ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(66)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 66)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 ڈرائنگ روم" (9)۔"
تو میں ذکر کر رہی تھی ، اشفاق احمد صاحب اور بانو قدسیہ صاحبہ جیسے مثالی جوڑے کی ،،، اور یونیک لوگوں کی ، کہ، ،،،، جب آپا اور جوجی بھی ان کے بہت بڑے اور بہت سادہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئیں تو باتوں کا سلسلہ بالکل ایسے شروع ہوا ،، جیسے ہم سب پہلے سے واقف تھے ،، اس دوران ڈرائنگ روم میں صرف 5 افراد رہ گئے تھے جو اپنے سامنے رکھے پیپرز اور کتب ،، پر اتنی محویت سے مصروف تھے کہ انھیں جیسے آس پاس کی خبر ہی نہ تھی، اور اب دونوں میاں ،بیوی مکمل طور پرمتوجہ ہو کر ہمارے سامنے بیٹھ گئے،،، آپا نے اپنی پُر اعتماد فطرت کے ساتھ ،، سلیقے سے باتیں شروع کیں ،، جوجی اور میں تو بس منہ سی کر بیٹھی رہیں اور میں تواُس وقت " سراپا کان " بن چکی تھی ،،،، اور جب آپا نے کچھ مشاورت والے سوال پوچھے تو وہ بھی بس لاجواب اندازِ جواب تھے۔ 
آپا نے ایک بات پوچھی کہ " جب ایک بندہ کسی بے کار ضد پر اڑ جاۓ جبکہ اسے تمام عواقب سمجھاۓ جا چکے ہوں تب کیا کریں ،،تو بانو آپا نے جواب دیا ،،،،۔
" تب جاۓنماز بچھا لیں اور سجدے میں جا کر اپنے اللہ سے کہہ دیں ،،،یا تو میرے اُونٹ کو گھوڑا بنا دے ،یا ، میرے گھوڑے کو اُونٹ بنادے ،،، درمیان کے چکر میں نہ رکھنا "۔
پھر جوجی نے پوچھا کہ" ہم ایک سکول کھولنا چاہتے ہیں،،، اور ہم چاہتے ہیں ، ہر کلاس میں کچھ بچے وہ رکھیں جو بہت ہی غریب گھرانوں سے ہوں ، تاکہ اِس سکول سے ایک ہی وقت میں ایسے بچے بھی فائدہ اُٹھائیں ۔ " یہ سُن کر اشفاق صاحب نے جواب دیا ،،،، ۔
" آپ کے اس خیال سے میں متفق نہیں ! کیوں کہ ہم کھاتے پیتے خوشحال بچوں کے ساتھ ،،، ایسے غریب اور کم حیثیت بچوں کو بٹھا کر اِن بچوں کی حسرتوں میں اضافہ کرتے ہیں ،، اِن بچوں کی عزتِ نفس پر آنچ آ سکتی ہے ،،، کوشش کریں کہ اگر آپ نے اِن بچوں سے ہمدردی کرنی ہے ، تو الگ پروجیکٹ کریں ! " ہم نے بعد میں سکول شروع کیا ،،، الحمدُللہ ،، جب یہ 15،16 سال بعد اس سٹیج تک پہنچا ، ، کہ ہم اپنے سکول سے اتنا حاصل کرنے لگیں کہ اپنے پرانے خواب کو پورا کر سکیں ،تو حالات بنتے گۓ ، بلکہ اُسی ربِ کریم و خبیر و علیم نے تمام وسائل عطا کیۓ کہ اُسی پروجیکٹ کو شروع کیا , جس کا ذکر اشفاق صاحب سے کیا تھا،،، اور آج 11 سال سے وہی سکول الگ سے چل رہا ہے ،،، جو الگ ہی چلنا چاہیے تھا ،،،، 
کچھ بات چیت بچوں کی تربیت کے حوالے سے چل نکلی،،، کیوں کہ ہم دونوں کے بچے اسی تربیتی عمروں میں تھے ،،، جب مائیں سمجھتی ہیں !!!۔
ہم سا عقل مند کوئی نہیں ،، جو ہم کررہے ہیں ، ایسا کوئ نہیں کر سکتا ! چناچہ سوال کیا " بچے کی تربیت میں کیا بات مدِ نظر رکھنا ضروری ہے!؟
اشفاق صاحب نے چار اہم نکات بتاۓ ،،،۔
1) بچے کو " نہ " کرنا سیکھیں ، اس کی ہر بات کو مانتے چلے جانا ، بچے کو ظاہر کرنے لگتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ٹھیک ہے ۔اسی لیۓ وہ اپنے مطالبات کو منوانا اپنا حق سمجھنے لگتا ہے ،،،، اسے " نہ " سننے کی عادت ڈالیں !!!۔
2) بچے کو بازار کم سے کم لے کر جائیں ،، تواتر سے بازار لے جانے سے ، اس کی آنکھوں میں سامان کی بہتات کا اثر ہونے لگتا ہے ،،،اور اگر آپ اسے ایک کھلونا لے کر دیتے ہیں ،تو اسی دوران وہ دوسرے کھلونے کا دل میں سوچ کر آتا ہے ،،، نیا کھلونا جلد ہی اسے بیکار لگنے لگتا ہے ، اور اب نۓ کی فرمائش شروع ہو جاتی ہے !۔
3) بچے سے بہت ذیادہ مت پوچھیں " میرا بیٹا ناشتے میں کیسا انڈا کھاۓ گا ، فرائ ،،؟ آملیٹ ؟ اُبلا یا ملا جلُا وغیرہ ،،،، بچہ بے حد معصوم ہوتا ہے ، لیکن جب ہم اسے غیر ضروری اہمیت دیتے ہوۓ اس کی فرمائش کے پابند ہوتے چلے جاتے ہیں ،،، تو وہ بھی غیر ضروری اہمیت حاصل کرنا اپنا ضروری حق سمجھنے لگتا ہے ،،اور اسے احساس ہوتا چلا جاتا ہے کہ " میں ہوں چیز دیگرے " ،،،، اور اہمیت کے اس چکر میں وہ دوسرے بہن بھائ یا دوست کو"لٹ ڈاؤن" کرنا سیکھتا چلا جاتا ہے ۔ بچے کے سامنے وہ رکھیں جو سب کے لیۓ بنا ہے ،، یا جو ماں چاہتی ہے کہ بچہ یہ ہی کھاۓ !۔
4) بچے کے دوست مت بنیں، اس کے ماں باپ بنیں ، کیوں کہ دوست وہ ، گیٹ سے باہر بناۓ گا ۔ آپ عمر کے اس دور سے گزر چکے ہیں ،،، اس لیۓ اس کے رہبر ، رہنما بنیں ،،، اسے رہنمائ دینے والا گھر سے ملنا چائیے ، ، وہ دوست سے مشاورت نہ کرے ۔ ورنہ بھٹک سکتا ہے ،،، اس لیۓ اپنے بچے کو صرف روزانہ کی مصروفیت پوچھنے والا ٹائم ٹیبل سیٹ کریں ،، اور وہی وقت اس کے مسائل پوچھنے کا ہوگا ، آپ کے لیۓ یہ طریقہ بچے میں اعتماد پیدا کرے گا۔
مجھے نہیں معلوم ،،،، اِن نکات سے کتنے لوگ متفق ہوتے ہیں ،،، یا کتنے لوگوں کے لیۓ یہ موئثر ہوتے ہیں ،،، لیکن مجھے ہمیشہ ایک ایسے " دانا " بندے کے تجربات کا عکس لگے ،، جو خود بھی بہت سی غلطیوں کے بعد ان نتائج کو اخذ کر سکے ہوں گے ،،!"۔
اور اس دن ہم تینوں آدھ گھنٹے کے لیۓ بیٹھنے  گئیں لیکن 4 گھنٹے بیٹھیں ،،، لیکن کیا مجال اِن دونوں کی طرف سے " اُکتاہٹ " کا شائبہ بھی ہوا ہو ،،، اور ہم محبتوں کے مرکز سے " محبت " کا خزانہ لے کر اُٹھیں ،،، جس کو میں نے آج بھی محبت کے خوشبو کے رومال میں لپیٹ کر رکھا ہوا ہے۔
پھر ایک مدت گزر گئی،،، اور مجھے اپنی عزیز سہیلی مہ جبین کے پاس لاہور جانے کا موقع ملا ، جو اس وقت تک لاہور شفٹ ہو چکی تھی،،، اس نے اپنے گھر دوسری دو سہیلیوں ثمینہ اور فریدہ کو بھی بلایا ،،، خوب گپ شپ ہوئی۔ اور طے پایا کہ اشفاق صاحب سے ملنے کی کوشش کرنی چایئے ، کیوں کہ اُن تینوں کو نہ ان کے گھر کا علم تھا نہ کوئی فون نمبر معلوم تھا ، اس وقت موبائل عام نہیں ہوۓ تھے ،، اس لیۓ فون ڈائریکٹری کا استعمال ضروری تھا،،، بلکہ ایکسچینج سے نمبر معلوم کیا اور فون کیا تو اشفاق صاحب کے گھر سے "رفیق " نام کے لڑکے نے بتایا ،کہ سب ہی گھر پر ہیں ،لیکن اشفاق صاحب کے پاس پی ٹی وی والے آۓ ہوۓ ہیں ، وہ شاید نہ مل سکیں ،،، میں نے اسے کہا "بانو آپا " تو مل لیں گے تو اس کا مثبت جواب سن کر تیار تو ہم تھیں ہی ،،، ثمینہ کی کار میں جو وہ خود ڈرائیو کر رہی تھی پہنچ گئیں ۔ ان کے گیٹ پر حسبِ سابق چوکیدار نے بھی احترام کی زبان سے اندر جانے کا کہا ،،، اور اسی نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر ہمیں اندر داخل کیا ،، آج کی ملاقات اور 12،،11 سال پہلے کی ملاقات کے وقفے میں اس وسیع و عریض ڈرائنگ روم کے حُلیۓ میں شاید رتی برابر فرق پڑا ہو گا۔ ورنہ صفائ کا وہی اعلیٰ معیار تھا ، یا تبدیلی تھی تو صرف پردوں کی،، تو اس مرتبہ ڈرائنگ روم کے آخری کونے میں ہم بیٹھیں ،، ، مہ جبین کہنے لگی ،،، بھئ مجھے تو گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے ،، ،لیکن ثمینہ اور فریدہ خود اعتمادی سے ، تسلی میں تھیں ،،، اُس وقت میں ان کی حرکات کو انجواۓ کر رہی تھی کہ میں جب ان سے ملی تھی تو 34، 35 سال کی عورت تھی ،،، اور اب آئ ہوں تو ہم 46 ، 45 سال کی پختہ عمر ہے ،،، بھلا اس عمر میں کیا گھبراہٹ!!! لیکن اِن خواتین کی زندگیوں میں " شاپنگ مالز ، اور سہیلیوں ، نے گھیرا ڈالا ہوا تھا ،، وہ کبھی کبھار کوئی کتاب پڑھ لیتیں ،، لیکن ایسی ادبی شخصیات کو جا کر ملنے کا تردد ، نہ کیا ۔ بہرحال بانو آپا ،،، اُسی سادگی ، متانت اور باوقار انداز سے آئیں ، ہم سب اُٹھ کھڑی ہوئیں ، سلام دعا ہوئی ،، انھوں حسبِ سابق اخلاق کے ساتھ پوچھنا شروع کیا ،،، کہاں سے آئی ہیں ،، کیا کرتی ہیں وغیرہ ،،، لیکن میں پہلے تو جھجھک گئ کہ اُن سے پہلی لمبی ملاقات کا ذکر کروں یا نہیں ،،، پھر سوچا شاید یاد رکھا ہو،،، اورقارئین کو ناقابلِ یقین بات لگے ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب میں نے ان سے واہ کینٹ اور میری باقی دونوں بہنوں کے دیر تک بیٹھنے کا ذکر کیا تو انھوں کہا " یاد آگیا تین خوب صورت بہنیں آئی تھیں " ،،، یکدم مجھ پر اپنی اہمیت کا احساس طاری ہو گیا ، میں نے انھیں اپنی سہلیوں کا تعارف بہت خود اعتمادی سے کرایا ،،، اور چند جملوں کے بعد اپنی سہیلیوں کو ملاقات کا ، ، باتوں کا موقع دیا ،، بس 20 ،25 منٹ گزرے ہوں گے جب ملازم ، قہوے کی خوبصورت پیالیوں میں قہوہ لے آیا ،، اور ساتھ " کھجور مکس کیک " تھا اور سموسیاں تھیں ،،، ( آپ بےشک سوچتے رہیں یہ کتنی جُزیات کے ساتھ اُن کھانے کی اشیاء کو بھی بیان کر رہی ہے ،،، کیسے ممکن ہے کہ یہ سب یاد رہے ،،، جناب محبوب کی باتیں ، الفاظ ، کپڑے جوتے ، ان کا رنگ اور ان کے برتن ، اور معقولات ، سبھی اہم لگتی ہیں ، اور دل پر لکھی جاتی ہیں ) ،،، البتہ مجھے اپنی " دکھی سہیلیوں " کے سوال ، وغیرہ کچھ یاد نہیں ،،قہوہ یا چاۓ کا پوچھنے پر ہم نے رسماً انکار کیا ،،، تو بانو آپا نے کہا " کل ہی سری لنکا سے بہت اچھا قہوہ آیا ہے آج آپ اسے پیئں اور بتائیں کیسا لگا ،،، اور یہ خوب صورت میزبانی کہ اچھی چیز " اجنبی مہمانوں " سے شیئر کررہی تھیں ،، واقعی قہوہ بہترین تھا،، ! جب میں نےاشفاق صاحب کا پوچھا تو انہوں نے بتایا " پچھلے لان میں اُن کے پروگرام " زاویہ " کی ریکاڈنگ ہو رہی ہے ، آپ شرکت کرنا چائیں گی ،،، لیکن چوں کہ  ہم نے اور جگہوں پر بھی وزٹ کرنا تھا ، تو اس ایک گھنٹے کی ملاقات کو دلی شکریۓ کے ساتھ اختتام پزیر کیا ،، ، میں نے بانو آپا کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا تو میرے کندھے کو پیار سے تھپتھپایا ! ہم سب انھیں اللہ حافظ کہہ کر باہر آئیں ! ۔
اور میری سہیلیاں اب " ٹرانس " سے نکلیں ، اور چہکنے لگیں ،، ثمینہ نے فرمایا " منیرہ ، آج تم نے وہ کام کیا ہے کہ ، ہماری خوشی کا حال نہ پوچھو،جو مانگو گی ہم تمہیں دلانے کی پابند ہیں " باقی دونوں نے بھی بھرپور تائید کی ، اور جب میں نے کہا " بس پھر یہ وعدہ کرو کہ آئندہ بھی یہاں آتی رہو گی ،، تو سبھی نے زور ، زور سے سر ہلاۓ ، " کیوں نہیں کیوں نہیں " ،،، اور پُلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا ،،، مہ جبین تو مختصر سے عرصے میں کینسر میں چل بسی ،، اور پہلے اشفاق صاحب ،،پھر بانو آپا ،، بھی سچے راستے پر چلے گئے ،،، باقی دو ،الحمدُللہ حیات ہیں ، لیکن پھر دوبارہ نہیں گئیں۔ 
یہ کیسے لوگ تھے جن کی صحبت میں وقت گزارتے ہی لوگ ہلکے پُھلکے ہو کر اُٹھتے تھے !۔
؎ اَساں چُپ ساں لوک پیۓ پُچھدے سن !!
اساں شروع کیتی ، ہُن مُکدی نیئں ،،، !!
( منیرہ قریشی ، 23 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں