بدھ، 29 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(54)۔

 یادوں کی تتلیاں "(54)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اب 1993ء کا مارچ تھا ، اورمیری شدید مصروفیت ،،، ایک تو اپنے سکول کے ہر کونے کھدرے کو دیکھنا، ، ، بلکہ تنقیدی نگاہ سے دیکھنا ۔ پھر میں خود پرنسپل ، میں ہی اکاؤٹنٹ ، میں ہی پریپ ، کی اسلامیات اور اردو کی ٹیچر ! !،،، اور جیسا پچھلی قسط میں لکھا تھا کہ مجھے کانونٹ میں بھی مزید 5، 6 ماہ کے لیۓ نہم، دہم کی اردو کی کلاسز بھی لینا پڑ رہی تھیں ،،، اور وقت تیزی سے گزرا اور 6 ماہ کے بعد یہ ذمہ داری بھی ختم ہو گئی۔
لیکن اپنے سکول میں میری پوری توجہ سے بہت جلد مزید داخلے بھی ہوتے چلے گۓ ، ہماری فِیس اور داخلہ فیس بہت نارمل تھی ، اسی میں سے بچت کر کے ہم نے، اس گھر کی عمارت کے ساتھ ساتھ تین کمروں کا اضافہ کر لیا ،، جو بہت فائن تو نہیں تھے لیکن محفوظ تھے ! اور اللہ رحیم و نصیر کی یہ مدد بہت ہی بڑی تھی کہ ہمیں ذیادہ سٹاف اپنے کام سے لگن رکھنے والا اور مخلص ملا،،، حتیٰ کہ سکول کی آیا اور چوکیدار بھی اگر کوئی پرابلم دینے لگیں تو ذہن بھٹک جاتا ہے ۔ لیکن یہ معاملات بھی اچھے سے چلتے رہے۔ کیوں کہ اگر کسی ادارے میں ایک بھی رکن تکلیف دہ نکل آۓ تو ادارے کے چلانے والے ، اپنے فوکس سے ہٹنے لگتے ہیں.،،، ۔
ہمارا یہ سکول ،( دراصل جو اباجی کا گھر تھا )،،، قریباً 3 کنال میں ہے ، اور یہاں کا گھر بالکل درمیان میں بنا ہوا تھا ۔سامنے اور سائڈ کا لان اچھا خاصا بڑا تھا، اس میں تین بیڈ رومز اور ایک ڈرائنگ ، ڈائیننگ تھا ! فرنٹ پر بر آمدہ تھا جس کے پلرز ،،، آرچز کی طرز پر تھے۔یہ بلڈنگ ایسی کوئی  متاثرکُن تو نہ تھی لیکن اُس وقت کے یہاں سے پڑھ کر جانے بچوں کو آج بھی "وہ آرچز والا سکول " بہت یاد آتا ہے۔ ،،، اس میں ڈرائنگ ، ڈائننگ کو نرسری بنایا گیا ، اور اندر کا ایک بڑا کمرہ پلے گروپ اور ایک کمرہ پریپ کے لیۓ تھا جبکہ برآمدہ میں داخلے والی گیلری میں دائیں طرف کا پہلا چھوٹا کمرہ آفس قرار پایا۔اور ہم نے اسی میں 3 سال بعد ایک کمرہ اور مزید 4 سال بعد دو اور کمرے بنا لیۓ ، ،،، ! جیسا کہ پچھلی قسط میں لکھا تھا کہ جوجی نے بطور پہلی پرنسپل ، جب کام سنبھالا تو اس کے ساتھ تین یا چار لڑکیوں کا سٹاف تھا۔ اس پہلے بیج کے ٹوٹل بچوں کی تعداد شاید 20 ،22 ہوگی اور سال بھر بعد اتنے بچوں کے داخلے پر جوجی نے اِنھیں قریب کے بہترین ہوٹل میں ٹریٹ دی ۔جسے وہ ٹیچرز اب بھی یاد کرتی ہیں ۔ ہمارے والد صاحب کا تعلق فوج سے تھا ، انھوں نے ہمیں کہا " بھئ ، فوجیوں کے بچے آئیں تو ذرا لحاظ کرنا ،،، ان کی جیبوں میں کچھ خاص نہیں ہوتا ،،،،، اور یہ خیال اُن جیسے دیانت داروں کا تھا ! ! !مجھے ان شروع کے سالوں میں خود میں خود عتمادی لانے میں اچھی خاصی کوشش کرنا پڑی، کہ بنیادی طور پر میں نئے لوگوں ، نئے ماحول کو دیر سے قبول کرتی تھی ،،، حالانکہ کانونٹ کے ساڑھے 5 سال کی ملازمت نے مجھ میں بہت کچھ اعتماد بڑھا دیا تھا۔ اس دوران میری بہت پرانی اور اچھی سہیلی ، مہ جبین، واہ میں سیٹل ہو گئی، مجھے علم تھا کہ وہ سعودی عرب میں ایک سکول میں کچھ عرصہ پڑھا چکی تھی ، میں نے اسے سکول جوائن کرنے پر زور دیا تو وہ آگئی۔اس کی نالج ، اور اسے اپنےمضمون انگلش میں کمانڈ حاصل تھی۔ وہ اپنے کام کو ڈیڈیکیشن سے کرتی ، ،،، مہ جبین میرے گھر سے کچھ آگے رہتی تھی ، اس لیۓ سکول جانے کے لیۓ جب وہ گھر سے چلتی تو اس دوران میں تیار رہتی ، پھر ہم دونوں گپ شپ کرتی ، سکول پہنچتیں ،، میں اپنے کام سنبھالتی ،وہ اپنے کلاس روم میں چلی جاتی ،،، وہ بہت پُراعتماد شخصیت تھی،، اس کی باتوں ، اور خوداعتمادی نے مجھے بہت متاثر کیا ،، اورغیرمحسوس طور سے میں اُس سے یہ بات سیکھتی رہی،،،، ہمارے سکول کا یہ دور بہت جدو جہد والا تھا ، میں گھر شام 4 یا 5 بجے واپس آتی ، ، واپسی پر مہ جبین جا چکی ہوتی،،، میں دن بھر کا حساب ، کتاب صحیح کرتی ،، سارے سکول کے ڈیڑھ سو بچے ہو چکے تھے ، روازانہ دو یا تین کلاسز کی کوئی سے دو مضامین کی کاپیاں " ری چیک کرتی " ، اور تب تک آیا جی " سفیداں " صفائی کر لیتی ، اس دوران سکول چوکیدار فضل داد باہر بیٹھا رہتا ،،، وہ بہت ہی دبلا پتلا ، لمبا ، دیہاتی سا بندہ تھا ،، جو سکول کے سب سے پہلے چوکیدار کا بھائی تھا ، اُس نے چند ماہ ہی نوکری کی تھی کہ فیکٹری میں نوکری ملی تو وہ فوراً اپنے بھائ کو لے آیا ،،، کہ آپ اسے میری جگہ رکھ لیں ، وہ سگریٹ بےتحاشا پیتا ،، بال بچہ کوئی نہ تھا۔ تھا خوش مزاج ، اور سکول کے والدین اس سے مطمئن تھے ۔سگریٹ کے علاوہ ہمیں اُس سے کوئی شکایت نہ تھی ! سال بھر اسی روٹین میں گزرا ،، اباجی کے سرونٹ کواٹر میں جو فیملی رہ رہی تھی،اس کی سات بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ،، اِن کا باپ فوت ہو چکا تھا، بڑی بچیاں تو چار ، پانچ جماعت پڑھی ہوئی تھیں ، ان کی والدہ ایک آدھ بچی کو ساتھ لے جاتی اور لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ، یہ سب سے چھوٹا بیٹا ، نرسری کے قابل عمر میں تھا، میں نے اُسے ساتھ لے آنا ، اور اپنے سکول میں داخل کرلیا ۔ ایک دن بچہ ہمارے انتظار میں برآمدے میں بیٹھا ہوا تھا، سکول کی چھٹی ہو چکی تھی میں اور مہ جبین آفس میں بیٹھیں ، جلدی جلدی کام سمیٹ رہی تھی، آیاجی پیچھے کمروں میں صفائی کر رہی تھی ، اور فضل داد کسی کام سے بازار گیا ہوا تھا ،،، کہ بچہ آفس میں آیا ، اور اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بتایا ،،، " بہت بڑا سا کیڑا اندر کلاس میں چلا گیا ہے " ،،،، میں فوراًاُٹھی ، کہ اسے جاکر جھاڑو سے مار دوں تاکہ بچہ نہ ڈر جاۓ " بچہ آفس میں ہی رہا ،، نرسری جماعت کا دروازہ ، اسی داخلی برآمدے میں ہی تھا ، ،،، جب میں وہاں گئی تو وہاں گولڈن رنگ کا قریبا" چار فٹ لمبا سانپ ، نرسری روم میں لہرا لہرا کے کبھی اُن کی میزوں اور کبھی کرسیوں پر چڑھ اور اُتر رہا تھا ،،،، سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں مجھے صرف ایک خیال آیا "یا اللہ تیرا شکر ،کہ بچے گھروں کو جا چکے ہیں "۔
مجھے نہیں معلوم ، کیسے ! لیکن میرے دل میں اس کا خوف نہ آیا ، اور آہستگی سے پیچھے ہوتے ہوۓ ، میں نے مہ جبین اور سفیداں کو آواز دی ،، مہ جبین نے آکر جھانکا اور کانوں پر ہاتھ رکھ کے فوراً آفس چلی گئی اور بچے کو ساتھ لے گئی۔ اس نے سفیداں کو آواز دے کر کہا ، کہ ان کی مدد کرو،،، سفیداں نے حواس قائم رکھے، ، اور میں نے بچوں کی ایک کرسی اُٹھالی ، ، اور سانپ پر نظر رکھتے ہوۓ سفیداں سے کہا " سٹور میں گھاس کاٹنے والی تلوار پڑی ہے وہ مجھے پکڑا دو ، میں سانپ کوکرسی کی حرکتوں میں مصروف رکھ کر کھڑکی کی طرف لاؤں گی ، جب وہ کھڑکی کے نیچے بنے سوراخ میں سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو اسکا سر پہلے باہر جاۓ گا،، تم جلدی سے باہر سے کھڑکی کا دوسرا پٹ دبانا ، اور دباۓ رکھنا" ! یہ سب ہدایات سانپ پر نظر رکھتے ہوۓ اور کرسی سے اسے متوجہ رکھتے ہوۓ دیں ! وہ کبھی بلیک بورڈ پر جاتا اور کبھی کمرے کے دوسرے دروازے کی جانب ،، لیکن وہ میری طرف بالکل نہ آیا ، ایک منٹ بعد سفیداں نے تلوار مجھے پکڑائی ، اور خود باہر بر آمدے کی کھڑکی کی طرف چلی گی ،، اب سانپ ، کھڑکی کی طرف آچکا تھا ،، جیسے ہی اس نے کرسی کی موومنٹ سے گھبرا کر کھڑکی کے نیچے بنے سوراخ میں سر دیا ، سفیداں نے دوسرا پٹ بند کر دیا ، اس طرح اسکا سر اس دوسرے 
پٹ کے درمیان پھنس گیا تھا،سانپ نے کمرے میں موجود جسم کو بری طرح بل دینے شروع کیۓ اور میں نے مسلسل اس کے جسم پر تلوار کے وار کیۓ ،،،، کمرے کے فرش پر اُس کا خون پھیل گیا ،، اور وہ چند منٹ بعد مر گیا ،،، جب میں نے اور سفیداں نے یہ " کارنامہ " ختم کیا ،،، تو تب مجھے احساس ہوا ،،، کہ کچھ ہوا ہے کچھ کیا ہے ! سفیداں مجھے شاباش اور میں اس کا شکریہ ادا کرنے لگی ،،، اگلے لمحے میں نے آفس میں جا کر " مشن " پورا ہونے کی اطلاع دی ، عین اُسی وقت فضل داد بھی نمودار ہوا ،، اور وہ ساکت سا ہو کر رہ گیا اور پہلا جملہ اس کے منہ سے نکلا " شکر ہے میں اُس وقت یہاں نہیں تھا " میں اور مہ جبین ہنس پڑیں ،،، کہ ایک ہی اس سکول کا " مرد " ہے اور وہ بھی اتنا ڈرپوک! میں نے سفیداں سے کہا تم ابھی فرش اچھی طرح دھو لو ،،، اور فضل داد سے کہا " اب تم سانپ کو کیاری میں گڑھا کھود کر دفنا دو" ،،، اور خود ہاتھ منہ دھونے چلی گئی ! مہ جبین نے صاف کہا " میں اگر یہاں اکیلی تمہارے پاس ہوتی ، تو تمہیں کوئی مدد نہ دے پاتی ، میں تو سخت گھبرا گئی تھی " ! میں نے گھر آکر سب سے پہلے شکرانے کے نفل پڑھے ، کہ چھٹی ہو چکی تھی اور اللہ نے بچوں کو محفوظ رکھا ! دوسرا خیال جو آتا رہا کہ ایک یتیم بچےکواس سکول سے فائدہ دیا جا رہا تھا ،اُس مالک وحافظ و ناصر نے سب بچوں کو اس بچے کے توسط سے محفوظ رکھا ،،، جو بھی تھا ، میں آج بھی اللہ پاک کی کرم نوازی پر شکرگزار ہوں ۔ اور اُس رب نے ہمیں ہمیشہ اس میدان میں ایسے بچایا کہ بس ،،،،،،،،،،،،،!۔
( منیرہ قریشی ، 29 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں