ہفتہ، 9 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(57)۔

 یادوں کی تتلیاں" (57) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میں نے ایک عام گھریلو خاتون ، اور تین بچوں کی اماں ہوکر ، " ورکنگ وویمن" کی شروعات کیں ، میں سمجھتی ہوں ، نوجوانی میں کوئی جاب کرنا خوب شوق و ذوق کا معاملہ ہوتا ہے،،، جب کہ خود میں توانائی بھی ہوتی ہے ،،، البتہ بال بچوں ، اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ملازمت کی ابتداء کرنا خاصا ، آزمائش کا باعث ہوتا ہے! کیوں کہ بندہ کسی اور روٹین کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ،،، البتہ مجھے وہ جاب ملی جس میں ، مجھے بچپن سے دلچسپی تھی ،،، اور آج بھی ہے،،،، اسی لیۓ میں نے اسے بہت سنجیدگی اور شوق سے لیا ،،، اور،،،،جب اپنے سکول کی ابتدا کی تو ، اللہ نے مزید ہمت عطا کی۔ صبح سویرے نماز کے بعد کام کی ابتداِ ہوجاتی ،، ناشتہ ،، اور بچوں کو سکول بھیج کر خود ، جلدی جلدی تیاری کرتی ، اس دوران مہ جبین پہنچتی اور پھر سکول ،،، جیسا میں نے پچھلی اقساط میں سکول کا ایریا اور عمارت کا لکھا ہے ،،،، اور مزید بےترتیب کمرے بھی بنوا لیۓ کہ ، بچے بتدریج بڑھ رہے تھے۔اس دوران پاکستان نے ، 30مئی 1998ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا ،،، تو جیسے پوری دنیا کو سکتہ ہو گیا ۔ جب دنیا سکتے سے نکلی ، تو اسلامی ممالک نے شادیانے بجاۓ ،مبارک سلامت کا شور اُٹھا ،،، ہم وہ قوم ہو چلے تھے ، جس کے دن رات یکسانیت کا شکار ہو چکے تھے ،،، کسی طرف سے کوئی تحقیقی کامیابی کی خبریں نہیں مل رہی تھیں ،،، ایسا کیوں تھا یا کیوں ہو رہا تھا ہم " عام عوام " ،، تو بالکل لاعلم تھے ،،، کہ یہ دھماکہ ہوا ، اور ایک دو نہیں ،،،، سات دھماکے کیے گئے،
 اور   اللہ رب العزت کا شکریہ کہ سبھی کامیاب رہے ۔یہ خبر ،، یہ کامیابی جیسے قوم کے لیۓ ، نئے خون مل جانے کا باعث بنی ،،، دل ، دماغ ،، اور وطن کی فضائیں  ،،مٹی ، پھول پودے تک جھومتے محسوس ہونے لگے ،،، یوں لگتا جیسے ہم سب بھی "نئے" بن  گئے ہیں۔ 
مزے کی بات کہ اس دھماکے کے بارے میں ،یا دوسرے ممالک سے اس کا تقابلی فرق کیا ہے کیا نہیں ہے کوئی خاص معلومات نہیں ،،،، بس خوشی ہے کہ ہمارے سائنسدان کامیاب و کامران ہو گئے،،،،،، اس وقت تک نہ موبائل کی ریل پیل تھی ، نہ گھر گھر کمپیوٹر کا ہونا عام تھا ،،، اس لیۓ آ،،، جا،،، کر اخبار ، رسائل یا ٹی وی کی خبریں ہی معلومات کا ذریعہ تھیں۔ تب ہی بڑے بھائی جان ،،، ایک دن آپا کے ساتھ شام کو کہیں گۓ ہوۓ تھے،،، شام کو اباجی سے روز کی ملاقات تو ہوناہوتی تھی ، تب انھوں نے بتایا "" بھئ ، ہمارے گھر سے چھٹا گھر " طارق جمال صولیجہ صاحب" کا گھر ہے ، وہ اُس ایٹمی سائنسدانوں کی ٹیم کے ایک سائنس دان ہیں جو ابھی ابھی ایٹمی کارنامہ کرچکی ہے ،،،تم لوگ انھیں اپنے سکول میں بلاؤ ! تاکہ وہ اصل معلومات دیں " " میں اور تمہاری آپا اُن کے گھر کیک لے گۓ تھے،، اور نہ صرف اس شاندار کامیابی پر مبارک باد دی ،، بلکہ اُن کا شکریہ ادا کیا کہ آپ سب کی وجہ سے اس قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے "" ،،،، یہ سب سن کر مجھے اور جوجی کو بہت خوشی ہوئی کہ اتنی اہم شخصیت ، سے ہم جلد متعارف ہوں گے ۔ اگلے ہی دن صبح ، سکول کے آف ہونے کے بعد سٹاف ممبرز کو بتایا کہ " اتنی اہم شخصیت " ہمارے پڑوس میں ہے اور اب ہم نے انھیں باقاعدہ انھیں بلانا ہے تو کیا کچھ ہونا چاہیۓ ۔،،،،،،،،،،،،،،،،،سب سے پہلے جن ٹیچرز کا مضمون ، فزکس رہا ہے ،، وہ اچھے سوالات مرتب کریں ،،،، اور پھر کمرے میں بلیک بورڈ ہو ، یا سفید بورڈ ہو ،،، پھر چاۓ میں کیا کچھ ہو،،، اور آخر میں !ہم انھیں کیا تحفہ پیش کریں۔یہ سب مشاورت کے بات ایک"دعوت نامہ " دینے ، جوجی اور بڑے بھائی جان گۓ ۔ اور انھوں نے آنے والے بدھ کی حامی بھری ،،، اپنی طرف ان کے اعزاز میں جو کر سکتے تھے کیا ،، ان کی آمد پرسکول کا پہلا سفید بورڈ خریدا گیا ، تاکہ وہ اُس پر مارکر سے تفصیل سے ہمیں بتا سکیں ،، جب " صولیجہ صاحب " تشریف لاۓ ،، تو اوروں کا پتہ نہیں لیکن میرا توخوشی سے جو حال تھا بیان نہیں کر سکتی ،،، اور جب اُن کے تحمل ،منکسرانہ انداز کو دیکھا ، تو دل میں اُن کی قدر مزید بڑھی ۔ اُس وقت ہماری ٹیچنگ سٹاف بہ مشکل پندرہ افراد پر مشتمل تھا ، لیکن سب ہی اپنے کام سے جُڑی ، محبِ وطن خواتین تھیں ،،، " طارق جمال صولیجہ صاحب " کو اس " ذرا بڑے کمرے "میں لے گئے جہاں سب ہی ٹیچرز اکٹھی تھیں ،، اور سفید بورڈ بھی لگا دیا گیا تھا ،، پہلے انھوں نے کچھ تفصیل " ایٹم " سے متعلق بتائی ،،، اور جب انھوں نے " چاغی پہاڑ" کوبورڈ پر" ڈرا " کر تفصیل بیان کی ،،،، تو ہماری معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوا ،،، ورنہ ہم صرف ادھوری ، اخباری خبروں تک محدود تھے ۔ انھوں نے ہمیں دو گھنٹے تک تفصیل سے ، اور آسان ترین الفاظ میں سب کچھ بتایا ،،، اور پھر چاۓ کے دوران بھی معلومات بہم پہنچائی جاتی رہیں ۔ بڑے بھائی جان بھی موجود رہے۔ اور بعد میں ہم نےاس یاد گار دن کے طور پر انھیں کچھ سوینئر جوسکول کے بچوں کے بناۓ ہوۓ تھے، اور پین ، ڈائری وغیرہ تحفہ پیش کیا ،،، اس دو ڈھائی گھنٹے میں ، انھوں نےایک دفعہ بھی کسی " اُکتاہٹ " کا اظہار نہ کیا ، کہ یہ " عام فہم خواتین " ہیں انھیں مزید کیا بتانا ۔ نہ ہی انھوں نے کسی قسم کا علمی رعب ڈالنے کی کوشش کی ،،، یہ ایسے اوصاف تھے جو کہ میں نے اب تک انگلیوں پر گنے لوگوں میں دیکھے ہیں ۔ وہ اتنے سادہ سے حلیۓ میں تشریف لاۓ تھے کہ عام بندہ انھیں دیکھ کر اندازہ نہ کر سکتا کہ یہ ہمارے ملک کے " ہیرو " ہیں ،،،، جاتے وقت انھوں نے بتایا اُن کا سب سے چھوٹا بیٹا اسی سکول میں " نرسری " میں پڑھتا ہے ، ،، اور باوجود اس کے کہ سبھی بچوں کے داخلہ فارم وغیرہ میں خود سائن کر کے رکھتی تھی ،،، مجھے علم ہی نہیں تھا کہ ایک سائنسدان کا بیٹا یہاں داخل تھا ،، میں تو شرمندہ سی ہو گئی کہ مجھے کیوں نہیں پتہ چلا کہ " صہیب جمال صولیجہ " ان کا بیٹا ہے۔ انھوں نے فوراً بتا دیا میں نے " والد کا پیشہ" کے خانے میں صرف "انجینئر " لکھا تھا ،،، ،،، کچھ لوگوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کی تربیت " کیسے عظیم والدین " نے کی ہوگی ، جن کے اخلاق کو دیکھ کر انسان بہت کچھ سیکھتا ہے ۔بعد میں جلد ہی اُن کی نفیس ، بااخلاق ، اور رکھ رکھاؤ کی تہذیب سے آراستہ بیگم سے ملنا ہوا ،،، اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ،، الحمدُللہ ۔اُن سے مل کرہر دفعہ اتنا ہی لطف آتا ہے ، جیسے کسی ہم مزاج ، ہم مشرب شخصیت کے آنے پر دل کی کلی کِھل اُٹھے ، یہ اُن دونوں میاں بیوی کی محبت اور اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے ہمیں ہمیشہ " اہمیت " کا احساس دلاۓ رکھا ۔ صہیب جمال ،، نے بالاآخر ہمارے ہی سکول سے میٹرک ، شاندار نمبروں سے پاس کیا ۔ وہ بچہ بھی اسی تہذیب سے آراستہ نظر آیا ، جو سکول کے بچوں کے لیۓ مثال بنا رہا ،،، وہ اپنے اساتذہ سے آج بھی رابطہ میں رہتا ہے ، اور اپنی کامیابیوں کی خبریں شیئر کرتا رہتا ہے ،،،، پڑھنے والوں کو یہ احساس ہو رہا ہوگا کہ ،،، "سولیجہ فیملی " نے ان کو کچھ ذیادہ ہی " محبت " دی ہے اسی لیۓ اتنا ذکرِخیر،  ہو رہا ہے ،،،، میں یقین سے کہتی ہوں کہ ہم میں سے جو اِنھیں ملے ، تو وہ یہ ہی " محسوسات " لیۓ لوٹے گا ۔ چند دن پہلے مسز صولیجہ کا فون آیا " کہ صہیب جمال " نے انجینئرنگ " کےبعد ایم ایس کےنتائج میں " گولڈ میڈل " لیا ہے ، آپ کو خوشی ہو گی اسی لیۓ فون کیا ہے " ،،،،، یقیناً اللہ اولاد کے نیک ہونے اور پھر لائق ہونے کی صورت میں جس سکون سے نوازتا ہے ، یہ سکون بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے ۔ میں نے اس کی شاندار کامیابی کو سنا تو " فخر" محسوس کیا ،، اور دعا ہے کہ اپنے والد کی طرح " سچا پاکستانی اورکامیاب سائنسدان بنے آمین ! مجھے ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہوۓ 28 سال ہونے کو ہیں ،، پہلے کافی عرصہ خود ٹیچر رہی اور پھر صرف ٹسٹ کاپی کی ری چیکنگ تک محدود ہو گی ،، ٹسٹ کاپیوں پر بچوں کے والدین کے سائن کروانے کے لیۓ کاپیاں گھر بھیجی جاتیں ہیں اور ماں یا باپ اس ٹسٹ پر سائن کر دیتا ہے ، بچے کے فُل نمبر لینے والے والدین ہمشہ سائن کر کے فارغ ہو جاتے ہیں ،،،، صہیب جمال واحد بچہ تھا ، اور ، ہے ،،، جس کی کاپی پر سائن کے ساتھ " الحمدُللہ " بھی لکھا ہوتا تھا ،! ! یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ،،،، کیا ہم میں سے کبھی کسی نے ایسا اپنے بچے کی کامیابوں پر کھلے عام اللہ کو " کریڈٹ " دیا ؟؟ ہم بچے کی کامیابی کو یا تو ماں کی محنت سے جوڑتے ہیں یا بچے کی ذہانت کو کریڈٹ دیتے ہیں ! میرے خیال سے نا متفق ، کہتے ہوں گے " بھئ یہ تو سب "انڈرسٹوڈ"ہوتا ہے لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟؟، جی ہاں ، لیکن اس کا اظہار بھی کوئی کوئی کرتا ہے ۔ اور ہمیں کرنا ہی چاہیۓ ،کہ وہ ہی یہ ذہانت ، متانت ، اور فطانت عطا کرتاہے ، ، اُس کا کرم نہ ہو تو یہی قابلیتیں " شیطانی ذہانت " کی طرف بھی چلی جاتی ہیں ۔لہذٰا اُس کی حمد و شکر گزاری کا اظہار بھی ہوتے رہنا چاہیے ،،، اب یہ فیملی اسلام آباد شفٹ ہو چکی ہے ، لیکن ان کی بیٹی کے بچے اسی سکول میں پُراعتماد اندازسے پڑھ رہے ہیں ، جبکہ آس پاس ۔ پاکستان کے مشہور سکولوں کی چین کھلی ہوئی ہے۔ لیکن جب ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا اس ادارے پراعتماد دیکھتی ہوں ،،، تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ہم نہ تو دائیں دیکھ رہی ہیں ، نہ بایئں ،،،، اپنے مشن کوسامنے رکھا ہوا ہے کہ جتنا ہو سکے " بچوں کی تربیت کو شاملِ تعلیم " رکھیں ، اِسی پہلو کو اولیت دیں ! اللہ ہمیں ہمارے مقصد میں کامیاب کر دے آمین ۔ 
( منیرہ قریشی ، 9 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں