بدھ، 22 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(49)۔

یادوں کی تتلیاں "(49)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کانونٹ سکول کے گروپ میں اگلا ممبر جس کا ذکرخیرکر رہی ہوں ، وہ شازیہ اظہرخان ہیں جن کو مسز خان ہی کہا جاتا ہے۔ وہ اس گروپ کی سب سے چُلبلی ، ہر ایک سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہنا ، ہر بندہ کو اس آنکھ سے دیکھنا کہ اس سےمزاح کا کون سا رنگ نکل سکتا ہے،اس میں یہ " سینس آف آبزرویشن " اتنی گہری ہوتی کہ ہم سب بھی قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتیں۔ کہ جس طرف کسی کا ذرا سا بھی دھیان نہیں جا سکتا ہے، اس طرف اس کا دھیان جاتا ، وہ اگلے کی نقل اتارنا، دوسرے کے الفاظ کو پکڑ لینا، کسی بھی موقع محل کو خاطر میں لاۓ بغیر اگر اس کی حسِ مزاح پھڑک اُٹھتی تو پھر ہمارے لیۓ ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ،،،،،اسی لیۓ اگر کبھی ایسے موقع پر اکھٹے ہونا پڑتا جہاں سخت سنجیدگی کی ضرورت ہوتی، تو کم ازکم میں اس سے دور بیٹھتی یا اس کی طرف نہ دیکھتی، تاکہ وہ کوئی ایسا جملہ نہ کہہ دے ،جو اس ماحول کے مدِنظر، میرے لیۓ خود کو سنبھالنا مشکل نہ بنا دے۔ اتنے کٹھن بددل کر دینے والے حالات سے ہم میں سے کچھ، کسی نا کسی طور گزر رہی تھیں ۔لیکن یہاں ہمیں آپس میں ریسیس کے 25 منٹ میں ہی اتنا ہنسی مذاق کا موقع مل جاتا کہ ہم ،،، (کم از کم میں ) سب فریش ہو جاتیں، جب میں نے سکول جوائن کیا تو شازیہ اظہر کو سکول میں آۓ، دو ، ڈھائی سال گزر چکے تھے وہ کلاس تھری کی بہت اچھی ٹیچر تھیں جن سے سسٹر مطمئن تھیں ،،،، اس نے بی اے ، میں اردو ادب پڑھا تھا ، لیکن اردو ادب سے بس واجبی سا واسطہ رہ گیا تھا ،،، اس کے شوہرکوڈیپوٹیشن پر تین سال انگلینڈ رہنے کا موقع ملا ، تو بچوں نے سکولوں کی وجہ سے صرف انگریزی بول چال رکھی، تو ماں باپ نے بھی اسی زبان کو آپس میں بول چال کا ذریعہ بنایا،اس لیۓ جب وہ وطن واپس آۓ تو یہ ہی زبان گھر میں بولنے کا رواج پڑ چکا تھا ، شاید اسی لیۓ اردو ادب سے دوری ہو گئی تھی ۔ حالانکہ خود اظہر صاحب انجینئر ہی نہیں بلکہ صاحب ذوق بندے ہیں ۔اور اچھی اردو کتب "پڑھ" لیتے ہیں ، جب کہ شازیہ اس کتاب کو کمرے میں برداشت کر ہی لیتی ہے ۔ بہرحال میری اس گروپ میں شمولیت کے بعد، شازیہ نے ازخود مجھ سے بےتکلفی میں پہل کی ،،، میں خود، ہنسی مذاق کو پسند کرتی ہوں لیکن کسی دوسرے کی اس عادت کو قبول کرنے میں کچھ وقت لیتی ہوں اور یہی ہوا ،،، کہ مجھے کچھ وقت لگا لیکن اب 88ء سے آج 2017ء تک سکول کا یہ گروپ کسی نا کسی طور ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہے۔ میں نے مارچ 1993ء میں سکول چھوڑا ، اور اپنا سکول شروع کیا لیکن اس تھکا دینے والے دور میں بھی ہم سب ہر چھوٹے، بڑے گھریلو ، دکھ سُکھ میں شریک رہیں ۔،،،،، بہر حال شازیہ کے مزاح کی پُھلجھڑیوں سے ہم خوب مستفیض ہوتیں ، اس دوران ہم سکول میں پیش آنے والے مسائل کو  آپس میں مل جل کر حل کرتیں ،یہ گروپ ٹوٹل خواتین کی دوستیوں پر مشتمل تھا، لیکن کسی نا کسی موقع پر مرد حضرات یا فیملیز بھی اکھٹی ہو جاتیں ۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے بڑے ہوتے گئے،،،۔
،شازیہ اظہر خان  کی پیاری سی دو بیٹیاں اور ان دونوں سے چھوٹا گولو مولو سا بیٹا ہے ، جب بڑی بیٹی کلاس دہم میں تھی تو اللہ نے اسے ایک اور پیاری سی بیٹی سے نواز دیا۔شازیہ نے بچیوں کے نام بہت خوبصورت رکھے ہیں،بڑی شاہ رُخ،دوسری ماہ رُخ اور جبتیسری بچی آئی تو اس کا نام سمن رُخ ،،،سبھی بچے محنتی اور لائق،لیکن دوسری بچی ماہ رُخ سب میں ذیادہ نمایاں تھی۔ کہیں بچپن سے یعنی 8،،9 سال کی عمر میں اسے کبھی کان درد ، کبھی کان بہنے ، کے مسئلے رہتے ، علاج ہوتا ، اینٹی بائیوٹک کھائی جاتیں ، آرام بھی آ جاتا لیکن عارضی،!! دسویں تک بھی بچی اسی بیماری کو لیے بہترین  نمبرز سے پاس ہوئی ! وہ بھی اس جماعت میں تھی جس کی میں اردو ،اور اسلامیات لیتی تھی اور وہ کلاس کی ٹاپر طالبہ تھی ،، اور سیکنڈ ایئر کا امتحان ختم ہوتے ڈاکٹرز نے اسے ہسپتال داخل کرلیا اور میں جب دو مرتبہ اسے سی ایم ایچ دیکھنے گئ تو اس کے لیۓ پُرمزاح کتابیں لے کر گئی تاکہ بچی اپنی تکلیف کو کچھ دیر کے لیےبھول جایا کرے ۔ اس کے والد نے بتایا اس نے آپ کی پچھلی دی کتاب پڑھی اور انجواۓ کی ۔لیکن اس کے کمرے کے باہر ہی شازیہ کچھ دیر میرے گلے لگ کر جس طرح روئی ، ، ، مجھے تو اسکے دکھ کا اندازہ تھا لیکن ایسا نہیں کہ بچی کی بیماری سے متعلق مایوسی ہوتی ۔ لیکن جب علم ہوا کہ ڈاکٹرز نے انگلینڈ لے جانے کا کہا ہے،،، تو ہم سب سہیلیوں نے دعائیں کرنا ، شازیہ کو تسلیاں دینی،،،،، لیکن جب خالق کی طرف سےلکھا جا چکا ہو تو ، جانے والا کیسے روکا جا سکتا، شازیہ اور اظہر بھائی کو لندن گئے بہ مشکل دو ماہ گزرے ، کہ ،مجھے اپنے گروپ کی کوکب ناظم کا فون آیا کہ ماہ رُخ اب تمام تکلیفوں سے آزاد ہو گئی ہے، اس کو واپس لانے میں مزید 24 گھنٹے لگیں گے ،لیکن اسکے بچوں نے گھر کھول لیا ہے ، وہیں پہنچ جائیں۔ ،،،، ،،،،،،،، یہ ساری فیملی جس بہادری اور ہمت سے اتنے بڑے کرب سے گزری،، اس کا اندازہ کوئی کوئی کر سکتا ہے۔۔ شازیہ کافی عرصے کانونٹ سکول سےچُھٹی پر رہی ، لیکن جینی اور سسٹر بہ اصرار اسے واپس ڈیوٹی پر لے آئیں تاکہ گھر میں بچی کی یادوں کے ڈیپریشن سے نکلے ۔ اور وقت سے بڑا مرہم کیا ہوگا لیکن سالوں ، شازیہ کی شگفتگی واپس نہ آ سکی ،، اپنی پیاری بیٹی کے نام اور ذکر پر اسکے آنسو بےاختیار ہو جاتے۔۔۔۔۔ اور زندگی اسی کا نام ہے کبھی غم ، کبھی خوشی!!! اللہ نے بعد میں اسے بڑی بیٹی کی خوشی دکھائی کہ وہ ڈاکٹر بنی اور اپنے پھوپھی ذاد سے بیاہی گئی،اب شازیہ دو بچوں کی نانی ہے ، اور مصروفیت کا یہ حال ہے کہ اسے ہمیں فون کرنے کی فرصت نہیں ! ہم سب گروپ ممبرز، نانیاں دادیاں بن کر اس جوانی کے دور کی مصروفیت سے بھی ذیادہ مصروف ہو گئی ہیں ۔ اللہ ہماری یہ خوب صورت مصروفیتیں قائم رکھے آمین !۔ 
یہاں مسز شیلا تاج کا ذکر دوبارہ کر رہی ہوں کہ ان کے ساتھ تین سال ہی گزرے تھے کہ وہ بہادر خاتون مضمحل سی رہنے لگیں ، ان کا اپنا بیٹا ایک قابل ڈاکٹر تھا ، اس نے ٹسٹ کروانے شروع کیۓ ،، اور پتہ چلا کڈنی ٹھیک کام نہیں کر رہے ،، پہلے خود، واہ سے ڈئیلائسز کے لیۓ جاتیں ، پھر وہیں اسلام آباد کے ہاسپٹل میں داخل کروا دی گئیں ،، پھر بھی جب ہم سب ملنے جاتیں توخوب صورت جملوں سے ہمیں جزیات کے ساتھ بتاتیں،آج بوبی بیٹا مجھے کار میں اسلام آباد کی پہاڑیوں پر سیر کرانے لے گیا تھا ، ایک جگہ کار روک کر وہ جھاڑیوں سے ایک بہت خوبصورت " مکڑا پکڑا،،، جس کے اوپر کے پر سفید اور وہ خود باقی سارا کالا تھا ،، کہنے لگا ! "ممی دیکھیں ، یہ پادری مکڑا ہے جس نے گاؤن پہنا ہوا ہے ۔ وہ مجھے چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینے کی بھی حتی الامکان کاشش کرتا ہے۔" میں نے انھیں غور سے دیکھا وہ ایک مطمئن ، اور پُرسکون ماں لگیں ، جس کے بچوں نے اس کی محبت سےبھرپور خدمت کی تھی ! ان کے تین بچے ڈاکٹر ایک انجینئر تھے اور درمیان والی بیٹی انگلش لیکچرار بنی ، اوریہ سب ان کے سامنے کی کامیابیاں تھیں ،،،، ان کی ایک اور بات یاد آگئی تو لکھ ہی دوں ، ایک دفعہ ہمارا گروپ ، گپ شپ میں مصروف تھا ، بات جنت اور اس کی نعمتوں اور انسان کی اپنی خواہشات کے پورے ہونے پر پہنچی تو کہنے لگیں " بھئ ، تاج صاھب ایک دن کہنے لگے ، میری دعا ہے مجھے جنت میں بھی تم ہی ساتھی کے طور پر ملو ،،، لیکن میں نے فوراًکہا ۔۔۔ لو ! اب جنت میں بھی تم میرا پیچھا نہ چھوڑنا ، وہاں تو کچھ نیا ہونا چاہیے!" ان کے اس برجستہ جواب سے ہم خوب محظوظ ہوئیں ،،، ،،، صرف 4 ساڑھے چار ماہ میں مسز تاج نے اپنی جنت کا راستہ ناپا ،،،،،،،،اس ہمدرد فطرت ، اور پُرخلوص خاتون ،،، جسے میں سہیلی بھی کہہ سکتی لیکن وہ مجھے بہت محبت سے " بیٹی " کہتی تھیں ،،، کو بھلا نہیں سکی ، البتہ میرے لیۓ وہ ایک ایسی محسن تھیں جنھوں نے مجھ نوآموز کو ہمارے مشترکہ مضمون سے جُڑے مسائل سے نکالا اور ٹریننگ کی! جب ان کی یاد آتی ہے! میں ان کے لیےدعاگو ہوتی ہوں ! وہ اپنی ذات میں اتنی مکمل " ٹیچر "تھیں کہ جن کا اُٹھنا ، بیٹھنا ، بات چیت ، سبھی سے ایک استاد کی جھلک آتی تھی ،، ان کی وفات کے بعد میں نے 1992ء کی"میٹرک کی فیئر ویل" پر ان کے اعزازمیں وہ نظم پڑھی ، جو سسٹر کو نیلو  کو ترجمہ کر کے بتائی، تو وہ آبدیدہ ہو گئیں!!!۔
"شفیق کولیگ مسز تاج کے لیے"
وہ آپ کا ادب کا قرینہ 
وہ ہم سُخن و ہم فہم ہونا
وہ ایک ہی میز پر مہماں و میزباں ہونا !
( اور چھیڑ چھاڑ میں )
ہمارا مشرق کو مغرب ، مغرب کو مشرق بتانا،
اور ہاں ،،،،،
وہ محبت( خان) کی باتیں محبت سے کرنا، 
ہمارا قابو سے باہر ہونا ،،،
اور بہانے بہانے ہمیں راہ پہ رکھنا ،
وہ دن اور یہ باتیں 
بھلا کیسے بھول جائیں !!!
کہ یہ تو زندگی کا اِک باب ٹھہریں !
اور یہ آپ کہاں چل دیں ، بہاروں کو چھوڑ کر؟
یہ آپ کہاں گم ہو گئیں بھرا میلہ چھوڑ کر ؟؟
( منیرہ قریشی ، 22 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں