پیر، 1 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(70)۔

 یادوں کی تتلیاں "( 70)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اور اسی طرح ، ہمارے سکول کو شروع ہوۓ شاید تین سال ہوۓ تھے کہ ایک دن صبح پلے گروپ کا کمرہ کھولا گیا، تو آیا سفیداں بھاگی آئی ،،، جی کمرے سے چیزیں چوری ہو گئی ہیں ،، میں بھی جلدی سے گئی ،تو دیکھا کمرے کی کھڑکی کا پردہ اتار کر ٹی وی اسی میں باندھ کر اور قریبا" تمام کلر پینسلز ، اور پینٹ باکسز بھی غائب کیۓ گۓ تھے ، میں نے سکول کے قریبی پولیس سٹیشن پر فون کر دیا ،،،، تاکہ شاید کچھ بہتر نتیجہ نکل آۓ ، اپنا مکمل پتہ اور فون نمبر لکھوا دیا ،،، بہ مشکل 10 منٹ گزرے ہوں گے کہ تھا نیدار صاحب خود آفس آگئے۔ اور سلام کے بعد پوچھا " آپ کا ٹی وی کس کمپنی کا ماڈل کا تھا " میں نے جوجی سے پوچھا کیوں کہ اسی نے وہ رشین ٹی وی خریدا تھا ۔ سب چیزوں کی تفصیل انھیں بتا دی، تھانیدار صاحب کہنے لگے ،،، جی ، صبح سویرے ، تھانے کی ساتھ والی مسجد کے نمازیوں میں سے دو نمازیوں نے آکر بتایا ،، کہ مسجد کے باہر ، کپڑے میں لپٹا ایک بنڈل پڑا ہے ، ہم نے چیک کیا تو اسی ماڈل اور میک کا ٹی وی ہمارے تھانے میں ہے جو آپ نے بتایا ہے !میں کچھ دیر تک آپ کو آپ کا ٹی وی بھیج دیتا ہوں"" ، چوری کی چیز کا واپس مل جانا ہی حیران کن بات تھی ، اور اس سے ذیادہ پولیس کا اتنا تعا ون ،،،، ہم حیران ہو گئیں ،،،،،!!!۔
کچھ عرصہ اور گزرا ، سکول کی ایک ہی برانچ تھی، میں ہی انچارج تھی ، ہفتہ ، اتوار سکول کی چُھٹی ہوتی تھی۔ اُس دن ہفتہ تھا ، میری ایک سہیلی کا بیٹا مجھ سے ملنے اس خیال سے آیا کہ آفس تو کھلا ہوتا ہے ،، لیکن وہ ،جب داخلی دروازےسے داخل ہوا ، تو خاموشی پر حیران ہوا ، مزید حیرت اسے یہ ہوئی کہ آفس سے دھواں نکل رہا تھا ، وہ اُلٹے پاؤں میرے گھر کی طرف آیا جو وہاں سے 15 منٹ کی واک پر تھا ، اور آکر اس تشویشناک صورتِ حال کا بتایا ،،، میں اور اباجی فوراً کار میں جا پہنچے ،، داخلی کاریڈور کا دروازہ کھلا ہوا تھا میرے آفس کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا،اس زمانے میں آفس کے فرش پر "وینائیل فلورننگ" بچھی ہوئی تھی، وہ دروازے سے لے کر میرے آفس ٹیبل تک جلا ہوا تھا ، ٹیبل کی ایک ٹانگ بھی جل چکی تھی اوراسی کے ساتھ دیوار تک سیاہ ہو چکی تھی ،اس پر لٹکا نوٹس بورڈ بھی معہ تصویروں کے جل چکا تھا ، درازوں میں پڑی فالتو پینسلوں کے بنڈل نہیں تھے ،، اس میں سے بھی کچھ کاغذات نکال کر آگ میں پھینکے گۓ تھے ،،، کیش ہم سکول میں رکھتی نہیں تھیں ، اور بہت ٹیکٹ سے سکول کے سٹور میں سے فرش کی دری کو لا کر آفس کی بڑی سی کھڑکی پر ڈالا گیا تھا ، تاکہ باہر سے کسی سرگرمی کا شبہ نہ ہو !۔
ایک مرتبہ پھر تھانیدار صاحب کو کال کی گئی ، پہلے تھانیدار کی ٹرانسفر ہو چکی تھی ، یہ دوسرے صاحب بھی اچھے طریقے سے ملے،،، پوچھا ،، کسی پر شک ؟ ہم نے کہہ دیا ایسا کچھ بھی نہیں ! انھوں نے اردگرد کا معائنہ کیا ، کہنے لگے ، آفس کے باہر کے لان میں بائیک کے ٹائروں کے نشان ہیں ، آفس کے صوفے پر مردانہ جوتوں کے نشان ہیں ،،، لیکن کوئی چیز چوری نہیں ہوئ ، یہ نقصان محض آپ سے جیلسی ظاہر کر رہا ہے ۔ شکر کریں آگ پھیلی نہیں ،،،، بس یہ پرفیشنل جیلیسی لگتی ہے ! آپ رپورٹ درج کرانا چاہتی ہیں ، تو ہم کر لیتے ہیں ، ہم نے اُن کا شکریہ ادا کیا ،، اور اُس مہربان ، حافظ و ناصر ہستی کے آگے سجدہ ریز ہو گئےجس نے ہر چیز کی حفاظت کی اور کسی بڑے نقصان سے ہمیں بچا لیا ،،، اور ہم حیران ہو گئیں ، کہ ہم تو اپنی دنیا میں مگن ہیں ،لیکن ہم سے فی سبیل اللہ کوئی جیلس ہو رہا تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے !!!!۔
کچھ اور وقت گزرا ،، میں اپنے ہی سکول کی اوپر کی منزل پر آکر رہنے لگی ، اس دوران ہماری ایک سینئر ٹیچر کی شادی اچانک طے پا گئی ، کسی شادی ہال میں بکنگ نہ مل سکی ، میں نے اسے اسی سکول کے لان کو بطور مارکی استعمال کرنے کی تجویز دی ، اس نے شکر کیا ،،، کیٹرنگ کا انتظام اس کے گھر والوں نے کیا ، اور بہ عزت طریقے سے شادی ہو گئی ، ہم نے انہی دنوں سکول کے کاموں کے لیۓ چھوٹی وین خریدی تھی ، جو ایک پورچ میں کھڑی تھی ،، کیٹرنگ والے لڑکوں میں سے دو بہت ینگ بیرے بار بار وین کے پاس آتے ، میں نے بھی انھیں ایک آدھ دفعہ دیکھا تھا ! شادی کا ہنگامہ ختم ہوا میں اوپر کی منزل میں گھر آ گئی ، آدھی رات کو میری چھوٹی بہو کو گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی ، تو اس نے میرے بیٹے ہاشم کو جگا کر کہا ، کہیں آنٹی کی طبیعت تو خراب نہیں ہو گئی ،، اس نے پہلے میرے کمرے میں جھانکا ، پھر نیچے جا کر اپنی اور بھائی کی گاڑی دیکھی ، اب وین نظر نہ آئی تب مجھے جگایا کہ وین کہاں کھڑی کی تھی ، مجھے یاد نہ تھا ،، تب اس نے بڑے بھائی کو جگایا ،، یہ دونوں فوراًنیچے اترے ایک کار سٹارٹ کی اور واہ کے قریبی بیریئر کی طرف چل پڑے ، بڑے کامل علی نے جلدی جلدی تینوں بیرئرز پر فون کیا ، اور ساتھ ہی موٹر وے پولیس کو فون کر دیا کہ اس رنگ ، کمپنی ، اور اس نمبر کی وین گزرے تو روک لیں ، اور خود بھی موٹر وے کی طرف ہو لیۓ ، اتنے میں اس وین کے سکول ڈرائیور کو بھی بلا لیا گیا ، اور اس کا ٹریکر نمبر لے کر ، موٹروے کی پولیس کےکمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کو دیا گیا ،، آدھ گھنٹے میں انھوں نے اس کا ٹریکر ، بلاک کر دیا ، اور اب یہ خود دونوں بھائی اور موٹر وے پولیس اس طرف روانہ ہوگئی،وین ابھی نزدیکی گاؤں کی طرف پہنچنے والی تھی جو ہمارے گھر سے 35 میل دور تھا،گویا وہ خوب تیز رفتاری سے گئے تھے ، اس گاؤں کی سڑک پر گاڑی کھڑی تھی، اور چور بھاگ چکے تھے،،،،،،،،،،!۔
علی نے وین ڈرائیو کی ، اور ہاشم کار میں پولیس کے شکریۓ کے ساتھ واپس آگۓ ،،، رات کو ہی جلدی جلدی مقامی پولیس کے ایس ایچ او ، ،، کو بھی اطلاع کر دی گئ تھی ،،، گویا ابھی مقامی پولیس کا کام شروع بھی نہ ہوا تھا ، کہ کام ختم بھی ہو گیا ،یہ سارا ہنگامہ رات 4 بجے شروع ہوا ، اور صبح ساڑھے سات وین واپس پورچ میں کھڑی تھی ،،،،، پولیس والے بھی حیران تھے کہ ایسا " وقوعہ " بھی کم ہی نظر آتا ہے ، ہم نے انھیں مٹھائی کا ڈبا دیا ( جو انہی کی فرمائش پر تھا  ،،،،،، صبح سکول سٹاف میں ایک ہنگامہ برپا تھا ، کہ مبارک دیں یا افسوس کریں ،،،،،،،، لیکن ہم دونوں کے ساتھ ساتھ اس دفعہ بہت سے لوگ حیران تھے ! ! الحمدُ للہ کہ اللہ حامی و ناصر نے ہمیشہ اپنی حفاظت کے ساۓ تلے رکھا ، الحمدُ للہ !!!۔
( منیرہ قریشی ، یکم جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں