بدھ، 8 نومبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں (40)

یادوں کی تتلیاں" (40)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یادوں کی تتلیاں جب اپنے خوب صورت " پروں " کو کھول اور بند کرتی ہوئی،  ماضی کے تصویری باغ میں اُتریں تو مجھے ذاتی طور پر ان تصاویر کو ڈھونڈنا پڑا ،، اور جب ملیں تو تا دیر انھیں دیکھتی رہی اور  ماضی میں پہنچ گئی ،، کب کیسی جگہ تھی ، کیسا ماحول تھا ، کون کون یہ لوگ تھے جن کو اللہ نے ہمارے ساتھ ملایا ، کچھ وقت گزارا ، اور وقت کی ٹک ٹک آگے بڑھ کر، ایک نیا ماحول اور نئے لوگوں کے درمیان لا کھڑا کرتی چلی گئی ، اب ان سے ملو ،،، اب ان کے ساتھ وقت بِتاؤ ، اور پھر آگے مزید پھر آگے اور خالق و مالک کے حکم سے جب آخری منزل پر پہنچیں تو مطمئن روح اور پُرسکون چہرے کے ساتھ اُس  نئے اور آخری گھر کو اپناتے ہیں ، اور یہی فوز العظیم ہے !!۔
جب کسی گھر میں بچیاں جوان ہو جاتی ہیں تو زمانے کے دستور کے مطابق ان کے نئے مقدر کے فیصلے کا وقت بھی آتا ہے ،، ، جیسا میں نے کئی مرتبہ ذکر کیا کہ ہماری اماں جی کی زندگی کے کُل 53 سالوں میں سے 35 سال بیماریوں کو سہتے گزرے، وہ اپنی اولاد اور اپنے شوہر سے محبت نہیں،بلکہ عشق کرتی تھیں ،،، شاید کبھی کبھی یہ عشق مبالغے کی حد تک محتاط اور خودغرض بنا دیتا ہے ،،،لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایسے میں ماں باپ کی نیت ہرگز غلط نہیں ہوتی،صرف اولاد کی "پروٹیکشن" کا احساس ان سے کچھ فیصلے " عجیب "بھی کروا دیتا ہے ، میری زندگی کے اس نئے فیصلے کا ووٹ اباجی کے چچاذاد کے حصے میں آیا ، اور اس میں اماں جی کی پسند سے ذیادہ اُن کا یہ خیال کہ اپنوں میں ہی ٹھیک رہتا ہے ، اور بچیوں کو نزدیک ہی رہنا چاہیے ،،، یہ سوچ اتنی حاوی تھی کہ ماحول کے فرق کو نظرانداز کر دیا گیا ، اور شروع دور کے بعد سے معمولی باتوں میں بھی اختلافی سوچ کم نہ ہو سکی اور اس دوران اللہ نے پہلی اولاد کی صورت میں ہمیں دو بیٹے عطا کیۓ ۔ ان کی پیدائش سے بہت پہلے، پہلا خواب کالج کے دوران دیکھا اور ہوبہو وہی خواب ایک ایک جزیات کے ساتھ 3 سال کے وقفے کے بعد دوبارہ دیکھا،،، اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی،،، یہ میرے ذہن میں تھا کہ جب کبھی اللہ نے بیٹا دیا تو اس کا پوارنام عمر علی رکھوں گی ، کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی محبت اور عقیدت اتنی ہی تھی ، اور جب ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ جڑواں بچے ہیں اور دونوں لڑکے تھے تو یہ ہی نام تقسیم کر لیا ایک کا عمر اوردوسرے کا علی رکھا گیا ۔ دونوں کی صحت شروع سال تک خاصی کمزور رہی ، آہستہ آہستہ دو ایک جیسی شکلوں والے کھلونے ادھر اُدھر پھرتے اور اپنی پیاری ، منفرد حرکتوں سے متوجہ کرتے تو ہر کوئی ان پر فدا ہوتا ۔ جب یہ خوب باتوں کے دور میں آۓ توایک دو ان کی حرکتیں بہت فرق تھیں ،،، ایک یہ کہ خوش مزاج اور بہت ذہین تھے ، تین سال کی عمر میں ہی پہلے دو کلمے یاد کیۓ اور سورہ اخلاص بھی یاد کر لی ،،، آپس میں ہی دونوں کھیلتے ،، شاید ہی کبھی لڑے ہوں ،، اُن دنوں ٹی وی پر گلوکار بہن بھائی نازیہ حسن اورزہیب حسن کے گیتوں کو بہت پسند کیا جاتا تھا ، ،،، میں خود خالص گھریلو خاتون تھی ، گھر کے باقی کام کاج کے لیۓ دو ملازمائیں تھیں لیکن سالن خود بنانا ، گھر میں ہی ایسی چیزیں بناتے رہنا کہ مہمان آئیں یا گھر کے لوگ شام کو کچھ کھانا چاہیں تو سب گھریلو چیزیں بنی ہوں ، بازارسے کم ہی منگانا پڑے ، اس کے علاوہ صرف گھر سجانا ، ایمبرائڈری کرنا ،، اور اپنی پسند کی کتابیں پڑھنے میں وقت گزرتا ۔ لیکن میں دوپہر کو ضرور کچھ دیر کے لیۓ آرام کرتی تھی ، اور بچوں کو کسی کے حوالے کرنے کے بجاۓ اپنے کمرے میں رکھنا اور دروازے کواندرسے کُنڈی لگا دینا، تاکہ یہ باہر نہ نکلیں ، بچوں کے کھلونے اُن کے سامنے رکھ دیتی کہ ان سے کھیلو ، آدھ گھنٹے یا بیس منٹ کے بعد اُٹھ جاتی ، یہ اِن کی عمر کا تیسرا سال تھا ،، جب ایک دن میں ابھی سوئی نہ تھی ، کمرے میں ایک کونے میں دو تین رضائیاں اوپر تلے رکھی ہوئیں تھیں ان کی دلچسپی کھلونوں سے ذیادہ رضائیوں پر چڑھنا ، اترنا ہوا اور پھردونوں ان پر چڑھ کر بیٹھ گۓ اوربہت ردھم کے ساتھ " نازیہ ،زوہیب کا گانا گانے لگے ،،، آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آۓ،، تو بات بن جاۓ ""،،،،، یہ میرے لیۓ نہایت خوش گوار اور حیرانی والا تجربہ تھا کہ درمیان میں میوزک کی آوازیں بھی بالکل صحیح طور سے منہ سے نکالی جاتیں رہیں ، اور دونوں اتنے سُر میں ایک آواز کے ساتھ گاتے رہے کہ لگتا تھا جیسے کوئی میوزک کلاسز اٹینڈ کرتے رہے ہوں !!! اب میں بھی انہی ماؤں کی طرح اپنے بہن بھایئوں کے سامنے ،ہر نزدیکی دوست ، سہیلی کے سامنے یا ذرا با ذوق رشتہ داروں کے سامنے اُن کے اِس ٹیلنٹ کا ذکر کرتی اور اگلا فرمائش کرتا ، شروع میں بچے شرماتے اور بہت اصرار پر گاتے بھی تو کمرے کے دروازے کے پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر دو تین گانے گاتے ، ، سننے والے ان کو بہت سراہتے ، ابھی اِ نھوں نے سکول بھی جانا، شروع نہیں کیا تھا۔ اس دوران ٹی وی پر ایک اور گلو کار ' عالم گیر " کی شہرت ہوئی ،، اور مشہور شاعر" محمود شام " کی خوب صورت نظمیں اُس کی پہچان بن گئیں ، ،، عمر اور علی اس کی یہ نظمیں اتنے ماہرانہ انداز سے گاتے، کہ سننے والے یقین ہی نہ کرتے کہ یہ کسی سے سیکھے بغیر اتنے ردھم سے گا رہے ہیں ۔ خاص طور پر " یہ شام اور تیرا نام ،کتنے ملتے جلتے ہیں " ،،، " دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا ہے ۔ خوشبو کا جھونکا تیرے سنگ کر دیا ہے " ،،، اور مزید بھی ! ،،،، جب کوئی لفظ بیچ میں بھول جاتے تو اتنا ہنستے کہ اُن سے سے گایا نہ جاتا ،، اور " سامعین " بھی ہنسنے لگتے ،،، دونوں کی شکلوں میں 19، 20 کا فرق تھا ،۔ اِن کی پیدائش کے وقت تک اماں جی حیات تھیں ، لیکن اور بھی کمزور ہو چکی تھیں اس دوران جوجی ایم ایس سی بوٹنی کرکے انہی دنوں قائدِاعظم یونیورسٹی کے ہوسٹل سے آگئی تھی ، اور میرے اس مشکل وقت کو نبٹانے کے لیۓ آپا بھی ( جو اُن دنوں سیا لکوٹ میں تھیں ) آ گئیں  ۔ اور ہوا یہ کہ اُن دنوں "ملازم کرائسس " آگیا ، اور مہمان نوازی کا بھی عُروج ہو چلا تھا ، تو کچن سنبھالنے کے لیۓ ہماری "پیاری ، مہربان ، اور محبت کا ڈھیر" خالہ جی کو بلایا گیا ، آپا مجھے تو مدد دیتیں ، ساتھ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتیں ، جوجی ، تو صرف بچوںکو سنبھالنے میں مدد دیتی رہتی ۔ گویا ان دو بچوں نے گھر بھر کو مصروف کر دیا تھا ،،، 
یہ بچے 11 جولائی بہ روز جمعہ شام 5 بجے ایک اور 5 بج کر 20 منٹ پر دوسرا 1975ء کو دنیا میں آۓ۔یہ ڈاکٹر صاحبہ کے ہی مطابق تھا کہ یہ بڑا ہے اور یہ چھوٹا ،، چناچہ اس کے مطابق عمر بڑا اور علی چھوٹا قرار پایا ۔ جولائی میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں اسی لیۓ آپا بچوں سمیت رہ رہی تھیں ،، لیکن سکول کھلنے کا وقت آیا تو آپا نے فیصلہ کیا جب تک کچن کے کام کے لیۓ ملازم نہیں ملتے ،، منیرہ اور بچے میرے ساتھ سیالکوٹ چلیں گے ، اس وقت بچے ڈیڑھ ماہ سے ذیادہ کے ہو چکے تھے ! چناچہ ہمارا پیارا بھائی " ووکس ویگن " میں سیالکوٹ چھوڑ آۓ ، میں وہاں مزید دو ماہ رہی ، آپا نے ایک نوآموز ماں کو بہت اچھا ٹرینڈ کیا ، اور بڑے بھائی جان ہمیں دو ماہ بعد واپس چھوڑنے آۓ تو ملازم کرائسس ختم ہو چکا تھا ، لیکن اماں جی کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ وہ ان چار ماہ کے کمزور ایک بچے کو بھی اُٹھا نہ سکتی تھیں ۔ لیکن ماں ، باپ کی محبت اور بیٹی کے لیۓ فکر کا یہ عالم تھا کہ صبح 7 بجے ہی بچوں کو میرے پاس سے لے جاتے ، کہ انھیں علم تھا کہ میں ساری رات کی جاگی ہوتی تھی ،، یہ دونوں ٹھیک دو ، دو گھنٹے بعد جاگتے اور بیک وقت اتنا رونا دھونا ڈالتے کہ جلدی جلدی ان کے فیڈرز تیا ر کیۓ جاتے اور بیک وقت ہی انھیں پلانے کا کام کیا جاتا ، فیڈر تیاری کے دوران کے چند منٹ کے لیۓ اُن کے منہ میں شہد لگی چوسنیاں دی جاتیں ، اور پھر دودھ پلا کر ، انھیں کچھ دیر کندھے سے لگا کر ہضم کرا کے پھر سلایا جاتا اور ٹھیک دو گھنٹے بعد یہی عمل دہرایا جاتا ،،، یہ ایسا الرٹ رکھنے والے دن رات تھے کہ اکیلی ماں کو ریسٹ اور نیند کی بہت ضرورت ہوتی اسی وجہ سے بچے ، میری نیند کی خاطر ، نانا ، نانی سنبھالتے ، سیالکوٹ سے آۓ دو ماہ چلے تھے کہ ایک دن اسی معمول کے مطابق ، بچے، اباجی اُٹھا کر لے گۓ ۔ اور میں تھک کر گہری نیند سو گئی ، جو خواب دیکھا اس نے مجھے وقت سے پہلے جگا دیا ، ورنہ میں گیارہ ساڑھے گیارہ تک سوتی تھی ، اس دن پریشان ہو کر میں اماں جی کے پاس باہر بر آمدے میں آگئی ، نومبر کے دن تھے اور اماں جی بچوں کے ساتھ دھوپ میں بیٹھتی تھیں ، ساتھ ساتھ ہاتھ میں یا تو کوئی کتاب ہوتی یا کروشیا سے لیس بنا رہی ہوتیں ! میں نے انھیں کہا ، میں نے عجیب سا خواب دیکھا ہے " کہ حضورپاک ﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی جارہی ہے ،،، میرا وجُود بھی وہیں آس پاس موجود ہے آپﷺ کے ساتھ ایک فرشتہ بھی ہے جو میں نہیں دیکھ پاتی ، لیکن اُس کی آواز ایک مقام پر آتی ہے جب ایک کمرے میں خُون بکھرا ہوا ہے اور اس کے درمیان ایک " سر اور چہرہ معہ داڑھی " کے پڑا ہے ، حضور ﷺ متعجب سے ہوتے ہیں تو آواز آتی ہے " یہ امام حسین (ر ض ) " کا سر ہے " ،،، بس میری آنکھ کھل گئی ،،، ( جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ اماں جی کو خواب کی تعبیر کا قدرتی طور پربہت فہم و ادراک حاصل تھا ) ،،میں نے اُن سے اس کا مطلب پوچھا تو وہ اُس وقت کروشیا سے لیس بُن رہی تھیں ا نھوں نے لیس بُننا چھوڑا اور کچھ لمحے خاموش رہیں پھر کہنے لگیں " تمہارے اِن بچوں میں سے ایک شہادت پاۓ گا " ،،،، میں نے نارمل انداز سے یہ سنا ، ا نھوں نے مزید کچھ نہ کہا ، لیکن اُن کے چہرے پر اُداسی چھا گئی۔ میں نے سوچا جب یہ بڑے ہوں گے ، فوج میں جائیں گے، تب کسی محاذ پر یہ واقعہ ہو گا ، تو اللہ کے حکم سے ان میں سے جس کے نصیب میں شہادت ہوئی تو کوئی بات نہیں ۔ جو اللہ کو منظور ہوا ۔ !
( منیرہ قریشی ، 8 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں