پیر، 27 نومبر، 2017

یاادوں کی تتلیاں (52)۔

یادوں کی تتلیاں "(52)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کانونٹ سکول میں 5 سال مکمل ہوۓ ،،، تو جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا کہ ہم دونوں بہنوں نے اپنا سکول شروع کرنے کا ابتدا ئی کام بھی کرنا شروع کر دیا تھا،،، اس وقت 1990ء کا آخیر تھا، میں کلاس نہم ،دہم کو اردو ، اسلامیات پڑھا بھی رہی تھی ، اور نہم کی کلاس ٹیچر بھی تھی۔ انہی دنوں میں نے سسٹر مونیکا کو بتا دیا ،، یہ میرا آخری سال ہو گا ، موجودہ نہم کو دسویں کروا کر سکول چھوڑنے کا ارادہ ہے، کیوں کہ ہم ایک " ابتدائی کلاسز" کا اپنا تجربہ کرنے جا رہی ہیں ! لیکن میں بچوں کو درمیان میں نہیں چھوڑوں گی۔ سسٹر اس بات پر بہت خوش ہوئیں کہ لوگ چند دن پہلے یا چند ماہ پہلے بتادیتے ہیں ،، تم تو سال سے بھی ذیادہ وقت ہے اور ہمیں بتا رہی ہو ! انھوں نے دعا بھی کی کہ اللہ تمہیں کامیاب کرے ۔ اور انہی دنوں انھوں نے " ویل وِش " کے طور مجھے تین نئے رجسٹر دیۓ کہ یہ تمہارے کام آئیں گے ! یہ میری طرف سے تمہارے سکول کے لیۓ !! یہ میری زندگی کی پہلی ملازمت تھی ، لیکن بہت سے اچھے اُصول میں نے یہاں سے نہ صرف سیکھے بلکہ اَپلاۓ بھی کیۓ۔ ان میں سے جس اہم اُصؤل کو اپنایا،، وہ یہ بھی تھا( اور ہے) کہ جو ذمہ داری اُٹھائی ہے، چاہے کچھ ہو جاۓ اسے ایمانداری سے نبھاؤ، ،،، ہماری بہت سی اہم مجبوریاں آڑے آتی چلی جاتی ہیں لیکن ، وعدہ ، پورا کرنے سے جو اطمینان اور برکت ملتی ہے ،،، اس کا کوئی جواب ہی نہیں !!!۔
وقت چلتا جا رہاتھا کہ ، جینی کو انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں " تھیالوجی " میں ایم اے کے لیۓ سکالر شپ پر داخلہ مل گیا ! اور ہم سب نے اسے محبتوں ،کے ساتھ رخصت کیا ۔ ہمارے گروپ سے مسز تاج کے جانے کے بعد ،، جینی کے غیر ملک جانے ، اور پھر نیلو کی شادی نے ہمارے ریسیس میں لگنے والے قہقہوں کی آواز کو کچھ مدھم کر دیا تھا ۔ لیکن مسز خان ہوں ، اور ان کے شرارتی کمنٹس نہ ہوں ، یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ ان کے ساتھ جولیانہ اور نازش بھی کم نہ تھیں ، ہم باقی خواتین، اِنھیں انجواۓ کرتیں ! ،،، دوسری طرف اپنا سکول جس کا نام " مارگلہ گرامر سکول " تجویز ہوا ،،، اسے جوجی اور بڑے بھائی جان نے چلانا شروع کر دیا انکی کوششیں رنگ لانے لگیں ، بورڈ لگ گیا ،، ، جوجی بطورِ پرنسپل ، اور ہماری بھانجی نشمیہ پہلی ٹیچر مقرر ہوئی ،، کلاسز تو تین تھیں ، اس لیۓ دو اور ٹیچرز بھی سیلیکٹ کی گئیں، اِن میں ایک ازکیٰ عثمان تھی دوسری مسز فرزانہ عمران تھی،،، ان سب کی آپس میں"کوآرڈینیشن" اتنی اچھی ہوئی کہ اُس دور میں پڑی دوستی کی بنیاد آج تک چل رہی ہے ، سکول سے متعلق مزید تفصیلات آگے بیان کروں گی ،،،،، پہلے کونونٹ سکول سے رخصت ہونے کا ذکر کر دوں ،،، جیسے جیسے وقت اور آگے بڑھا ،1992ء آچکا تھا میں زور وشور سے اپنی کلاسز کا کورس ختم کروا رہی تھی، جماعت دہم ، جس کی میں کلاس ٹیچر تھی ، اِنھوں نے بطورِرخصت ہونے والی جماعت کے سکول کے لیۓ تحفہ میں" مائک" خریدا ،، کہ یہ ایک روایت تھی۔جانے والی کلاس سکول کی ضرورت کی کوئی چیز تحفہ دیتی تھی۔ اور اس دوران جوجی کو جو پریگرینٹ ہو چکی تھی ،، اور جڑواں بچوں کا علم ہونے پر اس حالت میں بھی سکول آتی رہی ، اس سے جتنا کام نبٹا یا جاسکتاتھا نبٹایا ۔،،، اس دوران سکول میں 70 ،80 بچوں کی تعداد ہو چکی تھی۔، اور ایک اور ٹیچر مسزانجم رضوی بھی اس سکول کو جوائن کر چکی تھی ،،، جوجی اور بھائ جان کا کہنا تھا کہ تم کانونٹ سے ریزائن کرو اور اس اپنے پراجیکٹ کو دیکھو کہ اس وقت سخت ضرورت ہے ،،،، لیکن میں نے صاف کہہ دیا ،چاہے کچھ ہو جاۓ ، میں نے جو وعدہ کیا ہے کہ مارچ کی الوداعی پارٹی دے کے دہم کو رخصت کر کے آ جاؤں گی ۔ 
میری ضد کے پیشِ نظر،بڑے بھائی جان نے کافی کام خود سنبھال لیۓ اور اکاؤنٹ اور پرنسپل کی سیٹ پر انجم رضوی کو بٹھایا ،،، اس دوران ، 16 دسمبر 1992ء کو اللہ پاک کی مدد سے جوجی کے گھر  جڑواں بیٹیاں آئیں ، جن کی آمد نے سب ہی کو مصروف کر دیا ۔دوسری طرف مارچ آگیا اور ہمارا نہم دہم کا سارا کورس مکمل ہو گیا،دہم کے اعزاز میں جو پارٹی ہوئی وہ یادگار رہی،،، اس سے ا گلے دن میرے لیۓ کانونٹ کی ٹیچرز نے پارٹی رکھی تھی اور یہاں بھی روایت تھی کہ جانے والی ٹیچر کو کوئی ٹی سیٹ ، یا جوڑا وغیرہ دیا جاتا تھا، ،،،،،،،،،، میں نے سختی سے کہا ،خبردار جو مجھے یہ چیزیں دیں ،،، دینا ہے تو صرف کتاب دینا ،،،، پوچھا گیا کون سی کتاب ! ! اس زمانے میں ممتاز مفتی صاحب کی " الکھ نگری" آچکی تھی ، اور ذرا ان کے بجٹ سے ذیادہ تھی ،،،، میں نے کہا جتنے پیسے کم پڑ  گئے میں خود شامل کر دوں گی ،،، ( اور میرا خیال ہے میں ہی اب تک کی مہمان ہوں جنھوں نے میزبانوں کی تحفے میں حصہ ڈالا تھا ) اور میں نے 300 روپے شامل کیۓ اور " الکھ نگری " آج بھی میرے بک شیلف پر موجود ہے ! ! ۔ 
جس وقت میں نے اس سکول کو چھوڑا ، ، ، سسٹر مو نیکا کی ٹرانسفر ہو چکی تھی اور ، ان کی جگہ سسٹر مارگریٹ آچکی تھیں ،،، جب بھی کسی ادارے میں نئے بندے کی بطورِ ہیڈ تعیناتی ہوتی ہے ،،، اس میں کچھ معاملات میں تبدیلیاں آتی ہیں،، ہر کسی کا اپنا مزاج بھی ان تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے ! میں خوش قسمت تھی کہ میں نے سسٹر مونیکا کے انڈر کام کیا ، وہ خود بھی اَنتھک خاتون تھیں اور کام کرنے والے کی بھی دلی قدر کرتیں تھیں ،، ساتھ ساتھ گائیڈ کرتیں اور ہمیشہ عزت و احترام کا رویہ اپناتیں ۔ ہم سب انہی کے عادی تھیں ۔ لیکن سسٹر مارگریٹ نے بھی آکر اپنا آپ منوانا شروع کیا ،،، ہمارا آپس میں اچھا ریلیشن قائم ہو گیا لیکن جیسے ہی میں مارچ میں رخصت ہوئی ،،،، انھوں نے مجھے آفس بلایا ، اور مجھے اردو پڑھانے والے ٹیچنگ سٹاف میں سے نہم دہم کے لیۓ تجویز مانگی کہ کس کو دوں ؟ یہ بات بھی میرے لیۓ اعزاز تھی ، ،، خیر میں نے دلی طور پر مشورہ دے دیا ۔ لیکن انھوں نے ایک ریکوئسٹ کی کہ " جب تک "یہ " مزید ٹرینڈ نہیں ہوتیں !!!آپ کو ریسیس کے بعد آپ کے اپنےسکول سے ہماری جیپ لینے آجایا کرے گی ! آپ صرف نہم ، دہم کے پیریڈ لے لیا کریں ،،،،،، یہ بات بھی میرے لیۓ خاصا مشکل تھی کہ صبح سویرے سے دوپہر 12 بجے تک میں ، اپنے اِس مارگلہ سکول میں رہوں ،،، اور 12 سے 2 بجے تک ان کے پاس آکر پڑھاؤں بھی ، کاپیاں بھی چیک کروں ،،،  صرف ان دو پیریڈ لینے کے بدلے انھوں نے فُل سیلری دینے کا کہا !! حالانکہ یہ تھکا دینے کا سلسلہ تھا ۔  میں نے اس ذمہ داری کولینے کی اس شرط پرکہا کہ یہ کام صرف دو ماہ کے لیۓ ہو گا ! وہ بھی مان  گئیں ۔ ،،، لیکن وہ ان  سے شاید مطمئن نہیں ہو پا رہی تھیں ، ،،، چنانچہ یہ سلسلہ 6 ماہ چلا ،لیکن میں اتنا تھک جاتی کہ میرا وزن بھی کم ہوا، اور میں ذرا چڑ چڑی بھی ہو گئی! آخر اپریل تا نومبر یہ سلسلہ چلا ،،، اور میں نے اپنا کورس کافی حد تک ختم کرادیا ! اور ایک دن سرینڈر کر دیا کہ اب نہیں آ سکتی ۔ مارگلہ سکول میری غیرموجودگی کے گھنٹوں میں انجم رضوی سنبھالتی ! وہ بہت مخلص ، دیانت دار اور ایک اچھی ٹیچر تھیں ، اور اس اضافی ڈیوٹی پر اس نے کبھی ناک منہ نہ چڑھایا۔ یہ اس کا بڑا پن تھا ! بڑے بھائی جان مسلسل اس کی مدد کے لیۓ دستیاب ہوتے ۔ ،،، اور یہ ایک ایساتجربہ رہا ،، جو بہت کچھ سکھاتا ہے ، ،،، !۔
(منیرہ قریشی، 27 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں