بدھ، 15 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(44)۔

یادوں کی تتلیاں "(44)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اور وقت نے مرہم رکھا،،،، ٹھیک سات ماہ بعد اللہ نے مجھے پیاری سی بیٹی عطا کی اور اس کی آمد نے، سبھی گھر کے افراد نے نئے مہمان میں دل لگا لیا ، اپنے لیۓ مجھے بیٹی کی بہت خواہش تھی ! کہ بیٹیاں ، ماں کی ذیادہ ہمراز ہوتی ہیں ، اور سب سے ذیادہ یہ کہ ماں کے مرنے پر اس کی پلنگ کی پٹی سے وہی رات بھر لگی روتی ہیں !،،، اور بس !۔
میں نے اس کی آمد کو اللہ کی طرف سے مرہم تو سمجھا ہی تھا ، اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی " عمر نے علی کو خواب میں بتا دیا تھا،علی میں تمہارے لیۓ منی بہن لے کر آیا ہوں" ،،،، کوئی الٹرا ساؤنڈ نہیں ، کوئی توجہ،کوئی سوچ نہیں تھی، حتیٰ کہ کوئی وٹامنز بھی نہیں لیۓ !جب یہ پیدا ہو گئی تو جب اکیلی ہوتی تو کبھی میں اس کی آنکھیں چیک کرتی،کبھی اس کی  سماعت 
 چیک کرتی کہ جس کرب سے گزری ہوں کہیں اس کے اثرات سے اس میں کوئی ابنارملٹی تو نہیں آگئی ،،، اللہ کریم اور رحیم کا کن الفاظ میں شکر ادا کروں کہ وہ نہ صرف نارمل تھی بلکہ باقی دونوں بچوں کی نسبت  صحت مند بھی تھی۔وہ میرے لیۓ نورالعین بن گئی ! ۔
الحمدُللہ ! الحمدُللہ !۔
بچے اپنے اپنے ٹریک پر چلتے گۓ ، ،، جوجی کے گھر بھی اللہ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی دیۓ ! خاص طور پر اس کی بیٹی مائرہ اور میری بیٹی ساتھ ساتھ دنیا میں آئیں ،،، اور اس طرح دونوں نہ صرف کزنز تھیں بلکہ سہیلیوں کی کمی بھی پوری ہو گئی ۔ اور سات آٹھ سال کے بعد جب جوجی کے گھر بھی  جڑواں بیٹیاں آئیں تو میرے اور اس کے بچوں میں خوشیوں کی لہریں پھیل گئیں۔
ایمن ، ثمن ،،، !ا پنے گھر میں تو ان کی اہمیت ہونا ہی تھی لیکن میرے اور آپا کے گھر ان دونوں کا انتظار ہوتا ! اور ہماری شامیں ان کے بہت ہی پیارے بچپن کے ساتھ گزرنے لگیں ،،، اُدھر آپا کے دونوں بیٹیوں اور بیٹوں کی شادیاں بھی بخیر و خوبی ہو گئیں ! ہمارے اباجی وہ خوش قسمت ،باپ بنے جنھوں نے بتدریج اپنے پوتے پوتی انجواۓ کیۓ ! بلکہ آپا کے چاروں بچوں کی شادیاں دیکھیں اور پھر ان کے بچے بھی دیکھے ! وہ پڑنانا بنے اور دیر تک صحت تندرستی کے ساتھ وقت گزارتے رہے ، اباجی نے کبھی اصراف سے کام نہیں لیا ، وہ زندگی میں اتنے ہی اخراجات کے قائل رہے کہ " قرض " کی نوبت نہ آنے پاۓ ۔ وہ ہمیں بھی یہی کہتے رہتے ! اپنے آپ کو آمدن کے اندر رکھو ۔ انھوں نے اپنی زرعی مربعے اور پنڈی والا گھر بیچ کر یہیں واہ میں دو گھر بنا لیۓ جس میں سے ایک میں خود رہتے اور دوسرا کراۓ پر دیا ، ا اور ایک باعزت ریٹائرڈ زندگی گزارنے لگے ، اسی دوران ،،، واہ کے اس ذاتی گھر میں جہاں اباجی اور اماں جی کے چند سال اکھٹے گزرے ۔ وہاں بھی اماں جی نے اپنے ہاتھوں اپنے پسندیدہ پودے لگاۓ،( جن میں سے چند ایک ابھی بھی موجود ہیں 42 سال بعد بھی )، ا ماں جی کے بعد میَں اباجی کے پاس ہی رہی ،،،، اس گھر میں چند سال ہی گزرے تھے کہ اماں جی فوت ہو گئیں ،، ! تب اباجی کی صبح تو اپنے بہنوئی (اور چچا زاد بھی)اور اپنے داماد کے ساتھ گزرتی ، جو انھیں اپنی کار میں لے کر ایک چکر بازار کا لگاتے ، اور اس کے بعد یہ تینوں حضرات آپس میں کسی کے گھر اترتے ، اپنی چاۓ اور سلاد کا چسکا پورا کرتے اور پھر بڑے بھائی جان انھیں اُن کے گھروں میں ڈراپ کرتے ۔ لیکن سردیوں میں سہ پہر کو اور گرمیوں میں قدرے شام کو ان کی عمر کے چار پانچ ہم مذاق دوست ، لمبی واک کرتے ،،،، اور یہ دلچسپ سین ہوتا ,,,, اس سین کو میرا بیٹا علی ( جس کا نیا نام کامل علی رکھ دیا تھا ) بہت جزیات کے ساتھ ، جب بیان کرتا تو سب کے ساتھ اباجی خود بھی انجواۓ کرتے ۔ دراصل یہ پیارے پیارے بوڑھے جب چلتے ، اپنی اپنی چھڑیوں سمیت تو ، صحیح معنوں میں زندگی کے میدان کے باوقار اور پُراعتماد سپاہی لگتے ،،،، اورجب ان میں سے کسی نے اپنی کوئی بات کہنی ہوتی ، تو سارا گروپ رُک جاتا ، متوجہ ہو کر بات سنتا ،،، اور اگر کسی نے جواب دینا ہوتا تو پھر سبھی رُک جاتے متوجہ ہوتے ، اور چل پڑتے ، کیوں کہ سب " ارکان اُونچا سنتے تھے " ،،،، اگر آپس میں کوئی بحث چھڑ جاتی تو سڑک کے کنارے کسی " بَنی " پر بیٹھ کر کچھ دیر بحث کی جاتی ، سانس درست کی جاتیں اور پھر چل پڑتے ! واپسی پر سب سے پہلے ہمارا گھر آتا اس لیۓ ایک لازمی پڑاؤ یہاں کا ہوتا ،، میں گرمیوں میں ان کے لیۓ لیمو پانی کا شربت تیار رکھتی ، میٹھا بہرحال معمولی ڈالتی کہ ان پانچ ، چھ میں سے 4 کو شوگر تھی ،، لیکن شربت پیتے وقت یہ ہی حضرات میٹھا تیز رکھنے کی فرمائش کرتے۔ سردیوں میں ان کی ٹرے پر برتن تیار ہوتے ، ان سے پوچھ کر کہ قہوہ یا چاۓ ! اس کے مطابق پیش ہوتا ، ان میں ایک دوست اظہار زیدی تھے ،، وہ کپڑے کےکاروباری تھے مسلکا" شیعہ ، اور انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے اہلِ زبان تھے ،،، حیرت انگیز طور پر ان کی شکل اباجی سے اتنی ملتی تھی کہ ، لوگ دونوں کو بھائی سمجھتے تھے ۔ ان کو بھی شوگر تھی ، اُن کی فیملی کا رکھ رکھاؤ ، لین دین اتنا باوقار تھا کہ مل کر دل خوش ہوتا ،، اگر ہم ان سے متاثر تھے تو وہ بھی ہمارے پنجابی اور سُنی ہونے کے باوجود اتنے متاثر تھے کہ انھوں نے اپنے ایک بیٹے کے لیۓ جوجی کے لیۓ رشتہ کی خواہش کی ، ، یہ کتنی سچی ، اور خالص دوستی اور محبت تھی کہ کوئی مسلک ، کوئی زبان حائل نہیں تھی ،،، لیکن اباجی نے ہی انھیں کہا " کیوں اپنے بقایا خاندان کو ناراض کر کے اپنی مشکلات میں اضافہ کرنا چاہتے ہو !! لیکن مجھے ایسی فراخ دلی کم ہی نظر آئی ہے ۔ ،،، انہی دوستوں میں ایک خواجہ انور تھے جو ساری عمر اکاؤنٹ کے محکمے میں رہے اور انہی کے گھر کے فون سے ہم اِس نئے گھر شفٹ ہونے پر فائدہ اُٹھاتے رہے۔ اور ایک "عزت علی شاہ " تھے جن کی کوئی اولاد نہ تھی ، وہ اچھی کلیدی پوسٹ پر رہے ، خاصے خوش حال بھی تھے آخری عمر میں ایک فری زچہ بچہ ہسپتال بنایا ، وہ بہت اونچے لمبے تھے لیکن آخر میں ذرا جھک سے گئے تھے ،، اباجی کے واک کےیہ تینوں ساتھی ، آگے پیچھے ، دنیا کے ہنگاموں کو چھوڑ گئے،،،،۔
تب اباجی کی شام کی سیر بھی ختم ہوگئی کیوں کہ باقی دو ، کبھی کبھی والے تھے ، ،،، اور مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ سارے بوڑھے جنت کی فضاؤں میں اپنے اپنے گھروں سے نکل کر جانے کہاں کہاں کے ستاروں پر واک کرتے ہوں گے ،،، ( آمین)۔ 
( منیرہ قریشی ، 15 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں