اتوار، 19 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (47)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 47)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سامنےکے پڑوسی تو جیسے میرے فیملی ممبر بن گئے یا میں ان کی فیملی کی ممبر بن گئی۔ میں نے دوستی کا یہ سفر خاصا جلدی طے کیا اور آج بھی یہ دوستی ، اس محاورے پر مبنی لگتی ہے " دوستی ایسا ناطہ جو سونے سے بھی مہنگا "،،، مجھے آنٹی کی  شخصیت نے بہت متاثر کیا ، وہ ہر وقت کچھ نا کچھ کرتی نظر آتیں ، وہ دبلی پتلی اور مختصر قد وقامت کی بہادر ، باحوصلہ عورت ہیں ( آج اب وہ 89 سال کی ہو چکی ہیں )، جینی بھی دبلی پتلی مختصر قدو قامت کی وہ لڑکی تھی جو میچورٹی میں اب " عورت" بن چکی تھی ، اس وقت بھی اور آج بھی ہم سبھی سہیلیوں کو اگر ایک اچھا مشورہ لینا ہوتا تو جینی سے رجوع کیا جاتا۔اس کی پُرخلوص کوشش ہوتی کہ اپنے سے جُڑی سہیلیوں کے مسائل کو اگر ختم نہ کر سکوں تو کم ضرور کر دوں ! خاص طور پر جب ہم میں سے کسی دو کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت آجاتی تو جینی اس سلسلے کو کسی نا کسی طریقے سے آگے نہ بڑھنے دیتی۔اور صلح صفائی سے حالات کو خوشگوار بناۓ رکھنے کی کوشش کرتی ، میرا تو ان کے گھر ایسا ہی جانا آنا تھا کہ کبھی اجازت کی ضرورت نہ پڑی ،، اور منہ اُٹھا کے کچھ دیر بیٹھی اور آ گئی۔ جینی ، میرےسکول سے استعفٰی کو کبھی زیرِ بحث نہ لائی ، حالانکہ یہ اس کی خواہش تھی کہ میں جاب جاری رکھوں ! البتہ آنٹی نے بہت نرم اور محبت بھرے لہجے میں مجھے " بک اَپ " کرنا ! نہیں تم میں پوٹینشل ہے ، تم کر سکتی ہو ! تھوڑی ہمت کرو ،،، وغیرہ ۔ اور یوں اسی سکول سے مجھے مزید سہیلیوں کا وہ گروپ ملا جن کی صحبت نے مجھے زندگی کے رنگارنگ پہلو دکھاۓ ،،،، ان میں سب سے پہلے مسز شیلا تاج کا ذکر کروں گی ،، وہ لاہور کے کنیٹ کالج کی پڑھی ،انتہائی با ذوق ، اور خوش مزاج ، خوش لباس خاتون تھیں !! مزید تفصیل سے پہلے باقی لوگوں کا ذکرِخیر کر دوں ،،، اس گروپ کی ایک اور" لڑکی" جو وقت سے پہلے نہ صرف" عورت "بن چکی تھی بلکہ تین بہنوں اور ایک بھائی کی" اماں جان " بھی بن چکی تھی۔ نیلوفر صفدرخان ،،، !اگر میں اس پر لکھنے لگی تو شاید صفحے سیاہ ہوتے چلے جائیں ۔ جب میں نے سکول جائن کیا تو تب معلوم ہوا یہ ہماری کالج کی سینئر طالبہ عصمہ کی چھوٹی بہن ہے ، اوریہ بھی کہ یہ بی اے کے فوراً بعد اس سکول میں آچکی تھی ، اس کی امی اور اباجی کا انتقال ہو چکا تھا۔ اور اتفاق سے اس کی اور اکلوتے بھائی کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی ، نیلو سے بڑی ، اور نیلو سے دو چھوٹی بہنیں شادی شدہ تھیں، حویلی نما بڑے سے گھر کو نیلو اسی طرح چلا رہی تھی جیسے مائیں چلاتی ہیں، بہنیں ، ان کے شوہر، ان کے سسرالی، اپنے رشتہ دار، یا بھائی کے دوست ، اپنی سہیلیاں اور سہیلیوں کے بال بچے ،،،، جو آرہا ہے ، اخلاق ، اور محبت سے دونوں بہن بھائی تواضع کر رہے ہیں۔ یہ ظرف اس جوان لیکن" پکی خاتون " میں دیکھا ، اور ہر دفعہ میرے دل میں اس کی منزلت بڑھی۔ نیلو ، صرف سینئر ٹیچر کے طور پر نہیں، بلکہ اپنی محنت ، قابلیت اور اخلاق سے ، سسٹر مونیکا کا رائٹ ہینڈ بنا دی گئی تھی۔ ویسے تو وہ چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں کی انگریزی ٹیچر اور ان میں سے کسی ایک کلاس کی کلاس ٹیچر بھی تھی،،،، مجھ سے پہلے نیلو اور جینی کے گرد، مسز تاج ، مسز افتخاردلاور، مسزجولیانہ ناز، مسز شازیہ اظہر ، مسز کوکب ناظم ، اور مس راحیلہ موجود تھیں۔اب میں اور مسز نازش ظفر قریباً اکٹھے شامل ہوئیں ،،،، ہم سب کے مزاجوں میں بہت بُعد نہیں تھا ،،، اگر کسی ایک میں تھا بھی تو، اسے پُلائٹ انداز سے رفع کر دیا جاتا ۔ میں حسبِ عادت ہر ایک سے بےتکلف ہونے میں وقت لے رہی تھی، مجھے اس دور میں کسی کابہت ہنسی مذاق کرنا اور جلد بےتکلف ہوناعجیب سا لگتا، کیوں کہ میں زندگی میں پہلی بار " کام ، یا جاب کے ماحول " کو جذب کررہی تھی۔ جینی ،کے بعد مجھے کسی کے ساتھ " ایٹ ایز " محسوس ہوتا تو مسز شیلا تاج اور نیلو سے ہوتا ،، یہ دونوں دوسرے کی طبیعت کے مطابق رویہ اپناتیں ، مسز تاج تو چارجوان ، انتہائی لائق بچوں کی ماں تھیں ، ان کی پانچویں نمبرکی سب سے چھوٹی بیٹی 88ء میں دسویں میں تھی ، اور وہ بھی لائق ترین تھی ، مسز تاج ان تھک خاتون تھیں ، ان کا مستقل پہناوا ساڑھی تھا جسے وہ سلیقے اور باوقار انداز سے پہنتیں۔ جس دن وہ ساڑھی کے ساتھ میچنگ ، پرس ، بُندے اور کلائی کا بریسلیٹ پہن کر آتیں ، ہم سب آٹھ ، نو کا ٹولہ اُن سے ایک مہذب چھیڑ چھاڑ کرتا ، ،، اور وہ بہت شرمیلی، لیکن کھلے دل سے اس چھیڑ کا جواب دیتیں ،، وہ گھر کی نہ صرف کوکنگ خود کرتیں ، بلکہ آۓ دن کبھی جیم ، کبھی،اچار ، کبھی مربہ بنا کر لاتیں ، مجھے میٹھا پسند تھا، وہ ایک دن مجھے خاموشی سے جیم کی بوتل پکڑا کر کہتیں " یہ لو ، بیٹی یہ تمہارا حصہ ہے ، اب ان سب کو باری باری دوں گی " یہ ان کا اتنا پیار بھرا انداز ہوتا ،،، جس میں مامتا کا پہلو ہوتا ، میرے بعد باقی سب کی بھی باری آتی چلی جاتی، ،،،، مجھے اب یاد آتا ہے اور افسوس ہوتا ہے،،، کہ میں نے شاید ہی کبھی کچھ بنا کر انھیں خوش کیا ہو ! بہت ہوا تو میں ایک کتاب کا تحفہ انھیں دیتی ، تو وہ نہال ہوجاتیں ۔۔۔ وہ نویں دسویں ،کے سائنس سیکشن کی اردو ٹیچر تھیں ، انھوں نے اردو ادب اور فارسی بھی پڑھی ہوئی تھی ،،، اسی لیۓ شاعری اور ادبی ذوق ان کی ذات میں وافر تھا۔ خود بھی کبھی کبھی شاعری کرتی تھیں ، لیکن جب میں نئی نئی ان سے واقف ہوئی تو ، فارغ وقت میں ہم آپس میں ، شعراء کی طرزِ شاعری پر گفتگو کرتیں، یا ، جو کتابیں میں نے پڑھی ہوتیں ، اس کا ذکر کرتی ،یا ، وہ جن کتب سے متاثر تھیں ، وہ بتاتیں !!! اور جوں ہی پیریڈ شروع ہوتا میں کلاس لینے کے بعد یا پہلے دوڑی ہوئی ان کے پاس جاتی کہ " اس لفظ کے آسان معنی کیا ہوں گے ؟ یا یہ پیرا گراف دراصل کیا پیغام دے رہا ہے وغیرہ " اور وہ مجھے نہایت مدلل طریقے سے بتاتیں ، میں شکریہ ادا کرتی ، اور اگلے دن پھر ایک آدھ دفعہ مجھے ان کی مدد کی ضرورت پڑ جاتی ، 5، 6 ماہ گزر گئے،،، ایک دن مسز تاج نے مجھے روک لیا اور کہا " منیرہ بیٹی ،،، جتنی کتابیں تم نے پڑھی ہیں میں نے تو اس سے آدھی بھی نہیں پڑھیں، تو تمہیں روزانہ مدد کی ضرورت کیوں پڑ جاتی ہے ،، کہیں تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہیں " مجھے آج بھی ان کے یہ جملے یاد ہیں اور میں حیران سی ہو گئی ،،، اورلمحہ بھر توقف کے بعد میں نے کہا " مسز تاج پڑھنا اور بات ہوتی اور پڑھانا بالکل اور بات ،،، میں تو چاہتی ہوں آپ سے صحیح رہنمائی لوں اور بچوں کو آسانی کی طرف لاؤں "،،،، میرا جواب سنتے ہی انھوں نے مجھے گلے لگا لیا ، کُھلے دل سے کہا " سوری بیٹی ،، میں سمجھی کہ اتنی بکس پڑھنے والی کو میری کیا ضرورت ہو سکتی ہے ، واقعی تم ٹیچر بھی پہلی دفعہ بنی ہو " اتنا میچور اور اعلیٰ ظرف کوئی کوئی ہوتا ہے۔،،،، اس کے بعد ہماری مفاہمت مزید بڑھی کیوں کہ انھیں میرا پوچھنا ، بامقصد لگا،،،،، آج کی ٹیچرز کا یہ مزاج ہو چکا کہ " ہم سا ہو تو سامنے آۓ "کہ ہمیں سب کچھ آتا ہے ،،، ہمیں کسی کی  رہنمائی  کی کوئی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ!!"۔
نیلو، اور جینی مجھے ، سکول اور " نوکری کے آداب " بتاتی رہتیں ،،،، مجھے اپنی شروع دور کی حماقتیں یاد ہیں ، خاص طور پر جب مجھے سکول جوائن کیۓ ابھی چند دن ہوۓ تھے،میں نے ایک کلاس کو پڑھا لیا ، کام ختم اور میں کلاس سے باہر چل پڑی ، ابھی پیریڈ کے خاتمے کی گھنٹی نہیں بجی تھی ،،، وہ کلاس پرنسپل کے آفس کے ساتھ تھی ، اتفاق سے سسٹر مانیکا راؤنڈ لینے بھی اسی وقت نکلیں ، مجھے دیکھ کر پوچھا " خیریت ہے آپ کلاس چھوڑ کر آگئی ہیں ؟ میں نے جواب دیا میں اپنا آج کا سبق ختم کر چکی تھی ، اس لیۓ سٹاف روم کی طرف جا رہی ہوں " سسٹر مونیکا انتہائی  منکسرالمزاج خاتون تھیں ، فوری طور پر وہ مسکرائیں ! اوہ آئی سی " کہہ کر چلی گئیں ،،،، فارغ ہو کر انھوں نے مجھے آفس میں بلایا اور بہت آرام سے بتایا " ایسا کالج میں ہوتا ہے ، سکولوں میں نہیں، ! آپ پیریڈ کی بیل ہونے کے بعد ہی کلاس سے نکل سکتی ہیں " ! میں شکریہ کہہ کر آگئی
،،، لیکن ان کے اس رویۓ کے بعد میں نے اکثر دیکھا ، جو ٹیچر کوئی حماقت کر جاتی تو اسے بالکل الگ بلا کر تنہائی میں جو سمجھانا ہوتا ، سمجھاتیں ! جب میں نے اپناسکول شروع کیا ، تو ان کے کچھ اصول و ضوابط کو میں نے بھی اپنایا اور چلایا کہ کسی کو دوسروں کے سامنے مت نصیحت کریں ، خاص طور پر اپنے سٹاف کو ! چاہے وہ آیا ہے یا ٹیچر ، چوکیدار ہے یا پی ٹی ماسٹر،،، ہر ایک کی عزتِ نفس ہوتی ہے ، اور  ہمیں اس عزت کو مجروح کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔
ایک اور حماقت کا بھی ذکر کروں،کہ "ریسیس"میں سٹاف کو چاۓ ، سکول کی طرف سے ملتی تھی اور ہے۔ بڑی بڑی کیتلیوں میں چاۓ آتی اور ہمارا گروپ جس میں نو، دس ٹیچرز تھیں اور ایک الگ ٹیبل پر بیٹھتیں تھیں ، ایک کیتلی تو اسی ٹیبل کے لیۓ مختص ہوتی، ،،سب کو ایک ایک پیالی مل جاتی ۔ لیکن ایک دن میرے سر میں درد تھا ، میں ریسیس کے بعد کچن کی طرف گئی اور وہاں موجود کک سے کہا " مجھے ایک پیالی چاۓ چاہیے " ،، کک نےمیری طرف حیران ہو کر دیکھا ، اس نے مجھے سٹاف روم میں جانے کا کہا ، خود سسٹر مونیکا کے پاس گیا ، میرا مطالبہ بتایا ۔ سسٹر نے مجھے کچھ کہنے کے بجاۓ چاۓ بنوا کر بھجوا دی! اور نیلو کو کچھ بتایا ہو گا ،،، چھٹی کے بعد نیلو نے اکیلے میں کہا " منیرہ باجی ! یہاں ریسیس میں جو چاۓ  سرو ہو جاتی ہے ! پھر چاۓ کا کام ختم کر دیا جاتا ہے ! اس لیۓ فالتو چاۓ کا یہاں رواج نہیں ،،، مجھے ایک دفعہ پھر اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ لیکن یہ سب ضابطے سیکھتی گئی۔ اور جب اپنے سکول کی شروعات کی، تو احساس ہوا چاۓ کا خرچ بھی کتنا ہوتا ہے ، اور وقت کا زیاں بھی کتنا ہوتا ہے۔
یادوں کی تتلیوں نے فروری 88ء کے باغ کی طرف رُخ کیا ہے جس باغ میں ، مَیں نے " سنہرا دور گزارا " ،،،، اور زندگی کے بہت سے تجربات کا کچھ میٹھا ، کچھ کھٹا لُطف بھی اُٹھایا ! اور ایسی کٹھالیوں سے گزر کر انسان بہت کچھ سیکھتا چلا جاتاہے، اور شاید ٹھاکر بھی بنتا ہے ، شاید !!!۔
( منیرہ قریشی ، 19 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں