جمعہ، 17 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(46)

یادوں کی تتلیاں " ( 46)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی اور اماں جی گھریلو ملازمین کے اعتبار سے اگرہمیشہ نہیں تو اکثر قسمت والے رہے ، اکثر لوگ اس معاملے میں ان پر رشک کرتے ،،، اسی لیۓ اس خود نوشت کی شروع کی اقساط میں تین چار اردلیوں اور دو تین ملازماؤں کا ذکر کیا ہے ، اسی لیۓ کہ ہمیں ذیادہ تر اچھے ، ایمان دار یا خدمت گار لوگ ملتے رہے ، ،،، یہ صرف اللہ پاک کی خصوصی مدد ہی ہوتی ہے ، اور بس ،،، !۔
جب اماں جی اپنے اللہ کے گھر چلی گئیں  تو فالتو کاموں کے لیۓ اور کپڑے دھونے کے لیۓ جس خاتون کو رکھا ہوا تھا،، کچن میں کام کرنے کے لیۓ الگ مددگار کی ضرورت پڑی تو وہ اپنی ، 16، 17 سال بیٹی لے آئی کہ جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی آپ اسے رکھیں ، اس وقت میں ورکنگ عورت نہیں تھی ، اس لیۓ کھانا پکانا ،، یا مہمانوں کو نبٹانے کے کام خود کرتی تھی ۔ لیکن اس لڑکی کے آنے سے سہولت ہوگئی بہ مشکل ڈیڑھ سال گزرا کہ اس کی شادی کر دی گئی اسی کی چھوٹی اور بہنیں بھی تھیں ،،، گھر میں غریبی اور جہالت کے ڈیرے تھے ۔ اسی لیۓ دوسری آگئی ،،،دو سال ہی گزرے کہ اس کی شادی کی صورت میں ، تیسری آگئی! یہ تیسری بچپن سےدمہ کی مریضہ تھی، اس بیماری نے اسے خاصا مزاج دار بنا دیا تھا ، اِس کے وقت تک گھریلو کام کاج کے لیۓ " مین پاور " موجود تھی ،،، میرے ٹونز تین سال تک کے ہوچکے تھے ، اور بہت چُلبلے بھی ، ،، اس لیۓ ان کی ہر وقت نگرانی کرنا پڑتی ! ! بس شہناز کے ذمہ یہ ہی کام دیا گیا کہ تم بچوں کے ساتھ رہنا ، ان کے کھلونے ، باہر لان میں رکھنا ،ان کے ساتھ کھیلنا ! وغیرہ ،،، وہ یہ ڈیوٹی بےدلی سے کرتی رہی ، ہمارے گھر ہمارے والدین نے یہ ضرور سلسلہ رکھا کہ جو خود کھاؤ وہی نوکر کھاۓ گا ،،،، پہناوے کا دعویٰ نہیں ہے ، کہ یہ انھیں ان کی مرضی کا لے کر دے دیا جاتا ،، لیکن شہناز نے جوں ہی دوپہر ہوئی ، غائب ہو جانا ، پریشانی سے میں اس کے گھر پہنچ گئی کہ لڑکی کہاں گئی ، پتہ چلتا ، جی گھر پہنچ گئی ہے ! اس کا گھر ہمارے سے قریب ہی تھا ۔ بہت آہستہ آہستہ اس نے دل لگایا ،،، اور پھر وہ بچوں کے ساتھ شام تک رکنے لگی ! اس وقت وہ قریبا" ، 11،،12 سال کی تھی ! ایک ڈیڑھ سال میں اس کادل ایسا لگا کہ وہ کوئی چھٹی نہ کرتی ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ،،، اس نے اباجی کے مزاج کو ،، ہمارے گھر کے اُصولوں کو سمجھنا شروع کردیا ،،،، اور ایک طرح سے میرے بچوں کو پالنے میں اس کا بہت ہاتھ شامل رہا ۔ حتیٰ کہ جب فروری1988ء میں مجھے یکدم کانونٹ سکول میں جاب ملی ، تو میں تین مہینے بعد ہی  استعفٰی کر کے آگئی ، کیوں کہ میں گھر اور سکول اور اپنے بچوں کو وقت دینے کے سلسلے کو مینیج نہ کر پا رہی تھی ، اس بارے میں اباجی کا مکمل تعاون بھی تھا کہ وہ بچوں کو سکول سے آنے پر کنٹرول میں رکھتے اور ان کے کھانے کا خیال رکھتے ، لیکن مجھے ملازمت کی بالکل عادت نہ تھی ، جس کی وجہ سے میرے کندھوں پر پریشر سا رہنے لگا ۔ میرے ریزائن کرنے پر پرنسپل سسٹر مونیکا ہمارے گھر آئیں اور اباجی سے مل کر کہنے لگیں " اس سے کہیں یہ جاب اس وقت تک جاری رکھیں جب تک ہمیں کوئی اور ٹیچر نہیں ملتی ،،، دراصل مجھے انھوں نے چھوٹتے ہی ، نویں ، دسویں کی جماعتیں پڑھانے دے دیں ، جب کہ میں چھوٹی کلاسسز کا سوچ کر گئی تھی ، وہ مجھے وہی کلاس دینے پر مجبور بھی تھیں جس   کی ٹیچر،کو اچانک غیر ملک جانا پڑگیا تھا ، اباجی نے بتایا ، گھر سے اسے کوئی پریشر نہیں ، اس نے اپنی مرضی سے جوائن کیا تھا اپنی مرضی سے چھوڑا ہے ، لیکن اباجی کی وجہ سے میں نے مزید ، گرمیوں کی چھٹیوں تک ان سے وعدہ کیا ،،، اور اس دوران شہناز نے بھی حامی بھری کہ"باجی اب کھانا پکانا مجھے سکھائیں ! تاکہ اس کی آپکو بےفکری ہو جاۓ" اس کی آفر نے بھی مجھے حوصلہ دیا ،،،، اور پھر " بلی" نے سب داؤ سیکھ لیۓ اور شیر ( یا شیرنی ) درخت کے نیچے بیٹھ گیا !!!  ۔
یہ شہناز میرے ہر دکھ سُکھ کی بھی ساتھی بن گئی ،،، اباجی کو اور ان کے دوستوں ، رشتہ داروںکو کس طرح ڈیل کرنا ہے اس نے سب سب سیکھ لیا ،،،،،،،،،،۔یہاں تک کہ اب اباجی جب بستر پر پڑگئے تو ، وہ نہ صرف گھر سنبھالے رہی ، بلکہ کبھی بچوں میں سے کوئی موجود نہیں تو وہ اور میں ہی مل کر اباجی کو سنبھال لیتیں ! ،،،، الحمدُ للہ ، آج 34 سال سے وہ ہمارے ساتھ ہے ، وہ میرے بچوں کے کھانے کی پسند ، ناپسند اتنی ذیادہ جانتی ہے کہ اب میں ان کی فرمائشوں کو نہیں سمجھ پاتی ! ! اس کی سانس کی بیماری چلتی آ رہی ہے لیکن وہ 20،25 منٹ کی واک کر کے روزانہ پہنچ جاتی ہے ، وہ آج بھی مزاج دار ہے ، اسی بیماری کی وجہ سے اس کی شادی نہیں ہو پائی ۔وہ آج بھی گھر میں قدرِحاکمانہ انداز سے رہتی ہے اور اللہ نے اسے میری آسانیوں کے لیۓ اس گھر کے لوگوں کے لیۓ ، اس کے دل میں محبت ڈال دی ،،، اباجی کی خدمت میں وہ پیش پیش رہی ہے اور ہم سب شہناز کے اِس احسان اور محبت کے ہمیشہ مشکور رہیں گے !!! ۔
اباجی کے گھر کے سامنے ، ایک  عیسائی فیملی آ کر سیٹل ہوئی ،،، انکل کا نام " ایلفرڈ جگ جیون " تھا اور وہ پاکستان کی نئی ائرفورس کے ایسے فوجی تھے جنھوں نے پارٹیشن کے وقت " ڈکوٹا جہاز " پر انڈین علاقوں میں پھنسے ہوۓ  مہاجرین  کو لانے کا خطرناک کام انجام دیا تھا ،، ، اور اس دوران ایک دفعہ ان کے جہاز پر فائرنگ بھی ہوئی جس کے نتیجے میں انکل بھی گولی کی زد میں آگئے اور بازو پر گولی سے زخمی ہوۓ ،،، یہ سب تو بعد میں پتہ چلا ! پہلے تو یہ ہی معلوم ہوا ، انکل ، آنٹی کے علاوہ تین بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا ہے ! ان کاسامان اس گھر میں اترنے لگا تو اباجی نے گھر میں بتایا سامنے والے آگئے ہیں ،،،، اور اماں جی کے چلے جانے کے بعد بھی یہ روایت نبھائی گئی کہ نئے پڑوسی کے گھر فوری طور پر ایک وقت کا کھانا پہنچا دیا جاۓ ،،، میں نے بھی جلدی سے ایک بڑا ڈونگہ سالن ، اور چاول ، اور روٹیاں بھجوا دیں ، انھوں نے اپنے برتنوں میں رکھوا کر ہمارے برتن بھجوا دیئے، لیکن ہمارا آنا جانا ، دو تین مہینے تک نہ ہو سکا ، ان دنوں میں اپنے تینوں بچوں کے ساتھ مصروف رہتی تھی ، اس دوران کچھ ماہ اور گزرے ، آتے جاتے اس گھر میں ایک موٹر بائک پر سوار دبلا پتلا لڑکا نظر آتا رہتا ! پھر محلے میں ایک شادی پر آنٹی ، ساڑھی میں ملبوس نظر آئیں ، سلام ، دعا ہوئی ،،، تو آنٹی نہایت محبت سے مجھے آنے کا کہتی رہیں ،،، نیز بتایا ، میرا بیٹا کچھ بیمار سا ہے ، تم بھی دعا کرنا آج کل اسے علاج کے لئے فلپائن بھیجا ہوا ہے ! یہ سب سن کر دکھ ہوا ،،، لیکن وہ ایک بہادر ماں نظر آئیں ۔ کچھ ماہ اور گزرے لیکن میری بہت بری عادت تھی کہ میں بہت جلدی ملنے ملانے کی جھجھک دور نہ کر پاتی تھی ،،، اسی وجہ سےبالکل سامنے بھی میرا جانا نہ ہو سکا۔اور میں ان دنوں گھر سے دور ہری پور میں تھی ، جب فون پر اباجی نے اطلاع دی ،،، " جگ جیون کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے آج پہلادن ہے ،، میں نے ان کے گھر سالن کا دیگچہ اور روٹیاں بھجوا دی ہیں " ،،، کیوں کہ ان کے کوئی رشتہ دار نزدیک نہیں رہتے " ،! میں نےدل کے کہیں اندر اس دکھ کو پھر چھِلتے ہوۓ محسوس کیا ، جو میں نے وقت کی مرہم سے ڈھانپا ہوا تھا ،،،،،، جب میں کچھ دن بعد واہ  کینٹ آئی تو سہ پہر کا وقت تھا ، میں پہلی مرتبہ اس گھرانے سے ملی ۔ گھر میں سکوت اور اداسی کا ڈیرا تھا ، آنٹی نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ،اور کوئی رونا ، دھونا نہیں ، بس چہرے کی ہر لکیر کے اندر دکھ دھنسا محسوس ہوا ، میں نے صرف اتنا کہا ، آنٹی میرے پاس الفاظ نہیں کہ اس اتنے بڑے دکھ پر کچھ کہوں !!! میں خاموش بیٹھی رہی تو آنٹی نے جواباً کیا کہا ، کچھ یاد نہیں لیکن میں تو اس عمر کی صابر عورت کو دیکھنے لگی ۔ میں نے اتنا ہی پوچھا آپ کی بیٹیاں جا چکی ہیں ؟ تب آنٹی نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو آواز دی ! وہ بھی غم کی تصویر بنی سامنے آئی ، اس حادثے کو قریباً تین ہفتے گزر چکے تھے ، بڑی بیٹی جو شادی شدہ تھی انگلینڈ جا چکی تھی وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ وہیں کی نیشنل تھی اور سکول ٹیچر تھی ، دوسری بھی سکول ٹیچر تھی جو مسقط میں جاب کر رہی تھی ، یہ بیٹا ان دونوں سے چھوٹا تھا اور 24 سال کا تھا کہ برین ٹیومر نے بقایا زندگی واپس لے لی، سب سے چھوٹی جینیفر بھی مری کے ایک اچھے ادارے میں ٹیچر تھی ، لیکن اب اس نے والدین کے شہر کےقریب حسن ابدال کے پریزنٹیشن کانووینٹ سکول میں آنے کا فیصلہ کر لیا تھا ، اسے سب جینی یا جینو کہتے تھی ، میں اس دن ذیادہ دیر بیٹھنے نہیں گئی تھی ، میں ان کے غم کو سمجھتے ہوۓ بھی ، سمجھ نہیں پا رہی تھی ، اور پہلی ملاقات تھی ، چند جملے ہی آپس میں ایکسچینج ہو پاۓ تھے،ہم ذیادہ جذباتی واقع ہوۓ ہیں اس لیۓ ایسے موقع پر ہمارے آنسو پلکوں پر دھرے ہوتے ہیں لیکن یہاں وہ دونوں اپنے " شدید غم " کا ماتم خاموشی کی زبان میں کر رہی تھیں ۔ میں جینی کے کمرے میں آنے ، بیٹھنے کے چند منٹ کے بعد ہی اُٹھنے لگی،،،، لیکن آنٹی نے مجھے مزید بیٹھنے کا کہا ،، کھانا بھیجنے کا شکریہ ادا کیا ،،،، ! جینی نے چند جملے بولے لیکن الفاظ یاد نہیں لیکن اس کا لہجہ یاد ہے ، کرب اور بےزاری ، سے بھرا ہوا،،،،، میں نے پھر اجازت چاہی لیکن اس دفعہ جینی نے روکا،چند منٹ کے لیۓ جینی دوسرے کمرے میں گئی تو آنٹی نے کہا،جینی نے کافی دنوں بعد کسی سے بات چیت کی ہے ،،،، تم پھر آنا ،، جینی آئی تو اجازت لے کر چلی آئی ۔ اور پھر ہماری ملاقاتیں بڑھتی رہیں ،،، ایک سال بعد مسقط والی بہن روبینہ آئی تو اُس سے بھی اتنی ہی بےتکلفی ہو گئی۔ گھر میں اسے بینو کہتے تھے۔ میں نے بھی انھیں بینو اور جینی ہی کہنا شروع کر دیا ۔شاید ہی کوئی دن گزرتا کہ ہماری ملاقات نہ ہوتی ہو ! شاید پہلےدن ہی ہم سب کی کیمسٹری آپس میں مل گئی تھی ، ورنہ اتنی جلدی نہ میں کسی سے بےتکلف ہوتی تھی نہ جینی کسی سے فرینک ہوتی تھی ، جینی مجھ سے کافی چھوٹی تھی لیکن دماغی طور پر وہ مجھ سے آگے تھی ۔ ہماری بےتکلفی کا یہ حال ہو گیا کہ وہ چھٹی کے دن اگر 11 بجے آتی تو دوپہر کا کھانا اور پھر شام کی چاۓ بھی اکٹھے پی جاتی ۔ دنیا جہان کی باتیں ہوتیں ، کبھی میں جاتی تو، تب بھی یہ ہی حال ہوتا ،کہ 4 ،5 گھنٹے سے پہلے محفل برخواست نہ ہوتی ۔ آنٹی ایک مہمان نواز خاتون ہیں ،،،، اس دوران کبھی موسم بہت ہی کچھ کہنے ، سننے والا ہوتا ، تو میں اپنی ایک آدھ نظم سنا دیتی ،،، چوں کہ ان سب کی اردو کمزور تھی اس لیۓ میں اس کی تشریح بھی کر دیتی تو وہ سب انجواۓ کرتیں ! وہ سارا گھرانہ بہت پڑھا لکھا تھا ، آنٹی کنیٹ کالج لاہور کی پڑھی ہوئی تھیں ، اِن سب کی انگلش بہت اعلیٰ تھی ، کچھ ہفتے میں نے بھی جینو سے انگریزی میں مدد لی ،،، انہی دنوں میرا بی اے کا رزلٹ نکلا اور میں ٹھیک ٹھاک پاس ہو گئی ۔ تو جینی نے سسٹر مونیکا سے میرا ذکر کیا کہ اس کی اردو اچھی ہے اسی لیۓ ان کی میٹرک کی ٹیچر کے اچانک جانے سے مجھے بلاوا آگیا ،،، اس وقت جینی نے اصرار کیا کہ ملنے میں کیا حرج ہے ، ملنے پر فوراً سیلیکٹ ہو گئی لیکن میں نے جیسا اوپر ذکر کیا کہ تیسرے مہینے ہی ریزائن کیا کہ میں ایک گھریلو عورت تھی اور گھر اور جاب نبھا نہیں پا رہی تھی ۔ ،،،، ایسا اُس وقت خیال تھا ، اب سوچتی ہوں تو اپنا تجزیہ کیا کہ دراصل میں خود کو اچھی ٹیچر ثابت کرنے کے چکر میں ، بچوں کو پڑھانے ، ان کے لیۓ صبح کےیونیفارم وغیرہ تیار کرنے کے بعد رات کے دس ، گیارہ بج جاتے تب اباجی کے پاس بیٹھ کر علامہ اقبالؒ کی اس نظم کی تیاری کرتی جو پڑھانی ہوتی ،،،، تب معلوم ہوا ،علامہؒ کا ایک ایک مصرعہ ، سمجھنے کے لیۓ ، پوری اسلامی تاریخ ، بلکہ جغرافیہ سمجھنا بھی کتنا ضروری تھا !! رات ہونے اور تھکاوٹ کی بنا پر میری آنکھیں بند ہو ،ہو جاتیں ،،، لیکن اپنی طالبات کو صحیح معلومات دینے کے لیۓ میں اس محنت کو ضروری خیال کرتی تھی ۔ اور اباجی تو جیسے اس ٹیچنگ کے منتظر ہوتے تھے ۔ وہ تو علامہ اقبالؒ کے عاشق تھے ، انھیں تو موقع مل گیا اپنے مرشد کے کلام کے ساتھ وقت گزارنے کا ،،،، لیکن میں نے ہمت ہار دی۔ طالبات کو اچھے انداز سے پڑھاتی تو رہی لیکن پہلا استعفیٰ تین ماہ بعد اور پھر آٹھ ماہ بعد دوسرا استعفیٰ ،،،،  پھر بہلا کر مجھے قائل کر کے واپس لایا گیا اور اس کے بعد میرے ساڑھے پانچ سال ہنستے کھیلتے گزرے کہ اب ان دِنوں کو یاد کرتی ہوں ،تو اس دور کو "گولڈن پیریڈ" کہتی ہوں۔اس دوران اپنے سے چھوٹی جینی نے قدم قدم رہنمائی کی ،،، سسٹر مونیکا کی ہمبل طبیعت نے میرے قدم جما دیۓ ! مجھے شروع میں آٹھویں جماعت کا ایک سیکشن اور نویں دسویں کے آرٹس کے سیکشن دیۓ گے ، اردو ، اسلامیات ہی میرے وہ مضمون تھے جن میں ، مَیں کمانڈ کہہ سکتی تھی !!!! دراصل ہمارا رب ہی بہتر جانتا ہے ،،،کہ کس کے لیۓ کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری ہے۔اس نے میری انگلی پکڑ کر اس ادارے تک پہنچایا اور وہ ٹرینگ دلوائی جس نے آگے چل کر  میرے بہت کام آنا تھا۔ الحمدُ للہ ،،، الحمدُللہ رب العالمین!۔
( منیرہ قریشی ، 17 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں