحبہ دوپٹہ ٹھیک کرتی ، بے حد سادہ کپڑوں میں گھر کے اندرونی دروازے سے اندر داخل ہوئیں ، میں سامنے ہی تھی ، انھوں نے مجھے دیکھتے ہی ، بے حد شفقت سے سلام کا جواب دیا اور کہا ، ارے تم یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو ،، چلو وہاں ان لوگوں کے قریب چلو ! میں نے کہا "نہیں میں تو صرف آپ کو دیکھنے آئی ہوں ، میں یہاں ٹھیک ہوں ،تب انھوں نے کہا "تو میں آپ کے پاس بیٹھ جاتی ہوں "،،، میری سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہوں کہ میں تو محض " گُھس بیٹھۓ " کے طور آ بیٹھی تھی ،، اور یہاں وہ عزت کہ شرمندگی ہو رہی تھی ،، وہ سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گئیں ، اور ساتھ ہی اندر آۓ ملازم سے ہلکی آواز میں کچھ کہا ، انھوں نے پو چھا " کہاں سے آئی ہو ، کیا کرتی ہو وغیرہ ، گویا تعارفی جملوں کا آغاز ہوا ، اور یہ اتنے نارمل ،اور عام سے انداز سے بات چیت ہونے لگی کہ میں ریلیکس ہو گئ، ، ، اور تب میں نے انھیں بتایا کہ" میں نے آپ کے کینسر سے متعلق اخبار سے پڑھا ، اور پھر معلوم ہوا آپ کا علاج مکمل ہو چکا ہے ،،، اس وقت میں نے آپ کو خط لکھا تھا کہ ، یہاں میرے گھر کے آس پاس بہت سبزہ ، اور خوبصورتی ہے ، گھر بھی بڑا اور آرام دہ ہے ، ، ہو سکتا ہے آپ کی مرضی جیسا نہ ہو ،،، لیکن اگر آپ تبدیلیء ماحول ، اور سکون کے لیۓ آئیں گی ، اور کچھ دن ریہیں گی تومیرے لیۓ اعزاز ہو گا ،،، " تو آپ نے مجھے جواب بھی دیا تھا ،، جو میں نے ہر آنے ، جانے والے کو دکھایا ! کیوں کہ میرے لیۓ تو یہ بھی اعزاز ہے کہ اتنے بےشمار لوگوں میں سے آپ نے مجھے میرے خط کا جواب دیا۔" ،،، انھوں نے دلچسپی سے ساری بات سنی ،، اور بہت شکریہ کہتی رہیں ،،، اور اس دوران ڈرائنگ روم میں بیٹھے افراد میں ملازمین ٹرے رکھتے گۓ۔اور ایک ٹرے میرے اور بانو آپا کے درمیان رکھے میز پر رکھی گئی، اور بہت پیاری " کراکری " میں دو ڈونگوں میں سالن اور ساتھ دستر خوان میں روٹیاں لپٹی تھیں،، انہوں نے محبت سے مجھے شروع کرنے کا کہا ، میں تو میکانکی انداز سے تھوڑا سا سالن ڈال کر ایک روٹی ایک پلیٹ میں رکھ لی۔ انھوں نے بھی کھانا شروع کیا ،، وہ بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور یہ بھی کہ آپ کہاں ٹھہری ہوئی ہیں وغیرہ ، مجھے تو یوں لگا کہ بانو آپا " ہر نئے آنے والے کو ریلیکس کرنے کا کام نہایت خوبی سے انجام دیتی تھیں "،،،،۔ 
جوں ہی کھانا ختم کیا ، اور ملازم ٹرے اُٹھا لے گیا ،، اور اس دوران کافی لوگ خدا حافظ کر کے جانے لگے ، پھر بھی 10،12 لوگ موجود تھے ، کہ دروازہ پھر بجا ، اس وقت تک مجھے یہاں بیٹھے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چلا تھا ،،، اشفاق صاحب نے ہی دروازہ کھولا تو سامنے آپا اور جوجی کھڑی تھیں ، سلام کے بعد آپا نے میری طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا " ہم جی اِس کی بہنیں ہیں اور اتنی دیر سے یہ آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہے اور ہم جیلس ہو کر آگئیں ہیں ، اب آپ کو ہمیں بھی تھوڑی دیر بیٹھنے کی اجازت دینی ہو گی " اور ان " گریٹ لوگوں نے" بہت خوش دلی سے آنے کا کہا ،،،، میں تو اورنہال ہو گئی کہ اب مزید بیٹھنے کا موقع مل گیا ہے ۔ 
اب سوچتی ہوں ،،، جب خود بھی بڑھاپے میں قدم رکھ لیا ہے ،،، کہ مسلسل ، صبح سے مصروفیت ،، کچھ پرانے کچھ نۓ اجنبی لوگوں سے ملتے رہنا ،،، ان سے باتیں کرنا ،،، کسی کو اپنی بیماری کی نہ تو تفصیل بتانا ،، نہ ہی بیماری کا بہانہ کر کے ملنے سے گریز کرتے رہنا ،، نہ ہی سلسلہء لنگر خانہ کم ہو نا ،،،، اور ماتھے پر بل نہیں ،، نہ ہی اپنےاصل کام ( لکھنا ، پڑھنا)کے لیۓ وقت کے زیاں کا احساس ،،،میں اتنی متاثر ہوں ، یہ احساسِ عقیدت بیان نہیں کر سکتی ،،، اور ان کے ڈرائنگ روم میں ہوئی دوسری ملاقات کی تفصیل اب اسی سلسلے کی کڑی ہو گی ،،، میری زندگی کے نہایت خو بصورت ، اور قیمتی دنوں میں سے ایسے ہی دن ہیں جن میں مجھے ان " اپنی ذات میں اداروں " جیسی شخصیات سے سے ملنے کے مواقع ملے ۔ ابھی تو آپا اور جوجی کے آنے کے بعد مزید جو باتیں ہوئیں ،،، میں نے اپنی عادت کے مطابق انھیں " ایک ملاقات " کے عنوان سے لکھ لیا تھا ، اس کے بعد مجھے اشفاق صاحب کے ان اقوال کو سکول چلانے کے دوران جب کسی بڑے ، یا چھوٹے فنگشن میں تقریر کا موقع ملتا تو والدین کے سامنے انہی کے اقوال دہراتی اور اپنا " امیج " بلند کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔ میں جب یہ جملہ کہہ بھی دیتی ہوں،، " جب ایک دفعہ اشفاق صاحب اور بانو قُدسیہ سے ملنے گئی تو،،،،،،،" میں تو جیسے اپنی نظر میں خود ہی اہم ہو جاتی ،،،،،،!!!!نیچے بانو آپا کا محبت نامہ شیئر کر رہی ہوں ! جو 1984 ء سے سنبھال کر رکھا ، اور آج اصل جگہ پہنچ گیا !۔

( منیرہ قریشی ، 22 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں