جمعہ، 15 دسمبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(62)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 62)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 ڈرائنگ روم " (5)۔"
بیٹھک یا ڈرائنگ روم ،،، کا ایک تائثر لے کر ذہن نشین ہو جانا ،،، یا تو میری ہی کمزوری تھی ، یا یہ بات سب ہی میں موجود ہوتی ہے ،،، بس صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ کسی کے عام سے ڈرائنگ روم سے فوری طور پرایسے ، آف ہوجاتے ہیں ،،، کہ پھر گھر والوں کے رویۓ یا اُن کی اقدار بےمعنی محسوس ہونے لگتی ہیں ،،، !جب کہ میں اُن میں سے نہیں ، یا تو کچھ لمحے یا کچھ ماہ میں ضرور لگتے ہیں ۔
واہ کینٹ ، میں ہم 1964ء میں آۓ۔ اور آج الحمدُ للہ 2017ء ہے اور جیسے یہ ہی شہر قسمت میں لکھ دیا گیا ہے ،،، لیکن اسی چھوٹے سے شہر نے بے شمار کامیابیاں اور خوشیاں بھی دیں ،،، یہاں لاتعداد ایسے لوگ ملے ، جو ہماری زندگیوں کا حصہ بن گۓ۔ جیسا کہ واہ میں آتے ہی ہمارے پڑوسی ، آنٹی ، انکل رشید اور اُن کی چاروں بیٹیاں،،، اور بھی بہت سے لوگ۔ جن کی محبتیں اپنی جگہ یاد گار تھیں اور ہیں۔
جب ہم کبھی کلب جاتیں ، تو وہاں کچھ لوگ ہماری توجہ کھینچ لیتے ،،، انہی میں کرنل رمضان کی فیملی تھی ،،، کرنل صاحب ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ چکے تھے ، کہ اُن کی پہلی بیوی 9 بچے چھوڑکر فوت ہو گئی ،،، اب اتنے ڈھیر بچوں کی دیکھ بھال کوئی کب تک کر سکتا تھا ،،، انھیں دوسری شادی کا مشورہ اچھا لگا، ، اور قسمت کا قرعہ نسرین باجی کے نام نکلا ۔ رشتہ کروانے والی نے جب سب سے چھوٹے چار ماہ کے بیٹے کو اُن کی گود میں ڈالا ۔ تو وہ کانپ گئیں۔ کہ شاید یہ ہی اُن کی قسمت تھی اور اُس حسین و جمیل خاتون نے جو خود بھی بہ مشکل پینتیس کی تھیں ،،، ہاں کر دی ! خود کرنل صاحب خاصے کم شکل تھے، ماں بھی سادہ سی ہوگی ۔اب بچے ملے جُلے تھے ،،، کیوں کہ سادہ مزاج ، سادہ دیہاتی پس منظر نے اور اوپر تلے کے بچوں نے شاید ہی کچھ سوچنے کا موقع دیا ہو ،،، اور یہاں نسرین باجی ،، جو نہایت کلچرڈ ، خوب صورت ، پڑھی لکھی آئیں تو جیسے کرنل صاحب کی ہی نہیں بچوں کی بھی کایا پلٹ گئی،،، وہ خودپہلے سےایک بیٹی کی ماں بھی تھیں ، ، لیکن جب ہمارا ، اُن سے ذیادہ آنا جانا شروع ہوا،، تو وہی چار ماہ کا بچہ چھٹی جماعت میں پہنچ چکا تھا ،،، کرنل صاحب ریٹائر ہو کر اپنے ذاتی گھر میں آچکے تھے جوہمارے گھر کے نزدیک ہی تھا ،،، یہ ایک ڈبل سٹوری ،بڑا گھر تھا،،، جہاں کرنل صاحب کی بڑی فیملی ممبرز ہی نہیں ،، سماگئی بلکہ ،، دو شادی شدہ بچیوں کے بچے بھی وہیں نظر آتے ،، کہ ان کے تعلیمی مسائل ایسے چل رہے تھے کہ انھیں نانا، نانی کی طرف رُکنا پڑتا۔ 1979ء میں جوجی کی شادی کی تیاری ہورہی تھی ، اور ٹپیکل انداز سے آپا کے گھر رضائیاں بنائی جارہی تھیں ،،، نسرین باجی ، نے آپا کے گھر کے دروازے کی بیل بجائی،تو آپا حیران ہو گئیں ،،، سلام دعا کے بعد اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، تو انھوں نے اپنے آنے کا مقصد بتایا کہ، کل سے عزیز نے تکرار کی ہوئی ہے کہ " میری "مِس " کی شادی ہونے جا رہی ہے ،،، آپ اکثر ملنے والوں کے گھراس موقع پر جا کر کسی مدد کا پوچھتی ہیں ،، میری مس کے لیۓ بھی کوئی کام پوچھ کر آئیں ! "( دراصل اُن دنوں جوجی ،اُس کے سکول میں ٹیچنگ کر رہی تھی اور وہ بچوں میں پاپولر بھی تھی ، ایک پسندیدہ ٹیچر کے لیۓ تو اس کی عقیدت کا اظہار تو بنتا ہے) آپا نے بتایا سب کام ہو گیا ہے ،،، بس آج کل رضائیاں " نگندنے" کا کام چل رہا ہے ،،،اور حیرانی اس بات پر ہوئی کہ انھوں نے اس " پرانے روایتی " انداز کے ہنر کے متعلق سن کر کہا " میں دیکھتی ہوں ،، نہ آیا تو سیکھ لوں گی، اور اگلے دن وہ صبح 10 بجے آ پہنچیں،،، باہر صحن میں دری پر ریشمی رضائی بچھی ہوئی تھی ،، اور انھوں نے بس 15 منٹ سیکھنے میں لگاۓ اور آپا کی طرح ہی نفاست سے پھولوں کے ساتھ ٹانکے لگانے لگیں ،،، میں بھی وہیں تھی ،، اور ایک نہایت ماڈرن ، خوب صورت ، اور بہت رکھ رکھاؤ والی خاتون ،، رضائ میں ڈورے ڈال رہی تھیں اور خوش دلی سے یہ کام کیا جا رہا تھا ، ساتھ ساتھ ایسے گپ شپ ہورہی تھی جیسے بہت عرصے کی واقفیت ہے ، کوئی شک نہیں کہ ہم سب انھیں " ایڈمائر " کر رہی تھیں۔ ایک دفعہ چاۓ کا وقفہ ہوا ،، اور پھر کام شروع ،، ٹھیک ایک بجے وہ اُٹھ گئیں کہ ، باقی کل آؤں گی ، کرنل صاحب کے کھانے کا وقت ہونے والا ہے ۔ اور یوں نسرین باجی آٹھ دن متواتر آتی رہیں ، ہم نے انھیں شادی کا کارڈ بھجوا دیا ۔ 
شادی کی فراغت کے بعد ، آپا نے کہا" ہمیں نسرین کا شکریہ ادا کرنے جانا چایئے ۔ واقفیت نہ ہونے کے باوجود اُس نے اپنے بیٹے کی خوشی کو مقدم سمجھا، اور آتی رہی" ،،، گھر تو قریب ہی تھا،میں اور آپا ایک شام فون کر کےپہنچ گئیں ۔ نہایت باذوق انداز کی ڈرائیو ، وے ،، بر آمدہ ،، اور پھر " ڈرائنگ روم " ،،،، ! خوب بڑا ڈرائنگ روم ،،، جس میں نفاست ، ذوق اور شہانہ انداز تھا، قیمتی قالین ، صوفے ، اور ہر کونے میں ڈیکوریشن کے لیۓ خوبصورت اشیاء ،،اس کی دیواروں پر ، نہ صرف آرٹسٹک دو تین تصاویر تھیں ، بلکہ کالی لکڑی کے بنے افریقی ، قبائل کے مختلف چہرے بھی لٹکے ہوۓ تھے جو میں نے پہلی مرتبہ کسی کے گھر دیکھے ،،، ان کی دیواروں ، یا کارنرز میں بہت سے غیرملکی اشیاء سجی ہوئی تھیں ، جو اُن کے غیر ملکی سیاحت میں لائی گئی ہوں گی !، ،، گویا ،، وہ ڈرائنگ روم ،،، ایک کافی خوشحال ،، آسودہ حال ،، لیکن بہت باذوق اہلِ خانہ کی نشان دہی کر رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر کسی " ڈیکوریشن سٹور " کا احساس نہیں ہوا جیسا کہ اکثر خوشحال گھرانوں میں ہر اچھا پیس سجانے کا رواج ہوتا ہے ، اور نتیجتاً وہ ڈیپارٹمنٹل ،،،سٹور نظر آنے لگتا ہے ،، مزید یہ کہ اِن سب پر جو دھول جمی ہوتی ہے ، اسے صاف کرنا بھلا دیتے ہیں ،،،! ہمیں ڈرائنگ روم میں '" اصغر " نے رہنمائی کر کے بٹھایا ،،، ( اصغر اِن کے گھر میں پلا بڑھا ، اور اس فیملی کا حصہ تھا ، یہیں اس کی شادی کی گئی ، اور آج وہ جوان بچوں کا باپ ہے ۔ لیکن اسی گھر سے وابستہ ہے )یہ وہ دور تھا جب ڈرائنگ روم میں ہلکی لائیٹس، ( جنھیں رومینٹک لائٹس کہا جاتا تھا ،) کا رواج تھا ،وہی وہاں بھی لگی تھیں ،میَں اور آپا ، پینڈو سوچ والے ، اصغر کے جاتے ہی میں نے ایک لائٹ اور جلا دی ۔ کہ اگلے منٹ نسرین باجی آ گئیں، اور نہایت گرم جوشی سے ہمارا استقبال ہوا ، آپا ، شکریۓ کے طور پر ایک کیک لے گئی تھیں ، انھوں نے بےتکلفی سے آپا کا نام لے کر کہا ، آئندہ آپ یہ تکلف نہیں کریں گی،،،،،! ( وہ آپا سے چھوٹی تھیں )۔ لیکن " چھوٹی بننے کے" چاؤ " یا " کومپلیکس " سے ماوراء ہو چکی تھیں ،، وہ مجھے بھی ، جو چند سال اُن سے چھوٹی تھی ،،، کو بھی " بیٹا بیٹا " کہتی رہیں ۔
بس چند منٹ کے بعد خوب صورت گلاسز میں " کولڈ ڈرنکس" آگئیں ،، اور اگلے دس منٹ میں عزیز ( جوجی کا سٹوڈنٹ ) ، اور کبھی ایک بیٹی ، کبھی دوسری ،،، اور یوں ڈرائنگ روم ،،باتونی چڑیوں کی چہکار سے بھر گیا ۔ وہ اتنے بھرپور طریقے سے اپنی باتیں ہم سے کر رہی تھیں کہ سمجھ نہیں آرہا تھا ، ہم ماں کی سہیلیاں بن گئیں ہیں یا بیٹیوں کی !! ۔
جیسا میں نے شروع میں لکھا ، کرنل صاحب کی اپنی سات بیٹیاں ، نسرین باجی کی اپنی خوبصورت بیٹی، اور ایک کرنل صاحب سے ان کی مشترکہ بیٹی بھی ،، کمرے میں آتی جاتی رہیں ،،، جس وقت ہم ان کے گھر پہنچیں عصر کا وقت تھا ، اسی دوران گپ شپ کا وہ دور چل رہا تھا کہ ایک دفعہ مغرب کی نماز کے لیۓ رخصت ہونا چاہا ،، نسرین باجی نے کہا " یہ چار قدم تک تو جانا ، یہیں پڑھیں ،، کچھ دیر اور رکیں ،، محبت کے اس اصرار میں بڑی تینوں ، چاروں بیٹیاں بھی شامل ہو گئیں ،، مغرب وہیں پڑھی ، اور پھر عشاء کی اذان بھی ہوئی ،، تو جلدی سے اُٹھ کھڑے ہوۓ ۔ لیکن ہمارے سادہ سے ڈرائنگ روم کے مقابلے میں یہ ڈرائنگ روم نسرین باجی کے اعلیٰ ذوق کا غماض تھا ، لیکن انھوں نے جس محبت ، اور عزت کا اظہار کیا ، اس میں انھوں نے کسی بھی قسم کا " شو آف " کا یا تکبر کا یا بڑبولے پن کا لمحہ بھر کے لیۓ بھی شائبہ نہ آنے دیا ،،، بلکہ اُن کی بیٹیوں سے ایسی بے تکلفی ہوئی کہ دل چاہتا روز ملا جاۓ ،،،( اور یہ دوستی آج بھی چل رہی ہے ) سب ہی بیٹیاں ، ایک سے بڑھ کر ایک ذہین ، بلکہ قابل ، اورکسی نا کسی وصف سے آراستہ ،سب سے بڑی بات کہ " نسرین باجی "نے 9 بیٹیوں اور دو بیٹوں کو سگی ماں سے بڑھ کر پیار دیا ، انھیں سنوارا ،، انھیں آرگنائز کیا،،انھیں نماز روزے کا پابند کیا ،،، جب کہ دیکھنے میں یہ ساری فیملی، اتنی ماڈ نظر آتی تھی کہ اجنبی لوگ اُن سے ملنے سے گھبراتے تھے ،،،،،۔
نسرین باجی کے ذوق کی جھلک ہر بیٹی کے اندر واضح نظر آتی ہے ،، ایک " ورسٹائل خاتون "،،،،، حیران کن صلاحیتوں سے مزین ،،، لیکن عاجزی کے وصف سے آراستہ !!!! اب وہ کینیڈا رہائش پزیر ہیں ۔وہ جہاں ہوں ، اللہ انھیں آسانیاں عطا کرے آمین !۔
( منیرہ قریشی ، 15 دسمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں